4۔ 1 یعنی کافروں کے چہرے، خاشعۃ جھکے ہوئے، پست اور ذلیل، جیسے نمازی، نماز کی حالت میں عاجزی سے جھکا ہوتا ہے۔
[٢] اس دن تمام مخلوق دو گروہوں میں بٹ جائے گی۔ ایک وہ جو اس دنیا میں اللہ کے فرمانبردار بن کر رہے۔ اور دوسرے وہ جو نافرمان اور باغی ہوں گے۔ نافرمان لوگوں کا پہلے ذکر فرمایا چونکہ ان لوگوں کو اپنی کرتوتوں کا علم ہوگا۔ لہذا اعمال نامے دیئے جانے اور حساب کتاب اور فیصلہ سے پہلے ہی ان کے چہرے اترے ہوئے اور خوفزدہ ہوں گے کیونکہ انہیں اپنا انجام نظر آ رہا ہوگا۔
معارف ومسائل - وجوہ یومذ خاشعة عاملة ناصبة قیامت میں دو فریق مومن و کافر الگ الگ ہوجائینگے انکے چہرے الگ الگ پہچانے جائیں گے۔ ان کے چہرے الگ الگ پہچانے جائیں گے۔ اس آیت میں کافروں کے چہروں کا ایک حال یہ بتلایا ہے کہ وہ خاشعہ ہوں گے، خشوع کے معنے جھکنے اور ذلیل ہونے کے ہیں۔ نماز میں خشوع کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے مجھکے اور ذلت و پستی کے آثار اپن وجود پر طاری کرے۔ جن لوگوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و تذلل اختیار نہیں کیا اس کی سزا ان کو قیامت میں یہ ملے گی کہ وہاں ان کے چہروں پر ذلت اور رسوائی کے آثار نمایاں ہوں گے۔- دوسرا اور تیسرا حال ان کے چہروں کا یہ بیان فرمایا کہ عاملہ، ناصبہ ہوں گے، عاملہ کے لفظی سمعنے عمل اور محنت کرنے والے کے ہیں۔ محاورات میں عامل اور عاملہ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو مسلسل عمل اور محنت سے تھکا ماندہ چور ہوگیا ہو اور ناصبہ نصب سے مشتق ہے اس کے معنے بھی تھکنے اور تعب و مشقت میں پڑجانے کے ہیں۔ کفار و مجرمین کے یہ دو حال کہ عمل اور محنت سے تھکے درماندہ ہوں گے ظاہر یہ ہے کہ یہ حال ان کی دنیا کا ہے کیونکہ آخرت میں تو کوئی عمل اور محنت نہیں، اسی لئے قرطبی وغیرہ مفسرین نے اس کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ پہلا حال یعنی چہروں پر ذلت و رسوائی یہ تو آخرت میں ہوگا اور عاملہ، ناصبہ کے دونوں حال ان لوگوں کے دنیا ہی میں ہوتے ہیں کیونکہ بہت سے کفار فجار مشرکانہ عبادت اور باطل طریقوں میں ماجہدہ و ریاضت دنیا میں کرتے رہتے ہیں۔ ہندوؤں کے جوگی، نصاریٰ کے راہب بہت سے ایسے بھی ہیں جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کی رضا جوئی کے لئے دنیا میں عبادت و ریاضت کرتے ہیں اور اس میں محنت شاقہ برداشت کرتے ہیں مگر وہ عبادت مشرکانہ اور باطل طریقہ پر ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی اجر وثواب نہیں رکھتی تو ان لوگوں کے چہرے دنیا میں بھی عاملہ ناصبہ رہے اور آخرت میں ان پر ذلت و رسوائی کی سیاہی چھائی ہوگی۔- حضرت حسن بصری (رح) نے روایت کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم جب ملک شام میں تشریف لے گئے تو ایک نصرانی راہب آپ کے پاس آیا جو بوڑھا تھا اور اپنے مذہب کی عبادت و ریاضت اور مجاہدہ و محنت میں لگا ہوا تھا۔ محنت سے اس کا چہرہ بگڑا ہوا، بدن خشک لباس خستہ و بدہیبت تھا، جب فاروق اعظم نے اس کو دیکھ اتو آپ رو پڑے لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو فاروق اعظم نے فرمایا کہ مجھے بوڑھے کے حال پر رحم آیا کہ اس بیچارے نے ایک مقصد کے لئے بڑی محنت و جانفشانی کی مگر وہ اس مقصد یعنی رضائے الٰہی کو نہیں پاسکا اور اس ضر حضرت عمر نے یہ آیت تلاوت فرمائی وجوہ یومئذ خاشعة، عاملہة ناصبتة (قرطبی)
وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَۃٌ ٢ ۙ- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )
(٢۔ ٣) قیامت کے دن منافقین اور کافروں کی صورتیں عذاب سے ذلیل اور عذاب میں جانے والی خستہ اور درماندہ ہوں گی، یا یہ کہ دنیا میں مصیبت زدہ اور آخرت میں خستہ اور درماندہ ہوں گے اور یہ جماعت راہبوں اور گرجا والوں کی ہے یا یہ کہ خارجی ہیں۔
آیت ٢ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۔ ” بہت سے چہرے اس دن ذلیل ہوں گے۔ “- یہ مضمون اس سے پہلے سورة القیامہ اور سورة عبس میں بھی آچکا ہے۔ سورة القیامہ میں اس صورت حال کا نقشہ یوں دکھایا گیا ہے : وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ - اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ - وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍم بَاسِرَۃٌ - تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ ۔ ” کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے ‘ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے اور کچھ چہرے اس دن افسردہ ہوں گے۔ خیال کر رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ سلوک ہونے والا ہے “۔ جبکہ سورة عبس میں یہی کیفیت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے : وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ - ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ - وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ - تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ ۔ ” اس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے۔ مسکراتے ہوئے خوش و خرم۔ اور کچھ چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے۔ ان پر سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔ “
سورة الْغَاشِیَة حاشیہ نمبر :2 چہروں کا لفظ یہاں اشخاص کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چونکہ انسان کے جسم کی نمایاں ترین چیز اس کا چہرہ ہے جس سے اس کی شخصیت پہچانی جاتی ہے ، اور انسان پر اچھی یا بری کیفیات بھی گزرتی ہیں ان کا اظہار اس کے چہرے سے ہی ہوتا ہے ، اس لیے کچھ لوگ کہنے کے بجائے کچھ چہرے کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔