5۔ 1 گھاس خشک ہوجائے تو اسے غثاء کہتے ہیں، احوی سیاہ کردیا۔
[٥] مَرعٰی کا لغوی معنی چارہ ہے۔ یعنی جانوروں کی خوراک جو تازہ ہو یعنی گھاس وغیرہ تاہم اس کے وسیع معنوں میں تمام نباتات بھی شامل ہے۔ یعنی اللہ ہی ہے جو زمین پر بہار اور موسم بہار لاتا ہے۔ پھر موسم خزاں بھی لاتا ہے۔ اور اس تازہ نباتات کے فالتو اجزا خس و خاشاک بن کر پاؤں کے نیچے مسلے جاتے ہیں۔ لہذا تم لوگوں کو اس دنیا کی بہار پر ہی فریفتہ نہ ہوجانا چاہئے اس پر خزاں بھی آسکتی ہے۔
فَجَعَلَہٗ غُثَاۗءً اَحْوٰى ٥ ۭ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- غثا - الغُثَاءُ : غُثَاءُ السّيل والقدر، وهو ما يطفح ويتفرّق من النّبات الیابس، وزبد القدر، ويضرب به المثل فيما يضيع ويذهب غير معتدّ به، ويقال : غَثَا الوادي غَثْواً ، وغَثَتْ نفسُه تَغْثِي «4» غَثَيَاناً : خبثت .- ( غ ث و ) الغثاء ہانڈی کے جھاگ اور اس کو ڑاکرکٹ کہتے ہیں جسے سیلاب بہا کر لاتا ہے اور یہ ہر اس چیز کے لئے ضرب المثل ہے جسے ( بوجہ بےسود ہونے کے ) ضائع ہونے دیا جائے اور اس کی کچھ بھی پرواہ نہ کی جائے ۔ اسی سے کہا جاتا ۔ غثا الوادی ( ن ) غثو ا یعنی وادی میں کوڑا کرکٹ زیادہ ہوگیا ۔ غثت ( ض ) نفسہ تغثی غثیانا اس کی طبیعت خراب ہوگئی ۔- حوایا - الحَوَايَا : جمع حَوِيَّة، وهي الأمعاء ويقال للکساء الذي يلفّ به السّنام : حويّة، وأصله من :- حَوَيْتُ كذا حَيّاً وحَوَايَةً «قال اللہ تعالی: أَوِ الْحَوایا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ [ الأنعام 146]- قوله عزّ وجلّ : فَجَعَلَهُ غُثاءً أَحْوى[ الأعلی 5] ، أي : شدید السّواد وذلک إشارة إلى الدّرين نحو :- وطال حبس بالدّرين الأسود وقیل تقدیره : والّذي أخرج المرعی أحوی، فجعله غثاء، والحُوَّة : شدّة الخضرة، وقد احْوَوَى يَحْوَوِي احْوِوَاءً ، نحو ارعوی، وقیل ليس لهما نظیر، وحَوَى حُوَّةً ، ومنه : أَحْوَى وحَوَّاء - ( ح و ی ) الحوایا ( انتڑیاں ) یہ حویۃ کی جمع ہے جس کے معنی آنت کے ہیں قرآن میں ہے ۔ أَوِ الْحَوایا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ [ الأنعام 146] یا انتڑیوں میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو ۔ اور حویۃ اس کمبل کو بھی کہتے ہیں جو اونٹ کی کوہان کے ارد گرد لپٹا جاتا ہے ۔ یہ اصل میں حویت ( ض ) حیا وحویۃ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی جمع کرنے کے ہیں ۔ الاحویٰ کالا سیاہ مائل بہ سبزی یہ حوۃ سے مشتق ہے جس کے معنی سبزی مائل سیاہی ہیں اور اس کا باب احوویٰ یحوویٰ احوواء آتا ہے جیسے ادعویٰ بعض نے کہا ہے کہ اس وزن پر یہ دو باب ہی آتے ہیں ولا ثالث نھما حوی ہے جس کے معنی سخت سیاہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَهُ غُثاءً أَحْوى[ الأعلی 5] پھر اس کو سیاہ رنگ کا کوڑا کردیا ۔ یہاں احویٰ سے مراد وہ گھا س جو پرانی بوسیدہ ہوکر سیاہ پڑجائے ۔ جس کے متعلق شاعر نے کہا ہے ع محبوس ہوں ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت کی ترتیب اصل یہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ سبز چارہ اگاتا ہے ہے پھر اس کو کوڑا بنا دیتا ہے ۔
آیت ٥ فَجَعَلَہٗ غُثَآئً اَحْوٰی ۔ ” پھر اس کو کردیا سیاہ چورا۔ “- یعنی اسی کے طے کردہ نظام کے تحت گھاس اور نباتات وغیرہ زمین سے اگتے ہیں اور پھر گل سڑ کر ختم ہوجاتے ہیں۔
سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :6 یعنی وہ صرف بہار ہی لانے والا نہیں ہے ، خزاں بھی لانے والا ہے ۔ تمہاری آنکھیں اس کی قدرت کے دونوں کرشمے دیکھ رہی ہیں ۔ ایک طرف وہ ایسی ہری بھری نباتات اگاتا ہے جن کی تازگی و شادابی دیکھ کر دل خوش ہو جاتے ہیں ، اور دوسری طرف اسی نباتات کو وہ زرد ، خشک اور سیاہ کر کے ایسا کوڑا کرکٹ بنا دیتا ہے جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور سیلاب خس و خاشاک کی صورت میں بہا لے جاتے ہیں ۔ اس لیے کسی کو بھی یہاں اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ وہ دنیا میں صرف بہار ہی دیکھے گا ، خزاں سے اس کو سابقہ پیش نہیں آئے گا ۔ یہی مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دوسرے انداز میں بیان ہوا ہے ۔ مثلاً ملاحظہ ہو سورہ یونس 24 ۔ سورہ کہف ، آیت 45 ۔ سورہ حدید ، آیت 20 ) ۔
2: اشارہ اس طرف ہے کہ اس دُنیا میں ہر چیز اﷲ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ کچھ عرصے اپنی بہار دِکھانے کے بعد وہ بد شکل اور پھر فنا ہوجاتی ہے۔