[١٠] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام سب کو پہنچا دیں۔ پھر جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں پر کان دھریں انہیں نصیحت کرتے رہیں اور جو اللہ کی آیات کا مذاق اڑائیں ان کے پیچھے نہ پڑیں کیونکہ انہیں زبردستی راہ راست پر لانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔
لَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ ٢٢ ۙ- صطر - صَطَرَ وسَطَرَ واحدٌ. قال تعالی: أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ [ الطور 37] ، وهو مفیعل من السَّطْرِ ، والتَّسْطِيرُ أي : الکتابة، أي : أهم الذین تولّوا کتابة ما قدّر لهم قبل أن خلق، إشارة إلى قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] ، وقوله : فِي إِمامٍ مُبِينٍ [يس 12] ، وقوله : لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ [ الغاشية 22] ، أي : متولّ أن تکتب عليهم وتثبت ما يتولّونه، وسَيْطَرْتُ ، وبَيْطَرْتُ لا ثالث لهما في الأبنية، وقد تقدّم ذلک في السّين - ( ص ط ر ) صطر وسطر ( ن ) کے ایک ہی معنی ہیں یعنی لکھنا ( سیدھی لائنوں میں اور آیت : ۔ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ [ الطور 37] یا یہ ( کہیں کہ ) داروغہ ہیں ۔ میں المصیطرون سطر سے مفعیل کے وزن پر ہے ۔ اور التسطیر جس کے معنی لکھنے کے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ کیا تخلیق سے قبل یہ اپنے نوشتہ تقدیر کے لکھنے پر مقرر تھے ( کہ انہیں ہر بات کا علم ہوچکا ہے یعنی نہیں ) اس میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] یہ سب کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ سب خدا کو آسان ہے ۔ اور آیت فِي إِمامٍ مُبِينٍ [يس 12] اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن ( یعنی لوح محفوظ ) میں لکھ رکھا ہے ۔ کے معنی کی طرف اشارہ ہے اور آیت : لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ [ الغاشية 22] تم ان پر دراوغہ نہیں ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ان پر لکھنے کے لئے مقرر نہیں ہوا اور نہ ہی اس چیز کو ثابت کرنے کے ذمہ دار ہو جس کے یہ متولی بنتے ہیں اور عربی میں سیطرت و یبطرت کے علاوہ تیسرا لفظ اس وزن پر نہیں آتا تشریح کے لئے دیکھئے ( س ط ر)
آیت ٢٢ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ۔ ” آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری صرف تذکیر اور نصیحت تک ہے ‘ کسی کو زبردستی راہ ہدایت پر لانا آپ کا کام نہیں ہے۔
سورة الْغَاشِیَة حاشیہ نمبر :8 یعنی اگر معقول دلیل سے کوئی شخص بات نہیں مانتا تو نہ مانے ، تمہارے سپرد یہ کام تو نہیں کیا گیا ہے کہ نہ ماننے والوں سے زبردستی منواؤ ۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتا دو اور غلط راہ پر چلنے کے انجام سے خبردار کر دو ۔ سو یہ فرض تم انجام دیتے رہو ۔
3: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کافروں کی ہٹ دھرمی سے جو تکلیف ہوتی تھی، اُس پر آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ کہ آپ کا فریضہ صرف تبلیغ کر کے پورا ہوجاتا ہے، آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان بنائیں۔ اس میں ہر مبلغ اور حق کے داعی کے لئے بھی یہ اصول بیان فرمایا گیا ہے کہ اسے اپنا تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے رہنا چاہئے اور یہ نہ سمجھنا چاہئے، کہ وہ ان سے زبردستی اپنی بات منوانے کا ذمہ دار ہے۔