Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت ( فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 74۝ۧ ) 56- الواقعة:74 ) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے تم اپنے رکوع میں کر لو جب آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى Ǻ۝ۙ ) 87- الأعلى:1 ) اتری تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں کر لو ابو داؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى Ǻ۝ۙ ) 87- الأعلى:1 ) پڑھتے تو کہتے سبحان ربی الاعلی حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے اور آپ جب آیت ( لا اقسم بیوم القیامۃ ) پڑھتے اور آخری آیت ( اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40؀ۧ ) 75- القيامة:40 ) پر پہنچتے تو فرماتے سبحانک و بلی اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے اپنے بلندیوں والے پرورش کرنے والے اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے جیسے اور جگہ ہے آیت ( رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى 50؀ ) 20-طه:50 ) یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا جس نے ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کر دیا بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں موخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ زیادہ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں پھر فرماتا ہے کہ تجھے ہم اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا پڑھائیں گے جسے تو بھولے نہیں ہاں اگر خود اللہ کوئی آیت بھلا دینا چاہے تو اور بات ہے امام ابن جریر تو اسی مطلب کو پسند کرتے ہیں اور مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو قرآن ہم تجھے پڑھاتے ہیں اسے نہ بھول ہاں جسے ہم خود منسوخ کر دیں اس کی اور بات ہے اللہ پر بندوں کے چھپے کھلے اعمال احوال عقائد سب ظاہر ہیں ہم تجھ پر بھلائی کے کام اچھی باتیں شرعی امر آسان کر دیں گے نہ اس میں کجی ہو گی نہ سختی نہ جرم ہو گا تو نصیحت کر اگر نصیحت فائدے دے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نالائقوں کو نہ سکھانا چاہیے جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کرو گے جو ان کی عقل میں نہ آ سکیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہاری بھلی باتیں ان کے لیے بری بن جائیں گی اور باعث فتنہ ہو جائیں گی بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات چیت کرو تاکہ لوگ اللہ اور رسول کو نہ جھٹلائیں ۔ پھر فرمایا کہ اس سے نصیحت وہ حاصل کریگا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہے جو اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے اور اس سے وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں کر سکتا جو بد بخت ہو جو جہنم میں جانے والا ہو جہاں نہ تو راحت کی زندگی ہے نہ بھلی موت ہے بلکہ وہ لازوال عذاب اور دائمی برائی ہے اس میں طرح طرح کے عذاب اور بدترین سزائیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئیگی نہ کار آمد زندگی ملے گی ہاں جن کے ساتھ اللہ کا ارادہ رحمت کا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل کر مر جائیں گے پھر سفارشی لوگ جائیں گے اور ان میں سے اکثر کو چھڑا لائیں گے پھر نہر حیاۃ میں ڈال دئیے جائیں گے جنتی نہروں کا پانی ان پر ڈالا جائیگا اور وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانہ نالی کے کنارے کوڑے پر اگ آتا ہے کہ پہلے سبز ہوتا ہے پھر زرد پھر ہرا لوگ کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں یہ حدیث مختلف الفاظ سے بہت سی کتب میں مروی ہے قرآن کریم میں اور جگہ وارد ہے آیت ( وَنَادَوْا يٰمٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ 77؀ ) 43- الزخرف:77 ) یعنی جہنمی لوگ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک داروغہ جہنم اللہ سے کہہ وہ ہمیں موت دے دے جواب ملے گا تم تو اب اسی میں پڑے رہنے والے ہو اور جگہ ہے آیت ( لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ ) 35- فاطر:36 ) یعنی نہ تو ان کی موت آئیگی نہ عذاب کم ہوں گے اس معنی کی آیتیں اور بھی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یعنی ایسی چیزوں سے اللہ کی پاکیزگی اس کے لائق نہیں ہے حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے جواب میں پڑھا کرتے تھے، سُبْحَانَ رَبَّیَ ا لاَّعْلَیٰ (مسند احمد 232۔ 1)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] سبحان کا لغوی مفہوم : سَبَّحَ : ابن الفارس کے نزدیک لفظ سَبَّحَ کے بنیادی معنی دو ہیں (١) عبادت کی قسم، اور (٢) دوڑنے کی قسم، اور امام راغب کے نزیک سبح کا معنی کسی چیز کا پانی، ہوا میں تیرنا یا تیزی سے گزر جانا اور سَبَّاح یعنی تیراک ہے اور سبحان سبح سے مصدر ہے جیسے غفر سے غُفْرَان۔ فضا میں لاکھوں کروڑوں سیارے نہایت تیزی سے گردش کر رہے ہیں جن میں نہ کبھی لرزش پیدا ہوتی ہے نہ جھول اور نہ تصادم یا ٹکراؤ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی اپنی تقدیر و تدبیر اور انتظام میں نہایت محکم اور ہر قسم کی بےتدبیری، عیب یا نقص سے پاک ہستی ہی ہوسکتی ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی مدبر ہستی جو اپنی تدبیر محکم سے کائنات کا انتظام چلا رہی ہے وہ اس انتظام و انصرام میں بلاشرکت غیرے مختار کل ہو۔ کیونکہ کسی بھی دوسرے کا عمل دخل اس کائنات کے انتظام میں خلل انداز ہو کر اس میں گڑ بڑ پیدا کرسکتا ہے لہذا سُبْحَانَ سے مراد وہ ہستی ہوسکتی ہے جو - ١۔ ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک ہو۔ - ٢۔ وہ بلاشرکت غیرے مختار کل بھی ہو اور - ٣۔ کائنات کی تمام اشیاء پر پورا پورا کنٹرول بھی رکھتی ہو۔ - اور تسبیح کرنے سے مراد ایسی ہستی کو ان صفات کے ساتھ یاد کرنا اور یاد رکھنا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نماز کا حصہ بنادیا اور فرمایا کہ اجعلوھا فی سجودکم (یعنی اس کو اپنے سجدوں میں رکھو) پھر ہدایت فرمائی کہ سجدہ کی حالت میں سبحان ربی الاعلیٰ کہا کرو۔ عقبہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ آپ نے اس آیت کے مطابق سجدے میں (سبحان ربی الاعلی) اور سورة واقعہ کی آخری آیت ( فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 74۝ۧ) 56 ۔ الواقعة :74) کے مطابق رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھنے کا حکم دیا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) سبح اسم ربک الاعلی :” تسبح “ کا معین ہے ” ہر برائی سے پاک کرنا۔ “ رب الاعلیٰ کے نام کو پاک کرنے کے حکم کے مفہوم میں کئی چیزیں شامل ہیں، پہلی یہ کہ ” سبحان ربی الاعلی “ کہو۔ چناچہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ” سبح اسم ربک الاعلیٰ “ پڑھتے تو کہتے :(سبحان ربی الاعلی) (ابوداؤد الصلاۃ باب الدعاء فی الصلاۃ ، ٨٨٣، وصححہ الالبانی)” پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند ہے۔ “ اس کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدے میں اس حکم پر عمل کے لئے ” سبحان ربی الاعلی “ کم از کم تین دفعہ پڑھتے تھے۔ (دیکھیے نسائی، التطبیق، باب نوع اخر : ١١٣٣، صحیح) ’ وسری یہ کہ اپنے رب کو ہر قسم کے نقص، عیب، کمزوری اور کسی بھی شریک سے پاک سمجھو اور اس کا اعلان کرتے رہو، تاکہ مشرکین اور باطل عقیدہ لوگوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے۔ تیسری یہ کہ رب تعالیٰ کے نام کی تعظیم کرتے رہو، اسے ایسے طریقے سے یا ایسی جگہ یا ایسے الفاظ میں یاد نہ کرو جو اس کی شان کے لائق نہ ہو، یا جس سے اس کی بےادبی ہوتی ہو یا استہزا کا پہلو نکلتا ہو یا اس کے ساتھ کسی کے شریک ٹھہرائے جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے لئے سب سے زیادہ سلامتی کی راہ یہ ہے کہ اس کیلئے وہی نام ساتعملا کئے جائیں جو خود اس نے اپنے لیء استعمال کئے ہیں۔ چوتھی یہ کہ اللہ کا نام کسی مخلوق پر نہ بولو، مثلاً عبدالرحمٰن کو رحمان مت کہو۔ اگر لفظ مشترک ہو تو مخلوق پر اس انداز سے نہ بولو جس سے خلاق کو یاد کرنا چاہیے۔- (٢) ” اپنے رب کے نام کی تسبیح کر “ یا ” اپنے رب کی تسبیح کر “ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، کیونکہ ” رب “ بھی اس کا نام ہے۔ لفظ ” نام “ اسلئے بڑھایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حقیقت اور کنہ تک تو پہنچ ہی نہیں سکتے، تمہاری رسائی اس کے نام تک ہے، سو اس کی تسبیح کرتے رہو۔ بعض نے فرمایا کہ جب نام کی تسبیح ضرور ٹھہری تو اس کی ذات تو بالا ولیٰ تسبیح کی حق دار ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (اور جو مومن آپ کے ساتھ ہیں) اپنے پروردگار عالیشان کے نام کی تسبیح (و تقدیس) کیجئے جس نے (ہر شی کو) بنایا پھر (اس کو) ٹھیک بنایا ( یعنی ہر شی کو مناسب طور پر بنایا) اور جس نے (جانداروں کے لئے ان کے مناسب چیزوں کو) تجویز کیا پھر (ان جانداروں کو ان چیزوں کی طرف) راہ بتلائی (یعنی ان کی طبائع میں ان اشیاء کا تقاضا پیدا کردیا) اور جس نے (سبز خوشنما) چارہ (زمین سے) نکالا پھر اس کو سیاہ کوڑا کردیا (اول عام تصرفات مذکور ہیں، پھر حیوانات کے متعلق پھر نباتات کے متعلق مطلب یہ ہے کہ طاعات کے ذریعہ آخرت کی تیاری کرنا چاہئے جہاں اعمال پر جزا و سزا ہونے والی ہے اور اسی اطاعت کا طریقہ بتلانے کے لئے ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور آپ کو اس کی تبلیغ کے لئے مامور کیا ہے سو اس قرآن کی نسبت ہم وعدہ کرتے ہیں کہ) ہم (جتنا) قرآن (نازل کرتے جاویں گے) آپ کو پڑھادیا کریں گے (یعنی یاد کرادیا کریں گے) پھر آپ ( اس میں سے کوئی جز) نہیں بھولیں گے مگر جسقدر (بھلانا) اللہ کو منظور ہو ( کہ نسخ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کما قال تعالیٰ ما ننسخ من ایة اوننسھا سو وہ البتہ آپ کے اور سب کے ذہنوں سے فراموش کردیا جاوے گا، اور یہ یاد رکھانا اور فراموش کردینا سب قرین حکمت ہوگا کیونکہ) وہ ہر ظاہر اور مخفی کو جانتا ہے (اس لئے اس سے کسی چیز کی مصلحت مخفی نہیں، تو جب کسی چیز کا محفوظ رکھنا مصلحت ہوتا ہے محفوظ رکھتے ہیں، اور جب بھلادینا مصلحت ہوتا ہے تو بھلا دیتے ہیں) اور (جیسا ہم آپ کے لئے قرآن کا یاد ہونا آسان کردیں گے اسی طرح) ہم اس آسان (شریعت کے ہر حکم پر چلنے) کے لئے آپ کو سہولت دیدیں گے (یعنی سمجھنا بھی آسان ہوگا اور عمل بھی آسان ہوگا اور تبلیغ بھی آسان ہوجاوے گی اور مزاحمتوں کو دفع کردیں گے، اور شریعت کی صفت یسری لانا بطور مدح کے ہے یا اسلئے کہ وہ سبب ہے یسر کا، اور جب ہم آپ کے لئے وحی کے متعلق ہر کام آسان کردینے کا وعدہ کرتے ہیں) تو آپ (جس طرح خود تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اس طرح دوسروں کو بھی) نصیحت کیا کیجئے اگر نصیحت کرنا مفید ہوتا ہو (مگر جیسا کہ ظاہر اور معلوم ہے کہ نصیحت اپنی ذات میں ہمیشہ مفید ہی ہوتی ہے کما قال تعالیٰ فان الذکری تنفع المومنین حاصل یہ ہوا کہ جب نصیحت نفع کی چیز ہے تو آپ نصیحت کرنے کا اہتمام کریں، مگر باوجود اسکے کہ نصیحت اپنی ذات میں نافع و مفید ہے اس سے یہ نہ سمجھئے کہ وہ سب ہی کے لئے مفید ہوگی اور سب ہی اس کو مان لیں گے بلکہ) وہی شخص نصیحت مانتا ہے جو (خدا سے) ڈرتا ہے اور جو سخت بدنصیب ہے وہ اس سے گریز کرتا ہے جو (آخر کار) بڑی آگ میں (یعنی آتش دوزخ میں جو دنیا کی سب آگوں سے بڑی ہے) داخل ہوگا پھر (اس سے بڑھ کر یہ کہ) نہ اس میں مرہی جاوے گا اور نہ (آرام کی زندگی) جئے گا ( یعن یجس جگہ نصیحت قبول کرنے کی شرط موجود نہیں ہوتی وہاں اگرچہ اس کا اثر ظاہر نہ ہو مگر نصیحت فی نفسہ نافع ومفید ہی ہے، اور آپ کے ذمہ اسکے واجب ہونے کے لئے یہی کافی ہے۔ خلاصہ اول سورت سے یہاں تک کا یہ ہوا کہ آپ اپنی بھی تکمیل کیئجے اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ کیجئے کہ ہم آپ کے معاون ہیں۔ آگے اس کی تفصیل ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں) بامراد ہوا جو شخص (قرآن سنکر عقائد باطلہ اور اخلاق ذیلہ سے) پاک ہوگیا اور اپنے رب کا نام لیتا اور نماز پڑھتا رہا (مگر اے منکرو تم قرآن سن کر اس کو نہیں مانتے اور آخرت کا سامان نہیں کرتے) بلکہ تم دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو حالانکہ آخرت (دنیا سے) بدر جہابہتر اور پائیدار ہے ( اور یہ مضمون صرف قرآن ہی کا دعویٰ نہیں بلکہ) یہ مضمون اگلے صحیفوں میں بھی ہے، یعنی ابراہیم و موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں (روح المعافی میں عبدبن حمید کی روایت سے حدیث مرفوع مذکور ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر دس صحیفے نازل ہوئے اور موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کے نزول سے پہلے دس صحیفے نازل ہوئے) - معارف ومسائل - مسئلہ : علماء نے فرمایا ہے کہ قاری جب سبح اسم ربک الاعلے ٰ کی تلاوت کرے تو مستحب ہے کہ یہ کہے سبحان ربی الاعلی، صحابہ کرام حضرت عبداللہ بن عباس، ابن عمر، ابن زبیر، ابو موسیٰ اور عبداللہ بن مسعود (رض) اجمعین کا یہی معمول تھا کہ جب یہ سورت شروع کرتے تو سبحان ربی الاعلیٰ کہا کرتے تھے (قرطبی) یعنی نماز کے سوا جب تلاوت کریں تو ایسا کہنا مستحب ہے۔- مسئلہ : حضرت عقبہ بن عامرجہنی سے روایت ہے کہ جب سورة سبح اسم ربک الاعلی نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اجعلوھا فی سجود کم یعنی یہ کلمہ سبحان ربی الاعلیٰ اپنے سجدہ میں کہا کرو سبح اسم ربک الاعلیٰ ، تسبیح کے معنی پاک رکھنے اور پاکی بیان کرنے کے ہیں، سبح اسم ربک کے معنی یہ ہیں کہ اپنے رب کے نام کو پاک رکھئے، اور ہر ایسی چیز سے اس کے نام کو پاک رکھئے جو اسکے شایاں نہیں، اس میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان ناموں سے پکاریئے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بیان فرمائے ہیں یا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلائے ہیں ان کے سوا کسی اور نام سے اس کو پکارنا جائز نہیں۔- مسئلہ : اسی طرح اس حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ جو نام اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے وہ کسی مخلوق کیلئے استعمال کرنا اس کی تنزیہہ و تقدیس کے خلاف ہے اسلئے جائز نہیں (قرطبی) جیسے رحمن، رزاق، غفار، قدوس وغیرہ آجکل اس معاملے میں غفلت بڑھتی جارہی ہے، لوگوں کو ناموں کے اختصار کا شوق ہے، عبدالرحمن کو رحمن، عبدالرزاق کو رزاق، عبدالغفار کو غفار بےتکلف کہتے رہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا کہنے والا اور سننے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں اور یہ گناہ بےلذت رات دن بلاوجہ ہوتا رہتا ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ اسم سے مراد خود مسمی کو ذات مراد لی ہے اور عربی زبانکے اعتبار سے اس کی گنجائش بھی ہے اور قرآن کریم میں بھی اس معنے کے لئے استعمال ہوا ہے، اور حدیث میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کلمہ کو نماز کے سجدے میں پڑھنے کا حکم دیا اس کی تعمیل میں جو کلمہ اختیار کیا گیا وہ سبحان اسم ربک الاعلیٰ نہیں بلکہ سبحان ربی الاعلیٰ ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسم اس جگہ مقصود نہیں خود مسمیٰ مراد ہے۔ (قرطبی) واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى۝ ١ ۙ- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- علي - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] - ( ع ل و ) العلو - العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت - واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) آپ اپنے پروردگار کے حکم سے نماز پڑھیے، یا یہ کہ اس کی توحید بیان کیجیے، یا یہ کہ سجدہ میں سبحان ربی الاعلی کہیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی ۔ ” پاکی بیان کرو اپنے رب کے نام کی جو بہت بلند وبالا ہے۔ “- یہ حکم یوں بھی ہوسکتا تھا کہ ” اپنے رب کی پاکی بیان کرو “ لیکن یہاں خصوصی طور پر اسم (نام) کا لفظ اس لیے آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے تصور سے وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے۔ اس کی ذات کے ساتھ ہمارا ذہنی و قلبی تعلق صرف اور صرف اس کے ناموں کے حوالے سے ہے۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے : وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص (الاعراف : ١٨٠) ” اور تمام اچھے نام اللہ ہی کے ہیں ‘ تو پکارو اسے اُن (اچھے ناموں) سے “۔ چناچہ ہم انسان اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں یا اس کی تسبیح وتحمید کرنا چاہیں تو ظاہر ہے اس کے اسماء کے حوالے سے ہی کرسکتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :1 1 ۔ لفظی ترجمہ ہو گا اپنے ربِ برتر کے نام کو پاک کرو ۔ اس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی مراد ہیں ۔ ( 1 ) اللہ تعالی کو ان ناموں سے یاد کیا جائے جو اس کے لائق ہیں اور ایسے نام اس کی ذات برتر کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے موزوں نہیں ہیں ، یا جن میں اس کے لیے نقص یا گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہے ، یا جن میں اس کی ذات یا صفات یا افعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہے ۔ اس غرض کے لیے محفوظ ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں ، یا جو دوسری زبان میں ان کا صحیح ترجمہ ہوں ۔ ( 2 ) اللہ کے لیے مخلوقات کے نام ، یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے نام استعمال نہ کیے جائیں ۔ اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالی کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے ، مثلاً رؤف ، رحیم ، کریم ، سمیع ، بصیر وغیرہ ، تو ان میں یہ احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اس طریقے پر نہ ہو جس طرح اللہ کے لیے ہوتا ہے ۔ ( 3 ) اللہ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے ، کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو ، مثلاً ہنسی مذاق میں یا بیت الخلاء میں یا کوئی گناہ کرتے ہوئے اس کا نام لینا ، یا ایسے لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا جو اسے سن کر گستاخی پر اتر آئیں ، یا ایسی مجلسوں میں اس کا نام لینا جہاں لوگ بیہودگیوں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق میں اڑا دیں ، یا ایسے موقع پر اس کا نام پاک زبان پر لانا جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا ۔ امام مالک کے حالات میں منقول ہے کہ جب کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا اور وہ اس وقت اسے کچھ نہ دے سکتے تو عام لوگوں کی طرح اللہ دے گا نہ کہتے بلکہ کسی اور طرح معذرت کر دیتے تھے ۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سائل کو جب کچھ نہ دیا جائے اور اس سے معذرت کر دی جائے تو لامحالہ اسے ناگوار ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر میں اللہ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اسے ناگواری کے ساتھ سنے ۔ احادیث میں حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں سجان ربی الاعلی پڑھنے کا حکم اسی آیت کی بنا پر دیا تھا ، اور رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھنے کا جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا تھا وہ سورہ واقعہ کی آخری آیت فسبخ باسم ربک العظیم ۔ پر مبنی تھا ( مسند احمد ، ابو داؤد ، ابن ماجہ ، ابن حبان ، حاکم ، ابن المنذر ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani