Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 الہام کا مطلب یا تو یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح سمجھایا اور انہیں انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے خیر وشر کی پہچان کروا دی، یا مطلب یہ ہے کہ ان کی عقل اور فطرت میں خیر اور شر، نیکی اور بدکاری کا شور ودیعت کردیا، تاکہ وہ نیکی کو اپنائیں اور بدی سے اجتناب کریں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] الہام اور وحی کا فرق :۔ فَاَلْھَمَھَا : الہام کے معنی وہ بات ہے جو اللہ تعالیٰ یا ملاء اعلیٰ کی جانب سے بغیر کسی واسطہ کے دل میں ڈال دی جائے اور بمعنی سمجھ اور بصیرت عطا فرمانا۔ توفیق دینا، الہام شیطان کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ نصوص شرعیہ کے خلاف ہو۔ وحی اور الہام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ الہام کا اطلاق صرف ذوی العقول پر ہوتا ہے جبکہ وحی عام ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ الہام کا تعلق کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ جبکہ وحی میں بہت زیادہ وسعت ہوتی ہے۔ - خ الہام کی تین صورتیں :۔ الہام کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو وہ ہے جسے ہم فطری وحی کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے ایک پرندے کے چوزے کو پیدا ہوتے ہی ہوا میں اڑنا سکھا دیا ہے یا مچھلی کو پانی میں تیرنا یا شہد کی مکھی کو چھتہ جیسا حیرت انگیز گھر بنانا سکھا دیا یا انسان کے بچہ کو ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکنا اور دودھ چوسنا سکھا دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ فطرت میں یہ باتیں نہ رکھتا تو پیدا ہونے والے نادان بچے کو ایسی باتیں سکھانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ الہام کی دوسری صورت کسی ایسی بات کا یکدم سوجھ جانا ہے جو انسان کی ذہنی کاوش کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ چناچہ سائنس کے جتنے اکتشافات اور ایجادات ہوئی ہیں۔ وہ انسانوں کی ذہنی کاوش کے نتیجہ میں نہیں بلکہ ایسے ہی الہام کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہیں۔ الہام کی تیسری صورت کا تعلق صرف اخلاقیات سے ہے اور یہی اس آیت میں مذکور ہے یعنی ہر انسان کی فطرت میں خیر و شر کی تمیز رکھ دی گئی ہے۔ پھر انسان کا ضمیر انسان کو ہر وقت متنبہ بھی کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات اسے برا کام کرنے پر سخت ندامت محسوس ہوتی ہے اور کسی سے بھلائی کرکے انسان خوش ہوتا ہے۔ یہ احساس و امتیاز ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصور سے خالی نہیں رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(فالھمھا فجورھا و تقومھا : لھم یلھم لھما “ (س) ” الشیء “ کسی چیز کو ایک ہی بار نگل جانا۔” الھم اللہ یلھم الھاماً “ (افعال) اللہ تعالیٰ کا دل میں کوئی بات ڈال دینا، سمجھا دینا، اس کی توفیق دے دینا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں اس کی نیکی اور بدی کی پہچان رکھ دی ہے۔ یہ پہچان پہلے عقل و فطرت میں رکھی گئی، پھر انیباء (رض) عنہماکے ذریعے سے دوبارہ یاد دہانی کروائی گئی، تاکہ لوگ نافرمانی سے بچیں اور پرہیز گاری اختیار کریں۔ دیکھیے سورة دہر (٣) اور سورة بلد (١٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فالھمھا فجورھا وتقوھا، الہام کے معنے دل میں ڈالنا، فجور کے معنے کھلا گناہ اور تقویٰ کا مفہوم معروف و مشہور ہے۔ یہ جملہ بھی ساتویں قسم ونفس وماسوھا کے ساتھ مربوط ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو بنایا، پھر اسکے دل میں فجور اور تقویٰ دونوں کا الہام کردیا، مراد یہ ہے کہ نفس انسانی کی تخلیق میں حق تعالیٰ نے گناہ اور اطاعت دونوں کے مادے اور استعداد رکھدی ہے پھر انسان کو ایک خاص قسم کا اختیار اور قدرت دے دی کہ وہ اپنے قصد واختیار سے گناہ کی راہ اختیار کرلے یا اطاعت کی، جب وہ اپنے قصد واختیار سے ان میں سے کوئی راہ اختیار کرتا ہے تو اسی قصد واختیار پر اس کو ثواب یا عذاب ملتا ہے، اس تفسیر سے وہ شبہ رفع ہوگیا کہ گناہ اور اطاعت جب خود انسان کی تخلیق میں رکھدی گئی تو وہ اسکے کرنے پر مجبور ہوا، ایسی صورت میں وہ نہ کسی ثواب کا مستحق ہے نہ عذاب کا، اور یہ تفسیر ایک حدیث مرفوع سے مستفاد ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین کی روایت سے آئی ہے کہ بعض لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ تقدیر کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب میں یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اس آیت سے مسئلہ تقدیر کے شبہ کا جواب اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ الہام فجور وتقویٰ سے مراد یہ لیا جائے کہ دونوں کے مادے اور استعدادیں حق تعالیٰ نے نفس انسانی کے اندر رکھدیئے ہیں مگر اس کو ان میں سے کسی ایک پر مجبور محض نہیں کیا بلکہ اس کو قدرت واختیاردیا کہ ان میں سے جس کو جی چاہے اختیار کرسکتا ہے۔- حضرت ابوہریرہ اور ابن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ آیت تلاوت فرماتے تو بلند آواز سے یہ دعا پڑھا کرتے تھے الھم ات نفسی تقوھا انت ولیھا ومولا ھا وانت خیر من ذکھا یعنی یا اللہ میرے نفس کو تقویٰ کی توفیق عطا فرما، آپ ہی میرے نفس کے ولی اور مربی ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝ ٨ - لهم - الْإِلْهَامُ : إلقاء الشیء في الرّوع، ويختصّ ذلک بما کان من جهة اللہ تعالی، وجهة الملإ الأعلی. قال تعالی: فَأَلْهَمَها فُجُورَها وَتَقْواها[ الشمس 8] وذلک نحو ما عبّر عنه بِلَمَّةِ المَلَك، وبالنّفْث في الرّوْع کقوله عليه الصلاة والسلام : «إنّ للملک لمّة وللشیطان لمّة» وکقوله عليه الصلاة والسلام : «إنّ روح القدس نفث في روعي» وأصله من الْتِهَامِ الشیء، وهو ابتلاعه، والْتَهَمَ الفصیل ما في الضّرع، وفرس لهم : كأنه يَلْتَهِمُ الأرض لشدّة عدوه .- ( ل ھ م ) الالھام ( افعال ) کے معنی کسی کے دل میں کوئی بات القا کردینا کے ہیں ۔ لیکن یہ لفظ ایسی بات کے القاء کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے جو اللہ تعالیٰ یا ملاء اعلیٰ کی جانب سے کسی کے دل میں ڈالی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : فَأَلْهَمَها فُجُورَها وَتَقْواها[ الشمس 8] پھر اس کو بدکاری ( سے بچنے ) اور پرہیزگاری ( کرنے ) کی سمجھ دی ۔ اور اس کو لمۃ الملک یا نفث فی الروع سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان اللملک لمۃ وللشیطان کا ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا :(114) ان روح القدمن نفث فی روعی کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بت ڈال دی ۔ اصل میں یہ التھام الشئی سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی کسی چیز کو نگل جانا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ التھم الفصیل مافی الضرع کہ اونٹنی کے بچے نے تھنوں سے تمام دودھ چوس لیا ۔ فرس لھم تیز رو گھوڑا گویا وہ اپنی تیزروی سے زمین کو نگل رہا ہے ۔- فجر - الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً- [ الإسراء 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] .- ( ف ج ر ) الفجر - کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے - صبح کو فجر کہا جاتا ہے - کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو - تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰٹہَا ۔ ” پس اس کے اندر نیکی اور بدی کا علم الہام کردیا۔ “- اب اگلی دو آیات میں ان قسموں کے جواب مذکور ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :5 الہام کا لفظ لَہْمَ سے ہے جس کے معنی نگلنے کے ہیں ۔ لَھَمَ الْشَّیََٔ وَ الْتَھَمَہٗ کے معنی ہیں فلاں شخص نے اس چیز کو نگل لیا ۔ اور اَلْھَمْتُہُ الْشَّیََٔ کے معنی ہیں میں نے فلاں چیز اس کو نگلوا دی یا اس کے حلق سے اتار دی ۔ اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے الہام کا لفظ اصلاحاً اللہ تعالی کی طرف سے کسی تصور یا کس خیال کو غیر شعوری طور پر بندے کے دل و دماغ میں اتار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ نفس انسانی پر اس کی بدی اور اس کی نیکی و پرہیزگاری الہام کر دینے کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کے اندر خالق نے نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات و میلات رکھ دیے ہیں ، اور یہ وہ چیز ہے جس کو ہر شخص اپنے اندر محسوس کرتا ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے لاشعور میں اللہ تعالی نے یہ تصورات ودیعت کر دیے ہیں کہ اخلاق میں کوئی چیز بھلائی ہے اور کوئی چیز برائی ، اچھے اخلاق و اعمال اور برے اخلاق و اعمال یکساں نہیں ہیں ، فجور ( بد کرداری ) ایک قبیح چیز ہے اور تقویٰ ( برائیوں سے اجتناب ) ایک اچھی چیز ۔ یہ تصورات انسان کے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ اس کی فطرت ان سے آشنا ہے اور خالق نے برے اور بھلے کی تمیز پیدائشی طور پر اس کو عطا کر دی ہے ۔ یہی بات سورہ بلد میں فرمائی گئی ہے کہ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ اور ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں نمایاں راستے دکھا دیے ( آیت 10 ) ۔ اسی کو سورہ دھر میں یوں بیان کیا گیا ہے: إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ہم نے اس کو راستہ دکھایا خواہ شاکر بن کر رہے یا کافر ( آیت 3 ) ۔ اور اسی بات کو سورہ قیامہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے اندر ایک نفس لوامہ ( ضمیر ) موجود ہے جو برائی کرنے پر اسے ملامت کرتا ہے ( آیت 2 ) اور ہر انسان خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے مگر وہ اپنے آپ کو خوب جانتا ہے کہ وہ کیا ہے ( آیات 14 ۔ 15 ) ۔ اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فطری الہام اللہ تعالی نے ہر مخلوق پر اس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے ، جیسا کہ سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت عطا کی پھر راہ دکھائی ۔ ( آیت 50 ) مثلاً حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضروریات کے مطابق الہامی علم دیا گیا ہے جس کی بنا پر مچھلی کو آپ سے آپ تیرنا ، پرندے کو اڑنا ، شہد کی مکھی کو چھتہ بنانا اور بئے کو گھونسلا تیار کرنا آ جاتا ہے ۔ انسان کو بھی اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے الگ الگ قسم کے الہامی علوم دیے گئے ہیں ۔ انسان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک حیوانی وجود ہے اور اس حیثیت سے جو الہامی علم اس کو دیا گیا ہے اس کی ایک نمایاں ترین مثال بچے کا پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ چوسنا ہے جس کی تعلیم اگر خدا نے فطری طور پر اسے نہ دی ہوتی تو کوئی اسے یہ فن نہ سکھا سکتا تھا ۔ اس کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک عقلی وجود ہے ۔ اس حیثیت سے خدا نے انسان کی آفرینش کے آغاز سے مسلسل اس کو الہامی رہنمائی دی ہے جس کی بدولت وہ پے در پے اکتشافات اور ایجادات کر کے تمدن میں ترقی کرتا رہا ہے ۔ ان ایجادات و اکتشافات کی تاریخ کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ محسوس کرے گا کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی جو محض انسانی فکر و کاوش کا نتیجہ ہو ، ورنہ ہر ایک کی ابتدا اسی طرح ہوئی ہے کہ یکایک کسی شخص کے ذہن میں ایک بات آ گئی اور اس کی بدولت اس نے کسی چیز کا اکتشاف کیا یا کوئی چیز ایجاد کر لی ۔ ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے ، اور اس حیثیت سے بھی اللہ تعالی نے اسے خیر و شر کا امتیاز ، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے ۔ یہ امتیاز و احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصورات سے خالی نہیں رہا ہے ، اور کوئی ایسا معاشرہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور برائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار نہ کی گئی ہو ۔ اس چیز کا ہر زمانے ہر جگہ اور ہر مرحلہ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اس کے فطری ہونے کا صریح ثبوت ہے اور مزید براں یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک خالق حکیم و دانا نے اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے ، کیونکہ جن اجزاء سے انسان مرکب ہے اور جن قوانین کے تحت دنیا کا مادی نظام چل رہا ہے ان کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشاندی نہیں کی جا سکتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani