3۔ 1 طارق سے مراد ؟ خود قرآن نے واضح کردیا۔ روشن ستارہ طارق ہے جس کے لغوی معنی کھٹکھٹانے کے ہیں، لیکن طارق رات کو آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ستاروں کو بھی طارق اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ دن کو چھپ جاتے ہیں اور رات کو نمودار ہوتے ہیں۔
[٢] شہاب ثاقت کی حقیقت :۔ اس مقام پر (النجم الثاقب) کا لفظ آیا ہے۔ دوسرے مقام پر ( شہاب ثاقب) اور تیسرے پر ( شہاب مبین) کا اور مراد سب سے ایک ہی ہے۔ شہاب ایسے انگارہ کو کہتے ہیں جس میں چمک اور شعلہ دو چیزیں موجود ہوں خواہ یہ آگ کا انگارہ ہو یا آسمان یا فضا میں پایا جائے اور ثاقب میں تیزی سے آر پار ہوجانے اور آگ کی طرح کی سرخ روشنی کا تصور پایا جاتا ہے۔ جبکہ عام ستاروں کی روشنی چاند کی روشنی کی طرح سفید ہوتی ہے۔ گویا (النجم الثاقب) میں تین چیزیں جمع ہوگئیں۔ ایک وہ تیزی سے فضا میں سفر کر رہا ہو۔ دوسرے اس میں چمک موجود ہو اور تیسرے وہ چمک آگ کی طرح سرخی کا رنگ لیے ہوئے ہو۔ ہم اسے اپنی زبان میں ٹوٹنے والا تارہ کہتے ہیں علاوہ ازیں یہاں واحد کا صیغہ استعمال کرکے اس سے جنس مراد لی گئی ہے۔ اور ایسے ستارے سینکڑوں کی تعداد میں فضا میں ٹوٹتے اور پھر ہماری نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ نہ وہ دوسرے ستاروں سے ٹکرا کر نظام کائنات کو درہم برہم کرتے ہیں اور نہ زمین پر گر کر زمین پر قیامت برپا کیے رکھتے ہیں۔ البتہ مدتوں بعد کوئی ایسا ستارہ زمین پر گر کر زمین میں گہرے کھڈ ڈال بھی دیتا ہے لیکن یہ بھی ایک عذاب الٰہی کی شکل اور خرق عادت امر ہوتا ہے۔ ایسے ٹوٹنے والے ستاروں کے متعلق شرعی نقطہ ئنظر یہ ہے کہ جب کوئی جن یا شیطان اوپر ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کے لیے جاتا ہے تو اس پر ایسا شعلہ دار ستارہ پھینک کر اسے وہاں سے مار بھگایا جاتا ہے۔
النَّجْمُ الثَّاقِبُ ٣ ۙ- نجم - أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه :- نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار - عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1»- وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ.- ( ن ج م ) النجم - اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔- ثقب - الثَّاقِب : المضیء الذي يثقب بنوره وإضاء ته ما يقع عليه . قال اللہ تعالی: فَأَتْبَعَهُ شِهابٌ ثاقِبٌ [ الصافات 10] ، وقال تعالی: وَما أَدْراكَ مَا الطَّارِقُ النَّجْمُ الثَّاقِبُ [ الطارق 2- 3] ، وأصله من الثُّقْبَة، والمَثْقَب : الطریق في الجبل، كأنه قد ثقب، وقال أبو عمرو :- والصحیح : المِثْقَب وقالوا : ثَقَبْتُ النار، أي : ذكيتها .- ( ث ق ب ) الثاقب اتنا روشن کہ جس چیز پر اس کی کرنیں پڑیں اس میں چھید کرتی پار گزر جائیں : قرآن میں ہے تو جلتا ہوا انگارہ ان کے پیچھے لگتا ہے ۔ وَما أَدْراكَ مَا الطَّارِقُ النَّجْمُ الثَّاقِبُ [ الطارق 2- 3] اسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم اور تم کو کیا معلوم کہ رات کے وقت آنے والا کیا ہے ؟ وہ تارا چمکنے والا ۔ الثاقب اصل میں ثقبۃ سے ہے جس کے معنی سواخ کے ہیں ۔ المثقب پہاڑ میں سخت اور دشوار گزار راستہ گویا وہ سوراخ کی مثل ہے ۔ ابو عمر و کا قول ہے کہ صحیح لغت مثقب ( بفتح ) المیم ) ہے محاورہ ہے ثقبت النار میں نے آگ بھڑکائی ۔