Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یہ کام ایک شخص قدار نے کیا تھا لیکن چوں کہ اس شرارت میں قوم بھی اس کے ساتھ تھی اس لیے اس میں سب کو برابر کا مجرم قرار دیا گیا، اور تکذیب اور اونٹنی کی کوچیں کاٹنے کی نسبت پوری قوم کی طرف کی گئی، جس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ ایک برائی پر نکیر کرنے کے بجائے اسے پسند کرتی ہو تو اللہ کے ہاں پوری قوم اس برائی کی مرتکب قرار پائے گی اور اس جرم یا برائی میں برابر کی شریک سمجھی جائے گی۔ 14۔ 2 ان کو ہلاک کردیا اور ان پر سخت عذاب نازل کیا۔ 14۔ 3۔ یعنی اس عذاب میں سب کو برابر کردیا، کسی کو نہیں چھوڑا، چھوٹا بڑا، سب کو نیست ونابود کردیا گیا یا زمین کو ان پر برابر کردیا یعنی سب کو تہ خاک کردیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] یعنی ان لوگوں نے سیدنا صالح (علیہ السلام) کی تنبیہ کو چنداں اہمیت نہ دی اور اس تنبیہ کو جھوٹ ہی سمجھا۔[١٤] اونٹنی کو ہلاک کرنے والا صرف ایک شخص قدار بن سالف تھا جو خود بھی زانی اور ایک زانیہ عورت کا عاشق تھا۔ اسی زانیہ عورت کی انگیخت پر اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا تھا۔ پھر ساری قوم کے لوگوں سے خفیہ مشورے کرکے ان کو ہمنوا بنا لیا تھا۔ اسی لیے اونٹنی کو ہلاک کرنے کی نسبت پوری قوم کی طرف کی گئی ہے اور عذاب بھی صرف اونٹنی کو ہلاک کرنے والے پر نہیں بلکہ ساری قوم پر آیا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) فکذبوہ فعقروھا : اگرچہ ایک آدمی نے کونچیں کاٹ کر اسے ہلاک کیا تھا، لیکن چونکہ ساری قوم اس کے ساتھ تھی بلکہ انھی کے کہنے پر اس نے یہ کام کیا تھا، اسلئے ان سب کو مجرم قرار دیا گیا اور فرمایا کہ ” انہوں نے اس کو کونچیں کاٹ دیں۔ “- (٢) فدمدم علیھم ربھم بذنبھم فسوھا : قاموس میں ہے :”’ مم القوم کدمدمھم و دمدم علیھم طحنھم فاھلکھم “”’ مدم علیھم “ اس نے انہیں پیس کر ہلاک کردیا۔ اونٹنی کو مار ڈالنے کے تین دن بعد ان پر ایک زبردست غیبی چیخ کے ساتھ عذاب آیا اور وہ اس طرح نابود ہوگئے جیسے کبھی وہاں تھے ہی نہیں، صرف صالح (علیہ السلام) اور الہ ایمان بچے۔ سورة ہود (٦٢ تا ٦٨) ، اعراف (٧٣ تا ٧٩) اور سورة شعراء (١٤١ تا ١٥٩) میں یہ واقعہ تفصیل سے گزر چکا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فدمدم علیھم ربھم بذنبہم فسوھا، دمدمہ کا لفظ ایسے سخت عذاب کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی شخص یا قوم پر بار بار آتا ہے یہاں تک کہ ان کو بالکل فنا کردے۔ اور فسوھا کا مطلب یہ ہے کہ یہ عذاب پوری قوم پر محیط ہوگیا جس میں مرد و عورت بچہ بوڑھا سب برار ہوگئے۔ آخر میں فرمایا ولا یخاف عقبھا، یعنی حق تعالیٰ کا عذاب اور کسی قوم کو تباہ کردینے کے معاملے کو دنیا کے معاملات کی طرح نہ سمجھ کہ اس میں بڑے سے بڑا بادشاہ صاحب قوت و شوکت بھی جب کسی قوم کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے جس میں پوری قوم کی ہلاکت ہے تو اس کو خود بھی یہ خطرہ رہتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کے بقایا یا انکے حامی لوگ ہم سے انتقام لیں اور بغاوت کرنے لگیں غرض دنیا میں دوسروں کو مارنے والا خود بھی کبھی بےخطر نہیں رہتا، جو دوسروں پر حملہ کرتا اس کو اپنے پر حملے کا خطرہ بھی لازماً برداشت کرنا پڑتا ہے بجز حق تعالیٰ جل شانہ، کے کہ اس کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں، واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔- تمت سورة الشمس بحمد اللہ ٤٢ شعبان ١٩٣١

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَكَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْہَا۝ ٠ڃ فَدَمْدَمَ عَلَيْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْۢبِہِمْ فَسَوّٰىہَا۝ ١٤ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - عقر - عُقْرُ الحوض والدّار وغیرهما : أصلها ويقال :- له : عَقْرٌ ، وقیل : ( ما غزي قوم في عقر دارهم قطّ إلّا ذلّوا) «4» ، وقیل للقصر : عُقْرَة . وعَقَرْتُهُ أصبت : عُقْرَهُ ، أي : أصله، نحو، رأسته، ومنه :- عَقَرْتُ النّخل : قطعته من أصله، وعَقَرْتُ البعیر : نحرته، وعقرت ظهر البعیر فانعقر، قال :- فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود 65] ، وقال تعالی: فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر 29] ، ومنه استعیر : سرج مُعْقَر، وکلب عَقُور، ورجل عاقِرٌ ، وامرأة عاقر : لا تلد، كأنّها تعقر ماء الفحل . قال : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم 5] ، وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران 40] ، وقد عَقِرَتْ ، والعُقْرُ : آخر الولد . وبیضة العقر کذلک، والعُقَار : الخمر لکونه کالعاقر للعقل، والمُعَاقَرَةُ : إدمان شربه، وقولهم للقطعة من الغنم : عُقْرٌ فتشبيه بالقصر، فقولهم : رفع فلان عقیرته، أي : صوته فذلک لما روي أنّ رجلا عُقِرَ رِجْلُهُ فرفع صوته «5» ، فصار ذلک مستعارا للصّوت، والعقاقیر : أخلاط الأدوية، الواحد : عَقَّار - . ( ع ق ر ) العقر - کے معنی حوض یا مکان کے اصل اور وسط کے ہیں اور اسے عقر بھی کہتے ہیں حدیث میں ہے (42) ماغزی قوم فی عقر دارھم قط الا ذلو ا کہ کسی قوم پر ان کے گھروں کے وسط میں حملہ نہیں کیا جاتا مگر وہ ذلیل ہوجاتی ہیں اور تصر یعنی محل کو عقرۃ کہاجاتا ہے ۔ عقرتہ اس کی عقر یعنی جڑپر مارا ۔ جیسا کہ راستہ کے معنی ہیں میں نے اس کے سر پر مارا اسی سے عقرت النخل ہے جس کے معنی ہیں میں نے کھجور کے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا ۔ عقرت البعیر اونٹ کی کو نچیں کاٹ دیں اسے ہلاک کردیا عقرت ظھر البعیر اونٹ کی پشت کو رخمی کردیا انعقر ظھرہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی قرآن میں ہے : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود 65] مگر انہوں نے اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں فائدہ اٹھالو ۔- ۔ فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر 29] تو اس نے جسارت کرکے اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں اور اسی سے بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ سرج شعقر زخمی کردینے والی زین ۔ کلب عقور کاٹ کھانے والا کتا ، درندہ جانور رجل عاقر بانجھ مرد ۔ امرءۃ عاقر بانچھ عورت گو یا وہ مرد کے نطفہ کو قطع کردیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم 5] اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ قد عقرت وہ بانجھ ہوگئی ۔ العقر آخری بچہ بیضۃ العقر آخری انڈا عقار ( پرانی ) شراب کیونکہ وہ عقل کو قطع کردیتی ہے ۔ المعاقرۃ کے معنی ہیں شراب نوشی کا عادی ہونا اور قصر کے ساتھ تشبیہ دے کر بکریوں کی ٹکڑی کو بھی عقر کہاجاتا ہے ۔ رفع فلان عقیرتہ فلاں نے آواز بلند کی مروی ہے کہ ایک آدمی کی ٹانگ کٹ گئی وہ چلایا تو اس وقت سے بطور استعارہ عقر کا لفظ بلند آواز کے معنی میں ہونے لگا ہے ۔ عقاقیر جڑی بوٹیاں ۔ اس کا واحد عقار ہے ۔- دمدم - فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ [ الشمس 14] ، أي : أهلكهم، وأزعجهم، وقیل : الدّمدمة حكاية صوت الهرّة، ومنه : دَمْدَمَ فلان في کلامه، ودَمَمْتُ الثوب : طلیته بصبغ مّا، والدِّمَام : يطلی به، وبعیر مَدْمُوم بالشّحم، والدَّامَّاء، والدُّمَمَة : جحر الیربوع، والدَّامَاء بالتخفیف، والدَّيْمُومَة :- المفازة .- ( د م د م ) الدمدمۃ ( فعللہ) ہلاک کرنا ۔ اور آیت :۔ فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ [ الشمس 14] کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے انہیں ہلاک کرڈالا اور پریشان وبے چین کردیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ دمدمۃ ( اسم صوت ہے اور ) بلی کی آواز کی حکایت کی کہتے ہیں ۔ اسی سے دمدم فلان فی کلامہ کا محاورہ ہے یعنی اس نے پریشان کن سی گفتگو ۔ دممت الثوب کپڑے کو رنگ سے طلا کرنا ۔ الدمام ۔ ہر وہ چیز جس سے طلا کی جائے ۔ بعیر مدموم بالشھم ۔ بہت موٹا اور چربی والا اونٹ گویا چربی اس پر طلا کی گئی ہے ۔ الداماء والدممۃ۔ جنگلی چوہے کابل ۔ الداماء ( تخفیف میم ) والدیمومۃ ۔ صحراء ۔ ریگستان ۔- ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- سوا ( مساوات برابر)- الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل،- وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله :- وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں - التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(14 ۔ 15) سو اللہ تعالیٰ نے اونٹنی کو قتل کرنے اور حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلانے کی وجہ سے ان سب کو ہلاک کر ڈالا اور پھر عذاب کو چھوٹے بڑے سب کے لیے عام کردیا اور اللہ کو اس ہلاک کرنے میں کسی سے اندیشہ نہیں ہوا، یا یہ کہ ان لوگوں نے اونٹنی کو قتل کر ڈالا اور ان کو اس کے انجام کا اندیشہ نہیں ہوا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْہَاص ” تو انہوں نے اس کو جھٹلا دیا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ “- فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰٹہَا ۔ ” تو الٹ دیا ان پر عذاب ان کے رب نے ان کے گناہ کی پاداش میں اور سب کو برابر کردیا۔ “- ان کے جرمِ عظیم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب استیصال نازل فرمایا اور پوری قوم کو ایک ساتھ پیوند خاک کردیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :9 قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ ثمود کے لوگوں نے حضرت صالح کو چلینج دیا تھا کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی نشانی ( معجزہ ) پیش کرو ۔ اس پر حضرت صالح نے ایک اونٹنی کو معجزے کے طور پر ان کے سامنے حاضر کر دیا اور ان سے کہا کہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے ، یہ زمین میں جہاں چاہے گی چرتی پھرے گی ، ایک دن سارا پانی اس کے لیے مخصوص ہو گا اور دوسرا دن تم سب کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے رہے گا ، اگر تم نے اس کو ہاتھ لگایا تو یاد رکھو کہ تم پر سخت عذاب نازل ہو جائے گا ۔ اس پر کچھ مدت تک ڈرتے رہے ۔ پھر انہوں نے اپنے سب سے زیادہ شریر اور سرکش سردار کو پکارا کہ اس اونٹنی کا قصہ تمام کر دے اور وہ اس کام کا ذمہ لے کر اٹھ کھڑا ہوا ( الااعراف ، آیت 73 ۔ الشعراء آیات 154 تا 156 ۔ القمر ، آیت 29 ۔ سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :10 سورہ اعراف میں ہے کہ اونٹنی کو مارنے کے بعد ثمود کے لوگوں نے حضرت صالح سے کہا کہ اب لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے تھے ۔ ( آیت 77 ) اور سورہ ہود میں ہے کہ حضرت صالح نے ان سے کہا تین دن اپنے گھروں میں اور مزے کر لو ، اس کے بعد عذاب آ جائے گا اور یہ ایسی تنبیہ ہے جو جھوٹی ثابت نہ ہو گی ( آیت 65 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani