تین سے مراد کسی کے نزدیک تو مسجد دمشق ہے کوئی کہتا ہے خود دمشق مراد ہے ، کسی کے نزدیک دمشق کا ایک پہاڑ مراد ہے بعض کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کی مسجد مراد ہے ، کوئی کہتا ہے کہ جودی پہاڑ پر مسجد نوح ہے وہ مراد ہے ۔ بعض کہتے ہیں انجیر مراد ہے زیتون سے کوئی کہتا ہے مسجد بیت المقدس مراد ہے ۔ کسی نے کہا کہ وہ زیتون جسے نچوڑتے ہو ، طور سینین وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھابلد الامین سے مراد مکہ شریف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ بعض کا قول یہ ہے کہ یہ تینوں وہ جگہیں ہیں جہاں تین اولو العزم صاحب شریعت پیغمبر بھیجے گئے تھے ، تین سے مراد تو بیت المقدس ہے ۔ جہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور طور سینین سے مراد طور سینا ہے جہاں حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا اور بلد امین سے مراد مکہ مکرمہ جہاں ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھیجے گئے ، تورات کے آخر میں بھی ان تینوں جگہوں کا نام ہے اس میں ہے کہ طور سینا سے اللہ تعالیٰ آیا یعنی وہاں پر حضرت عیسیٰ کو وہاں بھیجا اور فاران کی چوٹیوں پر وہ بلند ہوا یعنی مکہ کے پہاڑوں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا ، پھر ان تینوں زبردست بڑے مرتبے والے پیغمبروں کی زمانی اور وجودی ترتیب بیان کر دی ۔ اسی طرح یہاں بھی پہلے جس کا نام لیا اس سے زیادہ شریف چیز کا نام پھر لیا اور پھر ان دونوں سے بزرگ تر چیز کا نام آخر میں لیا ۔ پھر ان قسموں کے بعد بیان فرمایا کہ انسان کو اچھی شکل و صورت میں صحیح قدو قامت والا ، درست اور سڈول اعضاء والا خوبصورت اور سہانے چہرے والا پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کر دیا یعنی جہنمی ہو گیا ، اگر اللہ کی اطاعت اور رسول کی اتباع نہ کی تو اسی لیے ایمان والوں کو اس سے الگ کر لیا ، بعض کہتے ہیں کہ مراد انتہائی بڑھاپے کی طرگ لوٹا دینا ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جس نے قرآن جمع کیا وہ رذیل عمر کو نہ پہنچے گا ، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اگر یہی بڑھاپا مراد ہوتا تو مومنوں کا استشناء کیوں ہوتا ؟ بڑھاپا تو بعض مومنوں پر بھی آتا ہے پس ٹھیک بات وہی ہے جوا وپر ہم نے ذکر کی جیسے اور جگہ سورہ والعصر میں ہے کہ تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ایمان اور اعمال صالح والوں کے کہ انہیں ایسی نیک جزاملے گی جس کی انتہا نہ ہو جیسے پہلے بیان ہو چکا ہے پھر فرماتا ہے اے انسان جبکہ تو اپنی پہلی اور اول مرتبہ کی پیدائش کو جانتا ہے تو پھر جزا و سزا کے دن کے آنے پر اور تیرے دوبارہ زندہ ہونے پر تجھے کیوں یقین نہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ تو اسے نہیں مانتا حالانکہ ظاہر ہے کہ جس نے پہلی دفعہ پیدا کر دیا اس پردوسری دفعہ کا پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ حضرت مجاہد ایک مرتبہ حضرت ابن عباس سے پوچھ بیٹھے کہ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں؟ آپ نے فرمایا معاذ اللہ اس سے مراد مطلق انسان ہے عکرمہ وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا اللہ حکم الحاکمین نہیں ہے وہ نہ ظلم کرے نہ بےعدلی کرے اسی لیے وہ قیامت قائم کرے گا اور ہر ایک ظالم سے مظلوم کا انتقال لے گا ، حضرت ابو ہریرہ سے مرفوع حدیث میں یہ گذر چکا ہے کہ جو شخص والتین والزیتون پڑھے اور اس کے آخر کی آیت الیس اللّٰہ پڑھے تو کہہ دے بلی وانا علی ذالک من الشاھدین یعنی ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں ۔ اللہ کے فضل و کرم سے سورہ التین کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ ۔
[١] تین بمعنی انجیر کا درخت بھی اور اس کا پھل بھی اور اس کا واحد تینۃ ہے۔ بمعنی انجیر کا ایک دانہ۔ یہ ایک خوش ذائقہ معروف پھل ہے جس میں غذائیت بہت ہوتی ہے اور بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ اور تیانۃ بمعنی انجیر فروش اور متانۃ انجیر کے باغ کو کہتے ہیں یا ایسی جگہ کو جہاں انجیر کے درخت بکثرت پائے جائیں۔- [٢] زیتون ایک درخت ہے جس سے زیتون کا تیل نکالا جاتا ہے اور اس کے پھل کو زیتونۃ کہتے ہیں اور تیل کو زیت پھر زیت کا اطلاق ہر قسم کے تیل پر ہونے لگا، خواہ وہ کسی چیز سے نکالا جائے اور زیات بمعنی تیلی، تیل نکالنے والا یا بیچنے والا۔ لیکن اس آیت میں انجیر یا اس کے درخت اور زیتون کے درخت کی قسم نہیں کھائی گئی بلکہ اس سرزمین کی قسم کھائی گئی ہے جس میں یہ درخت بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ اور وہ علاقہ شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔ اہل عرب کا جس طرح یہ قاعدہ ہے کہ وہ کسی چیز کا جزو اشرف بول کر اس سے مراد اصل چیز لے لیتے ہیں۔ اسی طرح ان میں یہ بھی دستور ہے کہ وہ کسی علاقہ کی مشہور پیداوار کا نام لے کر اس سے وہ علاقہ مراد لے لیتے ہیں اور اس بات کی تائید اس سورت کی اگلی دو آیات سے بھی ہوجاتی ہے یعنی طور سینین اور شہر مکہ سے کہ یہ سب مقامات انبیاء کے مولد و مسکن رہے ہیں۔
(١) والتین والزیتون : انجیر اور زیتون دو ایسے پھل ہیں جو اپنی جامعیت اور فوائد کی کثرت میں انسان کے جامع الفضائل ہونے کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں، اس لئے انہیں انسان کے احسن تقویم میں پیدا کئے جانے کے شاہد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اکثر مفسرین نے انجیر اور زیتون سے مراد سر زمین شام لی ہے جہاں یہ کثرت سے ہوتے ہیں اور جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ کے بہت سے پیغمبر پیدا ہوئے ہیں اور یہی بات راجح ہے، کیونکہ اس کے بعد طور سینا اور بلد امین کا ذکر ہے۔
خلاصہ تفسیر - قسم ہے انجیر (کے درخت) کی اور زیتون (کے درخت) کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر (یعنی مکہ معظمہ) کی کہ ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچہ میں ڈھالا ہے پھر (ان میں جو بوڑھا ہوجاتا ہے) ہم اس کو پستی کی حالت والوں سے بھی پست تر کردیتے ہیں (یعنی وہ خوبصورتی بدصورتی سے اور قوت صنعف سے بدل جاتی ہے اور برے سے برا ہوجاتا ہے مقصود اس سے بیان کرنا کمال قبح کا ہے جس سے ان کے دوبارہ پیدا کرنے پر حق تعالیٰ کی قدرت ہونا واضح ہوتا ہے کقولہ تعالیٰ اللہ الذی خلقنکم من ضعف الخ اور مقصود اس سورت کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت دوبارہ پیدا کرنے اور زندہ کرنے پر ثابت کرنا ہے جیسا کہ فما یکذیک بعد بالدین کے جملے سے اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور اس آیت کے عموم سے چونکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بوڑھے سب کے سب قبیح اور برے ہوجاتے ہیں اس ابہام کو دور کرنے کے لئے آگے آیت میں ایک استثناء بیان کیا جاتا ہے کہ) لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو ان کے لئے اس قدر ثواب ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگا (جس میں بتلا دیا کہ مومن صالح بوڑھے ضعیف ہوجانے کے باوجود انجام کار کے اعتبار سے اچھے ہی رہتے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ ان کی عزت بڑھ جاتی ہے، آگے خلقنا اور رددنا پر تفریع ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق و تخلیق و تقلیب احوال پر قادر ہیں) تو (اے انسان) پھر کون چیز تجھ کو قیامت کے بارے میں منکر بنا رہی ہے (یعنی وہ کونسی دلیل ہے جس کی بنا پر تو ان دلائل کے ہوتے ہوئے قیامت کا منکر ہو رہا ہے) کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے (تصرفات دنیویہ میں بھی جن میں سے تخلیق انسانی اور پھر بڑھاپے میں اس پر تغیرات کا ذکر اوپر آیا ہے اور تصرفات اخرویہ میں بھی جن میں سے قیامت و مجازاة بھی ہے) - معارف و مسائل - والتین والزیتون، اس آیت میں چار چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے جن میں دو درخت ہیں ایک تین یعنی انجیر، دوسرے زیتون اور ایک پہاڑ طور اور ایک شہر یعنی مکہ مکرمہ کی، اس تخصیص کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ دونوں درخت کثیر البرکت کثیر المنافع ہیں جس طرح طور پہاڑ اور شہر مکہ کثیر البرکت ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں تین اور زیتون کے ذکر سے مراد وہ جگہ ہو جہاں یہ درخت کثرت سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ملک شام ہے جو معدن انبیاء (علیہم السلام) ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی ملک میں مقیم تھے ان کو ہجرت شام ہے جو معدن انبیاء (علیہم السلام) ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی ملک میں مقیم تھے ان کو ہجرت کرا کر مکہ معظمہ لایا گیا تھا اس طرح ان قسموں میں تمام وہ مقامات مقدسہ شامل ہوگئے جہاں خاص خاص انبیاء (علیہم السلام) پیدا اور مبعوث ہوئے، ملک شام انبیاء علہیم السلام کا وطن اور مسکن ہے۔ کوہ طور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حق تعالیٰ کے ساتھ ہمکلام ہونے کی جگہ ہے اور سینین یاسینا اس مقام کا نام ہے جہاں یہ پہاڑ واقع ہے اور بلد امین مکہ مکرمہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مولد و مسکن ہے۔
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ ١ ۙ- تين - قال تعالی: وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ [ التین 1] قيل : هما جبلان، وقیل : هما المأکولان .- ( ت ی ن ) وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ [ التین 1] انجیر کی قسم اور زیتون ۔ بعض کے نزدیک تین او زیتون دو پہاڑوں کے نام ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ کھانے کی دو چیزیں ہیں - زيت - زَيْتُونٌ ، وزَيْتُونَةٌ ، نحو : شجر وشجرة، قال تعالی: زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، والزَّيْتُ : عصارة الزّيتون، قال : يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور 35] ، وقد زَاتَ طعامَهُ ، نحو سمنه، وزَاتَ رأسَهُ ، نحو دهنه به، وازْدَاتَ : ادّهن .- ( ز ی ت ) زیت - وزیتونہ مثل شجر وشجرۃ ایک مشہور درخت کا نام ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] زیتون کے درخت سے روشن ہو رہا ہے ۔ جو نہ شر قی ہے اور نہ غر بی الزبت زیتون کے تیل کو بھی کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور 35] قریب ہے کہ اس کا تیل روشنی کرے ۔ اور زات طعامہ کے معنی ہیں اس نے طعام میں زیتون کا تیل ڈالا جیسے سمنھ اور دھنہ بہ کیطرح ذات راسہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل ڈالا جیسے سمنہ اور دجنہ بھ کیطرح ذات راء سہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل لگایا اور از دات بمعنی اذھب کے ہیں ۔
(1 ۔ 3) قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور کہا گیا ہے کہ یہ شام میں دو مسجدیں ہیں یا یہ کہ دو پہاڑ ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ ” تین “ اس پہاڑ کا نام ہے جس پر ” بیت المقدس “ ہے اور ” زیتون ‘ اس پہاڑ کا نام ہے ج سپر دمشق ہے۔ اور قسم ہے جبل کی یہ مدین میں ایک پہاڑ ہے جس پر موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف کلامی نصیبت ہوئی۔ قبطی زبان میں ہر ایک پہاڑ کو طور کہتے ہیں اور سینین اس پہاڑ کو جس پر عمدہ درخت ہوں اور اس امن والے شہر یعنی مکہ مکرمہ کی۔
سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :1 اس کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہوا ہے ۔ حسن بصری ، عکرمہ ، عطاء بن ابی رباح ، جابر بن زید ، مجاہد اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ انجیر سے مراد یہی انجیر ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور زیتون بھی یہی زیتون ہے جس سے تیل نکالا جاتا ہے ۔ ابن ابی حاتم اور حاکم نے ایک قول حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس کی تائید میں نقل کیا ہے ۔ اور جن مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے انہوں نے انجیر اور زیتون کے خواص اور فوائد بیان کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اللہ تعالی نے انہی خوبیوں کی وجہ سے ان دونوں پھلوں کی قسم کھائی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ایک عام عربی داں تین اور زیتون کے الفاظ سن کر وہی معنی لے گا جو عربی زبان میں معروف ہیں ۔ لیکن دو وجوہ ایسے ہیں جو یہ معنی لینے میں مانع ہیں ۔ ایک یہ کہ آگے طورِ سینا اور شہر مکہ کی قسم کھائی گئی ہے اور دو پھلوں کے ساتھ دو مقامات کی قسم کھانے میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی ۔ دوسرے ان چار چیزوں کی قسم کھا کر آگے جو مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ اس پر طور سینا اور شہر مکہ تو دلالت کرتے ہیں ، لیکن یہ دو پھل اس پر دلالت نہیں کرتے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جہاں بھی کسی چیز کی قسم کھائی ہے ، اس کی عظمت یا اس کے منافع کی بنا پر نہیں کھائی ، بلکہ ہر قسم اس مضمون پر دلالت کرتی ہے جو قسم کھانے کے بعد بیان کیا گیا ہے ۔ اس لیے ان دونوں پھلوں کے خواص کو وجہ قسم قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ بعض دوسرے مفسرین نے تین اور زیتون سے مراد بعض مقامات لیے ہیں ، کعب احبار ، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ تین سے مراد دمشق اور زیتون سے مراد بیت ا لمقدس ۔ ابن عباس کا ایک قول ابن جریر ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے یہ نقل کیا ہے کہ تین سے مراد حضرت نوح کی وہ مسجد ہے جو انہوں نے جودی پہاڑ پر بنائی تھی ۔ اور زیتون سے مراد بیت المقدس ہے ۔ لیکن والتین و الزیتون کے الفاظ سن کر یہ معنی ایک عام عرب کے ذہن میں نہیں آسکتے تھے اور نہ یہ بات قرآن کے مخاطب اہل عرب میں معروف تھی کہ تین اور زیتون ان مقامات کے نام ہیں ۔ البتہ یہ طریقہ اہل عرب میں رائج تھا کہ جو پھل کسی علاقے میں کثرت سے پیدا ہوتا ہو اس علاقے کو وہ بسا اوقات اس پھل کے نام سے موسوم کر دیتے تھے ۔ اس محاورے کے لحاظ سے تین زیتون کے الفاظ کا مطلب مناسبت تین و زیتون ، یعنی ان پھلوں کی پیداوار کا علاقہ ہو سکتا ہے ، اور وہ شام و فلسطین کا علاقہ ہے کیونکہ اس زمانے میں اہل عرب میں یہی علاقہ انجیر اور زیتون کی پیداوار کے مشہور تھا ۔ ابن تیمیہ ، ابن القیم ، زمحشری اور آلوسی رحمہم اللہ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے ۔ اور ابن جریر نے بھی اگرچہ پہلے قول کو ترجیح دی ہے ، مگر اس کے ساتھ یہ بات تسلیم کی ہے کہ تین و زیتون سے مراد ان پھلوں کی پیداوار کا علاقہ بھی ہو سکتا ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے بھی اس تفسیر کو قابل لحاظ سمجھا ہے ۔