8۔ 1 یعنی انسان کے مرنے کے بعد، اسے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ وہ اس قطرہ آب کو دوبارہ شرمگاہ کے اندر لوٹانے کی قدرت رکھتا ہے جہاں سے وہ نکلا تھا پہلے مفہوم کو امام شوکانی اور امام ابن جریر طبری نے زیادہ صحییح قرار دیا ہے۔
[٦] اللہ تعالیٰ نے ایک شہادت عالم بالا سے پیش فرمائی، دوسری انسان کی تخلیق سے اور یہ دونوں اس بات پر قوی دلیل ہیں جو ہستی ایسے عظیم الشان کارنامے سرانجام دے رہی ہے وہ یقیناً انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہے اور اگر انسان سوچے تو یہ کارنامے انسان کی دوبارہ زندگی سے زیادہ حیرت انگیز اور معجز نما ہیں۔ اب جو شخص ان کارناموں کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتا ہے وہ آخر یہ کیوں نہیں کہتا کہ دنیا میں انسان کے ہاتھوں بنائے ہوئے جتنے کارخانے چل رہے ہیں یہ بھی بس اتفاقی حادثات کے نتیجہ میں سامنے آگئے اور کام کرنے لگے ہیں یا دنیا میں جو شہر آباد ہیں، سڑکیں ہیں اور دریا اور نہریں رواں ہیں یہ بھی سب اتفاقات ہی کا نتیجہ ہیں۔ ایسے سر پھروں کو اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کا علاج صرف ڈنڈا ہے۔
انہ علی رجعہ لقادر ، یوم تبلی السرآئر :” تبلی “ ” بلایبلو “ (ن) آزمائش کرنا، جانپ ڑتال کرنا، یہاں ظاہر کیا جانا مراد ہے، کیونکہ جان پڑتال تبھی ہوگ ی جب چھپے ہوئے اعمال ظاہر ہوں گے۔” السرآئر “ ” سریرۃ “ کی جمع ہے۔” سر “ اور ” سریرۃ “ اس چیز کو کہتے ہیں جو چھپائی جایئ۔ (قاموس) اس سے مراد وہ ارادے، نیتیں اور عقائد ہیں جن کا علم خود آدمی کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا اور وہ اعمال بھی جن کا علم کسی دوسرے کو نہیں ہوسکتا۔ ” یوم تبلی السرآئر “ ” رجعہ “ کا ظرف ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انسان کو اس دن دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے جس دن چھپی ہوئی باتوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
انہ علی رجعہ لقادر، رجع کے معنے لوٹا دینے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ جس خالق کائنات نے اول انسان کو نطفہ سے پیدا کیا ہے وہ اس کو دوبارہ لوٹا دینے یعنی مرنیکے بعد زندہ کردینے پر بدرجہ اولیٰ قادر ہے۔- یوم تبلی السرائر، تبلی کے لفظی معنے امتحان لینے اور آزمانے کے ہیں اور سرائر کے معنی ہیں مخفی امور مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز انسان کے تمام عقائد و خیالات اور نیت وعزم جو دل میں پوشیدہ تھی دنیا میں اس کو کوئی نہ جانتا تھا اسی طرح وہ اعمال و افعال جو اس نے چھپ کر کئے دنیا میں کسی کو ان کی خبر نہیں، محشر میں سب کا امتحان لیا جائے گا یعنی سب کو ظاہر کردیا جائے گا، حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انسان کے ہر مخفی راز کو کھولدے گا۔ ہر اچھے برے عقیدے اور عمل کی علامت انسان کے چہرہ پر یا زینت ہو کر یا ظلمت وسیاہی کی صورت میں ظاہر کردی جائے گی۔ (قرطبی)
اِنَّہٗ عَلٰي رَجْعِہٖ لَقَادِرٌ ٨ ۭ- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے
(٨۔ ١٠) اور اللہ تعالیٰ اس پانی کو شرمگاہ میں دوبارہ واپس کرنے پر قادر ہے، یا یہ مطلب ہے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے جس روز سب کی مخفی باتیں ظاہر ہوجائیں گی پھر نہ اس انسان کو عذاب کی مدافعت کی خود قوت ہوگی اور نہ اس کا کوئی معین و مددگار ہوگا۔
آیت ٨ اِنَّہٗ عَلٰی رَجْعِہٖ لَقَادِرٌ ۔ ” یقینا وہ اسے لوٹانے پر بھی قادر ہے۔ “- جس اللہ نے پانی کی ایک بوند سے انسان کی تخلیق کی ہے وہ یقینا اس پر بھی قادر ہے کہ جب چاہے اسے اپنے پاس واپس بلا لے۔ اور یقینا وہ اس کے مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کردینے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔
سورة الطَّارِق حاشیہ نمبر :4 یعنی جس طرح وہ انسان کو وجود میں لاتا ہے اور استقرار حمل کے وقت سے مرتے دم تک اس کی نگہبانی کرتا ہے ، یہی اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ وہ اسے موت کے بعد پلٹا کر پھر وجود میں لا سکتا ہے ۔ اگر وہ پہلی چیز پر قادر تھا اور اسی قدرت کی بدولت انسان دنیا میں زندہ موجود ہے ، تو آخر کیا معقول دلیل یہ گمان کرنے کے لیے پیش کی جا سکتی ہے کہ دوسری چیز پر وہ قادر نہیں ہے ۔ اس قدرت کا انکار کرنے کے لیے آدمی کو سرے سے اس بات ہی کا انکار کرنا ہو گا کہ خدا اسے وجود میں لایا ہے ، اور جو شخص اس کا انکار کرے اس سے کچھ بعید نہیں کہ ایک روز اس کے دماغ کی خرابی اس سے یہ دعوی بھی کرا دے کہ دنیا کی تمام کتابیں ایک حادثہ کے طور پر چھپ گئی ہیں ، دنیا کے تمام شہر ایک حادثہ کے طور پر بن گئے ہیں ، اور زمین پر کوئی اتفاقی حادثہ ایسا ہو گیا تھا جس سے تمام کارخانے بن کر خود بخود چلنے لگے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اور اس کے جسم کی بناوٹ اور اس کے اندر کام کرنے والی قوتوں اور صلاحیتوں کا پیدا ہونا اور اس کا ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے باقی رہنا ان تمام کاموں سے بدرجہا زیادہ پیچیدہ عمل ہے جو انسان کے ہاتھوں دنیا میں ہوئے اور ہو رہے ہیں ۔ اتنا بڑا پیچیدہ عمل اس حکمت اور تناسب اور تنظیم کے ساتھ اگر اتفاقی حادثہ کے طور پر ہو سکتا ہو تو پھر کونسی چیز ہے جسے ایک دماغی مریض حادثہ نہ کہہ سکے؟