Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 ارم یہ قوم عاد کے دادا کا نام ہے، ان کا سلسلہ نسب ہے عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (فتح القدیر) ذات العماد سے اشارہ ہے ان کی قوت وطاقت اور دراز قامتی کی طرف، علاوہ ازیں وہ فن تعمیر میں بھی بری مہارت رکھتے تھے اور نہایت مضبوط بنا دوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔ ذات العماد میں دونوں ہی مفہوم شامل ہوسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] ذکر قوم عاد :۔ ان شہادتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قوم عاد کا ذکر کیا۔ قوم عاد کو عاد اولیٰ بھی کہا جاتا ہے اور عاد ارم بھی۔ عاد ارم وہ اس لحاظ سے ہیں کہ ارم بن سام بن نوح کی اولاد تھے اور ذات العماد کی کئی توجیہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خود بہت بلند وبالا قد و قامت رکھتے تھے۔ دوسری یہ کہ بلند وبالا عمارتیں بنانے کا آغاز انہوں نے ہی کیا تھا۔ تیسری یہ کہ جب وہ سفر کرتے تھے تو اپنے خیمے نصب کرنے کے لیے بہت اونچی اور مضبوط لکڑیاں استعمال کرتے تھے جیسے وہ ستون ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ارم ذات العماد، لفظ ارم عاد کا عطف بیان یا بدل ہے اور مقصود اس سے قبیلہ عاد کی دو قسموں میں سے ایک کی تعین ہے یعنی عاد اولیٰ جو انکے متقدمین ہیں ان کو عاد ارم کے لفظ سے اسلئے تعبیر کیا کہ یہ لوگ اپنے جدا علی ارم سے بہ نسبت عاد اخری کے قریب تر ہیں۔ ان کو اس جگہ قرآن کریم عاد ارم کے لفظ سے اور سورة نجم میں اھلک عاد الاولی کے عنوان سے تعبیر فرماتا ہے۔ ان کی صفت میں قرآن کریم نے ذات العماد فرمایا۔ عماد اور عمود ستون کو کہتے ہیں۔ قوم عاد کو ذات العماد اسلئے کہا گیا کہ انکے قدر وقامت بڑے طویل تھے اور یہ قوم اپنے ڈیل ڈول اور قوت و طاقت میں سب دوسری قوموں سے ممتاز تھی ان کے اس امتیاز کو خود قرآن کریم نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا طاقت میں سب دوسری قوموں سے ممتاز تھی ان کے اس امتیاز کو خود قرآن کریم نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا لم یخلق مثلھا فی البلاد، یعنی ایسی طویل القامت قومی دنیا میں اس سے پہلے پیدا نہیں کی گئی تھی۔ قرآن کریم نے انکے طول قامت اور ڈیل ڈول کا دنیا کی ساری قوموں سے زیادہ ہونا تو واضح فرما دیا مگر ان کی کوئی پیمائش ذکر کرنا ضرورت سے زائد کام تھا اس کو چھوڑ دیا۔ اسرائیل روایات میں انکے قدوقامت اور قوت کے متعلق عجیب عجیب اقوام مذکور ہیں۔ حضرت ابن عباس اور مقاتل سے ان کی قامت کا طول بارہ ہاتھ یعنی چھ گز یا فٹ ٨١ فٹ منقول ہے اور ظاہر یہ ہے کہ ان کا یہ قول بھی اسرائیل روایات ہی سے ماخوذ ہے واللہ اعلم - اور بعض حضرت مفسرین نے فرمایا کہ ارم اس جنت کا نام ہے جو عاد کے بیٹے شداد نے بنائی تھی اور اسی کی صفت ذات العماد ہے کہ وہ ایک عظیم الشان عمارت بہت سے عمودوں پر قائم ہونے چاندی اور جواہرات سے تعمیر کی تھی تاکہ لوگ آخرت کی جنت کے بدلے اس نقد جنت کو اختیار کرلیں مگر جب یہ عالیشان محلات تیار ہوگئے اور شداد نے اپنے روسائے مملکت کیساتھ اس میں جانیکا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا یہ سب ہلاک ہوگئے اور وہ محلات بھی مسمار ہوگئے (قرطبی) اس اعتبار سے اس آیت میں قوم عاد کے ایک خاص عذاب کا ذکر ہوا جو .... شداد بن عاد اور اس کی بنائی ہوئی جنت پر نازل ہوا اور پہلی تفسیر جس کو جمہور مفسرسین نے اختیار کیا ہے اس میں قوم عاد پر جتنے عذاب آئے ہیں ان سب کا بیان ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۝ ٧ - أرم - الإرم : علم يبنی من الحجارة، وجمعه : آرام، وقیل للحجارة : أُرَّم . ومنه قيل للمتغیظ : يحرق الأرم وقوله تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر 7] إشارة إلى عمدٍ مرفوعة مزخرفة، وما بها أَرِمٌ وأَرِيمٌ ، أي : أحد . وأصله اللازم للأرم، وخص به النفي، کقولهم : ما بها ديّار، وأصله للمقیم في الدار .- ا ر م ) الارم ۔ در اصل اس نشان کو کہتے ہیں جو پتھروں سے بنا دیا تا ہے اس کو جمع ارام ہے اور پتھروں کو ارم کہا جاتا ہے اور اسی سے غضب ناک آدمی کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ فلان یحرق الارم یعنی فلاں مارے غصے کے دانت پیستا ہے اور آیت کریمہ :۔ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ( سورة الفجر 7) ارم ستونوں والے ۔ میں ارم سے بلندا در مزین ستون مرا د ہیں ( جو قوم عاونے بنائے تھے ) مابھا ارم واریم یعنی اس میں کوئی نہیں اصل میں اس کے معنی الازم للارم کے ہیں اور اس کا استعمال ہمیشہ ( حرف ) نقی کے ساتھ ہوتا ہے جس طرح کہ مابھا دیار کا محاورہ ہے اور اس کے اصل معنی مقیم فی الدار کے ہیں ۔- عمد - العَمْدُ : قصد الشیء والاستناد إليه، والعِمَادُ : ما يُعْتَمَدُ. قال تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ- [ الفجر 7] ، أي : الذي کانوا يَعْتَمِدُونَهُ ، يقال : عَمَّدْتُ الشیء : إذا أسندته، وعَمَّدْتُ الحائِطَ مثلُهُ. والعَمُودُ : خشب تَعْتَمِدُ عليه الخیمة، وجمعه : عُمُدٌ وعَمَدٌ. قال : فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ [ الهمزة 9] وقرئ : فِي عَمَدٍ ، وقال :- بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] ، وکذلک ما يأخذه الإنسان بيده مُعْتَمِداً عليه من حدید أو خشب .- ( ع م د ) العمد - کے معنی کسی چیز کا قصد کرنے اور اس پر ٹیک لگانا کے ہیں اور العماد وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے یا بھروسہ کیا جائے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر 7] جو ارم ( کہلاتے تھے اتنے ) دراز قد ۔ میں العماد سے وہ چیزیں مراد ہیں جن پر انہیں بڑا بھروسہ تھا محاورہ ہے ۔ عمدت الشئی کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا کرنا عمدت الحائط دیوار کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور العمود اس لکڑی ( بلی ) کو کہتے ہیں جس کے سہارے خیمہ کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی جمع عمد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ، [ الهمزة 9] ( یعنی آگ کے ) لمبے لمبے ستونوں میں ۔ اور ایک قرات میں فی عمد ہے نیز فرمایا : ۔ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو ۔ نیز العمود ہر اس لکڑی یا لوہے کو کہتے ہیں جس پر سہارا لگا کر انسان کھڑا ہوتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(8-7) جن کے قد و قامت ستون جیسے لانبے تھے جن کے برابر زور و قوت میں کوئی نہیں پیدا کیا گیا، یا یہ کہ ارم اس شہر کا نام ہے جو انہوں نے بہت مضبوط بنایا تھا جس میں سونے اور چاندی کے ستون تھے۔ اس کی خوبصورتی میں کوئی شہر اس کے برابر نہیں تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ۔ ” وہ ارم جو ستونوں والے تھے ۔ “- ” ارم “ کے بارے میں عام مورخین کا خیال ہے کہ یہ قوم عاد کے شاہی خاندان کا لقب تھا۔ یعنی جس طرح مصر میں فراعنہ ‘ عراق میں نماردہ اور یمن میں تبایعہ خاندانوں کی حکومتیں تھیں ‘ اسی طرح قوم عاد کے علاقے میں ارم خاندان برسراقتدار تھا ۔ یہاں ان کے حوالے سے ستونوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ وہ لوگ اپنی تعمیرات میں ستونوں کو خصوصی اہمیت دیتے تھے اور دنیا میں ستونوں پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انہی نے شروع کیا تھا ۔ جیسے اس قوم کے ایک شہر کے جو زیرزمین آثار دریافت ہوئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اس شہر کی فصیل پر تیس ستون یا مینار بنائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر شداد نے خصوصی اہتمام کے ساتھ بسایا تھا جو اس قوم کا بہت بڑا بادشاہ تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :3 عادِ ارم سے مراد وہ قدیم قوم عاد ہے جسے قرآن مجید اور تاریخ عرب میں عادِ اولی کا نام دیا گیا ہے ۔ سورہ نجم میں فرمایا گیا ہے کہ وانہ اھلک عاد الاولی ۔ ( آیت 50 ) اور یہ کہ اس نے قدیم قوم عاد کو ہلاک کیا ، یعنی اس قوم عاد کو جس کی طرف حضرت ہود بھیجے گئے تھے اور جس پر عذاب نازل ہوا تھا ۔ اس کے مقابلہ میں تاریخ عرب اس قوم کے ان لوگوں کو جو عذاب سے بچ کر بعد میں پھلے پھولے تھے عادِ اخری کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ قدیم قوم عاد کو عاد ارم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سامی نسل کی اس شاخ سے تعلق رکھتے تھے جو ارم بن سام بن نوح علیہ السلام سے چلی تھی ۔ اسی شاخ کی کئی دوسری ضمنی شاخیں تاریخ میں مشہور ہیں جن میں سے ایک ثمود ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور دوسرے آرامی ( ) ہیں جو ابتداءً شام کے شمالی علاقوں میں آباد تھے اور جن کی زبان آرامی ( ) سامی زبانوں میں بڑا اہم مقام رکھتی ہے ۔ عاد کے لیے ذات العماد ( اونچے ستونوں والے ) کے الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ وہ بڑی بڑی بلند عمارتیں بناتے تھے اور دنیا میں اونچے ستونوں پر عمارتیں کھڑی کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انہی نے شروع کیا تھا ۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ ان کی اس خصوصیت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ حضرت ہود نے ان سے فرمایا ) أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آَيَةً تَعْبَثُونَ ( 128 ) وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ ( 129 ) یہ تمارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لا حاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے ( الشعراء آیات 128 ۔ 129 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: ’’اِرم‘‘ قوم عاد کے جِد اعلی کا نام ہے، اس لئے قوم عاد کی جس شاخ کا یہاں ذکر ہے، اُس کو عاد اِرم کہا جاتا ہے۔ اور اُن کو ستونوں والا کہنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اُن کے قد و قامت اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھے اسی لئے آگے فرمایا گیا ہے کہ ان جیسے لوگ کہیں اور پیدا نہیں کئے گئے۔ اور بعض حضرات نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ انہوں نے اپنی تعمیرات میں بڑے بڑے ستون بنائے ہوئے تھے۔ ان کے پاس حضرت ہود علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا جن کا مفصل واقعہ سورۃ اعراف (۷:۶۵) اور سورۃ ہود (۱۱:۵۰) میں گذر چکا ہے۔