Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تخلیق انسان اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھتا ہے طارق کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہو جاتے ہیں ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بےخبر آ جائے یہاں بھی لفظ طروق ہے ، آپ کی ایک دعا میں بھی طارق کا لفظ آیا ہے ثاقب کہتے ہیں چمکیلے اور روشنی والے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جو اسے آفات سے بچاتا ہے جیسے اور جگہ ہے کہ آیت ( لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ 11۝ ) 13- الرعد:11 ) یعنی آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جو ابتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہو گا جیسے فرمایا آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ 27؀ۧ ) 30- الروم:27 ) یعنی جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تریبہ کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہو جائیں گے بھید آشکار ہو جائیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہو جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہو گی نہ اس کا مددگار کوئی اور کھڑا ہو گا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہو گا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

٤(١) والسمآء و الطارق…:” طرق یطرق “ (ن) کا اصل معنی زور سے مارنا ہے جس سے آواز پیدا ہو۔ ” مطرفۃ “ (ہتھوڑا) اور ” طریق “ (راستہ) اسی سے مشتق ہیں، کیونکہ راستے پر چلنے والوں کے قدم زور سے پڑتے ہیں تو آواز دیتے ہیں۔ ” الطارق “ رات کو آنے والے کو کہتے ہیں، کیونکہ عام طور پر اسے دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔” النجم الثاقب “ میں الف لام جنس کے لئے ہے، اس لئے اگرچہ لفظ واحد ہے مگر اس میں تمام ستارے آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو پیدا کرنے کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ شیطانوں سے آسمان دنیا کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ (دیکھییص افات : ٦، ٧) ” ان “ نی کے معنی میں ہے اور ” لما “ بمعنی ” الا “ ہے۔- (٢) قسم کسی بات کی تاکید کے لئے اٹھائی جاتی ہے اور عموماً اس بات کی شہادت ہوتی ہے جس کے لئے قسم اٹھائی گئی ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور چمک دار ستارے کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ ہر جان کے اوپر ایک حفاظت کرنے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان اور ستاروں کا یہ عظیم الشان سلسلہ جو بغیر کسی سہارے کے قائم ہے اور جس میں کوئی خرابی یا حادثہ پیش نہیں آتا، اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ جس قادر مطلطق نے ان کی حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے وہی ہر جان کی بھی حفاظت کر رہا ہے اور ہر چیز کا اصل حافظ وہی ہے ، اگر وہ ایک ملحقہ کے لئے اپنی توجہ ہٹا لے تو سب کچھ فا ہوجائے۔ جس طرح اس نے شیطانوں سے آسمانوں کی حفاظت ستاروں کے ذریعے سے کی ہے، اسی طرح آفات سے حفاظت کیلئے ہر شخص پر باری بایر آنے والے فرشتے مقرر کئے ہیں (دیکھیے رعد : ١١) اور اس کے اعمال کو لکھ کر محفوظ کرنے کے لئے کراماً کاتبین مقرر کئے ہیں۔ دیکھیے سورة انفطار (١٠ تا ١٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - قسم ہے آسمان کی اور اس چیز کی جو رات کو نمودار ہونے والی ہے اور آپ کو کچھ معلوم ہے وہ رات کو نمودار ہونے والی چیز کیا ہے وہ روشن ستارہ ہے (کوئی ستارہ ہو کقولہ تعالیٰ والنجم اذا ھوی آگے جو اب قسم ہے کہ) کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس پر کوئی اعمال کا یاد رکھنے والا (فرشتہ) مقرر نہ ہو (کقولہ تعالیٰ و ان علیکم لحفظین کراماً کتبین یعلمون ماتفعلون، مطلب یہ کہ ان اعمال پر محاسبہ ہونے والا ہے اور اس قسم کو مقصود سے مناسبت یہ ہے کہ جیسے آسمان پر ستارے ہر وقت محفوظ ہیں مگر ظہور ان کا خاص شب میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اعمال سب نامہ اعمال میں اس وقت بھی محفوظ ہیں مگر ظہور ان کا خاص قیامت میں ہوگا جب یہ بات ہے) تو انسان کو (قیامت کی فکر چاہئے اور اگر اس کے استبعاد کا شبہ ہو تو اس کو) دیکھنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے، وہ ایک اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پشت اور سینہ (یعنی تمام بدن) کے درمیان سے نکلتا ہے (مراد اس پانی سے منی ہے خواہ صرف مرد کی یا مرد و عورت دونوں کی اور عورت کی منی میں گوا ند فاق (اچھلنا) مرد کی منی کی برابر نہیں ہوتا لیکن کچھ اندفاق ضرور ہوتا ہے اور دوسری تقدیر پر یعنی جبکہ مار سے مراد و عورت دونوں کا نطقہ .... ہو تو لفظ ماء کا مفرد لانا اس بناء پر ہے کہ دونوں مادے مخلوط ہو کر مثل شئی واحد کے ہوجاتے ہیں اور پشت اور سینہ چونکہ بدن کے دو طرفین ہیں اس لئے کنایہ جمیع بدن سے ہوسکتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ نطفہ سے انسان بنادینا زیادہ عجیب ہے یہ نسبت دوبارہ بنانے کے اور جب عجیب تر امر اس کی قدرت سے ظاہر ہو رہا ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ) وہ اس کے دوبارہ پیدا کرنے پر ضرور قادر ہے (پس وہ استبعاد قیامت کا شبہ دفع ہوگیا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس روز ہوگا) جس روز سب کی قلعی کھل جاوے گی (یعنی سب مخفی باتیں عقائد باطلہ دنیات فاسدہ ظاہر ہوجاویں گی اور دنیا میں جس طرح موقع پر جرم سے مکر جاتے ہیں اس کو چھپا لیتے ہیں یہ بات وہاں ممکن نہ ہوگی) پھ رسا انسان کہ امکان قیامت کا گوعقلی ہے مگر وقوع نقلی ہے اور دلیل نقلی قرآن ہے اور وہ ہنوز محتاج اثبات ہے تو اس کے متعلق سنو کہ) قسم ہے آسمان کی جس سے پیالے بارش ہوتی ہے اور زمین کی جو (بیج نکلنے کے وقت) پھٹ جاتی ہے (ٓگے جواب قسم ہے) کہ یہ قرآن حق و باطل میں ایک فیصلہ کردینے الا کلام ہے اور وہ کوئی لغو چیز نہیں ہے (اس سے قرآن کا کلام حق منجانب اللہ ہونا ثابت ہوگیا مگر باوجود اثبات حق کے ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ) یہ لوگ (نفی حق کے لئے) طرح طرح کی تدبیریں کر رہغے ہیں اور میں بھی (ان کی ناکامی اور سزا کے لئے) طرح طرح کی تدبیریں کر رہا ہوں (اور ظاہر ہے کہ میری تدبیر غالب آوے گی اور جب میرا تدبیر کرنا سن لیا) تو آپ ان کافروں (کی مخالفت سے گھبرائیے نہیں اور ان پر جلدی عذاب آنے کی خواہش نہ کیجئے بلکہ ان) کو یوں ہی رہنے دیجئے (اور زیادہ دن نہیں بلکہ) ان کو تھوڑے ہی دنوں رہنے دیجئے (پھر میں ان پر عذاب نازل کر دوں گا، خواہ قبل الموت یا بعد الموت، اخیر کی قسم کو اخیر کے مضمون سے یہ مناسبت ہے کہ قرآن آسمان سے آتا ہے اور جس میں قابلیت ہوتی ہے اس کو مالا مال کرتا ہے جیسے بارش آسمان سے آتی ہے اور عمدہ زمین کو فیضیاب کرتی ہے۔- معارف و مسائل - اس سورت میں حق تعالیٰ نے آسمان اور ستاروں کی قسم کھا کر یہ ارشاد فرایا ہے کہ ہر انسان پر ایک محافظ نگراں ہے جو اس کے تمام افعال و اعمال اور حرکات و سکنات کو دیکھتا جانتا ہے اس کا تقاضائے عقلی یہ ہے کہ انسان اپنے انجام پر غور کرے کہ دنیا میں و جو کچھ کر رہا ہے وہ اللہ کے یہاں محفوظ ہے اور یہ محفوظ کھنا حساب کے لئے ہے جو قیامت میں ہوگا، اس لئے کسی وقت آخرت اور قیامت کی فکر سے غافل نہ ہو، اس کے بعد اس شبہ کا جواب ہے جو شیطان لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ مر کرمٹی اور ذرہ ہوجانے کے بعد پھر سب اجزاء کا جمع ہونا اور اس میں زندگی پیدا ہونا ایک موہوم خیال بلکہ عوام کی نظر میں محال و ناممکن ہے۔ جواب میں انسان کی ابتدائی تخلیق پر غور کرنے کی ہدایت ہے کہ وہ کس طرح مختلف ذرات اور مختلف مواد سے ہوتی ہے جیسے ابتدائی تخلیق میں دنیا بھر کے مختلف ذرات کو جمع کر کے ایک زندہ سمیع وبصیر انسان بنادیا، اس کو اس پر بھی قدرت کیوں نہ ہوگی کہ پھر اس کو اسی طرح لوٹاوے، اس کے بعد کچھ حال قیامت کا بیان فرما کر دوسری قسم زمین اور آسمان کی کھا کر غافل انسان کو یہ جتلایا کہ جو کچھ اس کو فکر آخرت کی تلقین کی گئی ہے اس کو مذاق ودل لگی نہ سمجھے یہ ایک حقیقت ہے جو سامنے آکر رہے گی۔ آخر میں کفار کے اس شبہ کا جواب دیا گیا کہ کفر و شرک اور معاصی اگر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں تو پھر دنیا ہی میں ان پر عذاب کیوں نہیں آجاتا، اس پر سورت ختم کی گئی ہے۔- پہلی قسم میں آسمان کے ساتھ طارق کی قسم ہے، طارق کے معنے رات کو آنے والے کے ہیں، ستارے چونکہ دن کو چھپے رہتے ہیں اس لئے ستارہ کو طارق فرمایا اور خود قرآن نے اس کی تفسیر کردی وما ادرٰک ما الطارق، یعنی تمہیں کیا خبر کہ طارق کیا چیز ہے پھر فرمایا النجم الثاقب، یعنی ستارہ روشن، نجم کے معنی ستارہ کے ہیں، قرآن نے کوئی ستارہ متعین نہیں کیا، اس لئے ہر ستارہ اس کا مصداق ہوسکتا ہے، بعض حضرات مفسرین نے نجم سے خاص ستارہ ثریا یا زحل مراد لیا ہے اور کلام عرب سے لفظ نجم کا اسپراطلاق ثابت کیا ہے ثاقب کے معنے روشن چکمدار کے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ۝ ١ ۙ- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- طرق - الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ- [ الطارق 1] ، قال الشاعر : نحن بنات طَارِق وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک :- ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا . ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة .- وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ،- وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی: كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ.- ( ط رق ) الطریق - کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٤) قسم ہے آسمان کی اور طارق کی اور آپ کو کچھ علم ہے کہ طارق کیا چیز ہے، وہ روشن ستارہ ہے یعنی زحل ہے کہ رات کو نکلتا ہے اور دن کو غائب ہوجاتا ہے۔ کوئی شخص ایسا ہیں خواہ نیک ہو یا گنہگار جس پر کوئی اس کے اعمال کا یاد رکھنے والا فرشتہ مقرر نہ ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یہ ’’طارق‘‘ کا ترجمہ ہے، او راسی کے نام پر سورت رکھا گیا ہے۔ اور اگلی دو آیتوں میں اس کا مطلب خود بتادیا گیا ہے کہ اس سے مراد چمکتا ہوا ستارا ہے، کیونکہ وہ رات ہی کہ وقت نظر آتا ہے۔ اُس کی قسم کھاکر فرمایا گیا ہے کہ کوئی اِنسان ایسا نہیں ہے جس پر کوئی نگراں مقرّر نہ ہو، ستارے کی قسم کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ جس طرح ستارے آسمان پر دُنیا کی ہر جگہ نظر آتے ہیں، اور دُنیا کی ہر چیز اُن کے سامنے ہوتی ہے، اسی طرح اﷲ تعالیٰ خود بھی ہر اِنسان کے ہر قول وفعل کی نگرانی فرماتا ہے اور اُس کے فرشتے بھی اس کام پر مقرّر ہیں۔