2۔ 1 مخلوقات میں سے بطور خاص انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا جس سے اس کا شرف واضح ہے۔
[٣] یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اس کائنات میں انسان کا کیا مقام ہے ؟ اور جواب یہ ہے کہ جیسے کائنات کی ہر چیز اللہ کی مخلوق ہے، ویسے ہی انسان بھی اللہ کی مخلوق ہے۔ مخلوق کو یہ کسی طرح جائز نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسی مخلوق کے آگے سرجھکائے۔ دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک معجز نما طریق سے پیدا کیا۔ استقرار حمل کے بعد وہ ایک بےجان لوتھڑا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے کئی مراحل گزارے۔ اس لوتھڑے پر اس کے اعضاء کے نقش و نگار بنائے۔ جسم کے اندرونی اعضاء پیدا کیے پھر اس میں کئی طرح کی ظاہری اور باطنی قوتیں پیدا کرکے اسے ماں کے پیٹ سے باہر نکالا۔
(خلق الانسان من علق :) رحم میں قرار پکڑنے کے بعد نطفہ سب سے پہلے ” علقہ “ کی شکل اختیار کرتا ہے ۔” علق یعلق “ (س) چمٹنے کو کہتے ہیں۔ ” علقہ “ جما ہوا خون، جو رحم کی دیوار کے کسی حصے سے چپک جاتا ہے۔ ” علقہ “ کا دوسرا معنی جونک ہے، وہ بھی کسی نہ کسی کو چمٹ جاتی ہے۔ خون کی وہ پھٹکی شکل و صورت میں جونک سے ملتی جلتی ہوتی ہے، اس میں نہ جان ہوتی ہے نہ شعور اور نہ عقل و علم۔ پھر اللہ تعالیٰ اس حقیر سی پھٹکی سے انسان جیسی عظیم مخلوق پیدا فرما دیتا ہے۔
خلق الانسان من علق، الذی خلق میں پوری کائنات کی تخلیق کا بیان ہا تھا خلق الانسان میں اشرف المخلوقات انسان کی تخلیق کا ذکر فرمایا کہ غور سے دیکھو تو پوری کائنات و مخلوقات کا خلاصہ سان ہے جہاں وہ جو کچھ ہے اس کی نظائر انسان کے وجود میں مجود ہیں اس لئے انسان کو عالم اصغر ہا اجتا ہے اور انسان کی تخصیص بالذکر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نبوت و رسالت اور قرآن کے نازل کرنے کا مقصد احکام الٰہیہ کی تنقید و تعمیل ہے وہ انسان ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ علق کے معنے منجمد خون کے ہیں انسان کی تخلیق پر مختلف دور گزرے اور گزرتے ہیں اس کی ابتداء مٹی اور عناصر سے ہے پھر نطفہ سے اس کے بعد علقہ یعنی منجمد خون بنتا ہے پھر مضغہ گوشت پھر ہڈیاں وغیرہ پیدا کی جاتی ہیں علقہ ان تمام ادوار تخلیق میں ایک درمیانہ حالت ہے اس کو اختیار کر کے اس کے اول و آخر کی طرف اشارہ ہوگیا۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ٢ ۚ- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- علق - العَلَقُ : التّشبّث بالشّيء، يقال : عَلِقَ الصّيد في الحبالة، وأَعْلَقَ الصّائد : إذا علق الصّيد في حبالته، والمِعْلَقُ والمِعْلَاقُ : ما يُعَلَّقُ به، وعِلَاقَةُ السّوط کذلک، وعَلَقُ القربة كذلك، وعَلَقُ البکرة : آلاتها التي تَتَعَلَّقُ بها، ومنه : العُلْقَةُ لما يتمسّك به، وعَلِقَ دم فلان بزید : إذا کان زيد قاتله، والعَلَقُ : دود يتعلّق بالحلق، والعَلَقُ : الدّم الجامد ومنه : العَلَقَةُ التي يكون منها الولد . قال تعالی: خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق 2] ، وقال : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله :- فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً «1» والعِلْقُ : الشّيء النّفيس الذي يتعلّق به صاحبه فلا يفرج عنه، والعَلِيقُ : ما عُلِّقَ علی الدّابّة من القضیم، والعَلِيقَةُ : مرکوب يبعثها الإنسان مع غيره فيغلق أمره . قال الشاعر : أرسلها علیقة وقد علم ... أنّ العلیقات يلاقین الرّقم - «2» والعَلُوقُ : النّاقة التي ترأم ولدها فتعلق به، وقیل للمنيّة : عَلُوقٌ ، والعَلْقَى: شجر يتعلّق به، وعَلِقَتِ المرأة : حبلت، ورجل مِعْلَاقٌ: يتعلق بخصمه .- ( ع ل ق ) العلق کے معنی کسی چیز میں پھنس جانیکے ہیں کہا جاتا ہے علق الصید فی الحبالتہ شکار جال میں پھنس گیا اور جب کسی کے جال میں شکار پھنس جائے تو کہا جاتا ہے اعلق الصائد ۔ المعلق والمعلاق ہر وہ چیز جس کے ساتھ کسی چیز کا لٹکا یا جائے اسی طرح علاقتہ السوط وعلق القریتہ اس رسی یا تسمیہ کو کہتے ہیں جس سے کوڑے کا یا مشک کا منہ باندھ کر اسے لٹکا دیا جاتا ہے ۔ علق الکبرۃ وہ لکڑی وغیرہ جس پر کنوئیں کی چرخی لگی رہتی ہے ۔ اسی سے العلقتہ ہر اس چیز کہا کہا جاتا ہے جسے سہارا کے لئے پکڑا جاتا ہے ۔ علق دم فلان بزید فلاں کا خون زید کے ساتھ چمٹ گیا یعنی زید اس کا قاتل ہے ۔ العلق ( جونک ) ایک قسم کا کیڑا جو حلق کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ نیز جما ہوا خون اسی سے لوتھڑے کی قسم کے خون کو علقہ کہا جاتا جس سے بچہ بنتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا ؛ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله کے آخر میں فرمایا : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةًپھر لو تھڑے کی بوٹی بنائی ۔ العلق اس عمدہ چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ مالک کا دل چمٹا ہوا ہو اور اس کی محبت دل سے اترتی نہ ہو العلیق ۔ جو وغیرہ جو سفر میں جو نور کے کھانے کے لئے اس پر باندھ دیتے ہیں اور العلیقتہ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ بھیجا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( رجز ) ( ارسلھا علیقتہ وقد علم ان العلیقات یلاقیں الرقم اس نے غلہ لینے کے لئے لوگوں کے ساتھ اپنا اونٹ بھیجد یا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ دوسروں کے ساتھ بھیجے ہوئے اونٹ تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں ۔ العلوق وہ اونٹنی جو اپنے بچے پر مہربان ہو اور اس سے لپٹی رہے اور موت کو بھی علوق کہا جاتا ہے العلقی درخت جس میں انسان الجھ جائے تو اس سے نکلنا مشکل علقت المرءۃ عورت حاملہ ہوگئی ۔ رجل معلاق جھگڑالو آدمی جو اپنے مخالف کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس سے چمٹار ہے ۔
سورة العلق حاشیہ نمبر : 4 کائنات کی عام تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد خاص طور پر انسان کا ذکر کیا کہ اللہ تعالی نے کس حقیر حالت سے اس کی تخلیق کی ابتدا کر کے اسے پورا انسان بنایا ۔ علق جمع ہے علقہ کی جس کے معنی جمے ہوئے خون کے ہیں ۔ یہ وہ ابتدائی حالت ہے جو استقرار حمل کے بعد پہلے چند دنوں میں رونما ہوتی ہے ، پھر وہ گوشت کی شکل اختیار کرتی ہے اور اس کے بعد بتدریج اس میں انسانی صورت بننے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الحج آیت 5 ۔ حواشی 5 تا 7 )