2۔ 1 یہ اشارہ ہے اس وقت کی طرف جب مکہ فتح ہوا، اس وقت اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس شہر حرام میں قتال کو حلال فرما دیا تھا جب کہ اس میں لڑائی کی اجازت نہیں ہے چناچہ حدیث میں ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شہر کو اللہ نے اس وقت سے حرمت والا بنایا ہے، جب سے اس نے آسمان و زمین پیدا کئے۔ پس یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک حرام ہے، نہ اس کا درخت کاٹا جائے نہ اس کے کانٹے اکھیڑے جائیں، میرے لئے اسے صرف دن کی ایک ساعت کے لئے حلال کیا گیا تھا اور آج اس کی حرمت پھر اسی طرح لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ اگر کوئی یہاں قتال کے لئے دلیل میری لڑائی کو پیش کرے تو اس سے کہو کہ اللہ کے رسول کو تو اس کی اجازت اللہ نے دی تھی جب کہ تمہیں یہ اجازت اس نے نہیں دی (صحیح بخاری)
[٢] حل کا لغوی مفہوم :۔ حِلَّ : حَلَّ کا بنیادی معنی گرہ کھولنا اور اس کی ضد عَقَدَ یعنی گرہ لگانا ہے۔ ارباب حل و عقد، ارباب بست و کشاد مشہور الفاظ ہیں۔ اور سامان باندھنے اور کھولنے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ مسافر سامان باندھ کر سفر پر جاتا ہے اور جہاں فروکش ہوتا ہے تو سامان کھول دیتا ہے۔ لہذا حل کا لفظ کسی جگہ اترنے، فروکش ہونے اور قیام پذیر ہونے کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ علاوہ ازیں حلال کا لفظ حرام کے مقابلہ میں بھی آجاتا ہے۔ حرام ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سختی سے منع کیا جائے یعنی اس پر گرہ لگا دی جائے اور حلال اس گرہ کے کھولنے کو کہتے ہیں۔ اور حِلٌّ، حَلَّ سے اسم فاعل ہے۔ اسی وجہ سے حل کے یہاں کئی معنی کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ مکہ وہ شہر ہے جہاں آپ کسی وقت فاتحانہ حیثیت سے فروکش ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ اس شہر میں مسلمانوں پر اور آپ پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو حلال سمجھ لیا گیا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ آپ اس شہر میں فاتحانہ حیثیت میں داخل ہو کر اس کی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر آج تک قائم شدہ حرمت کو توڑ دیں گے اور حلال بنادیں گے گو یہ کام صرف ایک ساعت کے لیے ہی ہوگا۔ ہمارے خیال میں یہی تیسرا مفہوم راجح ہے کیونکہ درج ذیل احادیث اسی مفہوم کی تائید کرتی ہیں :- مکہ کی حرمت :۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ نے قبیلہ بنو لیث کا ایک آدمی مار ڈالا۔ کیونکہ بنولیث نے خزاعہ کا ایک آدمی پہلے مارا تھا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو روک کر مکہ سے قتل کو روک دیا۔ اور اب اللہ، اس کا رسول اور مسلمان (مکہ کے کافروں پر) غالب ہیں۔ سن رکھو مکہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی دن کی ایک ساعت کے لیے حلال ہوا۔ سن رکھو مکہ اس وقت بھی حرام ہے یہاں کے نہ کانٹے توڑے جائیں، نہ درخت کاٹے جائیں نہ یہاں سے کوئی گری پڑی چیز اٹھائی جائے۔ الا یہ کہ اٹھانے والا اسے مالک تک پہنچا دینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اگر یہاں کوئی مارا جائے تو اس کے وارث کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہے۔ یا تو دیت لے لے اور یا قصاص (قاتل اس کے حوالہ کردیا جائے) اتنے میں اہل یمن کے ایک شخص (ابوشاہ) نے آکر عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو باتیں فرمائی ہیں۔ مجھے لکھ دیجیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (صحابہ سے) کہا : اسے لکھ دو پھر ایک قریشی (سیدنا عباسص) نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذخر (گھاس کاٹنے) کی اجازت دے دیجیے۔ ہم اسے اپنے گھروں اور اپنی قبروں میں بچھاتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھا اذخر (کاٹنے) کی اجازت ہے۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب کتابۃ العلم) - ٢۔ ابو شریح نے عمرو بن سعید (جو یزید کی طرف سے حاکم مدینہ تھا) سے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ سے دوسرے دن خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : اللہ نے مکہ کو حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا تو جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے یہاں نہ خون بہانا درست ہے اور نہ کوئی درخت کاٹنا اور اگر کوئی شخص یہ دلیل لے کہ اللہ کے رسول یہاں لڑے تو تم اسے کہو : اللہ تعالیٰ نے تو اپنے رسول کو (فتح مکہ کے دن) خاص اجازت دی تھی جو تمہیں نہیں دی۔ اور مجھے بھی صرف دن کی ایک گھڑی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد اس کی وہی حرمت ہے جو کل تھی۔ اور جو شخص یہاں موجود ہے وہ اس کو یہ باتیں بتادے جو یہاں موجود نہیں لوگوں نے ابو شریح سے پوچھا : تو پھر عمرو بن سعید نے اس کا کیا جواب دیا ؟ ابو شریح کہنے لگے : عمرو نے یہ جواب دیا کہ : میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مکہ گنہگار کو پناہ نہیں دیتا اور نہ اس کو جو خون یا چوری کرکے بھاگے۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب لیبلغ العلم الشاہد الغائب) - اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی دی گئی ہے اور ایک بہت بڑی پیشین گوئی بھی ہے جو اس وقت کی گئی جب مسلمان کافروں کے ظلم و جور کی چکی میں پس رہے تھے اور اس وقت کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی۔ مگر اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ پیشین گوئی ٨ ھ میں سو فیصد پوری ہوئی۔
وانت حل بھذا البلد لفظ حل میں دو احتمال میں ایک یہ کہ حلول سے مشتق ہو جس کے معنے کسی شئی کے اندر سمانے اور رہنے اور اترنے کے آتے ہیں، اس اعتبار سے حل کے معنے اترنے والے اور رہنے والے کے ہوں گے۔ اور مرد آیت کی یہ ہوگی کہ شہر مکہ خود بھی محترم اور مقدس ہے خصوصاً جبکہ آپ بھی اس شہر میں رہتے ہیں تو مکین کی فضیلت سے بھی مکان کی فضیلت بڑھ جاتی ہے اسلئے شہر کی عظمت و حرمت آپ کے اس میں مقیم ہونے سے دوہری ہوگئی۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ لفظ حل مصدر حلت سے مشتق ہو جس کے معنے کسی چیز کے حلال ہونے کے ہیں، اس اعتبار سے لفظ حل کے دو معنے ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ آپ کو کفار مکہ نے حلال سمجھ رکھا ہے کہ آپ کے قتل کے درپے ہیں حالانکہ وہ خود بھی شہر مکہ میں کسی شکار کو بھی حلال نہیں سمجھتے مگر ان کا ظلم و سرکشی اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ جس مقدس مقام پر کسی جانور کا قتل بھی جائز نہیں اور خود ان لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے وہاں انہوں نے اللہ کے رسول کا قتل وخون حلال سمجھ لیا ہے دوسرے معنے حل کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کے لئے حرم مکہ میں قتال کفار حلال ہونے والا ہے جیسا کہ فتح مکہ میں ایک روز کے لئے آپ سے احکام حرم اٹھا لئے گئے تھے اور کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا۔ خلاصہ تفسیر مذکور میں یہی تیسرے معنے لے کر تفسیر کی گئی۔ مظہری میں تینوں احتمال مذکور ہیں اور تینوں معنے کی گنجائش ہے ووالد وماولد، والد سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جو سب انسانوں کے باپ ہیں اور ماولد سے ان کی اولاد مراد ہے جو ابتداء دنیا سے قیامت تک ہوگی۔ اس طرح اس لفظ میں حضرت آدم اور تمام بنی آدم کی قسم ہوگئی۔ آگے جواب قسم مذکور ہے۔
وَاَنْتَ حِـلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ ٢ ۙ- حلَ- أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] ،- ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی
آیت ٢ وَاَنْتَ حِلٌّم بِہٰذَا الْبَلَدِ ۔ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ حلال کرلیے گئے ہیں اس شہر میں۔ “- کچھ مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ یوں بھی کیا ہے کہ ” آپ کے لیے حلال ہوجائے گا یہ شہر “۔ یعنی اگرچہ یہ بلد الحرام ہے ‘ یہاں خونریزی وغیرہ کی اجازت نہیں ‘ لیکن ایک وقت آئے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اجازت مل جائے گی ‘ جیسے فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حلال کردیا گیا اور اس دن لشکرکشی کے دوران مسلح تصادم کے اکا دکا واقعات بھی ہوئے ۔ البتہ میرے نزدیک آیت کا اصل مدعا اور مفہوم وہی ہے جو میں نے ترجمے میں اختیار کیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس بلد الحرام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت پر حملے ہو رہے ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت نفس کو مجروح کیا جا رہا ہے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسلسل ستایا جا رہا ہے ۔ اس وادی غَیْر ذِی زَرْعٍ کے ماحول میں جہاں معمول کی زندگی بھی سراپا مشقت ہے وہاں اہل شہر کی مخالفت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے زندگی کو مزید کٹھن اور مشکل بنا دیا ہے۔ چناچہ دعوت حق کی جدوجہد میں مسلسل سختیاں برداشت کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے شب و روز کی اس وقت جو صورت حال اور کیفیت ہے ‘ ہم اس کی قسم کھا رہے ہیں۔
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :3 اصل الفاظ ہیں أَنْتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ اسکے تین معنی مفسرین نے بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ آپ اس شہر میں مقیم ہیں اور آپ کے مقیم ہونے سے اس کی عظمت میں اور اضافہ ہو گیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ یہ شہر حرم ہے مگر ایک وقت آئے گا جب کچھ دیر کے لیے یہاں جنگ کرنا اور دشمنان دین کو قتل کرنا آپ کے لیے حلال ہو جائے گا ۔ تیسرے یہ کہ اس شہر میں جنگل کے جانوروں تک کو مارنا اور درختوں تک کو کاٹنا اہل عرب کے نزدیک حرام ہے اور ہر ایک کو یہاں امن میسر ہے ، لیکن حال یہ ہو گیا ہے کہ اے نبی ، تمہیں یہاں کوئی امن نصیب نہیں تمہیں ستانا اور تمہارے قتل کی تدبیریں کرنا حلال کر لیا گیا ہے ۔ اگرچہ الفاظ میں تینوں معنوں کی گنجائش ہے ، لیکن جب ہم آگے کے مضمون پر غور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ پہلے دو معنی اس سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے اور تیسرا مفہوم ہی اس سے میل کھاتا ہے ۔
1: اس شہر سے مراد مکہ مکرَّمہ ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے، اور اُس میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مقیم ہونے کی بنا پر اس کے تقدس میں اور اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ آپ کی تشریف آوری کے لئے اِس شہر کا انتخاب فرما کر اﷲ تعالیٰ نے اِس کی شان اور بڑھا دی ہے۔ اس جملے کی دو تفسیریں اور بھی ہیں جن کی تفصیل ’’معارف القرآن‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔