Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مسند احمد میں ہے کہ خالد بن ابو حبل عدوانی نے ثقیف قبیلے کی مشرق کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لکڑی پر یا کمان پر ٹیک لگائے ہوئے اس پوری سورت کو پڑھتے سنا جبکہ آپ ان لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لیے یہاں آئے تھے حضرت خالد نے اسے یاد کر لیا جب یہ ثقیف کے پاس واپس آئے تو ثقیف نے ان سے پوچھا یہ کیا کہہ رہے ہیں یہ بھی اس وقت مشرک تھے انہوں نے بیان کیا تو جتنے قریش وہاں تھے جلدی سے بول پڑے کہ اگر یہ حق ہوتا تو کیا اب تک ہم نہ مان لیتے ، نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مغرب کی نماز میں سورہ بقرہ یا سورہ نساء پڑھی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے معاذ کیا تو فتنے میں ڈالنے والا ہے؟ کیا تجھے یہ کافی نہ تھا کہ آیت ( وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ Ǻ۝ۙ ) 86- الطارق:1 ) اور ( وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا Ǻ۝۽ ) 91- الشمس:1 ) اور ایسی ہی اور سورتیں پڑھ لیتا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

نام : پہلی ہی آیت کے لفظ الطارق کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : اس کے مضمون کا انداز بیاں مکۂ معظمہ کی ابتدائی سورتوں سے ملتا جلتا ہے ، مگر یہ اس زمانے کی نازل شدہ ہے جب کفار مکہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے ہر طرح کی چالیں چل رہے تھے ۔ موضوع اور مضمون : اس میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ انسان کو مرنے کے بعد خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔ دوسرے یہ کہ قرآن ایک قول فیصل ہے جسے کفار کی کوئی چال اور تدبیر زک نہیں دے سکتی ۔ سب سے پہلے آسمان کے تاروں کو اس بات کی شہادت میں پیش کیا گیا ہے کہ کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ایک ہستی کی نگہبانی کے بغیر اپنی جگہ قائم اور باقی رہ سکتی ہو ۔ پھر انسان کو خود اس کی اپنی ذات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کس طرح نطفے کی ایک بوند سے اس کو وجود میں لایا گیا اور جیتا جاگتا انسان بنا دیا گیا ۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ جو خدا اس طرح اسے وجود میں لایا ہے وہ یقیناً اس کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے ، اور یہ دوبارہ پیدائش اس غرض کے لیے ہوگی کہ انسان کے ان تمام رازوں کی جانچ پڑتال کی جائے جن پر دنیا میں پردہ پڑا رہ گیا تھا ۔ اس وقت اپنے اعمال کے نتائج بھگتنے سے انسان نہ اپنے بل بوتے پر بچ سکے گا اور نہ کوئی اس کی مدد کو آ سکے گا ۔ خاتمۂ کلام پر ارشاد ہوا ہے کہ جس طرح آسمان سے بارش کا برسنا اور زمین سے درختوں اور فصلوں کا اگنا کوئی کھیل نہیں بلکہ ایک سنجیدہ کام ہے ، اسی طرح قرآن میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں وہ بھی کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے بلکہ پختہ اور اٹل باتیں ہیں ۔ کفار اس غلط فہمی میں ہیں کہ ان کی چالیں اس قرآن کی دعوت کو زک دے دیں گی ، مگر انہیں خبر نہیں ہے کہ اللہ بھی ایک تدبیر میں لگا ہوا ہے اور اس کی تدبیر کے آگے کفار کی چالیں سب دھری کی دھری رہ جائیں گی ۔ پھر ایک فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ تسلی اور درپردہ کفار کو یہ دھمکی دے کر بات ختم کر دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذرا صبر سے کام لیں اور کچھ مدت کفار کو اپنی سی کر لینے دیں ، زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ان کی چالیں قرآن کو زک دیتی ہیں یا قرآن اسی جگہ غالب آ کر رہتا ہے جہاں یہ اسے زک دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani