21۔ 1 یعنی آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت ہے، اس کے علاوہ یا اس سے بڑھ کر نہیں۔
فذکر انما انت مذکر…: آپ کا کام نصیحت کرنا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں، جیسا کہ فرمایا :- (لا اکراہ فی الدین “ (البقرۃ : ٢٥٦)”’ دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔ “
فَذَكِّرْ ٠ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ ٢١ ۭ- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔
(٢١۔ ٢٦) تو آپ بھی بذریعہ قرآن کریم ان کو نصیحت کردیا کیجیے، آپ ان پر مسلط نہیں ہیں کہ ان کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قتال کا حکم دیا البتہ جو ایمان لانے سے روگردانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ آخرت میں اسے دوزخ کا عذاب دے گا، آخرت میں ہمارے ہی پاس ان کا آنا ہوگا اور دنیا میں ان کی پختگی دنیا اور آخرت میں ثواب و عذاب دینا ہمارا ہی کام ہے۔