4۔ 1 یعنی اس کی زندگی محنت و مشقت اور شدائد سے معمور ہے۔ امام طبری نے اس مفہوم کو اختیار کیا ہے، یہ جواب قسم ہے۔
لقد خلقنا الانسان فی کبد، کبد کے لفظی معنے محنت ومشقت کے ہیں۔ معنے یہ ہیں کہ انسان اپنی فطرت سے ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ اول عمر سے آخر تک محنتوں اور مشقتوں میں رہتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ابتدائے حمل سے رحم مادر میں محبوس رہا پھر ولادت کے وقت کی محنت ومشقت برداشت کی، پھر ماں کا دودھ پینے پھر اسکے چھوٹنے کی محنت اور پھر اپنے معاش اور ضروریات زندگی فراہم کرنے کی مشقت پھر بڑھاپے کی تکلیفین پھر موت پھر قبر، پھر حشر اور اس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال کی جوابدہی پھر جزا وسزا، یہ سب دور اس پر محنتوں ہی کے آتے ہیں، اور یہ محنت ومشقت اگرچہ انسان کے ساتھ مخصوص نہیں سب جانور بھی اس میں شریک ہیں مگر اس حال کو انسان کے لئے بالخصوص اسلئے فرمایا کہ اول تو وہ سب جانوروں سے زیادہ شعور و ادراک رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی بقدر شعور زیادہ ہوتی ہے، دوسرے آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہو کر عمر بھر کے اعمال کا حساب دینا ہے وہ دوسرے جانوروں میں نہیں۔- بعض علماء نے فرمایا کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے باوجود یکہ وہ جسم اور جثہ میں اکثر جانوروں کی نسبت ضعیف و کمزور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ انسان کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے اس لئے اس کی تخصیص کی گئی۔ مکہ مکرمہ اور آدم واولاد آدم (علیہ السلام) کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ انسان کو ہم نے شدت و محنت اور مشقت ہی میں اور اسی کے لئے پیدا کیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ انسان خود بخود پیدا نہیں ہوگیا یا اس کو کسی دوسرے انسان نے جنم نہیں دیا بلکہ اس کا پیدا کرنے والا ایک قادر مختار ہے جس نے اپنی حکمت سے ہر مخلوق کو خاص خاص مزاج اور خاص اعمال و افعال کی استعداد دے کر پیدا کیا ہے اگر انسان کی تخلیق میں خود انسان کو کچھ دخل ہوتا تو وہ اپنے لئے یہ محنتیں مشقتیں کبھی تجویز نہ کرتا (قرطبی) - دنیا میں مکمل راحت جس میں کوئی تکلیف نہ ہو کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی اسلئے انسان کو چاہئے کہ مشقت کیلئے تیار رہے - اس قسم اور جواب قسم میں انسان کو اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری جو یہ خواہش ہے کہ دنیا میں ہمیشہ راحت ہی راحت ملے کسی تکلیف سے سابقہ نہ پڑے یہ خیال خام ہے جو کبھی حاصل نہیں ہوگا اسلئے ضروری ہے کہ ہر شخص کو دنیا میں محنت ومشقت اور رنج و مصیبت پیش آئے اور جب ممشقت وکلفت پیش آنا ہی ہے تو عقلمند کا کام یہ ہے کہ یہ محنت ومشقت اس چیز کیلئے کرے جو اس کو ہمیشہ کام آوے اور دائمی راحت کا سامان بنے اور وہ صرف ایمان اور اطاعت حق میں منحصر ہے۔ آگے غافل اور آخرت کے منکر انسان کی چند جاہلانہ خصلتوں کا ذکر کرکے فرمایا ایحسب ان لم یرہ احد یعنی کیا یہ بیوقوف سمجھتا ہے کہ اس کے اعمال بد کو کسی نے دیکھا نہیں اس کو جاننا چاہئے کہ اس کا خالق اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ ٤ ۭ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - كبد - الْكَبِدُ معروفة، والْكَبَدُ والْكُبَادُ توجّعها، والْكَبْدُ إصابتها، ويقال : كَبِدْتُ الرجل : إذا أصبتَ كَبِدَهُ ، وكَبِدُ السّماء : وسطها تشبيها بکبد الإنسان لکونها في وسط البدن . وقیل : تَكَبَّدَتِ الشمس : صارت في كبد السّماء، والْكَبَدُ :- المشقّة . قال تعالی: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي كَبَدٍ [ البلد 4] تنبيها أنّ الإنسان خلقه اللہ تعالیٰ علی حالة لا ينفكّ من المشاقّ ما لم يقتحم العقبة ويستقرّ به القرار، كما قال :- لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ [ الانشقاق 19] .- ( ک ب د ) الکبد جگر کو کہتے ہیں اور الکبد والکباد کے معنی دود جگر کے ہیں ۔ اور لکبد ( مصدر) کے معنی جگر پر مارنے کے ہیں اس سے کبدت الرجل ( س ) کا محاورہ ہے ۔ یعنی جگر پر مارنا ۔ پھر انسان کا جگر چونکہ وسط جسم میں ہوتا ہے اس لئے تشبیہ کے طورپر وسط ) آسمان کو کبد السماء کہاجاتا ہے ۔ تکبدت الشمس ( آفتاب ) کا وسط آسمان میں پہنچنا) نیز الکبد کے معنی مشقت بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي كَبَدٍ [ البلد 4] کہ ہم نے انسان کو تکلیف ( کی حالت ) میں رہنے والا ) بنایا ہے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان کی ساخت ہی اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب تک دین کی ) گھاٹی پ رہو کر نہ گزرے وہ نہ تو رنج ومشقت سے نجات پاسکتا ہے ۔ اور نہ ہی اس ( حقیقی ) چین نصیب ہوسکتا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ [ الانشقاق 19] کہ تم درجہ بدرجہ ( رتبہ اعلیٰ پر) چڑھوگے ۔
ان تمام چیزوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے انسان مثلاً کلدہ کو معتد القامت پیدا کیا ہے یا یہ کہ دنیا و آخرت کی بڑی مشقت میں پیدا کیا، یا یہ کہ قوت و سختی میں پیدا کیا ہے۔
آیت ٤ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ ۔ ” بیشک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقت میں کیا ہے۔ “- سورة الانشقاق میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ۔ ” اے انسان تو مشقت پر مشقت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف ‘ پھر تو اس سے ملنے والا ہے “۔ انسانی زندگی کے بارے میں یہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس دنیا میں کوئی انسان جیسا ہے جہاں ہے ‘ غریب ہے ‘ امیر ہے ‘ صاحب اقتدار ہے ‘ فقیر ہے ‘ کلفت ‘ مشقت ‘ کو فت ‘ پریشانی اس کا مقدر ہے۔ کوئی انسان جسمانی محنت کے ہاتھوں بےحال ہے تو کوئی ذہنی مشقت کی وجہ سے پریشان ۔ کوئی جذباتی اذیت سے دوچار ہے تو کوئی نفسیاتی خلفشار کا شکار ہے۔ کوئی کوڑی کوڑی کا محتاج ہے تو کسی کے لیے دولت کے انبار وبال جان ہیں ‘ کسی کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تو کوئی مخملی گدیلوں پر لیٹا نیند کو ترستا ہے ۔ غرض مختلف انسانوں کی مشقت کی کیفیت ‘ نوعیت اور شدت تو مختلف ہوسکتی ہے مگر مشقت اور پریشانی سے چھٹکارا جیتے جی کسی کو بھی نہیں ہے۔ بقول غالب ؎- قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں - موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں - بظاہر تو یہ صورت حال بھی بہت گھمبیر محسوس ہوتی ہے ‘ لیکن انسان کی اصل مشکل اس سے کہیں بڑی ہے اور وہ مشکل یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی میں پیش آنے والی یہ تمام پریشانیاں اور سختیاں بھی سہنی ہیں اور اس کے بعد اپنے ربّ کے حضور پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب بھی دینا ہے۔ سورة الانشقاق کی مذکورہ آیت میں اسی ” ملاقات “ کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے انسان کی قسمت کا حتمی فیصلہ تو اسی ملاقات میں ہونا ہے۔ اس ساری صورتحال میں انسان کی اصل مشقت ‘ اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی کا اندازہ لگانا ہو تو ایک ایسے انسان کا تصور کریں جو زندگی بھر ” دنیا “ حاصل کرنے کے جنون میں کو لہو کا بیل بن کر محنت و مشقت کی چکی ّمیں ِپستا اور طرح طرح کی ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کی آگ میں جلتا رہا۔ پھر مشقتوں پر مشقتیں برداشت کرتا اور تکلیفوں پر تکلیفیں جھیلتا یہ انسان جب اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوا تو اس کا دامن مطلوبہ معیار و مقدار کی نیکیوں سے خالی تھا۔ - چنانچہ اس عدالت سے اسے دائمی سزا کا حکم ہوا : وَیَصْلٰی سَعِیْرًا ۔ (الانشقاق) اور اس کے بعدا سے جہنم میں جھونک دیا گیا۔۔۔۔ ہمیشہ ہمیش کے لیے یہ ہے انسان کی اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی جس کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ چناچہ ہر انسان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ : - اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے - مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :5 یہ ہے وہ بات جس پر وہ قسمیں کھائی گئی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں ۔ انسان کے مشقت میں پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں مزے کرنے اور چین کی بنسری بجانے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کے لیے یہ دنیا محنت اور مشقت اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے اور کوئی انسان بھی اس حالت سے گزرے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ شہر مکہ گواہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے اپنی جان کھپائی تھی تب یہ بسا اور عرب کا مرکز بنا ۔ اس شہر مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت گواہ ہے کہ وہ ایک مقصد کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں ، حتی کہ یہاں جنگل کے جانوروں کے لیے امان ہے مگر ان کے لیے نہیں ہے ۔ اور ہر انسان کی زندگی ماں کے پیٹ میں نطفہ قرار پانے سے لے کر موت کے آخری سانس تک اس بات پر گواہ ہے کہ اس کو قدم قدم پر تکلیف ، مشقت ، محنت ، خطرات اور شدائد کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ جس کو تم بڑی سے بڑی قابل رشک حالت میں دیکھتے ہو وہ بھی جب ماں کے پیٹ میں تھا تو ہر وقت اس خطرے میں مبتلا تھا کہ اندر ہی مرجائے یا اس کا اسقاط ہو جائے ۔ زچگی کے وقت اس کی موت اور زندگی کے درمیان بال بھر سے زیادہ فاصلہ نہ تھا ۔ پیدا ہوا تو اتنا بے بس کہ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہوتا تو پڑے پڑے ہی سسک سسک کر مر جاتا ۔ چلنے کے قابل ہوا تو قدم قدم پر گرا پڑتا تھا بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک ایسے ایسے جسمانی تغیرات سے اس کو گزرنا پڑا کہ کوئی تغیر بھی اگر غلط سمت میں ہو جاتا تو اس کی جان کے لالے پڑ جاتے ۔ وہ اگر بادشاہ یا ڈکٹیٹر بھی ہے تو کسی وقت اس اندیشے سے اس کو چین نصیب نہیں ہے کہ کہیں اس کے خلاف سازش سے کوئی بغاوت نہ کر بیٹھے ۔ وہ اگر اپنے وقت کا قارون بھی ہے تو اس فکر میں ہر وقت غلطاں و پیچاں ہے کہ اپنی دولت کیسے بڑھائے اور کس طرح اس کی حفاظت کرے ۔ غرض کوئی شخص بھی بے غل و غش چین کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہے ، کیونکہ انسان پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے ۔
3: یہ ہے وہ بات جو قسم کھاکر فرمائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اِنسان کو اِس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگارہتا ہے، چاہے کوئی کتنا بڑا حاکم ہو، یا دولت مند شخص ہو، اُسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اُٹھانی ہی پڑتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اُسے دُنیا میں کبھی کوئی محنت نہ کرنی پڑے تو یہ اُس کی خام خیالی ہے، ایسا کبھی ممکن ہی نہیں ہے، ہاں مکمل راحت کی زندگی جنّت کی زندگی ہے جو دُنیا میں کی ہوئی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے۔ ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اِنسان کو دُنیا میں جب کسی مشقت کا سامنا ہو تو اُسے یہ حقیقت یاد کرنی چاہئے، خاص طور پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو مکہ مکرَّمہ میں جو تکلیفیں پیش آرہی تھیں، اِس آیت نے اُن کو بھی تسلی دی ہے، اور یہ بات کہنے کے لئے اوّل تو شہرِ مکّہ کی قسم کھائی ہے، شاید اس لئے کہ مکہ مکرَّمہ کو اگرچہ اﷲ تعالیٰ نے دُنیا کا سب سے مقدس شہر بنایا ہے، لیکن وہ شہر بذاتِ خود مشقّتوں سے بنا، اور اُس کے تقدس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے آج بھی مشقت کرنی پڑتی ہے، پھر خاص طور پر اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقیم ہونے کا حوالہ دینے میں شاید یہ اشارہ ہے کہ افضل ترین پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم، افضل ترین شہر میں مقیم ہیں، لیکن مشقّتیں اُن کو بھی اُٹھانی پڑرہی ہیں۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی ساری اولاد کی قسم کھانے سے اشارہ ہے کہ اِنسان کی پوری تاریخ پر غور کرجاؤ، یہ حقیقت ہر جگہ نظر آئے گی کہ اِنسان کی زندگی مشقتوں سے پر رہی ہے۔