4۔ 1 یعنی ہر نفس پر اللہ کی طرف سے فرشتے مقرر ہیں جو اس کے اچھے یا برے سارے اعمال لکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ انسانوں کی حفاطت کرنے والے فرشتے ہیں۔
[٣] ہر جاندار کی حفاظت کرنے والی ہستی :۔ ان تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی قسم اٹھائی گئی ہے جو اہل زمین کو (شہاب ثاقب) جیسی بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس بات پر قسم اٹھائی گئی ہے کہ ہر انسان پر ایک نگہبان مقرر ہے جو اس کی ہر طرح سے حفاظت کرتا ہے۔ یہ نگہبان کون ہے ؟ یہ خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو زمین و آسمان کی ہر چھوٹی بڑی مخلوق کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ جس کے سنبھالنے سے ہر شے اپنی جگہ سنبھلی ہوئی ہے۔ اور جس نے ہر جاندار کو اس کی ضروریات بہم پہنچانے - اور اس کی موت کے مقررہ وقت تک آفات ارضی و سماوی سے بچانے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ یہ حفاظت اکثر اوقات ایسے غیر شعوری طریقوں سے ہوتی ہے کہ انسان کو اس کا علم تک نہیں ہوتا اور جب کبھی علم ہوجاتا ہے تو انسان کی زبان سے بےساختہ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں کہ اس موقعہ پر اللہ نے مجھے ہاتھ دے کر بچا لیا ورنہ میرے بچے رہنے کی کوئی توقع نہ تھی اور ایسے واقعات تقریباً ہر انسان کو اپنی زندگی میں پیش آتے ہی رہتے ہیں۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورة رعد میں فرمایا : کہ ہر انسان کے آگے پیچھے ہم نے فرشتے مقرر کردیئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں (١٣: ١١) واضح رہے کہ حفاظت کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف ہو یا اس کے فرشتوں کی طرف اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
ان کل نفس لما علیھا حافظ، یہ جواب قسم ہے، اس میں شروع کا حرف ان نافیہ ہے اور حرف لما بتشدید میم بمعنے الا ہے جو قبیلہ ہذیل کے لغت میں استشناء کے معنے دیتا ہے اور معنے آخرت کے یہ ہیں کہ کوئی نفس ایسا نہیں جس ہر حافظ نہ ہو، حافظ کے معنے نگراں کے بھی آتے ہیں جو کسی کے اعمال کو نظر میں رکھے تاکہ ان کا حساب لے، اور حافظ بمعنے محافظ بھی آتا ہے جس کے معنے مصائب وآفات سے حفاظت کرنے والے کے ہیں، پہلے معنے کے اعتبار سے حافظ سے مراد فرشتہ کا تب اعمال ہے، اور یہاں اگرچہ اس کو بلفظ مفرد بمعنی جنس بیان کیا ہے مگر ان کا متعدد ہونا دوسری آیت سے ثابت ہے ان علیکم لحفظین کراما کتبین - اور دوسرے معنے کے اعتبار سے وہ فرشتے مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی حفاظت کے لئے مقرر کئے ہیں وہ دن رات تمام آفات و مصائب سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں، بجزا اس مصیبت وآفت کے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کردی ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کا صراحة بیان آیا ہے لہ معقبیت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ، یعنی انسان کے لئے نوبت بہ نوبت آنے والے محافظ فرشتے مقرر ہیں جو اس کے آگے اور پیچھے سے اس کی حفاظت بامرالٰہی کرتے ہیں۔- ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر مومن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سو ساٹھ فرشتے اس کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں جو انسان کے ہر ہر عضو کی حفاظت کرتے ہیں ان میں سے سات فرشتے صرف انسان کی آنکھ کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں، یہ فرشتے انسان سے ہر بلاومصیبت جو اس کے لئے مقدر نہیں اس طرح انسان سے دفع کرتے ہیں جیسے شہد کے برتن پر آنے والی مکھیوں کو پنکھے وغیرہ سے دفع کیا جاتا ہے۔ اور اگر انسان پر یہ حفاظتی پہرہ نہ ہو تو شیاطین اس کو اچک لیں (قرطبی)
اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْہَا حَافِظٌ ٤ ۭ- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
آیت ٤ اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْہَا حَافِظٌ ۔ ” کوئی جان ایسی نہیں جس پر کوئی نگہبان نہ ہو۔ “- سورة الانفطار کی ان آیات میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ آیا ہے : وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ - کِرَامًا کَاتِبِیْنَ - یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ۔ ” جبکہ ہم نے تمہارے اوپر محافظ (فرشتے) مقرر کر رکھے ہیں۔ بڑے باعزت لکھنے والے ۔ وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کر رہے ہو “۔ انسان کے محافظ فرشتوں کا ذکر سورة الانعام کی اس آیت میں بھی ہے : وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃًط (آیت ٦١) ” اور وہ اپنے بندوں پر پوری طرح غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا رہتا ہے “۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ متعدد فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ اس کے اعمال کا ریکارڈ مرتب کرنے میں مصروف ہیں جبکہ کچھ کو اس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
سورة الطَّارِق حاشیہ نمبر :1 نگہبان سے مراد خود اللہ تعالی کی ذات ہے جو زمین و آسمان کی ہر چھوٹی بڑی مخلوق کی دیکھ بھال اور حفاظت کر رہی ہے جس کے وجود میں لانے سے ہر شے وجود میں آئی ہے جس کے باقی رکھنے سے ہر شے باقی ہے ، جس کے سنبھالنے سے ہر شے اپنی جگہ سنبھلی ہوئی ہے ، اور جس نے ہر چیز کو اس کی ضروریات بہم پہنچانے اور اسے ایک مدت مقررہ تک آفات سے بچانے کا ذمہ لے رکھا ہے ۔ اس بات پر آسمان کی اور رات کی تاریکی میں نمودار ہونے والے ہر تارے اور سیارے کی قسم کھائی گئی ہے ۔ ( النجم الثاقب کا لفظ اگرچہ لغت کے اعتبار سے واحد ہے ، لیکن مراد اس سے ایک ہی تارا نہیں ہو تا بلکہ تاروں کی جنس ہے ) ۔ یہ قسم اس معنی میں ہے کہ رات کو آسمان میں یہ بے حدو حساب تارے اور سیارے جو چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں ان میں سے ہر ایک کا وجود اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی ہے جس نے اسے بنایا ہے ، روشن کیا ہے ، فضا میں معلق رکھ چھوڑا ہے ، اور اس طرح اس کی حفاظت و نگہبانی کر رہا ہے کہ نہ وہ اپنے مقام سے گرتا ہے ، نہ بے شمار تاروں کی گردش کے دوران میں وہ کسی سے ٹکراتا ہے اور نہ کوئی دوسرا تارا اس سے ٹکراتا ہے ۔