Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعنی کس طرح اسے ہموار کر کے انسان کے رہنے کے قابل بنایا ہے وہ اس پر چلتا پھرتا ہے کاروبار کرتا ہے اور فلک بوس عمارتیں بناتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] خانہ بدوشوں کی کل کائنات کیا تھی ؟ اور اللہ کی نشانیاں :۔ ان خانہ بدوش بدوؤں کی زندگی کے مشاہدات کیا تھے ؟ بس یہی کہ ادھر ادھر منتقل ہونے کے لیے اونٹ جو ان کی سواری اور بار برداری کا کام دیتا تھا۔ اوپر آسمان تھا، نیچے زمین اور اردگرد پھیلے ہوئے طویل سلسلہ ہائے کوہ۔ یہی چیزیں ان کی کل کائنات تھی۔ ان میں ایک ایک چیز کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ آسمان کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اس میں لاکھوں اور کروڑوں سیارے محو گردش ہیں۔ زمین کی یہ کیفیت ہے کہ گول ہونے کے باوجود جتنا بھی اس پر سفر کرتے جاؤ ہموارہی نظر آتی ہے۔ اور یہ بھی زمین کی وسعت کی دلیل ہے۔ پہاڑ زمین پر اس طرح گاڑ دیئے گئے ہیں کہ خود تو اپنی جگہ سے ذرا بھر نہیں ہلتے البتہ زمین کے ہلنے اور ڈگمگانے کو ختم کردیا ہے۔ ان لوگوں سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ کیا ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا کہ اونٹ کیسے بن گئے ؟ اتنا بڑا آسمان بنانے والا کون ہے ؟ یہ پہاڑ زمین میں کیسے نصب ہوگئے۔ اور یہ زمین کیسے بچھ گئی۔ یہ ساری چیزیں اگر اللہ تعالیٰ بنا سکتا ہے تو آخر دوسرا عالم کیوں نہیں بناسکتا اور قیامت کیوں قائم نہیں کرسکتا ؟ کیا انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ ان ساری چیزوں کو اس لیے مان لے کہ انہیں وہ دیکھ رہا ہے اور قیامت اور جنت و دوزخ کا صرف اس بنا پر انکار کردے کہ ان چیزوں کو اس نے دیکھا نہیں یا اس کے تجربہ میں نہیں آئیں ؟ آخر اسے عقل و شعور کس بنا پر عطا کیا گیا ہے ؟ کیا اس لیے کہ جو چیزیں اسے نظر نہیں آتیں بلاسوچے سمجھے ان کا انکار کردے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ۝ ٢٠ ۪- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - سطح - السَّطْحُ : أعلی البیت . يقال : سَطَحْتُ البیت : جعلت له سطحا، وسَطَحْتُ المکان :- جعلته في التّسوية كَسَطْحٍ ، قال : وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ [ الغاشية 20] ، وانْسَطَحَ الرّجل : امتدّ علی قفاه، قيل : وسمّي سَطِيحُ الكاهن لکونه مُنْسَطِحاً لزمانة .- والْمِسْطَحُ : عمود الخیمة الذي يجعل به لها سطحا، وسَطَحْتُ الثّريدة في القصعة : بسطتها .- ( س ط ح ) السطح مکان کے اوپر کے حصے یعنی چھت کو کہتے ہیں اور سطحت البیت کے معنی چھت ڈالنے کے ہیں ۔ لیکن سطحت المکان کے معنی کسی جگہ کو چھت کی طرح ہموار کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ [ الغاشية 20] اور زمین کی طرف ( نہیں دیکھئے ) کہ کس طرح بچھائی گئی ہے انسطح الرجل کے معنی چٹ لیٹنے کے ہیں اور ( بنی ذنب کے ) ایک کاہن کا نام سطیح مشہور ہوگیا تھا کیونکہ وہ زمانت ( کی مرض میں مبتلا ہونے ) کے باعث زمین پر پڑا رہتا تھا ۔ المسطح خیمہ کا ستون جس پر خیمہ نصب کیا جاتا ہے سطحت الثریدۃ فی القصعۃ میں نے پیالہ میں ثرید کو پھیلایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ ۔ ” اور (کیا یہ دیکھتے نہیں) زمین کی طرف کہ کیسے بچھا دی گئی ہے “- ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے چند نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مضمون قرآن میں بار بار آیا ہے لیکن ان آیات میں خصوصی طور پر قرآن مجید کے مخاطبین اوّلین سے خطاب ہے۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں سرزمین حجاز کے باشندوں کا زیادہ تر وقت صحرائی مسافتوں میں گزرتا تھا ‘ جیسا کہ سورة قریش کی آیت رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ میں بھی ذکر ہوا ہے۔ چناچہ اپنے سفروں کے دوران جس ماحول سے ان لوگوں کا دن رات واسطہ رہتا تھا ان آیات میں اسی ماحول کی چار چیزوں کو گنوا کر انہیں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ یعنی ایک وہ اونٹ جو ان کے صحرائی سفر کی واحد سواری تھی ‘ اوپر آسمان ‘ نیچے زمین اور اطراف و جوانب میں پہاڑی سلسلے۔ یہ تھا وہ ماحول جس میں عام طور پر ان لوگوں کے شب وروز گزرتے تھے۔- بہرحال قرآن مجید کی ایسی تمام آیات صاحب شعور انسانوں کو دعوت ِفکر دیتی ہیں کہ تم لوگ ان مظاہر ِ فطرت کو غور سے دیکھا کرو۔ ان میں سے ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کی نشانی اور اس کی صناعی و خلاقی کا نمونہ ہے : - اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۔ - ” یقینا آسمان اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ان کشتیوں (اورجہازوں) میں جو سمندر میں (یا دریائوں میں) لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں اور اس پانی میں کہ جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد ‘ اور ہر قسم کے حیوانات (اور چرند پرند) اس کے اندر پھیلادیے ‘ اور ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو معلق کردیے گئے ہیں آسمان اور زمین کے درمیان ‘ یقینا نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔ “ - اسی حقیقت کو شیخ سعدی (رح) نے اپنے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے :- برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار - ہر ورقش دفترے است معرفت ِکردگار - کہ ایک صاحب شعور انسان کے لیے سبز درختوں کا ایک ایک پتا ّگویا معرفت ِخداوندی کا دفتر ہے۔ شیخ سعدی (رح) نے تو اپنے زمانے میں یہ بات اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر کہی تھی لیکن آج سائنسی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ سبز درختوں کا ایک ایک پتا ّدراصل کی فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹریاں سارا دن آکسیجن بنانے اور سورج کی روشنی کو جذب کرکے درختوں کی لکڑی کی طرف منتقل کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔- ظاہر ہے یہ صفحات ایسی مثالوں کی تفصیل کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اس حوالے سے انسان کے سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کو محض حیوانی آنکھ سے نہیں بلکہ عقل اور شعور کی نظر سے دیکھے۔ علامہ اقبال نے اس حوالے سے ” زبورِعجم “ میں کیا پتے کی بات کہی ہے :- دم چیست ؟ پیام است ‘ شنیدی نشنیدی - در خاکِ تو یک جلوئہ عام است ندیدی - دیدن دگر آموز ‘ شنیدن دگر آموز - کہ اے غافل انسان تمہارا ہر سانس اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے۔ کیا تم نے اس پیغام کو کبھی سنا ؟ نہیں سنا اور تمہاری اس خاک (حیوانی جسم) کے اندر ایک جلوئہ ربانی (نورانی روح ) بھی پوشیدہ ہے ‘ لیکن تم نے اس جلوے کو کبھی دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ چناچہ تمہیں چاہیے کہ تم اس کائنات کی چیزوں کو حیوانی آنکھوں سے دیکھنا اور حیوانی کانوں سے سننا چھوڑو اور انسانوں کا سا دیکھنا اور سننا سیکھو۔ تم اشرف المخلوقات ہو ‘ تمہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور سمیت بہت سی اعلیٰ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے ‘ ان صلاحیتوں کو استعمال میں لائو ۔ مظاہر فطرت اور دوسری چیزوں کو دیکھو اور ان پر غور کرو : خَلَقَ لَـکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاق (البقرۃ : ٢٩) یہ زمین پر جو کچھ ہے سب اللہ نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے۔ ان چیزوں پر تحقیق کرو ‘ نئے نئے قوانین فطرت کو تلاش کرو ‘ انہیں کام لائو۔ تمہیں زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت عطا ہوئی ہے۔ اس حیثیت سے خود زمین ‘ اس پر موجود تمام چیزیں ‘ یہ ہوائیں ‘ یہ فضائیں ‘ ستارے ‘ سیارے ‘ کہکشائیں سب تمہارے لیے مسخر ہیں۔ یاد رکھو اگر تم عقل و شعور سے کام لوگے تو ان پر حکومت کرو گے ‘ لیکن اگر تم توہمات میں پڑ جائو گے تو ان چیزوں کے غلام بن جائو گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْغَاشِیَة حاشیہ نمبر :7 یعنی اگر یہ لوگ آخرت کی یہ باتیں سن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہو سکتا ہے تو کیا خود اپنے گرد و پیش کی دنیا میں نظر ڈال کر انہوں نے کبھی نہ سوچا کہ یہ اونٹ کیسے بن گئے؟ آسمان کیسے بلند ہو گیا ؟ یہ پہاڑ کیسے قائم ہو گئے؟ یہ زمین کیسے بچھ گئی؟ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتیں تھیں اور بنی ہوئی ان کے سامنے موجود ہیں تو قیامت کیوں نہیں آ سکتی؟ آخرت میں ایک دوسری دنیا کیوں نہیں بن سکتی؟ دوزخ اور جنت کیوں نہیں ہو سکتیں؟ یہ تو ایک بے عقل اور بے فکر آدمی کا کام ہے کہ دنیا میں آنکھیں کھولتے ہی جن چیزوں کو اس نے موجود پایا ہے ان کے متعلق تو وہ یہ سمجھ لے کہ ان کا وجود میں آنا تو ممکن ہے کیونکہ یہ وجود میں آئی ہوئی ہیں ، مگر جو چیزیں اس کے مشاہدے اور تجربے میں ابھی نہیں آئی ہیں ان کے بارے میں وہ بے تکلف یہ فیصلہ کر دے کہ ان کا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے دماغ میں اگر عقل ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ جو کچھ موجود ہے یہ آخر کیسے و جود میں آ گیا ؟ یہ اونٹ ٹھیک ان خصوصیات کے مطابق کیسے بن گئے جن خصوصیات کے جانور عرب کے صحراء میں رہنے والے انسانوں کو ضرورت تھی؟ یہ آسمان کیسے بن گیا جس کی فضا میں سانس لینے کے لیے ہوا بھری ہوئی ہے ، جس کے بادل بارش لے کرآتے ہیں ، جس کا سورج دن کو روشنی اور گرمی فراہم کرتا ہے ، جس کے چاند اور تارے رات کو چمکتے ہیں؟ یہ زمین کیسے بچھ گئی جس پر انسان رہتا اور بستا ہے ، جس کی پیداوار سے اس کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں ، جس کے چشموں اور کنوؤں پر اس کی زندگی کا انحصار ہے؟ یہ پہاڑ زمین کی سطح پر کیسے ابھر آئے جو رنگ برنگ کی مٹی اور پتھر اور طرح طرح کی معدنیات لیے ہوئے جمے کھڑے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ کسی قادر مطلق صانع حکیم کی کاریگری کے بغیر ہو گیا ہے؟ کوئی سوچنےاور سمجھنے والا دماغ اس سوال کا جواب نفی میں نہیں دے سکتا ۔ وہ اگر ضدی اور ہٹ دھرم نہیں ہے تو اسے ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ہر چیز ناممکن تھی اگر کسی زبردست قدرت اور حکمت والے نے اسے ممکن نہ بنایا ہوتا ۔ اور جب ایک قا در کی قدرت سے دنیا کی ان چیزوں کا بننا ممکن ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جن چیزوں کے آئندہ وجود میں آنے کی خبر دی جا رہی ہے ان کو بعید از مکان سمجھا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani