5۔ 1 یہ اشارہ ہے انسان کی ارذل العمر کی طرف جس میں جوانی اور قوت کے بعد بڑھاپا اور ضعف آجاتا ہے اور انسان کی عقل اور ذہن بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔ بعض نے اس سے کردار کا وہ سفلہ پن لیا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان انتہائی پست اور سانپ بچھو سے بھی گیا گزرا ہوجاتا ہے بعض نے اس سے ذلت و رسوائی کا وہ عذاب مراد لیا ہے جو جہنم میں کافروں کے لیے ہے، گویا انسان اللہ اور رسول کی اطاعت سے انحراف کر کے اپنے احسن تقویم کے بلند رتبہ واعزاز سے گرا کر جہنم کے اسفل السافلین میں ڈال لیتا ہے۔
[٦] انسان تمام مخلوق سے پست کیسے ؟ یعنی اگر انسان اپنی ان خداداد ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی قوتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرے اور اللہ کی نافرمانی اور بغاوت پر اتر آئے تو انسان حیوانوں کی سطح سے بھی نیچے گر جاتا ہے وہ اس طرح کہ حیوانوں کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کی تمیز نہیں بخشی اور انسان اگر اس تمیز کے ہوتے ہوئے بھی اسے استعمال نہ کرے تو جانوروں سے بدتر ٹھہرا۔ لیکن انسان تو اخلاقی لحاظ سے اتنی پستی میں جاگرتا ہے جس کا حیوانوں میں تصور بھی محال ہے۔ انسانی معاشرے میں حرص، طمع، خودغرضی، شہوت پرستی، نشہ بازی، کمینہ پن، ظلم و بربریت، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت جیسی برائیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ حیوانوں میں کہاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ اس لحاظ سے انسان فی الواقع تمام مخلوق سے پست اور کہتر بن جاتا ہے۔
(ثم رددنہ اسفل سفلین : اس بہترین بناوٹ میں اس کی شکل و صورت کا حسن، اس کی عقل، اس کی فطرت پر پیدائش اور وہ سب کچھ شامل ہے جو کسی حیوان کو حاصل نہیں۔ پھر اگر وہ اس عقل اور فطرت کے تقاضوں پر عمل نہ کرے بلکہ انسانیت سے اتر کر حیوانیت میں جا گرے اور شہوت و غضب اور دوسری حیوانی صفات سے مغلوب ہوجائے، تو اس سے زیادہ نیچا اور ذلیل کوئی نہیں، کیو کہ پھر وہ اس حد تک گر جاتا ہے کہ کوئی حیوان نہیں بھی گرتا ، حتیٰ کہ وہ اپنے مالک و خالق کو بھی بھول جاتا ہے، اس کے ساتھ شریک بنانے لگتا ہے اور زمین میں ایسا فساد برپا کرتا ہے جو کوئی حیوان بھی نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ آگ ہے اور اس میں گرنے والوں سے نیچا اور ذلیل کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ انھی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(اولئک کالانعام بل ھم اضل) (الاعراف : ١٨٩)” یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ “
ثم رددنہ اسفل سفلین، پہلے جملے میں ساری مخلوقات اور کائنات سے احسن بنانے کا بیان تھا، اس جملے میں اس کے بالمقابل یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح وہ اپنی ابتدا اور شباب میں ساری مخلوقات سے زیادہ حسین اور سب سے بہتر تھا آخر میں اس پر یہ حالت بھی آتی ہے کہ وہ بد سے بدتر اور برے سے برا ہوجاتا ہے ظاہر یہ ہے کہ بدتری اور برائی اس کی ظاہری جسمانی حالت کے اعتبار سے بتلائی گئی ہے کہ شباب ڈھلنے کے بعد شکل و صورت بدلنے لگتی ہے بڑھاپا اس کا روپ بالکل بدل ڈالتا ہے، بدہئیت بد شکل نظر آنے لگتا ہے بیکار اور دوسروں پر بار ہو کر رہ جاتا ہے۔ کسی کے کام نہیں آتا، بخلاف دوسرے جانوروں کے کہ وہ آخر تک اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، انسان ان سے دودھ اور سواری باربرداری کے اور دوسری قسم کے سینکڑوں کام لیتے ہیں، وہ ذبح کردیئے جائیں یا مر جائیں تو بھی ان کی کھال، بال، ہڈی، غرض جسم کا ریزہ ریزہ انسانوں کے کام میں آتا ہے بخلاف انسان کے کہ جب وہ بیماری اور بڑھاپے میں عاجز و درماندہ ہوجاتا ہے تو مادی اور دنیاداری کے اعتبار سے کسیک ام کا نہیں رہتا مرنے کے بعد بھی اس کے کسی جز سے کسی انسان یا جانور کو فائدہ نہیں پہنچتا، خلاصہ یہ ہے کہ اس کے اسفل السلافلین میں پہنچ جانے سے مراد اس کی مادی اور جسمانی کیفیت ہے۔ یہ تفسیر حضرت ضحاک وغیرہ ائمہ تفسیر سے منقول ہے (کمافی القرطبی)
ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ٥ ۙ- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - سفل - السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی،- ( س ف ل ) السفل - یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74]
آیت ٥ ثُمَّ رَدَدْنٰــہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ ۔ ” پھر ہم نے لوٹا دیا اس کو پست ترین حالت کی طرف۔ “- پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عظیم المرتبت مخلوق (کی روح) کو اس کے جسد خاکی میں بٹھا کر نیچے دنیا میں بھیج دیا۔ لیکن واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر جہالت کی تاریکی میں نہیں بلکہ ہدایت کے اجالے میں بھیجا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی اور ناکامی کے راستوں کا شعور بھی عطا کیا ‘ اس کی فطرت میں نیکی و بدی کی تمیز بھی ودیعت کی اور وقتاً فوقتاً وہ براہ راست ہدایات بھی بھیجتا رہا : وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹـھُمْ اَنْفُسَھُمْط (الحشر : ١٩) کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو فراموش کردیا اور اس کی پاداش میں اللہ نے انہیں اپنے آپ سے ہی غافل کردیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اب اگر وہ اپنے شرفِ انسانی کو بھلا کر محض حیوانی سطح پر زندگی بسر کرتا رہے اور خود کو حیوان ہی سمجھتا رہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔- اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی سرشت (حیوانی وجود کے تقاضوں) کے اعتبار سے انسان میں کچھ کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں ‘ لیکن اپنی فطرت (روح) کے لحاظ سے یہ بہت اعلیٰ اور عظیم المرتبت مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی روح کو اس کے حیوانی جسم میں متمکن فرما کر اسے دنیا میں بھیجاتو اس کا ارفع و اعلیٰ روحانی وجود اس کے حیوانی جسم میں قید ہو کر گویا اسفل (نچلی ) مخلوق کی سطح پر آگیا۔ چناچہ دنیوی زندگی میں اس کے سامنے اصل ہدف یہ ہے کہ وہ اپنے شعور اور اللہ تعالیٰ کی فراہم کردہ ہدایت کے مطابق راستہ اختیار کرے ‘ اس راستے کے تقاضے پورے کرنے کے لیے محنت کرے اور اسفل سطح سے اوپر اٹھ کر اپنی اصل عظمت اور حقیقی منزل کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ - اب اگلی آیت میں اس راستے کی نشاندہی اور مطلوبہ محنت کے طریقے کی وضاحت کی گئی ہے :
سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :4 مفسرین نے بالعموم اس کے دو معنی بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے اسے ارذل العمر ، یعنی بڑھاپے کی ایسی حالت کی طرف پھیر دیا جس میں وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قابل نہ رہا ۔ دوسرے یہ کہ ہم نے اسے جہنم کے سب سے نیچے درجے کی طرف پھیر دیا ۔ لیکن یہ دونوں معنی اس مقصود کلام کے لیے دلیل نہیں بن سکتے جسے ثابت کرنے کے لیے یہ سورہ نازل ہوئی ۔ سورۃ کا مقصود جزا و سزا کے برحق ہونے پر ا ستدلال کرنا ہے ۔ اس پر نہ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں میں سے بعض لوگ بڑھاپے کی انتہائی کمزور حالت کو پہنچا دیے جاتے ہیں ، اور نہ یہی بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ پہلی بات اس لیے جزا و سزا کی دلیل نہیں بن سکتی کہ بڑھاپے کی حالت اچھے برے ، دونوں قسم کے لوگوں پر طاری ہو تی ہے ، اور کسی کا اس حالت کو پہنچنا کوئی سزا نہیں ہے جو اسے اس کے اعمال پر دی جاتی ہو ۔ رہی دوسری بات تو وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ ہے ۔ اسے ان لوگوں کے سامنے دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ جنہیں آخرت ہی کی جزا و سزا کا قائل کرنے کے لیے یہ سارا استدلال کیا جا رہا ہے؟ اس لیے ہمارے نزدیک آیت کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ بہترین ساخت پرپیدا کیے جانے کے بعد جب انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہے ۔ حرص ، طمع ، خود غرضی ، شہوت پرستی ، نشہ بازی ، کمینہ پن ، غیظ و غضب اور ایسی ہی دوسری خصلتوں میں جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر صرف اسی ایک بات کو لے لیجیے کہ ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہو جاتی ہے تو کس طرح درندگی میں تمام درندوں کو مات دیتی ہے ۔ درندہ تو صرف اپنی غذا کے لیے کسی جانور کا شکار کرتا ہے ۔ جانوروں کا قتل عام نہیں کرتا ۔ مگر یہ احسن تقویم پر پیدا ہونے والا انسان اپنی عقل سے کام لے کر توپ ، بندوق ، ٹینک ، ہوائی جہاز ، ایٹم بم ، ھائیڈروجن بم اور دوسرے بے شمار ہتھیار ایجاد کرتا ہے تاکہ آن کی آن میں پوری پوری بستیوں کو تباہ کر کے رکھ دے ۔ درندہ صرف زخمی یا ہلاک کرتا ہے ۔ مگر انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اذیت دینے کے لیے ایسے ایسے درد ناک طریقے اختراع کرتا ہے جن کا تصور بھی کبھی کسی درندے کے دماغ میں نہیں آ سکتا ۔ پھر یہ اپنی دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے کمینہ پن کی اس انتہا کو پہنچتا ہے کہ عورتوں کے ننگے جلوس نکالتا ہے ، ایک ایک عورت کو دس دس بیس بیس آدمی اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں ، باپوں اور بھائیوں اور شوہروں کے سامنے ان کے گھر کی عورتوں کی عصمت لوٹتے ہیں ، بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے قتل کرتے ہیں ۔ ماؤں کو اپنے بچوں کا خون پینے پر مجبور کرتے ہیں ، انسانوں کو زندہ جلاتے اور زندہ دفن کرتے ہیں ۔ دنیا میں وحشی سے وحشی جانوروں کی بھی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجہ میں بھی مقابلہ کر سکتی ہو ۔ یہی حال دوسری بری صفات کا بھی ہے کہ ان میں سے جس کی طرف بھی انسان رخ کرتا ہے ، اپنے آپ کو ارذل المخلوقات ثابت کر دیتا ہے ۔ حتی کہ مذہب ، جو انسان کے لیے مقدس ترین شے ہے ، اس کو بھی وہ اتنا گرا دیتا ہے کہ درختوں اور جانوروں اور پتھروں کو پوجتے پوجتے پستی کی انتہا کو پہنچ کر مرد و عورت کے اعضائے جنسی تک کو پوج ڈالتا ہے ، اور دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے عبادت گاہوں میں دیو داسیاں رکھتا ہے جن سے زنا کا ارتکاب کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے ۔ جن ہستیوں کو وہ دیوتا اور معبود کا درجہ دیتا ہے ان کی طرف اس دیو مالا میں ایسے ایسے گندے قصے منسوب ہوتے ہیں جو ذلیل ترین انسان کے لیے بھی باعث شرم ہیں ۔
2: اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ جو لوگ مؤمن نہ ہوں، وہ دُنیا میں چاہے کتنے خوبصورت رہے ہوں، آخرت میں وہ انتہائی نچلی حالت کو پہنچ جائیں گے، کیونکہ اُنہیں دوزخ میں ڈالا جائے گا، اِسی لئے آگے اُن اِنسانوں کا استثناء کیا گیا ہے جو ایمان لائیں، اور نیک عمل کریں۔ اور اکثر مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ہر اِنسان بڑھاپے میں جا کر اِنتہائی خستہ حالت کو پہنچ جاتا ہے۔ اُس کی خوبصورتی بھی جاتی رہتی ہے، اور طاقت بھی جواب دے جاتی ہے، اور آئندہ کسی اچھی حالت کے واپس آنے کی اُنہیں کوئی امید نہیں ہوتی، کیونکہ وہ آخرت کے قائل ہی نہیں ہوتے۔ البتہ نیک مسلمان چاہے اس بڑھاپے کی بُری حالت کو پہنچ جائیں، لیکن ان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ بری حالت عارضی ہے، اور آگے دُوسری زندگی آنے والی ہے، جس میں اِن شا اللہ اُنہیں بہترین نعمتیں میسر آئیں گی، اور یہ عارضی تکلیفیں ختم ہوجائیں گی۔ اس احساس کی وجہ سے ان کی بُڑھاپے کی تکلیفیں بھی ہلکی ہوجاتی ہیں۔