خلق من ماء عافق، یعنی انسان پیدا کیا گیا ہے ایک اچھلنے والے پانی سے جو نکلتا ہے پشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے۔ عام طور سے حضرات مفسرین نے اس کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ نطفہ مرد کی پشت اور عورت کے سینہ سے نکلتا ہے مگر اعضائے انسانی کے ماہر اطبا کی تحقیق اور تجربہ یہ ہے کہ نطفہ درحقیقت انسان کے ہر ہر عضو سے نکلتا ہے اور بچے کا ہر عضو اس جز نطفہ سے بنتا ہے جو مرد و عورت کے اسی عضو سے نکلا ہے۔ البتہ دماغ کو اس معاملے میں سب سے زیادہ دخل ہے اسی لئے مشاہدہ ہوتا ہے کہ جماع کی کثرت کرنے والے اکثر صعف دماغ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ انکی تحقیق یہ بھی ہے کہ نطفہ تمام اعضا سے منفصل ہو کر نخاع کے ذریعہ خصیتین میں جمع ہوتا اور پھر وہاں سے نکلتا ہے۔- اگر یہ تحقیق صحیح ہے تو حضرات مفسرین نے جو نطفہ کا خروج مرد کی پشت اور عورت کے سینے کے متعلق قرار دیا ہے اس کی توجیہ بھی کچھ بعید نہیں کیونکہ اس پر اطبا کا اتفاق ہے کہ نطفہ کی تولید میں سب سے بڑا دخل دماغ کو ہے اور دماغ کا خلیفہ و قائم مقام نخاع ہے جو ریڑھ کی ہڈی کے اندر دماغ سے پشت اور پھر خصیتین تک آیا ہوا ہے، اسی کے کچھ شعبے سینے کی ہڈیوں میں آئے ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ عورت کے نطفہ میں سینے کی ہڈیوں سے آنیوالے نطفہ کا اور مرد کے نطفہ میں پشت سے آنیوالے نطفہ کا دخل زیادہ ہو (ذکرہ البیضاوی) - اور اگر قرآن کریم کے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں، صرف اتنا ہے کہ نطفہ پشت اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بےتکلف ہوسکتا ہے کہ نطفہ مرد و عورت دونوں کے سارے بدن سے نکلتا ہے اور سارے بدن کی تعبیر آگے پیچھے کے اہم اعضاء سے کردی گئی سامنے کے حصہ میں سینہ اور پیچھے کے حصہ میں پشت سب سے اہم عضا ہیں۔ ان دونوں کے اندر سے نکلنے کا مطلب یہ لیا جائے کہ سارے بدن سے نکلتا ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے۔
خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ ٦ ۙ- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - دفق - قال تعالی: ماءٍ دافِقٍ [ الطارق 6] : سائل بسرعة . ومنه استعیر : جاء وا دُفْقَةً ، وبعیر أَدْفَقُ : سریع، ومَشَى الدِّفِقَّى، أي : يتصبّب في عدوه کتصبّب الماء المتدفّق، ومشوا دفقا .- ( د ف ق ) الدفق ( مصدر ن ) کے معنی سرعت کے ساتھ بہنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ ماءٍ دافِقٍ [ الطارق 6]( اچھل کر تیزی سے گرنے والے والے پانی سے اسی سے بطور استعارہ ( وہ یکبارگی آگئے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور تیز رفتار اونٹ کو بعیر اوفق کہتے ہیں ۔ مشی الدفقیٰ اس طرح تیز رفتاری سے چلا جیسے زور سے بہنے والا پانی اچھل کر گرتا ہے اور بہتا ہوا چلا جاتا ہے ۔ مشوا دفقا ۔ وہ تیز چلے ۔