10۔ 1 یعنی جس نے اسے گمراہ کرلیا وہ خسارے میں رہا جس کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز میں چھپا دینا، جس نے اپنے نفس کا چھپا دیا اور اسے بےکار چھوڑ دیا اسے اللہ کی اطاعت اور عمل صالح کے ساتھ مشہور نہیں کیا۔
[٩] آیت نمبر ٩ اور نمبر ١٠ جواب قسم ہے۔ یعنی ابتدا سورة سے آیت نمبر ٨ تک جتنی باہم متضاد اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں وہ اس حقیقت پر کھائی گئی ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو کفر و شرک سے، فاسد عقائد سے اور اخلاق رذیلہ سے پاک کرلیا۔ وہ کامیاب ہوگیا اور جس شخص نے اپنے ضمیر کی آواز کو جو اسے خیر و شر پر متنبہ کرتی رہتی ہے، خاک میں دبا دیا وہ نامراد ہوگیا۔ یعنی جس طرح سورج اور چاند ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دن اور رات مختلف اور متضاد ہیں۔ زمین اور آسمان ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ فجور اور تقویٰ یا خیر اور شر ایک دوسرے کی ضد ہے۔ اسی طرح خیر و شر کی بنیاد پر اٹھنے والے اعمال کے نتائج بھی یقیناً ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہونے چاہییں۔ وہ ایک جیسے کبھی نہیں ہوسکتے۔ تقویٰ کی بنیاد پر کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اخروی فلاح و کامیابی ہے جبکہ فجور کی بنیاد پر کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اخروی ناکامی اور نامرادی ہے۔
(وقد خاب من دسھا):”’ سا “ ”’ س یدس دسا “ (ن) سے مبالغے کے لئے باب تفعیل ہے، معنی ہے مٹی میں دبا دینا، یہ اصل میں ”’ سس “ تھا، دوسرے سین کو الف کردیا، جیسے ” تقضض البازی “ (باز شکار ٹوٹ پڑا) کو ” تقضی البازی “ کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(ام یدسہ فی التراب) (النحل : ٥٩) ” یا اسے مٹی میں دبا دے۔ “
وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىہَا ١٠ ۭ- خاب - الخَيْبَة : فوت الطلب، قال : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] ، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه 61] ، وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس 10] .- ( خ ی ب ) خاب - ( ض ) کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں : قرآن میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہوگیا ۔ وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه 61] اور جس نے افتر ا کیا وہ نامراد رہا ۔ وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس 10] اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا ۔- دس - الدَّسُّ : إدخال الشیء في الشیء بضرب من الإكراه . يقال : دَسَسْتُهُ فَدَسَّ وقد دُسَّ البعیر بالهناء «1» ، وقیل : ليس الهناء بالدّسّ «2» ، قال اللہ تعالی: أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ- [ النحل 59] .- ( د س س ) الدس - ( ن ) کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز میں زبر دستی داخل کردینے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دسستہ فدس ۔ میں نے اسے ٹھونسا تو وہ ٹھنس گیا دس البعیر بالھناء ۔ اونٹ پر زبر دستی قطران ملی گئی ۔ بعض کہتے ہیں کہ قطران کے متعلق دس کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ [ النحل 59] یا زمین میں گاڑی دی ۔- دسھا : دس اصل میں دسس تھا۔ آخری س کو الف سے بدل دیا۔ اور تد سیس کے معنی ہیں اخفاء بمعنی چھپانا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے۔ ام یدسہ فی التراب (16:59) یا اس کو مٹی میں چھپا دے۔ آیت میں ہلاک کرنا مراد ہے کیونکہ ہلاک کرنا چھپانے کو مستلزم ہے۔ نیز ملاحظہ ہو آیت 9 مذکوہ بالا۔
آیت ١٠ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا ۔ ” اور ناکام ہوگیا جس نے اسے مٹی میں دفن کردیا۔ “- یہ اس سورت کا مرکزی مضمون ہے ۔ ان دو آیات میں انتہائی اختصار کے ساتھ انسان کی حقیقی کامیابی اور ناکامی کا معیار بیان کردیا گیا ہے۔ دَسَّ یَدُسُّ کے معنی کسی چیز کو مٹی میں دفن کردینے کے ہیں۔ سورة النحل (آیت ٥٩) میں ہم پڑھ چکے ہیں : اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِط اس آیت میں قبل از اسلام زمانے کے عربوں کی ایک خاص ذہنیت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے جس شخص کے گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ یا تو اسے ذلت آمیز طریقے سے زندہ رکھتا ہے یا زندہ دفن کردیتا ہے۔ یہاں ” دَسّٰی “ دراصل دَسَّسَ (باب تفعیل) ہے ‘ اس کے آخری سین کو یا سے بدل دیا گیا ہے۔ تو جس انسان نے اپنے نفس کو مٹی میں دفن کردیا (اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جس نے اپنی روح کو اپنے خاکی وجود کے اندر دبا دیا ۔ یعنی جس کی حیوانی خواہشات و شہوات اس کی روح پر غالب آگئیں) تو وہ ناکام رہا۔ البتہ جیسا کہ سورة الاعلیٰ کے مطالعہ کے دوران بھی نشان دہی کی گئی ہے ‘ زیر مطالعہ سورتوں کے مضامین میں سے اکثر کا تعلق سورة الاعلیٰ کے مضامین کے ساتھ ہے۔ چناچہ سورة الاعلیٰ میں قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ۔ کے الفاظ میں جو مضمون انتہائی مختصر انداز میں آیا تھا ‘ یوں سمجھیں کہ اب آیات زیر مطالعہ میں اس مضمون کی مزید تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اس مضمون پر قسموں کی صورت میں یہاں مزید گواہیاں بھی لائی گئی ہیں اور زیر مطالعہ آیت کے الفاظ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا ۔ میں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا گیا ہے۔- دراصل انسان کا نفس اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس امانت کو پاک صاف رکھنا اس کی ذمہ داری ہے ۔ نفس کو پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ‘ یعنی اپنی شخصیت کو تمام رذائل اور باطنی بیماریوں سے پاک کر کے بہترین انسانی خوبیوں کا مرقع بنائے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں عام طور پر تزکیہ نفس ‘ تعمیر ِسیرت ‘ تعمیر خودی وغیرہ اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی نظر میں کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے نفس کو پاک کرنے اور پاک رکھنے میں کامیاب ہوگیا ‘ خواہ دنیا والوں کی نظروں میں وہ حقیر ‘ فقیر اور بےنام ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس جس انسان نے اپنے نفس کو رذائل و خبائث سے آلودہ کرلیا ‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ناکام ہے ‘ دنیا میں خواہ وہ غیر معمولی عزت ‘ شہرت اور دولت کا مالک ہی کیوں نہ ہو ۔ اس لیے کہ اصل اور حقیقی کامیابی اور ناکامی کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کی ” ذات “ سے ہے۔ - انسان کی ” ذات “ سے کیا مراد ہے ؟ فرائڈ نے اسے انسان کی (اَنا) کا نام دیا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی کو اور کے تسلط سے آزاد کرا کے اسے مثبت انداز میں ترقی دے۔ علامہ اقبال نے اسے خودی کا نام دیا ہے اور انسان کی ” کامیابی “ کو اس کی خودی کی تعمیر و ترقی سے مشروط کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ انسان محض ایک جسم یا ہاتھ پائوں ‘ سر ‘ دھڑ وغیرہ کے مجموعے کا نام نہیں ہے۔ انسان کہتا ہے میرا ہاتھ ‘ میرا پائوں ‘ میرا سر وغیرہ۔ یہ تمام اعضاء بیشک اس کے ہیں ‘ لیکن وہ انسان جو ان اعضاء کو اپنا بتارہا ہے وہ خود کیا ہے ؟ اور کہاں ہے ؟ ظاہر ہے اصل انسان اس جسم یا وجود کے اندر ہے۔ اس کو ایسے سمجھیں کہ جس طرح آم کی گٹھلی کے اندر آم کا پورا درخت موجود ہے ‘ اسی طرح انسانی جسم کے اندر اصل انسان ایک لطیف شخصیت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ لطیف شخصیت عبارت ہے اس روح سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے حیوانی یا خاکی وجود کے اندر پھونکی ہے : وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ (الحجر : ٢٩) ۔ روح یا انسان کی انا کا ذکر اپنشد کے اس فقرے میں بھی ہے ‘ جس کا حوالہ میں پہلے بھی دے چکا ہوں : - .- گویا انسان کی یا انا یا خودی یا روح اس کے حیوانی وجود کی مٹی کے اندر دفن ایک خزانہ ہے۔ اب جو انسان اس خزانے کو مٹی سے نکال کر کام میں لے آئے گا ‘ یعنی اپنی روح کو صیقل کرلے گا ‘ اس کا نفس پاک ہوجائے گا (روح کی پاکیزگی نفس کی پاکیزگی کا باعث بنتی ہے۔ دونوں کا تعلق انسان کے باطن سے ہے) اور وہ کامیابی یا فلاح کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ (فلاح کا لفظ قرآن مجید میں ایک جامع اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس اصطلاح کے مفہوم کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورة المومنون کی پہلی آیت کی تشریح۔ )- زیر مطالعہ آیات کے حوالے سے یہ نکتہ خصوصی طور پر پیش نظر رہنا چاہیے کہ انسان کی روح اور اس کا نفس دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان آیات میں انسانی روح کا نہیں بلکہ انسانی نفس کا ذکر ہوا ہے۔ روحِ انسانی دراصل عالم امر کی چیز ہے اور یہ معرفت خداوندی اور محبت خداوندی کی امین ہے ‘ جبکہ نفس انسانی کا تعلق عالم خلق سے ہے ۔ اسی لیے اس کے ذکر سے پہلے جن چیزوں کی یہاں قسمیں کھائی گئی ہیں ان سب (سورج ‘ چاند ‘ دن ‘ رات ‘ آسمان ‘ زمین) کا تعلق بھی عالم خلق سے ہے ۔ روح تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو عطا ہوئی ہے ‘ جبکہ نفس گدھے ‘ گھوڑے اور چمپنیزی وغیرہ سب جانوروں میں ہوتا ہے۔ البتہ انسان کی خصوصیت اس حوالے سے یہ ہے کہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں نفس انسانی کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی ارتقائی درجات سے نوازا ہے اور اس کے اندر اخلاقی حس اور نیکی و بدی کی وہ تمیز الہام کردی ہے جو دوسرے جانوروں کے نفس میں نہیں پائی جاتی۔ اسی حس اور تمیز کی وجہ سے انسانی فطرت آفاقی سطح پر نیکی کو اچھا اور بدی کو برا سمجھتی ہے۔ دنیا میں کسی معاشرے ‘ کسی مذہب اور کسی نسل کا انسان ہو وہ سچ بولنے کو اچھا اور جھوٹ بولنے کو برا سمجھتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن میں معروف اور منکر کی اصطلاحات کثرت سے استعمال ہوتی ہیں۔ معروف وہ چیزیں یا افعال یا اعمال ہیں جو نفس انسانی کے لیے مانوس ہیں۔ انہیں دیکھ کر یا اپنا کر نفس انسانی کو راحت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں منکرات وہ چیزیں یا اعمال یا افعال ہیں جنہیں نفس انسانی برا سمجھتا ہے اور جن کی صحبت و معیت میں وہ اجنبیت اور کوفت محسوس کرتا ہے ‘ بلکہ وہ انسان کو ایسے اعمال و افعال سے ٹوکتا ہے۔ اسی لیے انسان غلطی کرنے کے بعد اکثر یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ ” میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے “ ( ) ۔ نفس انسانی کی اسی خصوصیت کی وجہ سے سورة القیامہ کی آیت ٢ میں اسے نفس لوامہ (ملامت کرنے والا نفس) کا نام دیا گیا ہے۔ - اس حوالے سے آیات زیر مطالعہ کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ نفس انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی اور بدی کی تمیز کا بنیادی بیج ڈال دیا گیا ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اس بیج کی حفاظت کرے ‘ اسے سازگار ماحول فراہم کرے اور عمل صالح کے پانی سے اس کی آبیاری کرے۔ سورة فاطر ( آیت ١٠) میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗط کہ کسی بھی اچھی بات یا اچھے کلام میں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن عمل صالح اس کی اس صلاحیت کو اور بڑھا دیتا ہے۔ چناچہ انسان جب تزکیہ نفس اور اعمالِ صالحہ کے حوالے سے محنت کرے گا تو اسے ایمان کی حلاوت بھی نصیب ہوگی ‘ وہ ایمان کے ان ثمرات سے بھی بہرہ مند ہوگا جن کا ذکر ہم سورة التغابن میں پڑھ آئے ہیں اور اسے کامیابی کی ضمانت بھی ملے گی۔ اس کے برعکس جس انسان نے اپنے نفس کو حیوانی وجود کے تابع کیے رکھا اور وہ اس کی آواز کو دبا کر زندگی بھر جسمانی تقاضے پورے کرنے میں لگا رہا وہ گویا خائب و خاسر ہو کر رہ گیا۔- اب اگلی آیات میں ایک قوم یا ایک معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے حوالے سے ایک مثال دی گئی ہے۔ ظاہر ہے جس طرح ایک انسان کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز ہوتی ہے اسی طرح ہر معاشرے میں اجتماعی طور پر بھی اخلاقی حس پائی جاتی ہے ‘ اور جس طرح ایک انسان میں اچھے برے داعیات ہوتے ہیں اسی طرح ہر معاشرے کے اندر بھی نیکی کے علمبردار اور شر پھیلانے والے عناصر موجود ہوتے ہیں۔ غرض جس طرح ایک فرد کا ضمیر ہوتا ہے اسی طرح معاشروں اور قوموں کا اجتماعی ضمیر بھی ہوتا ہے۔ چناچہ اگر کسی قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہو ‘ اس کی صفوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ احسن طریقہ سے ادا کیا جا رہا ہو تو اس قوم کے مجموعی حالات بہتر طور پر چلتے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر کسی قوم کا اجتماعی ضمیر مردہ ہوجائے اور اس کی اخلاقی حس بحیثیت مجموعی اس قدر کمزور ہوجائے کہ اس کے ماحول میں برائی کو برائی کہنے والا بھی کوئی نہ رہے تو ایسی قوم اپنے زندہ رہنے کا جواز کھو دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں اسی اجتماعی بےحسی کی تصویر پیش کی ہے : ؎- وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا - کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا - اس حوالے سے اب ملاحظہ ہو قوم ثمود کی مثال :
سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :6 یہ ہے وہ بات جس پر ان چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئی ہیں ۔ اب غور کیجئے کہ وہ چیزیں اس پر کس طرح دلالت کرتی ہیں ۔ قرآن میں اللہ تعالی کا قاعدہ یہ ہے کہ جن حقائق کو وہ انسان کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ، ان کی شہادت میں وہ سامنے کی چند ایسی نمایاں ترین چیزوں کو پیش کرتا ہے جو ہر آدمی کو اپنے گردوپیش کی دنیا میں ، یا خود اپنے وجود میں نظر آتی ہیں ۔ اسی قاعدے کے مطابق یہاں دو چیزوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں اس لیے ان کے آثار اور نتائج بھی یکساں نہیں ہیں بلکہ لازماً ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ ایک طرف سورج ہے اور دوسری طرف چاند ۔ سورج کی روشنی نہایت تیز ہے اور اس میں گرمی بھی ہے ۔ اس کے مقابلہ میں چاند اپنی کوئی روشنی نہیں رکھتا ۔ سورج کی موجودگی میں وہ آسمان پر موجود بھی ہو تو بے نور ہوتا ہے ۔ وہ اس وقت چمکتا ہے جب سورج چھپ جائے ، اور اس وقت بھی اس کی روشنی نہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ رات کو دن بنا دے ، نہ اس میں کوئی گرمی ہوتی ہے کہ وہ کام کر سکے جو سورج کی گرمی کرتی ہے ۔ لیکن اس کے اپنے کچھ اثرات ہیں جو سورج کے اثرات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک طرف دن ہے اور دوسری طرف رات ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ دونوں کے اثرات اور نتائج باہم اس قدر مختلف ہیں کہ کوئی ان کو یکساں نہیں کہہ سکتا حتی کہ ایک بے وقوف سے بے وقوف آدمی کے لیے بھی یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ رات ہوئی تو کیا اور دن ہوا تو کیا ، کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اسی طرح ایک طرف آسمان ہے جسے خالق نے بلند اٹھایا ہے اور دوسری طرف زمین ہے جسے پیدا کرنے والے نے آسمان کے نیچے فرش کی طرح بچھا دیا ہے ۔ دونوں اگرچہ ایک ہی کائنات اور اس کے نظام اور اس کی مصلحتوں کی خدمت کر رہے ہیں ، لیکن دونوں کے کام اور ان کے اثرات و نتائج میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ان آفاقی شہادتوں کو پیش کرنے کے بعد خود انسان کے اپنے نفس کو لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسے اعضا اور حواس اور ذہنی قوتوں کے متناسب امتزاج سے ہموار کر کے خالق نے اس کے اندر بھلائی اور برائی ، دونوں کے میلانات ، رجحانات اور محرکات رکھ دیے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں اور الہامی طور پر اسے ان دونوں کا فرق سمجھا دیا ہے کہ ایک فجور ہے اور وہ بری چز ہے ، اور دوسرا تقوی ہے ، اور وہ اچھی چیز ۔ اب اگر سورج اور چاند ، دن اور رات ، زمین اور آسمان یکساں نہیں ہیں بلکہ انکے اثرات اور نتائج ایک دوسرے سے لازماً مختلف ہیں ، تو نفس کافجور اور تقوی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود یکساں کیسے ہو سکتے ہیں ۔ انسان خود اس دنیا میں بھی نیکی اور بدی کو یکساں نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا ۔ خواہ اس نے اپنے بنائے ہوئے فلسفوں کی رو سے خیر و شر کے کچھ بھی معیار تجویز کر لیے ہوں ، بہرحال جس چیز کو بھی وہ نیکی سمجھتا ہے اس کے متعلق وہ یہ رائے رکھتا ہے کہ وہ قابل قدر ہے ، تعریف اور صلے اور انعام کی مستحق ہے ۔ بخلاف اس کے جس چیز کو بھی وہ بدی سمجھتا ہے اس کے بارے میں اس کی اپنی بے لاگ رائے یہ ہے کہ وہ مذمت اور سزا کی مستحق ہے ۔ لیکن اصل فیصلہ انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اس خالق کے ہاتھ میں ہے جس نے انسان کا فجور اور تقوی اس پر الہام کیا ہے ۔ فجور وہی ہے جو خالق کے نزدیک فجور ہے اور تقوی وہی ہے جو اس کے نزدیک تقوی ہے ۔ اور خالق کے ہاں ان دونوں کے دو الگ نتائج ہیں ۔ ایک کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنے نفس کا تزکیہ کرے وہ فلاح پائے ، اور دوسرے کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنے نفس کو دبا دے وہ نامراد ہو ۔ تزکیہ کے معنی ہیں پاک کرنا ، ابھارنا اور نشو ونما دینا ۔ سیاق و سباق سے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو ا پنے نفس کو فجور سے پاک کرے ، اس کو ابھار کر تقوی کی بلندی پر لے جائے اور اس کے اندر بھلائی کو نشوونما دے وہ فلاح پائے گا ۔ اس کے مقابلہ میں دَسَّاهَا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مصدر تدسیہ ہے ۔ تدسیہ کے معنی دبانے ، چھپانے ، اغوا کرنے اور گمراہ کر دینے کے ہیں ۔ سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شخص نامراد ہو گا جو اپنے نفس کے اندر پائے جانے والے نیکی کے رجحانات کو ابھارنے اور نشو ونما دینے کے بجائے ان کو دبا دے ، اس کو بہکا کر برائی کے رجحانات کی طرف لے جائے ، اور فجور کو اس پر اتنا غالب کر دے کہ تقوی اس کے نیچے اس طرح چھپ کر رہ جائے جیسے ایک لاش قبر پر مٹی ڈال دینے کے بعد چھپ جاتی ہے ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّی اللہُ نَفْسَہٗ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّی اللہُ نَفْسَہٗ ، یعنی فلاح پا گیا وہ جس کے نفس کو اللہ نے پاک کر دیا ، اور نامراد ہوا وہ جس کے نفس کو اللہ نے دبا دیا ۔ لیکن یہ تفسیر اول تو زبان کے لحاظ سے قرآن کے طرز بیان کے خلاف ہے ، کیونکہ اگر اللہ تعالی کو یہی بات کہنی مقصود ہوتی تو وہ یوں فرماتا کہ قَدْ اَفْلَحَتْ مَنْ زَکّٰھَا اللہُ وَقَدْ خَابَتْ مَنْ دَسّٰھَا اللہُ ( فلاح پا گیا وہ نفس جس کو اللہ نے پاک کر دیا اور نامراد ہو گیا وہ نفس جس کو اللہ نے دبا دیا ) ۔ دوسرے یہ تفسیر اسی موضوع پر قرآن کے دوسرے بیانات سے ٹکراتی ہے ۔ سورہ اعلی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ، فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی ( آیت 14 ) ۔ سورہ عبس میں اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ ، اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی نہ اختیار کرے ۔ ان دونوں آیتوں میں پاکیزگی اختیار کرنا بندے کا فعل قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن میں جگہ جگہ یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اس دنیا میں انسان کا امتحان لیا جا رہا ہے ۔ مثلاً سورہ دہر میں فرمایا ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کی آزمائش کریں اسی لیے اسے ہم نے سمیع و بصیر بنایا ۔ ( آیت 2 ) ۔ اور سورہ ملک میں فرمایا جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تمہیں آزمائے کون تم میں بہتر عمل کرنے والا ہے ۔ ( آیت 2 ) ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ امتحان سرے سے ہی بے معنی ہو جاتا ہے اگر امتحان لینے والا پہلے ہی ایک امیدوار کو ابھار دے اور دوسرے کو دبا دے ۔ اس لیے صحیح تفسیر وہی ہے جو قتادہ ، عکرمہ ، مجاہد اور سعید بن جبیر نے بیان کی ہے کہ زَكَّاهَا اور دَسَّاهَا کا فاعل بندہ ہے نہ کہ خدا ۔ رہی وہ حدیث جو ابن ابی حاتم نے عن جویبر بن سعید عن الضحاک عن ابن عباس کی سند سے نقل کی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اَفْلَحَتْ نَفْسٌٌ نَکَّاھَا اللہُ عَزَّوَ جَلْ ( فلاح پا گیا وہ نفس جس کو اللہ عزو جل نے پاک کر دیا ) ، تو یہ ارشاد درحقیقت حضور سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں جو یبر متروک الحدیث ہے اور ابن عباس سے ضحاک کی ملاقات نہیں ہوئی ہے ۔ البتہ وہ حدیث صحیح ہے جو امام احمد ، مسلم ، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے حضرت زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ حضور یہ دعا مانگا کرتے تھے اَلّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَ زَکَّھَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ ذَکَّاھَا ، اَنْتَ وَ لِیُّھَا وَ مَوْلَاھَا خدایا میرے نفس کو اس کا تقوی عطا کر اور اس کو پاکیزہ کر ، تو ہی وہ بہتر ہستی ہے جو اس کو پاکیزہ کرے ، تو ہی اس کا سرپرست اور مولی ہے ۔ اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں حضور کی یہ دعا حضرت عبداللہ بن عباس سے طبرانی ، ابن مردویہ اور ابن المندر نے اور حضرت عائشہ سے امام احمد نے نقل کی ہے ۔ اس کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ بندہ تو صرف تقوی اور تزکیہ کی خواہش اور طلب ہی کر سکتا ہے ، رہا اس کا نصیب ہو جانا ، تو بہرحال اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے ۔ اور یہی حال تدسیہ کا بھی ہے کہ اللہ زبردستی کسی کے نفس کو نہیں دباتا ، مگر جب بندہ اس پر تل جائے تو اللہ تعالی اسے تقوی اور تزکیہ کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے کہ اپنے نفس کو جس گندگی کے ڈھیر میں دبانا چاہے دبا دے ۔