واکواب موضوعتہ :” اکواب “” کو ب “ کی جمع ہے، وہ پیالے جن کی نہ دستی ہو نہ ٹونٹی۔
بعض آداب معاشرت :- واکواب موضوعة اکواب، کو ب کی جمع ہے، پانی پینے کے برتن کو کہا جاتا ہے جیسے آبغورے، گلاس وغیرہ اس کی صفت میں لفظ موضوعہ یعنی اپنی مقررہ جگہ پر پانی کے قریب رکھے ہوئے ہوں گے۔ یہ فرما کر آداب معاشرت کے ایک اہم باب کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ پانی پینے کے برتن پانی کے قریب مقررہ جگہ پر رہنے چاہئیں وہاں سے ادھر ادھر ہوجائیں اور پانی پینے کے وقت تلاش کرنا پڑے یہ ایذاو تکلیف کی چیز ہے اس لئے ہر شخص کو اس کا اہتمام چاہئے کہ ایسی استعمالی چیزیں جو سب گھر والوں کے کام میں آتی ہے جیسے لوٹے، گلاس، تولیہ وغیرہ ان کی جگہ مقرر رہنی چاہئے اور استعمال کرنے کے بعد اس کو وہیں رکھنا چاہئے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ یہ اشارہ لفظ موضوعہ سے اس لئے نکلا کہ حق تعالیٰ نے اہل جنت کی راحت و آسائش کے لئے اس کے ذکر کا اہتمام فرمایا کہ ان کے پانی پینے کے برتن پانی کے قریب رکھے ہوئے ملیں گے۔
وَّاَكْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ ١٤ ۙ- كوب - الْكَوْبُ : قدح لا عروة له، وجمعه أَكْوَابٌ. قال : بِأَكْوابٍ وَأَبارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة 18] . والْكُوبَةُ : الطّبل الّذي يُلْعَبُ به .- ( ک و ب ) الکوب ۔ پیالہ جس کا دستہ نہ ہو ۔ اس کی جمع اکواب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بِأَكْوابٍ وَأَبارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة 18] یعنی آبخور اور آفتابے اور صاف شراب کے گلاس ۔ الکوبۃ ( ڈکڑگی ) یعنی باریک میاں طبلکجو تماشہ کے وقت مداری بجاتے ہیں ۔- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔
سورة الْغَاشِیَة حاشیہ نمبر :6 یعنی ساغر بھرے ہوئے ہر وقت ان کے سامنے موجود ہوں گے ۔ اس کی حاجت ہی نہ ہو گی کہ وہ طلب کر کے انہیں منگوائیں ۔