3۔ 1 بعض نے اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد لی ہے اور بعض کے نزدیک یہ عام ہے، ہر باپ اور اس کی اولاد اس میں شامل ہے۔
[٣] فی کبد کا مفہوم :۔ تیسری قسم آدم اور تمام اولاد آدم یعنی تمام نوع انسان کی زندگی کو شاہد بنا کر اٹھائی گئی ہے۔ اور تینوں قسمیں اس بات پر اٹھائی گئیں کہ انسان کی تخلیق ہی اس انداز پر ہوئی ہے کہ وہ ساری عمر سختیاں جھیلتا رہے۔ دکھ اور رنج سہتا رہے۔ یہ رنج اور مصیبتیں خواہ قدرتی ہوں یا دوسروں نے اسے پہنچائی ہوں یا اپنی ہی وجہ سے اسے پہنچ رہی ہوں۔ کبد کا معنی جگر ہے جو مشہور عضو انسانی ہے۔ اور اس لفظ میں سختی اور قوت کا مفہوم پایا جاتا ہے اور فی کبد محاورۃً استعمال ہوتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا اظہار کرتا ہے۔ انسان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے۔ جسے پورا کرنے کے لیے کئی طرح کے رنج و الم سہتا ہے اور وہ ابھی پوری نہیں ہو پاتی کہ اتنے میں چند اور خواہشیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اب وہ انہیں پورا کرنے اور رنج و محن سہنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس کی تمام عمر بیت جاتی ہے۔ پھر قدرتی تکلیفیں اور دوسروں کے ہاتھوں پہنچنے والی تکلیفیں اور ان کی مدافعت کا سلسلہ مستزاد ہوتا ہے۔
وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ ٣ ۙ- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔
اور قسم ہے حضرت آدم کی اور ان کی اولاد کی یا یہ کہ باپ کی خواہ کوئی ہو۔
آیت ٣ وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ ۔ ” اور قسم ہے والد کی اور اولاد کی۔ “- اس قسم میں اس مشقت اور ذمہ داری کی طرف اشارہ ہے جو ایک والد کو اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت وغیرہ کے حوالے سے برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اب اگلی آیت میں اس حقیقت یعنی مقسم علیہ کا ذکر ہے جس پر یہ قسمیں کھائی جا رہی ہیں :
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :4 چونکہ مطلقاً باپ اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور آگے انسان کا ذکر کیا گیا ہے ، اس لیے باپ سے مراد آدم علیہ السلام ہی ہو سکتے ہیں ۔ اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو دنیا میں پائے گئے ہیں ، اب پائے جاتے ہیں اور آئندہ پائے جائیں گے ۔
2: باپ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور چونکہ تمام اِنسان انہیں کی اولاد ہیں، اس لئے اس آیت میں تمام نوعِ اِنسانی کی قسم کھائی گئی ہے۔