Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 کہا جاتا ہے کہ پیٹھ مرد کی اور سینہ عورت کا، ان دونوں کے پانی سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ لیکن اسے ایک پانی اس لیے کہا کہ یہ دونوں مل کر ایک ہی بن جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] مادہ منویہ کہاں اور کیسے پیدا ہوتا ہے ؟:۔ صُلْبْ ۔ صَلَبَ الْعَظْمِ بمعنی ہڈی سے مغز یا گودا نکالنا اور صلب بمعنی ریڑھ کی ہڈی کا گودا۔ اور چونکہ یہ ہڈی انسان کی پشت کے درمیان ہوتی ہے۔ لہذا اس ریڑھ کی ہڈی کو اور پشت کو بھی صلب ہی کہہ دیا جاتا ہے۔ اور ترائب۔ تریبۃ کی جمع ہے بمعنی سینہ کی ہڈیاں اور پسلیاں۔ اس آیت کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نطفہ ان اعضاء سے نکلتا ہے جو صلب اور سینہ کی پسلیوں کے درمیان ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ مرد کا نطفہ تو صلب سے نکلتا ہے اور عورت کا سینہ کی پسلیوں سے۔ لیکن یہ خیال کچھ درست معلوم نہیں ہوتا۔ اطباء کا یہ خیال ہے کہ منی خواہ مرد کی ہو یا عورت کی، عمل انہضام کے چوتھے مرحلہ پر پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کی تخلیق میں اعضائے رئیسہ یعنی دل جگر اور دماغ کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ اور یہ انہضام چونکہ انسان کے دھڑ کے اندرونی حصے میں واقع ہوتا ہے۔ لہذا اسے صلب اور ترائب کے مابین سے ذکر کردیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ انسان کا دماغ تو دھڑ میں نہیں ہوتا تو غالباً اسی نسبت سے یہاں صلب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ریڑھ کی ہڈیوں کے درمیان جو مغز یا گودا ہوتا ہے یہ دماغ ہی کا حصہ ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۝ ٧ ۭ- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - صلب - والصَّلَبُ والاصْطِلَابُ : استخراج الودک من العظم، والصَّلْبُ الذي هو تعلیق الإنسان للقتل، قيل : هو شدّ صُلْبِهِ علی خشب، وقیل : إنما هو من صَلْبِ الوَدَكِ. قال تعالی: وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] ، وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] والصَّلِيبُ : أصله الخشب الذي يُصْلَبُ عليه، والصَّلِيبُ : الذي يتقرّب به النّصاری، هو لکونه علی هيئة الخشب الّذي زعموا أنه صُلِبَ عليه عيسى عليه السلام، - ( ص ل ب ) الصلب - الصلب والاصطلاب کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا کے ہیں اور صلب جس کے معنی قتل کرنے کے لئے لٹکا دینا کے ہیں ۔ بقول بعض اسے صلب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اس شخص کی پیٹھ لکڑی کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صلب الودک سے ہے جس کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا گے ہیں قرآن میں ہے : وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] اور انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ سول پر چڑ ھایا ۔ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] اور کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوادوں گا ۔- ۔ الصلیب - اصل میں سوئی کی لکڑی کو کہتے ہیں نیز صلیب اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جو عیسائی بطور عبادت کے گلے میں اس خیال پر باندھ لیتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر سولی لٹکایا گیا تھا ۔ اور جس کپڑے پر صلیب کے نشانات بنے ہوئے ہوں اسے مصلب کہاجاتا ہے ۔ صالب سخت بخار جو پیٹھ کو چور کردے یا پسینہ کے ذریعہ انسان کی چربی نکال لائے ۔ - ترب - التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] ، الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] . وتَرِبَ : افتقر، كأنه لصق بالتراب، قال تعالی: أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد 16] ، أي : ذا لصوق بالتراب لفقره . وأَتْرَبَ : استغنی، كأنه صار له المال بقدر التراب، والتَّرْبَاء : الأرض نفسها، والتَّيْرَب واحد التَّيَارب، والتَّوْرَب والتَّوْرَاب : التراب، وریح تَرِبَة : تأتي بالتراب، ومنه قوله عليه السلام :- «عليك بذات الدّين تَرِبَتْ يداك» تنبيها علی أنه لا يفوتنّك ذات الدین، فلا يحصل لک ما ترومه فتفتقر من حيث لا تشعر . وبارح تَرِبٌ: ريح فيها تراب، والترائب : ضلوع الصدر، الواحدة : تَرِيبَة . قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق 7] ، وقوله : أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة 36- 37] ، وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ 33] ، وَعِنْدَهُمْ قاصِراتُ الطَّرْفِ أَتْرابٌ [ ص 52] ، أي : لدات، تنشأن معا تشبيها في التساوي والتماثل بالترائب التي هي ضلوع الصدر، أو لوقوعهنّ معا علی الأرض، وقیل :- لأنهنّ في حال الصبا يلعبن بالتراب معا .- ( ت ر ب ) التراب کے معنی منی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] کہ اس نے تمہیں منی سے پیدا کیا ۔ الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ ترب کے معنی فقیر ہونے کے ہیں کیونکہ فقر بھی انسان کو خاک آلودہ کردیتا ہے ۔ فرمایا :۔ أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد 16] یا فقیر خاکسار کو ۔ یعنی جو بوجہ فقر و فاقہ کے خاک آلودہ رہتا ہے ۔ اترب ( افعال ) کے معنی مال دار ہونے کے ہیں ۔ گویا اس کے پاس مٹی کی طرح مال ہے نیز تراب کے معنی زمین کے بھی آتے ہیں اور اس میں التیراب ( ج) تیارب اور التوراب والتورب والتوراب وغیرہ دس لغات ہیں ۔ ریح تربۃ خاک اڑانے والی ہو ۔ اسی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے (50) علیک بذاب الدین تربت یداک کہ شادی کے لئے دیندار عورت تلاش کرو ۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ دیندار عورت تیرے ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور تم غیر شعوری طورپر فقیر ہوجاو گے ۔ بارح ترب خاک اڑانے والی ہو ۔ ترائب سینہ کی پسلیاں ( مفرد ت ربیۃ ) قرآن میں ہے ۔ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق 7] جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة 36- 37] کنواریاں اور شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر ۔ اور ہم نوجوان عورتیں ۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی ( اور ) ہم عمر ( عورتیں ) ہوں گی ۔ میں اتراب کے معنی ہیں ہم عمر جنہوں اکٹھی تربیت پائی ہوگی گو یا وہ عورتیں اپنے خاوندوں کے اس طرح مساوی اور مماثل یعنی ہم مزاج ہوں گی جیسے سینوں کی ہڈیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ریا اس لئے کہ گو یا زمین پر بیک وقت واقع ہوئی ہیں اور بعض نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ اکٹھی مٹی میں ایک ساتھ کھیلتی رہی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ یَّخْرُجُ مِنْم بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ ۔ ” جو نکلتا ہے پیٹھ اور پسلیوں کے درمیان سے۔ “- مرد کے مادہ منویہ کا اصل منبع ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہے۔ یہاں سے پیدا ہو کر یہ مادہ ان غدودوں تک پہنچتا ہے جو اس کے لیے مخصوص ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطَّارِق حاشیہ نمبر :3 اصل میں صلب اور ترائب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ صلب ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں ، اور ترائب کے معنی ہیں سینے کی ہڈی ، یعنی پسلیاں ، چونکہ عورت اور مرد دونوں کے مادہ تولید انسان کے اس دھڑ سے خارج ہوتے ہیں جو صلب اور سینے کےدرمیان واقع ہے ، اس لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان اس پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ یہ مادہ اس صورت میں بھی پیدا ہوتا ہے جبکہ ہاتھ اور پاؤں کٹ جائیں ، اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یہ انسان کے پورے جسم سے خارج ہوتا ہے ۔ درحقیقت جسم کے اعضاء ریئسہ اس کے ماخذ ہیں اور وہ سب آدمی کے دھڑ میں واقع ہیں ۔ دماغ کا الگ ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ صلب دماغ کا وہ حصہ ہے جس کی بدولت ہی جسم کے ساتھ دماغ کا تعلق قائم ہوتا ہے ۔ ( نیز ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر 4 ، صفحہ نمبر 583 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: اس سے مراد وہ مادّہ منویہ ہے جس سے اِنسان کی تخلیق ہوتی ہے، اور اُس کے پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ اِنسان کے دھڑ کا یہ درمیانی حصہ ہی اس مادّے کا اصل مرکز ہے۔