2۔ 1 دیکھیے سورة انفطار کا حاشیہ نمبر 7
[٢] یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کی سب اشیاء کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اس چیز سے جو کام لینا مقصود تھا اس کے مطابق اس کی شکل و صورت بنائی اور شکل وصورت کو اس طرح ٹھیک ٹھاک اور درست کیا کہ اس کے لیے اس سے بہتر شکل و صورت ممکن ہی نہ تھی۔ - مثلاً ناک کا ایک کام یہ ہے کہ اس سے دماغ کے فضلات خارج ہوتے رہیں اور یہ مقصد ناک کو سر کے پیچھے بنانے سے بھی حاصل ہوسکتا تھا۔ مگر اس کے تصور سے ہی انسان کو گھن آنے لگتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ناک کو چہرہ پر سامنے بنایا تاکہ چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ ہو، نیز انسان کی ناک بہتی ہی نہ رہے بلکہ انسان بوقت ضرورت اپنے ہاتھ سے جھاڑ سکے اور صاف کرسکے۔ یہی صورت حال ایک ایک عضو بلکہ کائنات کی ایک ایک چیز کے متعلق مشاہدہ کی جاسکتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف خالق ہی نہیں بلکہ انتہا درجہ کا حکیم اور مدبر بھی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعضاء کی تخلیق محض اتفاقات کا نتیجہ قطعاً نہیں ہے ورنہ مقاصد کے ساتھ ساتھ حسن و جمال کے امتزاج کا تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔
(الذی خلق فسویٰ :” الذی خلق “ (جس نے پیدا کیا) اس کا مفعول بہم حذوف ہے، یعنی یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ کسے پیدا کیا، کیونکہ پیدا کرنا کام اسی کا ہے اور سب اسی کی مخلوق ہیں۔” فسوی “” پس درست بنایا “ یعنی ہر چیز کو ٹھیک، متوازن اور عمدہ ترین شکل میں بنایا، کوئی چیز بےڈھب اور غیر متوازن نہیں، جیسا کہ فرمایا :(الذی احسن کل شیء خلقہ) (السجدۃ : ٨)” وہ جس نے جو چیز پیدا کی خوبصورت پیدا کی۔ “ اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیات میں رب تعالیٰ کی بعض وہ صفات بیان ہوئی ہیں جن کی وجہ سے وہ تسبیح کا مستحق ہے۔
تخلیق کائنات میں لطیف اور دقیق حکمتیں - الذی خلق فسوی۔ والذی قدر رفھدی، یہ سب رب اعلیٰ کی صفات کا ذکر ہے جو تخلیق کائنات میں اس کی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ کے مشاہدہ سے متعلق ہیں ان میں پہلی صفت خلق ہے خلق کے معنے محض صنعت گری کے نہیں بلکہ عدم سے بغیر کسی مادہ سابقہ کے وجود میں لانا ہے اور یہ کام کسی مخلوق کے بس میں نہیں صرف حق تعالیٰ شانہ کی قدرت کاملہ ہے کہ بغیر کسی سابق مادہ کے جب چاہتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے ہیں عدم سے وجود میں لے آتے ہیں۔ دوسری صفت اس تخلیق ہی کے ساتھ وابستہ فسویٰ ہے جو تسویہ سے مشتق ہے اور اس کے لفظی معنی برابر کرنے کے ہیں اور مراد برابر کرنے سے یہ ہے کہ ہر چیز کو جو وجود عطا فرمایا اس کی جسامت اور شکل و صورت اور اعضاء واجزاء کی وضع وہیت میں ایک خاص تناسب ملحوظ رکھ کر یہ وجود بخشا گیا ہے، انسان اور ہر جانور کو اس کی ضروریات کے مناسب بنائی گئی ہیں، ہاتھ پاؤں اور ان کی انگلیوں کے پوروں میں ایسے جوڑ رکھے اور قدرتی اسپرنگ لگائے کہ وہ ہر طرف موڑے توڑے اور تہ کئے جاسکتے ہیں، اسی طرح دوسرے ایک عضو کو دیکھو یہ حیرت انگیز تناسب خود انسان کو خالق کائنات کی حکمت وقدرت پر ایمان لانیکے لئے کافی ہے۔- تیسری چیز اسی سلسلے میں فرمائی قدر، تقدیر کے معنے کسی چیز کو خاص اندازے پر بنانے اور باہمی موازنت کے بھی آئے ہیں اور بمعنے قضاء وقدر بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنے ہر چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور خاص تجویز کے ہیں، اس آیت میں یہی معنے مراد ہیں، اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چیزوں کو صرف پیدا کرکے اور بناکر نہیں چھوڑ دیا بلکہ ہر چیز کو کسی خاص کام کے لئے پیدا کیا اور اسکے مناسب اس کو وسائل دیئے اور اسی کام میں اس کو لگا دیا، غور کیا جائے تو یہ بات کسی خاص جنس یا نوع مخلوق کے لئے مخصوص نہیں، ساری ہی کائنات اور مخلوقات ایسی ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے خاص خاص کاموں کے لئے بنایا ہے اور ان کو اسی کام میں لگادیا ہے، ہر چیز اپنے رب کی مقرر کردہ ڈیوٹی پر لگی ہوئی ہے۔ آسمان اور اس کے ستارے، برق و باراں سے لے کر انسان وحیوان اور نباتات و جمادات سب میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ جسکو جس کام پر خالق نے لادیا ہے اور اس پر لگا ہوا ہے۔ ابروبادومہ خورشید وفلک درکارند اور مولانا رومی (رح) نے فرمایا۔- خاک وباد وآب وآتش بندہ اند بامن وتو مردہ باحق زندہ اند - خصوصاً انسان وحیوان کے ہر نوع وصنف کو حق تعالیٰ نے جن خاص خاص کاموں کے لئے پیدا فرمایا ہے وہ قدرتی طور پر اسی کام میں لگے ہوئے ہیں، ان کی رغبت وشوق سب اسی کام کے گرد گھومتا ہے۔- ہر یکے رابہر کارے ساختند میل اور ادروش انداختند - چوتھی چیز یہ فرمائی فھدی یعنی خالق کائنات نے جس چیز کو جس کام کے لئے پیدا فرمایا اس کو اس کی ہدایت بھی فرما دی کہ وہ کس کس طرح اس کام کو انجام دے۔ حقیقیت تو یہ ہے کہ یہ ہدایت تمام کائنات و مخلوقات کو شامل ہے آسمان اور آسمانی مخلوقات ہوں یا زمین اور اس کی مخلوقات کیونکہ ایک خاص قسم کی عقل و شعور اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی دیا ہے گو وہ انسان کے عقل و شعور سے کم ہو جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیت میں ارشاد ہے اعطی کل شی خلقہ ثم ھدی یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کرکے ایک وجود بخشا پھر اس کو اسکے متعلقہ کام کی ہدایت کردی اسی ہدایت عامہ کا اثر ہے کہ آسمان و زمین ستارے اور سیارات پہاڑ اور دریا سب کے سب جس خدمت پر اول خلقت سے مامور کردیئے گئے اس خدمت کو ٹھیک ٹھیک اسی طرح بغیر کسی کمی کوتاہی یا سستی کے بجالاتے ہیں خصوصاً انسان اور حیوانات جن کا عقل و شعور ہر وقت مشاہدہ میں آتا ہے ان میں بھی غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر نوع ہر صنف بلکہ ہر ہر فرد کو حق تعالیٰ نے اپنی اپنی ضروریات زندگی حاصل کرنے اور اپنے مخالف چیزوں کو دفع کرنے کے لئے کیسے کیسے دقیق ہنر سکھائے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، انسان تو سب سے زیادہ عقل و شعور والا ہے، جنگل کے جانوروں، درندوں، پرندوں اور حشرات الارض کو دیکھو کر ہر ایک کو اپنی ضروریات زندگی حاصل کرنے اور رہنے بسنے اور اپنی انفرادی اور جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیسے کیسے ہنر سکھائے ہیں اور یہ سب بلا واسطہ تعلیم خالق کائنات کی طرف سے ہے، انہوں نے کسی کالج میں رہ کر یا کسی استاد سے یہ چیزیں نہیں سکھیں بلکہ یہ سب اسی ہدایت عامہ اور تلقین ربانی کے ثمرات ہیں جسکا ذکر آیت اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی اور اس سورت کی قدر فھدی میں فرمایا ہے۔- انسان کو سائنسی تعلیم بھی درحقیقت عطائے ربانی ہے - انسان جس کو حق تعالیٰ نے عقل و شعور سب سے زیادہ مکمل عطا فرمایا اور اس کو مخدوم کائنات بنایا ہے تمام زمین اور پہاڑ اور دریا اور ان میں پیدا ہونے والی اشیاء انسان کی خدمت اور اسکے نفع کے لئے پیدا ہوئی ہیں مگر ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا اور مختلف قسم کے منافع حاصل کرنا اور مختلف چیزوں کو جوڑ کر ایک نئی چیز پیدا کرلینا یہ بڑے علم وہنرکو چاہتا ہے قدرت نے انسان کے اندر فطری طور پر یہ عقل وفہم رکھا ہے کہ پہاڑوں کو کھود کر دریاؤں میں غوطہ لگا کر سیکڑوں معدنی اور دریائی چیزیں حاصل کرلیتا ہے اور پھر لکڑی، لوہے، تانبے، پیتل وغیرہ کو بامہم جوڑ کر ان سے نئی نئی چیزیں اپنی ضروریات کو بنا لیتا ہے اور یہ علم وہنر فلاسفہ کی تحقیقات اور کالجوں کی تعلیمات پر موقوف نہیں، ابتدائے دنیا سے ان پڑھ جاہل یہ سب کام کرتے آئے ہیں، اور یہی فطری سائنس ہے جو حق تعالیٰ نے انسان کو فطرة بخشی ہے آگے فنی اور علمی تحقیقات کے ذریعہ اس میں ترقی کرنے کی استعداد بھی اسی قدرت ربانی کا عطیہ ہے۔- یہ سب جانتے ہیں کہ سائنس کسی چیز کو پیدا نہیں کرتی بلکہ قدرت کی پیدا کردہ اشیاء کا استعمال سکھاتی ہے اور اس استعمال کا ادنی درجہ تو حق تعالیٰ نے انسان کو فطرة سکھادیا ہے، آگے اس میں فنی تحقیقات اور ترقی کا بڑا وسیع میدان رکھا ہے اور انسان کی فطرت میں اسکے سمجھنے کی استعداد و صلاحیت رکھی ہے جس کے مظاہر اس سائنسی دور میں روز نئے نئے سامنے آرہے ہیں اور معلوم نہیں آگے اس سے بھی زیادہ کیا کیا سامنے آئے گا غور کرو تو یہ سب ایک لفظ قرآن فھدی کی شرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان سب کاموں کا راستہ دکھایا اور اس میں ان کے پورا کرلینے کی استعداد عطا فرمائی مگر افسوس ہے کہ سائنس میں ترقی کرنے والے اس حقیقت سے زیادہ ناآشنا بلکہ اندھے ہوتے جارہے ہیں۔
الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى ٢ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سوا ( مساوات برابر)- الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل،- وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله :- وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں - التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔
آیت ٢ ‘ ٣ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی - وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی ۔ ” جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا ‘ پھر تناسب قائم کیا۔ اور جس نے (ہر شے کا) اندازہ مقرر کیا ‘ پھر اسے (فطری) ہدایت عطا فرمائی۔ “- ان چار الفاظ (خَلَقَ ‘ فَسَوّٰی ‘ قَدَّرَ ‘ فَھَدٰی) میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان بھی ہے اور تخلیقی عمل کے مختلف مراحل کا ذکر بھی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کے حوالے سے تین اسمائے حسنیٰ (اَلْخَالِقُ ‘ اَلْـبَارِیٔ‘ اَلْمُصَوِّرُ ) کا ایک ساتھ ذکر قبل ازیں سورة الحشر کی آخری آیت میں بھی آچکا ہے۔ سورة الحشر کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی یہ تین صفات ایک خاص منطقی ترتیب سے بیان ہوئی ہیں۔ یہ ترتیب دراصل تخلیقی عمل کے مرحلہ وار ارتقاء کی نشاندہی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے کسی چیز کا نقشہ یا نمونہ بناتا ہے ‘ اس لحاظ سے وہ اَلْخَالِقُہے۔ پھر وہ مطلوبہ چیز کو طے شدہ نمونے کے مطابق عدم سے عالم وجود میں ظاہر فرماتا ہے ‘ اس اعتبار سے وہ اَلْـبَارِیہے۔ تیسرے مرحلے میں وہ اس تخلیق کو ظاہری صورت یا شکل عطا فرماتا ہے ‘ اس مفہوم میں وہ اَلْمُصَوِّرُہے۔ - سورة الحشر کی مذکورہ آیت میں تخلیقی عمل کے جن تین مراحل کا ذکر ہوا ہے ان کا تعلق چیزوں کے ظاہری یا مادی وجود سے ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں مادی وجود کی تخلیق کے ساتھ ساتھ چیزوں کے باطنی خصائص کی تخلیق کا ذکر بھی ہے۔ (خَلَقَ فَسَوّٰیکے الفاظ میں چیزوں کے مادی وجود کی تخلیق کے مراحل کا بیان ہے ‘ جبکہ قَدَّرَ فَھَدٰی کے الفاظ کسی تخلیق کے باطنی پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ )- اب ہم ان الفاظ کے معانی و مفہوم کو انسانی ماحول کی مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ پہلے دو مراحل (تخلیق اور تسویہ) کو ایک عمارت کی مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ کسی عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کردینا اس کی ” تخلیق “ ہے ‘ جبکہ اس کو سجانا ‘ سنوارنا ( ) وغیرہ اس کا ” تسویہ “ ہے ۔ تخلیق کا تیسرا مرحلہ جس کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ ” قدر “ ہے۔ قدر کے لغوی معنی اندازہ مقرر کرنے کے ہیں ‘ جسے عرفِ عام میں ہمارے ہاں تقدیر کہا جاتا ہے ۔ اس مفہوم میں کسی تخلیق کے معیار ‘ اس کی صلاحیت ‘ استعداد اور حدود ( ) سمیت جملہ خصوصیات کو اس کی قدر یا تقدیر کہا جائے گا۔ مثلاً انسان اشرف المخلوقات تو ہے لیکن وہ ہوا میں اڑنے سے معذور ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی چڑیا آسانی سے ہوا میں اڑتی پھرتی ہے۔ تو گویا ہوا میں اڑنے کی یہ صلاحیت رکھنا چڑیا کی تقدیر کا خاصہ ہے اور اس اعتبار سے معذور ہونا انسان کی تقدیر کا حصہ ہے۔ اس کے بعد تخلیق کے اگلے مرحلے کے طور پر یہاں ” ہدایت “ کا ذکر آیا ہے۔ اس سے مراد وہ فطری اور جبلی ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو پیدائشی طور پر عطا کر رکھی ہے۔ اسی ” ہدایت “ کی روشنی میں بکری کو معلوم ہوا ہے کہ اسے گھاس کھانا ہے اور شیر جانتا ہے کہ اس کی غذا گوشت ہے۔ غرض ہر جاندار اپنی زندگی اسی طریقے اور اسی لائحہ عمل کے مطابق گزار رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے طے کردیا ہے۔ - تخلیق کے ان چار مراحل کے حوالے سے اگر ہم انسانی زندگی کا جائزہ لیں تو پہلے دو مراحل یعنی تخلیق اور تسویہ کے اعتبار سے تو انسان میں اور اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اگلے دو مراحل (تقدیر اور ہدایت) کے حوالے سے انسان کا معاملہ دوسری مخلوقات سے الگ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کی قدر ‘ صلاحیت اور استعداد اللہ تعالیٰ کے ہاں دو طرح سے طے پاتی ہے۔ اس کا ایک پہلو یا ایک حصہ تو وہ ہے جو اسے پیدائشی طور پر جینز ( ) کی صورت میں عطا ہوا ( ) ہے اور دوسرا پہلو یا دوسرا حصہ اس کے ماحول کا ہے جس میں وہ آنکھ کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں کے اچھے برے اور مثبت و منفی عوامل کے ملنے سے ہر انسان کی شخصیت کا ایک سانچہ تیار ہوتا ہے جسے سورة بنی اسرائیل کی آیت ٨٤ میں ” شاکلہ “ کا نام دیا گیا ہے۔ (سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ ) اسی سانچہ یا شاکلہ سے ہر انسان کی استعداد کی حدود متعین ہوتی ہیں۔ اور کوئی انسان انگریزی محاورہ " " (کوئی انسان اپنی کھال سے باہر نہیں نکل سکتا) کے مصداق ان حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ ہر انسان نیکی کرے گا تو اپنی اسی استعداد کے مطابق کرے گا اور اگر برائی کمائے گا تو انہی حدود کے اندر رہ کر ایسا کرے گا۔ غرض ہر انسان کی عملی زندگی کی ساری محنت ‘ کوشش اور بھاگ دوڑ اپنے شاکلہ کے مطابق ہی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جانچ ( ) بھی اسی حوالے سے کی جائے گی ۔ مثلاً ایک شخص کی صلاحیت پچاس درجے تک پہنچنے کی تھی ‘ اگر وہ چالیس درجے تک پہنچ گیا تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ کامیاب قرار پائے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص جو سو درجے تک جانے کی استعداد رکھتا تھا ‘ وہ ممکن ہے پچاس درجے تک پہنچنے کے بعد بھی ناکام رہے۔ بہرحال اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول طے فرمادیا کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط (البقرۃ : ٢٨٦) ” اللہ تعالیٰ نہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔ “ - اسی طرح انسان کی ” ہدایت “ کے بھی دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ تو جبلی ہدایت کا ہے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو جبلی ہدایت سے نواز رکھا ہے اسی طرح اس نے ہر انسان کو بھی فطری اور جبلی طور پر ہدایت کا ایک حصہ عطا فرمایا ہے۔ جبکہ انسان کی ہدایت کا دوسرا حصہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے وحی کے ذریعے عطا فرمایا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت میں پہلے سے ودیعت شدہ بنیادی ہدایت کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔
سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :2 یعنی زمین سے آسمانوں تک کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ، اور جو چیز بھی پیدا کی اسے بالکل راست اور درست بنایا ، اس کا توازن اور تناسب ٹھیک ٹھیک قائم کیا ، اس کو ایسی صورت پر پیدا کیا کہ اس جیسی چیز کے لیے اس سے بہتر صورت کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی بات ہے جو سورہ سجدہ میں یوں فرمائی گئی ہے کہ الذی احسن کل شیء خلقہ ( آیت 7 ) ۔ جس نے ہر چیز جو بنائی خوب بنائی ۔ اس طرح دنیا کی تمام اشیاء کا موزوں اور متناسب پیدا ہونا خود اس امر کی صریح علامت ہے کہ کوئی صانع حکیم ان سب کا خالق ہے ۔ کسی اتفاقی حادثے سے ، یا بہت سے خالقوں کے عمل سے کائنات کے ان بے شمار اجزاء کی تخلیق میں یہ سلیقہ ، اور مجموعی طور پر ان سب اجزاء کے اجتماع سے کائنات میں یہ حسن و جمال پیدا نہ ہو سکتا تھا ۔