17۔ 1 یعنی ان کے لئے جلدی عذاب کا سوال نہ کر بلکہ انہیں کچھ مہلت دے دے۔
١٣] یعنی آپ تھوڑی مدت مزید صبر سے کام لیجیے۔ کچھ زیادہ مدت نہ نہ گزرنے پائے گی کہ ان لوگوں کی کرتوتوں کا انجام سب کے سامنے آجائے گا۔
فَمَــہِّلِ الْكٰفِرِيْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَيْدًا ١٧ ۧ- مهل - المَهْل : التُّؤَدَةُ والسُّكونُ ، يقال : مَهَلَ في فعله، وعمل في مُهْلة، ويقال : مَهْلًا . نحو : رفقا، وقد مَهَّلْتُهُ : إذا قُلْتَ له مَهْلًا، وأَمْهَلْتُهُ : رَفَقْتُ به، قال : فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً- [ الطارق 17] والمُهْلُ : دُرْدِيُّ الزَّيْت، قال : كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان 45] .- ( م ھ ل ) المھل - کے معنی حلم و سکون کے ہیں ۔ اور مھل فی فعلہ کے معنی ہیں اس نے سکون سے کام کیا اور مھلا کے معنی رفقا کے ہیں یعنی جلدی مت کرو ۔ مھلۃ کسی کو مھلا کہنا اور امھلتہ کے معنی کسی کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق 17] تو تم کافروں کو مہلت دو پس روزی مہلت دو المھل تلچھت کو بھی کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان 45] جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح ) کھولے گا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ( رویدا)- قيل هو تصغیر ترخیم بحذف الزوائد، وتكبيره إرواد۔ بکسر الهمزة۔ وزنه فعیل بضمّ الفاء وفتح العین .. أو هو تصغیر رود بضمّ الراء زنة عود أي مهل . وجاء في المختار : تقول : رویدک عمرا أي أمهله وهو تصغیر ترخیم من إرواد مصدر أرود يرود۔ بکسر الواو۔.- ورویدا يستعمل مصدرا بدلا من اللفظ بفعله فيقال روید زيد أو رویدا زيدا أي أمهله، ويقع حالا مثل ساروا رویدا أي متمهّلين، كما يقع مفعولا مطلقا نائبا عن المصدر بکونه نعتا له أي ساروا سيرا رویدا .( الجدول في اعراب القرآن)
آیت ١٧ فَمَہِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا ۔ ” تو آپ ان کافروں کو ذرا مہلت دے دیجیے ‘ تھوڑی دیر انہیں (ان کے حال پر) چھوڑ دیجیے “- ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہ ہدایت بہت تکرار کے ساتھ آئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے لیے جلدی نہ کریں ‘ ان کے بارے میں تھوڑی دیر انتظار کریں : فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْط (الاحقاف : ٣٥) ” تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ بھی صبر کیجیے جیسے اولوالعزم رسول (علیہ السلام) صبر کرتے رہے ہیں اور ان کے لیے جلدی نہ کیجیے “ اس دور میں چونکہ مشرکین ِمکہ ّنے اہل ایمان پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا ‘ اس لیے ان آیات کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے اہل ایمان کو بھی بار بار تسلی دی جاتی تھی اور سمجھایا جاتا تھا کہ ابھی ہم ان لوگوں کو کچھ مزیدمہلت دینا چاہتے ہیں۔ چناچہ آپ لوگ ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے ہمارے فیصلے کا انتظار کریں۔
سورة الطَّارِق حاشیہ نمبر :10 یعنی انہیں ذرا مہلت دو کہ جو کچھ یہ کرنا چاہیں کر دیکھیں ۔ زیادہ مدت نہ گزرے گی کی نتیجہ ان کے سامنے خود آ جائے گا اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تدبیر کے مقابلہ میں ان کی چالیں کتنی کار گر ہوئیں ۔
4: یعنی ابھی ان کافروں کو سزا دینے کا وقت نہیں آیا۔ اس لئے ان کو فی الحال اپنی حالت پر چھوڑ دو۔ جب وقت آئے گا تو اﷲ تعالیٰ ان کو خود اپنی پکڑ میں لے لے گا۔