5۔ 1 یعنی منی سے جو قضائے شہوت کے بعد زور سے نکلتی ہے۔ یہی قطرہ آب رحم عورت میں جر اللہ کے حکم سے حمل کا باعث بنتا ہے۔
[٤] عالم بالا کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب انسان کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ ذرا اپنی پیدائش پر بھی غور کرلے کہ ماں کے پیٹ میں کون اس کی پرورش کرتا رہا اور کس نے اس کے حمل کو رحم مادر میں جمائے رکھا اور اتنا سخت جمایا کہ بغیر کسی شدید حادثہ کے حمل ضائع نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر جب وہ ماں کے پیٹ سے باہر آیا تو اتنا زیادہ ناتواں اور کمزور تھا جتنا کمزور بچہ دوسری کسی جاندار مخلوق کا نہیں ہوتا۔ پھر دوسری تمام مخلوق سے بڑھ کر اس کی نشوونما کے انتظامات فرمائے۔ پھر پیدائش سے لے کر موت تک اس کی مسلسل نگرانی کرتا رہتا ہے۔ اسے بیماریوں سے، حادثات سے اور طرح طرح کی آفات سے بچاتا رہتا ہے۔ اس کی زندگی اور زندگی کی بقا کے اتنے ذرائع بہم پہنچاتا ہے جنہیں انسان شمار بھی نہیں کرسکتا بلکہ اسے ان کا شعور تک نہیں ہوتا۔ کجا وہ خود فراہم کرنے پر قادر ہو۔ تاآنکہ وہ اپنی اس مدت موت کو پہنچ جاتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی تدبیر اور اس کی نگرانی کے بغیر ہونا ممکن ہے ؟۔
(١) فلینظر الانسان مم خلق…: ایک مقرر وقت تک انسان کی ذات کی حفاظت اور اعمال کی نگہداشت یوم حسابکے لئے ہے، اگر اسے اپنا دوبارہ زندہ کیا جانا محال معلوم ہوتا ہے تو اپنی پیدائش پر غور کرلے کہ کس چیز سے ہوتی ہے ؟ ایک اچھلنے والے پانی سے۔ جب اللہ تعالیٰ نے پانی جیسی مائع چیز پر صورت گری کر کے ایک کامل انسان پیدا کردیا جس میں مکمل اعضائے جسم، حیات، قوت، عقل اور ادراک سب کچھ موجود ہے تو یقیناً وہ اس انسان کو اس کی مٹی سے دوبارہ پہلی صورت میں پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ بتاؤ، انسان کو پانی سے بنانا مشکل ہے یا اسی کی خاک سے دوبارہ بنادینا ؟ اور پہلی دفعہ بغیر نمونے کے پیدا کرنا مشکل ہے یا پہلے نمونے پر دوبارہ بنادینا ؟- (٢) مٹی اگرچہ بظاہر خصیوں میں بنتی ہے، مگر جب پیدا کرنے والے نے بتادیا کہ اس کا اصل مرکز پیٹھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہے تو اس حقیقت میں شک کی کوئی گنجائشن ہ رہی۔ بعض اہل علم کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ جدید طب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ جنین کے خصے ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں، پھر ولادت سے پہلے اورب عض اوقات ولادت سے کچھ دیر بعد فوطوں میں اتر آتے ہیں، مگر پھر بھی ان کے اعصاب اور رگوں کا مقام وہی ” بین الصلب و الترآئب “ رہتا ہے، بلکہ ان کی شریان بھی پیٹھ کیق ریب شہ رگ (اور رطی) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ سے گزرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ گویا خصیتین بھی اصل میں پیٹھ کا جز ہیں جو جسم کا زیادہ درجہ حرارت بردشات نہ کرسکنے کی وجہ سے باہر فوطوں میں منتقلک ر دیئے گئے ہیں۔ اب مادہ منویہ اگرچہ خصیتین میں پیدا ہوتا اور کیس منی میں جمع ہوتا ہے، مگر اسے خون پہنچانے اور حرکت دینے والا مرکز ” بین الصلب و الترآئب “ ہی ہے۔ دماغ سے اعصاب کے ذریعے سے جب اس مرکز کو حکم پہنچتا ہے تو اس مرکز کی تحریک سے کیسہ منی سکڑتا ہے اور ماء دافق پچکایر کی طرح اچھل کر نکلات ہے۔ الحمد للہ، جدید طب بھی اس حقیقت کو معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ بالفرض اگر وہ اس حقیقت تک نہ پہنچ پاتی تو قرآن کا بیان پھر بھی اٹل حقیقت تھا۔ قصور انسانی تجربات و مشاہدات کا تھا جو اپنی نارسائی کی وجہ سے خلاق کی بیان کردہ حقیقت تک نہ پہنچ سکے۔
فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ٥ ۭ- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے
(٥۔ ٧) انسان کو اپنے اندر غور کرنا چاہیے کہ کس چیز سے اسے پیدا کیا گیا، وہ ایک اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پشت اور عورت کے سینہ کے درمیان سے نکلتا ہے۔- شان نزول : فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (الخ)- ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے اس آیت مبارکہ کے متعلق روایت کیا ہے کہ یہ آیت ابوالاشد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ چمڑے پر کھڑا ہو کر کہا کرتا تھا اے گروہ قریش جو مجھ کو اس پر ہٹا دے اس کے لیے اس یا ہے اور بکواس کیا کرتا تھا کہ محمد کہتے ہیں کہ دوزخ کے انیس خازن ہیں تو میں اکیلا ہی ان میں سے دس کو کافی ہوں اور نو کو تم کافی ہوجاؤ۔
سورة الطَّارِق حاشیہ نمبر :2 عالم بالا کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب انسان کو دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ خود ذرا اپنی ہستی ہی پر غور کر لے وہ کس طرح پیدا کیا گیا ہے ۔ کون ہے جو باپ کے جسم سے خارج ہونے والے اربوں جرثوموں میں سے ایک جرثومے اور ماں کے اندر سے نکلنے والے بکثرت بیضوں میں سے ایک بیضے کا انتخاب کر کے دونوں کو کسی وقت جوڑ دیتا ہے اور اس سے ا یک خاص انسان کا استقرار حمل واقع ہو جاتا ہے؟ پھر کون ہے جو استقرار حمل کے بعد ماں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ اسے نشو ونما دے کر اسے اس حد کو پہنچاتا ہے کہ وہ ایک زندہ بچے کی شکل میں پیدا ہوتا ، پھر کون ہے جو رحم مادر ہی میں اس کے جسم کی ساخت اور اس کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کا تناسب قائم کرتا ہے؟ پھر کون ہے جو پیدائش سے لے کر موت کے وقت تک اس کی مسلسل نگہبانی کرتا رہتا ہے؟ اسے بیماریوں سے بچاتا ہے ۔ حادثات سے بچاتا ہے ۔ طرح طرح کی آفات سے بچاتا ہے ۔ اس کے لیے زندگی کے اتنے ذرائع بہم پہنچاتا ہے جن کا شمار نہیں ہو سکتا ۔ اور اس کے لیے ہر قدم پر دنیا میں باقی رہنے کے وہ مواقع فراہم کرتا ہے جن میں سے اکثر کا اسے شعور تک نہیں ہو تا کجا کہ وہ انہیں خود فراہم کرنے پر قادر ہو ۔ کیا یہ سب کچھ ایک خدا کی تدبیر اور نگرانی کے بغیر ہو رہا ہے؟