3۔ 1 اس سے مراد جفت اور طاق عدد ہیں یا وہ معدودات جو جفت اور طاق ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ یہ دراصل مخلوق کی قسم ہے اس لیے کہ مخلوق جفت یا طاق ہے اس کے علاوہ نہیں۔
[٣] شفع اور وتر کا لغوی مفہوم :۔ شَفْعَ : لفظ شَفْعِ کا اطلاق ان اشیاء پر ہوتا ہے جن میں نر و مادہ کی تمیز نہیں اور شفع کے معنی ایک چیز کو اسی جیسی دوسری چیز سے ملا دینا اور اس طرح کرکے دو دو ملی ہوئی چیزوں کو شفع کہتے ہیں۔ اور جس کے ساتھ اس جیسی چیز نہ ہو اسے وتر کہتے ہیں۔ وتر کی بہترین مثال خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور نمازوں میں اس کی مثال نماز مغرب کے فرض ہیں اور عشاء کے آخر میں وتر کی نماز اور وتر کی نماز کو وتر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جتنے بھی پڑھے جائیں۔ مثلاً ایک، تین، پانچ، سات، نو، گیارہ وہ وتر ہی رہیں گے۔ اور وتر حقیقتاً ایک ہی رکعت ہے اب اس کے ساتھ جتنے بھی جفت نفل پڑھے جائیں۔ ایک وتر سب کو وتر بنا دے گا۔ اور اعداد میں ہر وہ ہندسہ جو دو پر تقسیم ہوجائے وہ شفع یا جفت ہے۔ جیسے دو ، چار، چھ، آٹھ وغیرہ اور جو دو پر پورا تقسیم نہ ہو وہ وتر یا طاق ہے۔ جیسے ایک، تین، پانچ، سات وغیرہ۔ مثلاً سات کے وتر ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چھ کے تو تین جوڑے جوڑے بن گئے اور ساتویں وتر نے مل کر سب کو وتر بنادیا۔ کائنات میں اکثر اشیاء میں تو نر و مادہ کی تقسیم پائی جاتی ہے اور جن میں نہیں پائی جاتی ان میں بھی زوج ہوتا ہے۔ جیسے جوتی کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں کا زوج ہے اور جب یہ دونوں اکٹھے ہوگئے تو یہ شفع یا جفت ہوگیا۔ اور بعض ایسی چیزیں ہیں جن کی مثل کوئی اور چیز نہیں ہوتی۔ یہی اشیاء وتر ہیں اور ایسی اشیاء کی موجودگی اور استقلال اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
(والشفع والوتر : جفت وہ عدد ہے جو دو برابر حصوں میں تقسیم ہوجائے، جیسے دو ، چار، چھ وغیرہ اور طاق وہ عدد ہے جو اس طرح تقسیم نہیں ہوتا، مثلاً ایک ، تین، پانچ وغیرہ۔ کائنات کی کوئی بھی چیز گنتی کے وقت ان دو حالتوں سے خالی نہیں۔ تمام چیزیں بڑھتے وقت بھی طاق سے جفت اور جفت سے طاق ہوتی چلی جاتی ہیں اور گھٹتے وقت بھی ۔ مثلاً ایک سے دو ، پھر تین، پھر چار و علیٰ ہذا القیاس اور دس سے نو، پھر آٹھ سے سات و علی ہذا لاقیاس۔
والشفع والوتر، شفع کے لغوی معنے جوڑ کے ہیں جس کو اردو میں جفت کہتے ہیں اور وتر کے معنے طاق اور فرد کے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں یہ متعین نہیں کہ اس جفت اور طاق سے کیا مراد ہے اسلئے ائمہ تفسیر کے اقوال اس میں بیشمار ہیں مگر خود حدیث مرفوع جو ابوالزبیر نے حضرت جابر سے روایت کی ہے اسکے الفاظ یہ ہیں۔- (والفجر ولیال عشر) ھو الصبح وعشر النحر والو تریوم عرفہ والشفع یوم النحر - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے والفجر ولیال عشر کے متعلق فرمایا کہ فجر سے مراد صبح اور عشر سے مراد عشرہ نحر ہے (اور یہ عشرہ ذی الحجہ کا پہلا ہی عشرہ ہوسکتا ہے جس میں یوم نحر شامل ہے) اور فرمایا کہ وتر سے مراد روز عرفہ اور شفع سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے۔- قرطبی نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ یہ اسناد کے اعتبار سے اصح ہے بہ نسبت دوسری حدیث کے جو حضرت عمر ان بن حصین کی روایت سے نقل ہوئی ہے جس میں شفع ووتر نماز کا ذکر ہے۔ اسی لئے حضرت ابن عباس، عکرمہ (رح) ، نحاس (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ شفع سے مراد یوم النحر اور وتر سے مراد یوم عرفہ ہے۔ اور بعض ائمہ تفسیر ابن سیرین، مسروق، ابوصالح، قتادہ نے فرمایا کہ شفع سے مراد تمام مخلوقات ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سب مخلوقات کو جوڑ جوڑ جفت پیدا کیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے ومن کل شیء خلقنا زوجین، یعنی ہم نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے۔ کفر و ایمان، شقادت وسعادت، نورو ظلمت، لیل ونہار، سردی گرمی، آسمان و زمین، جن وانس، مرد و عورت اور ان سب کے بالمقابل وتر وہ صرف اللہ جل شانہ کی ذات ہے ھو اللہ الاحد الصمد، والیل اذایسر، یسر، سری سے مشتق ہے جس کے معنے رات کو چلنے کے ہیں۔ یہاں خود رات کو کہا گیا کہ جب وہ چلنے لگے یعنی ختم ہونے لگے۔ یہ پانچ قسمیں ذکر فرمانے کے بعد حق تعالیٰ نے غفلت شعار انسان کو ایک خاص انداز میں سوچنے سمجھنے کی دعوت دینے کے لئے فرمایا ھل فی ذلک قسم لذی حجر، حجر کے لفظی معنے روکنے کے ہیں انسان کی عقل اس کی برائی اور مضرت رساں چیزوں سے روکنے والی ہے اسلئے حجر بمعنے عقل بھی استعمال ہوتا ہے یہاں یہی معنے مراد ہیں۔ معنے آیت کے یہ ہیں کہ کیا عقل والے آدمی کے لئے یہ قسمیں بھی کافی ہیں یا نہیں۔ یہ صورت تو استفہام کی ہے مگر درحقیقت انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کی ایک تدبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت شان پر اور اسکے قسم کھا کر ایک بیان کو بیان کرنے پر اور خود ان چیزوں کی عظمت پر جن کی قسم کھائی گئی ہے ذرا سا غور کرو تو جس چیز کے لئے یہ قسم کھائی گئی اس کا یقینی ہونا ثابت ہوجائے گا اور وہ چیز یہی ہے کہ انسان کے ہر عمل کا آخرت میں حساب ہونا اور اس پر جزا وسزا ہونا شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ یہ جواب قسم اگرچہ صراحة مذکور نہیں مگر سباق کلام سے ثابت ہے اور آگے جو کفار پر عذاب آنیکا بیان ہو رہا ہے وہ بھی اسی کا بیان ہے کہ کفر و معصیت کی سزا آخرت میں تو ملنا طے شدہ ہی ہے کبھی کبھی دنیا میں بھی ایسے لوگوں پر عذاب بھیج دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تین قوموں کے عذاب کا ذکر فرمایا۔ اول قوم عاد، دوسرے ثمود، تیسرے قوم فرعون، عادوثمود دو قومیں جنکا سلسلہ نسب اوپر جاکر ارم میں ملجاتا ہے اس طرح نفط ارم عادوثمود دونوں کے لئے بولا جاسکتا ہے۔ یہاں صرف عاد کے ساتھ ارم کا ذکر کرنے کی وجہ خلاصہ تفسیر میں عادوثمود کے دونوں قوموں کے تحقیقی حالات کے ساتھ گزرچکی ہے۔
وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ ٣ ۙ- شفع ( جفت)- الشَّفْعُ : ضمّ الشیء إلى مثله، ويقال لِلْمَشْفُوعِ : شَفْعٌ ، وقوله تعالی: وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر 3] ، قيل : الشَّفْعُ المخلوقات من حيث إنها مركّبات، كما قال : وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، والوتر : هو اللہ من حيث إنّ له الوحدة من کلّ وجه .- وقیل : الشَّفْعُ : يوم النّحر من حيث إنّ له نظیرا يليه، والوتر يوم عرفة «7» ، وقیل : الشَّفْعُ : ولد آدم، والوتر : آدم لأنه لا عن والد «8» ، - ( ش ف ع ) الشفع - کے معنی کسی چیز کو اس جیسی دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے کے ہیں اور جفت چیز کو شفع کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر 3] اور جفت اور طاق کی ۔ بعض نے کہا ہے کہ شفع سے مراد مخلوق ہے کیونکہ وہ جفت بنائی گئی ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور ہر چیز ک ہم نے دو قسمیں بنائیں ۔ اور وتر سے ذات باری تعالیٰ مراد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یگانہ ہے بعض نے کہا ہے کہ شفع سے مراد یوم النھر ہے کیونکہ اس کے بعد دوسرا دن اس کی مثل ہوتا ہے اور وتر سے مراد یوم عرفہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ شفع سے اولاد آدم اور وتر سے آدم (علیہ السلام) مراد ہیں کیونکہ وہ بن باپ کے پیدا کئے گئے تھے ۔- وتر - الوَتْرُ في العدد خلاف الشّفع، وقد تقدّم الکلام فيه في قوله : وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر 3] «1» وأَوْتَرَ في الصلاة . والوِتْرُ والوَتَرُ ، والتِّرَةُ : الذّحل، وقد وَتَرْتُهُ : إذا أصبته بمکروه .- قال تعالی: وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد 35] . والتَّواتُرُ : تتابع الشیء وترا وفرادی، وجاء وا تَتْرَى قال تعالی: ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون 44] ولا وتیرة في كذا، ولا غمیزة، ولا غير، والوَتِيرَة : السّجيّة من التّواتر، وقیل للحلقة التي يتعلم عليها الرّمي : الوَتِيرَة، وکذلک للأرض المنقادة، والوَتِيرَة : الحاجز بين المنخرین .- ( و ت ر ) الواتر ( طاق ) یہ اعداد میں شفیع کی ضد ہے جس کی بحث آیت ۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر 3] اور جفت اور طاق کی ( قسم ) کے تحت گزرچکی ہے ۔ اوتر ۔ وتر نماز پڑھنا ۔ الوتر والوتر والترۃ کے معنی کینہ کے ہیں اور اسی سے وترتہ ( ض ) ہے جس کے معنی کسی کو تکلیف پہنچانے یا اس کا حق کم کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ : ۔ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد 35] وہ ہر گز تمہارے اعمال کو کم ( اور کم ) ) نہیں کرے گا ۔ التواتر کسی چیز کا یکے بعد دیگرے آنا محاورہ ہے جاؤ تترٰی ( وہ یکے دیگرے کچھ وقفہ کے بعد آئے ) قرآن میں ہے : ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون 44] پھر ہم پے درپے اپنے پیغمبر بھیجتے رہے ۔ لاوتیرۃ فی کذ ولا عمیزۃ ولاغیر اس میں عقلی کمزوری یا کوئی دوسرا عیب نہیں ہے اور تواتر سے وتیرۃ ہے جس کے معنی سجیتہ ( طبعی عادت کے ) بھی آتے ہیں ۔ نیز وتیرۃ کا لفظ ذیل معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) وہ حلقہ جس پر بچے تیر اندازی کی مشق کرتے ہیں ۔ ( 2) نرم زمین ( 3 ) ناک کے نتھنوں کا درمیان پردہ ۔
آیت ٣ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ ۔ ” اور قسم ہے ُ جفت کی اور طاق کی۔ “- اس سے عموماً رمضان کے آخری عشرہ کی جفت اور طاق راتیں مرادلی جاتی ہیں اور طاق راتوں میں لیلۃ القدر ہے۔ البتہ دنیا کے تمام علاقوں میں چاند چونکہ ایک ساتھ نظر نہیں آتا اس لیے مختلف علاقوں کی طاق اور جفت راتوں میں فرق ہوگا۔ مثلاً ہوسکتا ہے ہمارے ہاں پاکستان میں جو رات طاق ہو سعودی عرب میں وہ جفت ہو۔
2: جفت سے مراد ۱۰ ذُوالحجہ کا دِن اور طاق سے مراد عرفہ کا دن ہے، جو ۹ ذُوالحجہ کو آتا ہے ان ایام کی قسم کھانے سے ان کی اہمیت اور فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔