5۔ 1 یعنی خیر کے کاموں میں خرچ کرے گا اور محارم سے بچے گا۔
فاما من اعطی …:” الحسنی “” احسن “ کی مونث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ومن احسن قولاً ممن دعآ الی اللہ و عمل صالحاً وقال اننی من السلمین) (حم السجدۃ : ٣٣)” اور اس شخص سے زیادہ اچھی بات کس کی ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ بیشک میں فرماں بر داروں سے ہوں ؟ “ جس شخص میں بھی بھلائی کے یہ تین جامع اوصاف ہیں کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے فراخ دل ہے، اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کی نافرمانی اور ہر حرام کام سے بچتا ہے اور سب سے اچھی بات یعنی اللہ کے ایک ہونے کو اور اس کی نازل کی ہوئی ہر بات کو سچ مان کر اس کا تابع ہوجاتا ہے، تو اس کے اس میلان اور رجحان کے مطابق ہم بھی اس کے لئے نیکی اور جنت کے راستے پر چلنا آسان کردیں گے، یعنی اس کے لئے نیکی کرنا آسان ہوجائے گا اور گناہ کرنا مشکل۔
فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى ٥ ۙ- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔
سو جس نے اللہ کی راہ میں مال دیا اور نو مسلمانوں کو کفار سے خرید کر اور ان کی تکالیف سے نجاد دلا کر ان کو آزاد کردیا اور کفر و شرک اور فواحش سے بچا، اور اللہ کے وعدے کی، یا یہ کہ جنت کی، یا یہ کہ کلمہ اسلام کی تصدیق کی سو ہم اس پر اطاعت خداوندی کو آسان کردیں گے یا یہ کہ بار بار نیکیوں اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی توفیق دیں گے ان آیات سے حضرت ابوبکر صدیق مراد ہیں ان ہی کی فضیلت میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔- شان نزول فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى الخ - حاکم نے بواسطہ عامر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو قحافہ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا اے بیٹے تو کمزوروں کو خرید کر آزاد کرتا ہے تو اگر طاقتور آدمیوں کو آزاد کرتا جو تیری مدد اور تیری حفاظت کے لیے کھڑے ہوتے تو اچھا تھا تو اس پر حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا میں صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کمزوروں کو آزاد کراتا ہوں اس پر فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى اخیر تک یہ آیات نازل ہوئی اور بزاز نے ابن زبیر سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰٓى اخیر تک حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں نازل ہوئی۔
آیت ٥ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی ۔ ” تو جس نے عطا کیا اور تقویٰ اختیار کیا۔ “- ظاہر ہے یہ خیر کا راستہ ہے اور اس راستے کا پہلا وصف یا پہلا سنگ میل ” اِعطاء “ یا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ سورة البلد میں اس عمل کو انسان کے لیے ایک بہت مشکل گھاٹی قرار دے کر اس کی وضاحت یوں فرمائی گئی : فَکُّ رَقَـبَۃٍ - اَوْ اِطْعٰـمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَـبَۃٍ - یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ - اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ - ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا… ” کسی گردن کا چھڑا دینا۔ یا کھانا کھلا دینا بھوک کے دن ‘ اس یتیم کو کہ جو قرابت دار بھی ہے ‘ یا اس محتاج کو جو مٹی میں رُل رہا ہے۔ پھر وہ شامل ہوا ان لوگوں میں جو ایمان لائے…“- یعنی جو انسان اس ” مشکل گھاٹی “ کو عبور کرنے کے بعد اہل ایمان کی صف میں شامل ہوگا وہ ان شاء اللہ ابوبکر صدیق ‘ عمر فاروق ‘ عثمان غنی اور علی مرتضیٰ - کا پیروکار بنے گا ۔ لیکن جس نے یہ امتحان پاس کیے بغیر ہی کلمہ پڑھ لیا تو اس کے بارے میں خدشہ ہے کہ توحید و رسالت کی گواہی دینے کے بعد بھی اس کے ایمان کی بوباس عبداللہ بن ابی کے ایمان کی سی ہوگی۔ ظاہر ہے جو کلمہ حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان اور حضرت علی - نے پڑھا تھا وہی کلمہ عبداللہ بن ابی نے بھی پڑھا تھا۔ یعنی ایمان کا بیج تو دونوں طرف ایک سا تھا ‘ مگر یہ زمین اور تھی ‘ وہ زمین اور تھی۔ اس زمین میں انفاق فی سبیل اللہ کا ہل چل چکا تھا اور اس زمین میں ُ حب ِدنیا اور شکوک و تردّد کے جھاڑ جھنکاڑ نے قبضہ جما رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عبداللہ بن ابی کے دل کی زمین میں ایمان کے بیج کا جمائو ممکن ہی نہ ہوا۔ اس حوالے سے اگر سورة آل عمران کی آیت ٩٢ کے اس جملے کو مدنظر رکھا جائے تو انفاق و اِعطاء کے اس فلسفے کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے : لَــنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَط یعنی جب تک تم لوگ اپنی عزیز ترین چیز کو اللہ کی راہ میں نہ دے ڈالو تم نیکی کی گردکو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہیے تو مال کی قربانی دو اور قربانی بھی بہترین چیز کی۔ یہ نہیں کہ چھانٹ کر بےکار چیزیں کسی کو دے کر سمجھو کہ تم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے۔ - اس راستے کا دوسر اوصف یا سنگ میل تقویٰ ( وَاتَّقٰی) ہے ۔ یعنی انسان کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرتے رہنا۔ ہر لمحہ برائی کی خاردار جھاڑیوں سے اپنا دامن بچانے کی فکر میں رہنا اور مسلسل کوشش کرتے رہنا کہ میں کسی کا دل نہ دکھائوں اور کسی کا حق نہ ماروں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ وہ اخلاقی حس زندہ و بیدار ہو جس کا ذکر سورة الشمس کی آیت فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰٹہَا ۔ میں آیا ہے۔ اگر اس کی اخلاقی حس کی شمع ہوا و ہوس کے طوفان کی نذر ہوچکی ہو تو پھر ظاہر ہے کہاں کا تقویٰ اور کس کا ڈر