[١٩] نفس مطمئنہ کیا ہے ؟ اس کی وضاحت کے لیے سورة القیامۃ کی آیت نمبر ٢ کا حاشیہ نمبر ٢ ملاحظہ فرمائیے۔
یایھا النفس المطمینۃ :” النفس المطمئنۃ “ اطمینان والی جان، جسے اللہ، اس کے رسول اور ان کے احکام کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، بلکہ پوری تسلی ہے۔
یایتھا النفس المطمئنة، یہاں مومن کی روح کو نفس مطمئنہ کے لقب سے خطاب کیا گیا ہے۔ مطمئنہ کے لفظی معنے ساکنہ کے ہیں۔ مراد وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے سکون وقرار پاتا ہے اسکے ترک سے بےچینی محسوس کرتا ہے اور یہ وہی نفس ہوسکتا ہے جو ریاضات ومجاہدات کرکے اپنی بری عادات اور اخلاق ذیلہ کو دور کرچکا ہو۔ اطاعت حق اور ذکر اللہ اس کا مزاج اور شریعت اس کی طبیعت بن جاتی ہے اس کو خطاب کرکے فرمایا گیا ارجعی الی ربک یعنی لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف، لوٹنے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا مقام بھی اب کے پاس تھا اب وہیں واپس جانیکا حکم ہورہا ہے، اس سے اس روایت کی تقویت ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ مومنین کی ارواح انکے اعمالناموں کے ساتھ علیین میں رہیں گی اور علیین ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے سایہ میں کوئی مقام ہے۔ کل ارواح انسان کا اصلی مسقرد وہی ہے وہیں سے روح لا کر انسان کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور پھر موت کے بعد وہیں واپس جاتی ہے۔
يٰٓاَيَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ ٢٧ - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- طمن - الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] - ( ط م ن ) الطمانینۃ - والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ - وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ - وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔
(30-27) اے عذاب سے اطمینان والی توحید خداوندی کی تصدیق کرنے والی، نعمت خداوندی پر شکر کرنے والی، مصیبتوں پر صبر کرنے والی، قضاء الہی پر راضی ہونے، عطا خداوندی پر قناعت کرنے والی، روح تو ان نعمتوں کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے تیار کر رکھی ہیں، یا اپنے جسم کی طرف جا اس طرح سے کہ تو ثواب خداوندی سے خوش اور اللہ تعالیٰ تیری توحید سے خوش ہو اور پھر ادھر چل کر تو میرے خاص بندوں اور میری جنت میں داخل ہوجا۔- شان نزول یَا ایَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّهُ الخ - ابن ابی حاتم نے بریدہ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت حمزہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور جبیر عن الضحاک کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بئر رومہ کو کون خریدتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے تاکہ اس سے شیریں پانی لیا جاسکے، چناچہ حضرت عثمان (رض) نے اس کو خرید لیا، آپ نے ان سے فرمایا کیا اچھا ہو کہ تم اس کے پانی کو لوگوں کے لیے وقف کردو۔ انہوں نے فرمایا بہت اچھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان (رض) کی فضیلت میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔
آیت ٢٧ یٰٓــاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ ” اے نفس ِمطمئنہ “ ّ- جو اس امتحانی زندگی میں مطمئن ہو کر یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کی بندگی میں لگا رہا اور اس کے دین کے ساتھ چمٹارہا۔
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :18 نفس مطمئن سے مراد وہ انسان ہے جس نے کسی شک و شبہ کے بغیر پورے اطمینان اور ٹھنڈے دل کے ساتھ اللہ وحدہ لا شریک کو اپنا رب اور انبیاء کے لائے ہوئے دین حق کو اپنا دین قرار دیا ، جو عقیدہ اور جو حکم بھی اللہ اور اس کے رسول سے ملا اسے سراسر حق مانا ، جس چیز سے بھی اللہ کے دین نے منع کیا اس سے بادل ناخواستہ نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ رک گیا کہ فی الواقع وہ بری چیز ہے ، جس قربانی کی بھی حق پرستی کی راہ میں ضرورت پیش آئی بے دریغ اسے پیش کر دیا ، جن مشکلات اور تکالیف اور مصائب سے بھی اس راہ میں سابقہ در پیش ہوا انہیں پورے سکون قلب کے ساتھ برداشت کیا ، اور دوسرے راستوں پر چلنے والوں کو دنیا میں جو فوائد اور منافع اور لذائذ حاصل ہوتے نظر آ رہے تھے ان سے محروم رہ جانے پر اسے کوئی حسرت لاحق نہ ہوئی بلکہ وہ اس بات پر پوری طرح مطمئن رہا کہ دین حق کی پیروی نے اسے ان گندگیوں سے محفوظ رکھا ہے ۔ اسی کیفیت کو دوسری جگہ قرآن میں شرح صدر سے تعبیر کیا گیا ہے ( الانعام ، آیت 125 ) ۔
9: یہ قرآنِ کریم کے اصل لفظ ’’نفس مطمئنہ‘‘ کا ترجمہ ہے۔ اس سے مراد اِنسان کا وہ دِل ہے جو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرتے کرتے بالکل سکون پا گیا ہو، اور نافرمانی سے محفوط ہوگیا ہو۔