ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی اور جو خواب دیکھتے وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہوجاتا پھر آپ نے گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کی ۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے توشہ لے کر غار میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہی عبادت میں گذاراکرتے پھر آتے اور توشہ لے کر چلے جاتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اچانک وہیں شروع شروع میں وحی آیہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا اقرا یعنی پڑھئیے آپ فرماتے ہیں ، میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ فرشتے نے مجھے دوبارہ دبوچایہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور فرمایا پڑھو میں نے پھر یہی کہا کہ میں پڑھنے والا نہیں اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر دبایا اور تکلیف پہنچائی ، پھر چھوڑ دیا اور اقرا باسم ربک الذی خلق سے مالم یعلمتک پڑھا ۔ آپ ان آیتوں کو لیے ہوئے کانپتے ہوئے حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا مجھے کپڑا اڑھا دو چنانچہ کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ ڈر خوف جاتا رہا تو آپ نے حضرت خدیجہ سے سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا مجھے اپنی جان جانے کا خود ہے ، حضرت خدیجہ نے کہا حضور آپ خوش ہو جائیے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں سچی باتیں کرتے ہیں دوسروں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں ۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں پھر حضرت خدیجہ آپ کر لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس آئیں جاہلیت کے زمانہ میں یہ نصرانی ہوگئے تھے عربی کتاب لکھتے تھے اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھیبہت بڑی عمر کے انتہائی بوڑھے تھے آنکھیں جا چکی تھیں حضرت خدیجہ نے ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کا واقعہ سنئے ، ورقہ نے پوچھا بھتیجے آپ نے کیا دیکھا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ کہہ سنایا ۔ ورقہ نے سنتے ہی کہا کہ یہی وہ راز داں فرشتہ ہے جو حضرت عیسیٰ کے پاس بھی اللہ کا بھیجا ہوا آیا کرتا تھا کاش کہ میں اس وقت جوان ہوتا ، کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوتاجبکہ آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں ایک آپ کیا جتنے بھی لوگ آپ کی طرح نبوت سے سرفراز ہو کر آئے ان سب سے دشمنیاں کی گئیں ۔ اگر وہ وقت میری زندگی میں آگیا تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا لیکن اس واقعہ کے بعد ورقہ بہت کم زندہ رہے ادھر وحی بھی رک کئی اور اس کے رکنے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا قلق تھا کئی مرتبہ آپ نے پہار کی چوٹی پر سے اپنے تئیں گرا دینا چاہا لیکن ہر وقت حضرت جبرائیل آجاتے اور فرما دیتے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں ۔ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس سے آپ کا قلق اور رنج و غم جاتا رہتا اور دل میں قدرے اطمینان پیدا ہو جاتا اور آرام سے گھر واپس آجاتے ( مسند احمد ) یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بروایت زہری مروی ہے اس کی سند میں اس کے متن میں اس کے معانی میں جو کچھ بیان کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے اپنی شرح بخاری میں پورے طور پر بیان کر دیا ہے ۔ اگر جی چاہا وہیں دیکھ لیا جائے والحمد اللہ ۔ پس قرآن کریم کی باعتبار نزول کے سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں یہی پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جو اس ارحم الراحمین نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دی اس میں تنبیہہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ احسان کیا اسے اچھی صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا علم ہی کی برکت تھی کہ کل انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں میں بھی ممتاز نظر آئے علم کبھی تو ذہن میں ہی ہوتا ہے اور کبھی زبان پر ہوتا ہے اور کبھی کتابی صورت میں لکھا ہوا ہوتا ہے پس علم کی تین قسمیں ہوئیں ذہنی ، لفظی اور رسمی اور سمی علم ذہنی اور لفظی کو مستلزم ہے لیکن وہ دونوں اسے مستلزم نہیں اسی لیے فرمایا کہ پڑھ تیرا رب تو بڑے اکرام والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور آدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھامعلوم کرادیا ۔ ایک اثر میں و ارد ہے کہ علم کو لکھ لیا کرو ، اور اسی اثر میں ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اسے اللہ تعالیٰ اس علم بھی وارث کر دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا ۔
1۔ 1 یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت آئی جب آپ غار حرا میں مصروف عبادت تھے، فرشتے نے آ کر کہا، پڑھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا پڑھ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھینچا (تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاری بدء الوحی، مسلم، باب بدء الوحی، اقرا) جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے وہ پڑھ، جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔
[٢] آغاز وحی میں ہی تین اہم سوالوں کا جواب :۔ ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جبرئیل نے غارحرا میں جو وحی آپ پر پیش کی۔ وہ مکتوب شکل میں تھی۔ ورنہ آپ کو جواب میں ما انا بقاری (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں) کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اگر کوئی استاد کسی بچہ کو یا شاگرد کو زبانی پڑھائے تو اسے ایسا فقرہ جواب میں کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔- وحی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی معرفت سے کیا گیا۔ کائنات کی تخلیق کس نے کی ؟ کیسے ہوئی ؟ انسان کا اس کائنات میں کیا مقام ہے ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ابتدائے نوع انسانی سے ہی صاحب فکر انسانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں۔ اسی سوال کا جواب سب سے پہلے دیا گیا اور بتایا گیا کہ کائنات از خود ہی مادہ سے پیدا نہیں ہوگئی۔ نہ یہ حسن اتفاقات کا نتیجہ ہے۔ بلکہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی کے نام سے یعنی بسم اللہ کہہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ وحی پڑھنا شروع کیجیے۔
(١) اقرا باسم ربک الذی خلق : پہلی وحی میں پڑھنے کا حکم دینے سے پڑھنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔- (٢) اللہ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم دیتے وقت اپنے رب ہونے اور پیدا کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا، کیونکہ سب سے پہلی اور بڑی نعمت پیدا کرنا ہے، باقی تمام نعمتیں اس کے بعد ہیں، خلق ہی نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔ دوسری نعمت رب ہونا، یعنی پرورش کرنا ہے۔ یعنی ان نعمتوں والی ہستی کے نام کی برکت سے پڑھ، اس کی برکت سے تو قاری بھی بن جائے گا۔- (٣) ” الذی خلق “ (جس نے پیدا کیا) کا مفعول حذف کردیا گیا ہے کہ کسے پیدا کیا ؟ یعنی جب پیدا کرنا اس کا کام ہے، تو پھر یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کسے پیدا کیا۔
خلاصہ تفسیر - اقراء سے مالم یعلم تک سب سے پہلے وحی ہے جس کے نزول سے نبوت کی ابتدا ہوئی جس کا قصہ حدیث شیخین میں یہ کہ عطاء نبوت کے قریب زمانے میں آپ کو از خود خلوت پسند ہوگئی، آپ غار حرا میں تشریف لیجا کر کئی کئی شب رہتے، ایک روز دفعتہً جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ سے کہا کہ اقراء یعنی پڑھئے، آپ نے فرمایا ماانا بقاری، یعنی میں کچھ پڑھا ہوا نہیں، انہوں نے خوب آپ کو زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور پھر کہا اقرائ، آپ نے پھر وہی جواب دیا، اسی طرح تین بار کیا پھر آخر میں دبانے کے بعد چھوڑ کر کہا اقراء الی مالم یعلم - اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (پر جو) قرآن (نازل ہوا کرے گا جس میں اس وقت کی نازل ہونے والی کیجئے جیسا کہ اس آیت میں اذا قرات القرآن فاستعذ باللہ بخ میں قرآن کے ساتھ اعوذ باللہ پڑھنے کا حکم ہوا ہے اور ان دونوں امر سے جو اصل مقصود ہے یعنی توکل و استعانت وہ تو واجب ہے اور زبان سے کہہ لینا مسنون و مندوب ہے اور گو اصل مقصود ہے یعنی توکل وستعانت وہ تو واجب ہے اور زبان سے کہہ لینا مسنون و مندوب ہے اور گو اصل مقصود کے اعتبار سے اس آیت کے نزول کے وقت بسم اللہ کا آپ کو معلوم ہونا ضروری نہیں لیکن بعض روایات میں اس سورت کے ساتھ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا نازل ہونا بھی آیا ہے۔ اخرجہ الواجدی عن عکرمتہ والحسن انھما قالا اول مانزل بسم اللہ الرحمٓن الرحیم و اول سورة اقراء اخرجہ ابن جزیرہ وغیرہ عن ابن عباس انہ قال اول مانزل جبرئیل (علیہ السلام) علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال یا محمد استعذثم قل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کذا فی روح المعانی اور ان آیتوں میں جو قراة کو اسم الٰہی کے ساتھ افتاحت کرنے کا حکم ہوا ہے اس حکم میں خود ان آیتوں کا داخل ہونا ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ اسمع ما اقول لک یعنی میں جو کچھ تجھ سے کہوں تو اس کو سن، تو خود اس جملہ کے سننے کا حکم کرنا بھی اس کو مقصود ہے پس حاصل یہ ہوگا کہ خواہ ان آیتوں کو پڑھو یا جو آیات بعد میں نازل ہوں گی ان کو پڑھو سب کی قرات اسم الٰہی سے ہونا چاہئے اور آپ کو بعلم ضروری معلوم ہوگیا کہ یہ قرآن اور وحی ہے اور حدیثوں میں جو آپ کا ڈر جانا اور ورقہ ابن نوفل سے بیان کرنا آیا ہے وہ بوجہ شبہ کے نہ تھا بلکہ خوف وہیبت وحی سے اضطراری تھا اور ورقہ سے بیان کرنا مزید اطمینان و زیارت ایقان کے لئے تھا نہ عدم ایقان کے سبب، اور معلم متعلم سے ابجد شروع کرانے کے وقت کہتا ہے کہ ہاں پڑھ، پس اس سے تکلیف مالا یطاق لازم نہیں آتی اور آپ کا عذر فرمایا تو اس وجہ سے ہے کہ آپ کو اس جملے کے معنے متعین نہ ہوئے ہوں کہ مجھ سے کیا پڑھوانا چاہتے ہیں اور یہ امر کوئی خلاف شان نہیں ہے یا باوجود تعیین مراد کے اس سبب سے ہے کہ قرات کا استعمال اکثر لکھی ہوئی چیز کو پڑھنے کے معنے میں آتا ہے تو آپ نے بوجہ صرف شناس نہ ہونے کے یہ عذر فرمایا ہو اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا دبانا بظن غالب واللہ اعلم بحقیقتہ الحال اس لئے ہوگا کہ آپ کے اندر بار وحی کے تحمل کی استعداد پیدا کردیں اور لفظ رب سے اشارہ اس طرف ہے کہ ہم آپ کی مکمل تربیت کریں گے اور نبوت کے درجات اعلیٰ پر پہنچا دیں گے آگے رب کی صفت ہے یعنی وہ ایسا رب ہے) جس نے (مخلوقات کو) پیدا کیا (اس وصف کی تخصیص میں یہ نکتہ ہے کہ حق تعالیٰ کی نعمتوں میں اول ظہور اس نعمت کا ہوتا ہے تو تذکیر میں اس کا مقدم ہونا مناسب ہے اور نیز خلق دلیل ہے خالق پر اور سب سے اہم اور اقدم معرفت خالق ہے آگے بطور تخصیص بعد تعمیم کے ارشاد ہے کہ) جس نے (سب مخلوقات میں سے بالخصوص) انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا (اس تخصیص بعد تعمیم میں اشارہ ہی کہ نعمت خلق میں بھی عام مخلوقات سے زیادہ انسان پر انعام ہے کہ اس کو کس درجہ تک ترقی دی کہ صورت کیسی بنائی، عقل و علم سے مشرف بنایا، پس انسان کو زیادہ شکر اور ذکر کرنا چاہئے اور تخصیص علق کی شاید اس لئے ہے کہ یہ ایک برزخی حالت ہے کہ اس کے قبل نطفہ اور غذا و عنصر ہے اور اس کے بعد مضغہ اور ترکیب عظام و نفخ روح ہی پس گویا وہ جمعی احوال متقدمہ ومتاخرہ کے درمیان ہے آگے قرارت کو مقصود اہم قرار دینے کے لئے ارشاد ہے کہ آپ قرآن پڑھا کیجئے (حاصل یہ کہ پہلے امر یعنی اقراباسم ربک سے یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ یہاں اصل مقصود ذکر اسم اللہ ہے بلکہ قرات خود بھی فی نفسہا مقصود ہے کیونکہ تبلیغ کا ذریعہ یہی قرات ہے اور تبلیغ ہی اصل کام صاحب وحی کا ہے پس اس تکرار میں آپ کی نبوت اور مامور بالتبلیغ ہونے کا اظہار بھی ہوگیا) اور (آگے اس عذر کو رفع کردینے کی طرف اشارہ ہے جو آپ نے اول جبرئیل (علیہ السلام) سے پیش کیا تھا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس کے لئے ارشاد فرمایا کہ) آپ کا رب بڑا کریم ہے (جو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور وہ ایسا ہے) جس نے (لکھے پڑھوں کو نہشتہ) قلم سے تعلیم دی (اور عموماً و مطلقاً ) انسان کو (دوسرے ذرائع سے) ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہ جانتا تھا (مطلب یہ کہ اول تو تعلیم کچھ کتابت میں منحصر نہیں کیونکہ دوسرے طریقوں سے بھی تعلیم کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، ثانیاً اسباب مؤ ثر بالذات نہیں، مسبب حقیقی اور علم دینے والے ہم ہیں، پس گو آپ لکھنا نہیں جانتے مگر ہم نے جب آپ کو قرات کا امر کیا ہے تو ہم دوسرے ذریعہ سے آپ کو قرات اور حفظ علوم وحی پر قدرت دیدیں گے چنانچہا یسا ہی ہوا، پس ان آیات میں آپ کی نبوت اور اس کے مقدمات و متمات کا پورا بیان ہوگیا اور چونکہ صاحب نبوت کی مخالفت غایت درجہ کا گناہ اور شنیع امر ہے اس لئے آئندہ آیات میں جن کا نزول آیات اولیٰ سے ایک مدت کے بعد ہوا ہے آپ کے ایک خاص مخالف یعنی ابوجہل کی مذمت عام الفاظ سے ہے جس میں دوسرے مخالفین بھی شامل ہو اویں، جس کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک بار ابوجہل نے آپ کو نماز پڑھتے دیکھا کہنے لگا کہ میں آپ کو اس سے بار ہا منع کرچکا ہوں، آپ نے اس کو جھڑک دیا تو کہنے لگا کہ مکہ میں سب سے بڑا مجمع میرے ساتھ ہے اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر اب کی بار نماز پڑھتے دیکھوں گا تو نعوذ باللہ آپ کی گردن پر پاؤں رکھدوں گا چناچہ ایک بار اس قصد سے چلا مگر قریب جا کر رک گیا اور پیچھے ہٹنے لگا، لوگوں نے وجہ پوچھی کہنے لگا مجھ کو ایک خندق آگ کی حائل معلوم ہوئی اور اس میں پر دار چیزیں نظر آئیں آپ نے فرمایا وہ فرشتے تھے اگر اور آگ کی حائل معلوم ہوئی اور اس میں پر دار چیزیں نظر آئیں آپ نے فرمایا وہ فرشتے تھے اگر اور آگے آتا تو فرشتے اس کو بوٹی بوٹی کر کے نوچ ڈالتے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کذافی الدارالمنشور عبن الصحاح وغیرہامن کتب الحدیث ارشاد ہے کہ) سچ مچ بیشک (کافر) آدمی حد (آدمیت) سے نکل جاتا ہے اس وجہ سے کہ اپنے آپ کو (ابنائے جنس سے) مستغنی دیکھتا ہے (کقولہ تعالیٰ ولوبسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا الخ حالانکہ اس استغناء پر سرکشی حماقت ہے کیونکہ کسی کو گو مخلوق سے من وجہ استغنا ہو بھی جاوے لیکن حق تعالیٰ سے استغفاء تو کسی حال میں نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ آخر میں) اے مخاطب (عام) تیرے رب ہی کیطرف سب کا لوٹنا ہوگا (اور اس وقت بھی مثل حالت حیات کے اس کی قدرت کے احاطہ میں گھرا ہوگا اور اس حالت میں جو اس کو طغیان کی سزا ہوگی اس سے بھی کہیں نہ بھاگ سکے گا پس ایسا عاجز ایسے قادر سے کب مستغنی ہوسکتا ہے تو اپنے کو مستغنی سمجھنا اور اس کی بنا پر سرکشی کرنا بڑی بیوقوفی ہے، آگے بصورت استفہام تعجب ہے اس کی سرکشی پر یعنی) اے مخاطب (عام) بھلا اس شخص کا حال تو بتلا جو (٢ مارے) ایک (خاص) بندے کو منع کرتا ہے جب وہ (بندہ) نماز پڑھتا ہے (مطلب یہ کہ اس شخص کا حال دیکھ کر تو بتلا کہ اس سے زادہ عجیب بات بھی کوئی ہے حاصل یہ کہ نمازی کو نماز سے روکنا نہایت ہی بری اور عجیب بات ہے، آگے اسی تعجب کی تاکید وتقویت کے لئے مکرر فرماتے ہیں کہ) اے مخاطب (عام) بھلا یہ تو بتلا کہ اگر وہ بندہ (جس کو نماز سے روکا گیا ہے) ہدایت پر ہو (کہ جو کمال لازمی ہے) وہ (دوسروں کو بھی) تقویٰ کی تعلیم دیتا ہو (جو کمال متعدی یعنی دوسروں کی نفع رسانی ہے اور شاید کلمہ تردید لانے سے اشارہ اس طرف ہو کہ اگر ان میں سے ایک صفت بھی ہوتی تب بھی منع کرنے والے کی مذمت کے لئے کافی تھی چہ جائیکہ دونوں ہوں اور) اے مخاطب (عام) بھلا یہ تو بتلا کہ اگر وہ شخص (منع کرنے والا دین حق کو) جھٹلاتا ہو اور (دین حق سے) روگردانی کرتا ہو (یعنی نہ عقیدہ رکھتا ہو اور نہ عمل، یعنی اول تو یہ دیکھو کہ نماز سے منع کرنا کتنا برا ہی پھر بالخصوص یہ دیکھو کہ جب منع کرنے والا ایک گمراہ اور جس کو منع کر رہا ہے وہ ہدایت کا اعلیٰ نمونہ ہے تو یہ کتنی عجیب بات ہے۔ آگے اس منع کرنے پر اس کو وعید ہے یعنی) کیا اس شخص کو یہ خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ (اس کی سرکشی اور اس سے پیدا ہونے والے اعمال کو) دیکھ رہا ہے (اور اس پر سزا دے گا، آگے اس پر زجر ہے یعنی اسکو) ہرگز (ایسا) نہیں (کرنا چاہئے اور) اگر یہ شخص (اپنی اس حرکت سے) باز نہ آوے گا تو ہم (اس کو) پٹھے پکڑ کر جو کہ دروغ اور خطا میں آلودہ پٹھے ہیں (جہنم کی طرف) گھسیٹیں گے (ناصیہ سر کے اگلے بالوں کو کہا جاتا ہے جن کو اردو میں پٹھے بولتے ہیں اس کی صفت میں کا ذبہ خاطہ مجازاً فرمایا اور اس کو جو اپنے مجمع پر گھمنڈ ہے اور ہمارے پیغمبر کو دھمکاتا ہے) سو یہ اپنی مجلس والوں کو بلا لے (اگر اس نے ایسا کیا تو) ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلا لیں گے (چونکہ اس نے نہیں بلایا اس لئے اللہ نے ان فرشتوں کو بھی نہیں بلایا کماروی الطبری عن قتادہ مرسلاً قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوفعل ابوجہلم لاخذتہ الملئکتہ الزبانیہ عیاناً آگے پھر زیارت زجر کے لئے اس کو تنبیہ ہے کہ اس کو) ہرگز (ایسا نہیں (کرنا چاہئے مگر) آپ (اس نالائق کی ان حرکتوں کی کچھ پرواہ کیجئے اور) اس کا کہنا نہ مانیئے (جیسا اب تک بھی نہیں مانا) اور (بدستور) نماز پڑھتے رہئے اور (خدا کا) قرب حاصل کرتے رہئے (اس میں ایک لطیف وعدہ ہے کہ حق تعالیٰ آپ کو ان لوگوں کے ضرر سے محفوظ رکھے گا کیونکہ نماز سے قرب ہوتا ہے اور قرب موجب عظمت ہے الالحکمتہ خاصہ پس ایسے امور کی طرف ذرا التفات نہ کیجئے اپنے کام میں لگے رہئے۔ ) - معارف ومسائل - وحی نبوت کی ابتداء اور سب سے پہلے وحی :۔ صحیحین اور دوسری معتبر روایات سے ثابت اور جمہور سلف و خلف کا اس پر اتفاق ہے کہ وحی کی ابتدا سورة علق یعنی اقراء سے ہوتی ہے اور اس سورة کی ابتدائی پانچ آتیں مالم یعلم تک سب سے پہلے نازل ہوئیں۔ بعض حضرات نے سورة مدثر کو سب سے پہلی سورت قرار دیا ہے اور بعض نے سورة فاتحہ کو۔ امام بغوی نے فرمایا کہ جمہور سلف وخلف کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ سب سے پہلے سورة اقراء کی پانچ آیتیں نازل ہوئیں (کذاروی فرمایا کہ جمہور سلف و خلف کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ سب سے پہلے سورة اقراء کی پانچ آیتیں نازل ہوئیں (کذاروی عن ابن عباس و الزہری و عمرو بن دینار، در منشور) اور جن حضرات نے سورة مدثر کو پہلی سورت فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اقراء کی پانچ آیتیں نازل ہونے کے بعد نزول قرآن میں ایک مدت تک توقف رہا جس کو زمانہ فترت کا کہا جاتا ہے اور وحی کی تاخیر و توقف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت رنج و غم پیش آیا اس کے بعد اچانک پھر حضرت جبرئیل امین سامنے آئے اور سورة مدثر کی آیتیں نازل ہوئیں اس وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی اور ملاقات جبرئیل سے وہ ہی کیفیت طاری ہوئی جو سورة اقراء کے نزول کے وقت پیش آئی تھی جس کا بیان آگے آ رہا ہے جس طرح فترت کے بعد سب سے پہلے سورة مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اس لحاظ سے اس کو بھی پہلی سورت کہہ سکتے ہیں اور سورة فاتحہ کو جن حضرات نے پہلی سورت فرمایا ہے اس کی بھی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ مکمل سورت سب سے پہلے سورة فاتحہ ہی نازل ہوئی اس سے پہلے چند سورتوں کی متفرق آیات ہی کا نزول ہوا تھا (مظہری) صحیحین کی ایک طویل حدیث میں نبوت اور وحی کی ابتدا کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ نے فرمایا کہ سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلسلہ وحی رویائے صالحہ یعنی سچے خوابوں سے شروع ہوا جس کی کیفیت یہ تھی کہ جو کچھ آپ خواب میں دیکھتے بالکل اس کے مطابق واقعہ پیش آتا اور اس میں کسی تعبیر کی بھی ضرورت نہ تھی، صبح کی روشنی کی طرح واضح طور پر خواب میں دیکھا ہوا واقعہ سامنے آجاتا تھا۔- اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخلوق سے یکسوئی اور خلوت میں عبادت کرنے کا داعیہ قوی پیش آیا جس کے لئے آپ نے غار حرا کو منتخب فرمایا (یہ غار مکہ مکرمہ کے قبرستان جنتہ المعلیٰ سے کچھ آگے ایک پہاڑ پر ہے جس کو جبل النور کہا جاتا ہے اس کی چوٹی دور سے نظر آتی ہے) حضرت صدیقہ فرماتی ہیں کہ آپ اس غار میں جا کر راتوں کو رہتے اور عبادت کرتے تھے جب تک اہل و عیال کی خبر گیری کی ضرورت پیش نہ آتی وہیں مقیم رہتے تھے اور اس وقت کے لئے آپ ضروری توشہ لیجاتے تھے اور پھر توشہ ختم ہونے کے بعد حضرت خدیجہ ام المومنین کے پاس تشریف لاتے اور مزید کچھ دنوں کے لئے توشہ لیجاتے یہاں تک کہ آپ اسی غار حرا میں تھے کہا اچانک آپ کے پاس حق یعنی وحی پہنچی۔ (غار حراء میں خلوت گزینی کی مدت میں علماء کا اختلاف ہے۔ صحیحین کی روایت ہے کہ آپ نے ایک ماہ یعنی پورے ماہ رمضان اس میں قیام فرمایا۔ ابن اسحٰق نے سیرت میں اور زرقانی نے شرح مواہب میں فرمایا کہ اس سے زیادہ مدت کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے اور یہ عبادت جو آپ غار حراء میں نزول وحی سے پہلے کرتے تھے اس وقت نماز وغیرہ کی تعلیم تو ہوئی نہ تھی، بعض حضرات نے فرمایا کہ نوح اور ابراہیم اور عیسیٰ (علیہم السلام) کی شرائع کے مطابق عبادت کرتے تھے مگر نہ کسی روایت سے اس کا ثبوت ہے اور نہ آپ کے امی ہونے کی وجہ سے یہ احتمال صحیح ہے بلکہ ظاہر یہ ہے کہ اس وقت آپ کی عبادت محض مخلوق سے انقطاع اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ خاص اور تفکر کی تھی (مظہری) - حضرت صدیقہ فرماتی ہیں کہ وحی آنے کی صورت میں ہوئی کہ فرشتہ یعنی جبرئیل امین آپ کے پاس آیا اور آپ سے کہا اقراء یعنی پڑھئے، آپ نے فرمایا ما انا بقاری یعنی میں پڑھنے والا نہیں ہوں (کیونکہ آپ امی تھے، اور جبرئیل امین کے قول اقراء کی مراد آپ پر اس وقت واضح نہ تھی کہ کیا اور کس طرح پڑھوانا چاہتے ہیں کیا کوئی لکھی ہوئی تحریر دیں گے جس کو پڑھنا ہوگا اس لئے اپنے امی ہونے کا عذر کردیا) حضرت صدیقہ کی روایت میں ہی کہ آپ نے فرمایا کہ میرے اس جواب پر جبرئیل امین نے مجھے آغوش میں لے کر اتنا دبایا کہ مجھے اس کی تکلیف محسوس ہونے لگی اس کے بعد مجھے چھوڑ دیا اور پھر وہی بات کہی اقراء میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھنے والا نہیں ہوں تو پھر جبرئیل امین نے دوبارہ آغوش میں لے کر اتنا دبایا کہ مجھے اس کی تکلیف محسوس ہونے لگی پھر چھوڑ دیا اور تیسری مرتبہ پھر کہا اقراء میں نے پھر وہی جواب دیا مانا بقادی تو تیسری مرتبہ پھر آغوش میں دبایا پھر چھوڑ کر کہا، اقراء باسم اربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقراو ربک الاکرم، الذی علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم - قرآن کی یہ (سب سے پہلی پانچ) آیتیں لے کر آپ گھر واپس تشریف لائے آپ کا دل کانپ رہا تھا حضرت خدیجہ کے پاس آ کر فرمایا زملونی زملونی مجھخ ڈھانپو مجھے ڈھانپو (حضرت خدیجہ نے آپ پر کپڑے ڈالے) یہاں تک کہ یہ ہیبت کی کیفیت رفع ہوئی (یہ کییت اور کپکپی جبرئیل (علیہ السلام) کے خوف سے نہیں تھی کیونکہ آپ کی شان اس سے بہت بلند وبالا ہے بلکہ اس وحی کے ذریعہ جو نبوت و رسالت کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی اس کا بارگراں محسوس فرمانے اور ایک فرشتہ کو اس کی اصلی ہئیت میں دیکھنے سے طبعی طور پر یہ ہیبت کی کیفیت پیدا ہوئی) - حضرت صدیقہ فرماتی ہیں کہ افاقہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ کو غار حرا کا پورا واقعہ سنایا اور فرمایا کہ اس سے مجھ پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہوگیا۔ حضرت خدیجہ ام المومنین نے عرض کیا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ناکام نہ ہونے دیں گے کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ بوجھ میں دبے ہوئے لوگوں کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں۔ بیروزگار آدمی کو کسب پر لگا دیتے ہیں مہمانوں کی مہمانداری کرتے ہیں اور مصیبت زدوں کی امداد کرتے ہیں (حضرت خدیجہ لکھی پڑھی اتون تھیں ان کو شاید کتب سابقہ توریت و انجیل سے یا اس کے علماء سے یہ بات معلوم ہوئی ہوگی کہ جس شخص کے اخلاق و عادات ایسے کریمانہ ہوں وہ محروم و ناکام نہیں ہوا کرتا اس لئے اس طریقے سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی) - اس کے بعد حضرت خدیجہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل کے پاس لے گئیں یہ زمانہ جاہلیت ہی میں بت پرستی سے تائب ہو کر نصراین ہوگئے تھے (کیونکہ اس وقت کا دین حق یہی تھا) ورقہ ابن نوفل (لکھے پڑھے آدمی تھے عبرانی زبان بھی جانتے تھے اور عربی تو ان کی مادری زبان تھی) وہ عبرانی زبان میں بھی لکھتے تھے اور انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور اس وقت وہ بہت بوڑھے تھے، بڑھاپے کی وجہ سے بینائی جاتی رہی تھی، حضرت خدیجہ نے ان سے کہا کہ میرے چچا زاد بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی بات تو سنو۔ ورقہ ابن نوفل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حال دریافت کیا تو آپ نے غار حرا میں جو کچھ دیھا تھا بیان کردیا۔ ورقہ بن نوفل نے سنتے ہی کہا کہ یہ وہ ہی ناموس یعنی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اتارا تھا کا سش میں آپ کی نبوت کے زمانے میں قوی ہوتا، اور کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جبکہ آپ کی قوم آپ کو (وطن سے) نکالے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (تعجب سے پوچھا) کیا میری قوم مجھے نکال دے گی، ورقہ نے کہا کہ بلا شبہ نکالے گی کیونکہ جب بھی کوئی آدمی وہ پیغام حق اور دین حق لے کر آتا ہے جو آپ لائے ہیں تو اس کی قوم نے اس کو ستایا ہے اور اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں آپ کی بھرپور مدد کروں گا مگر ورقہ اس کے چند ہی روز کے بعد انتقال کرگئے اور اس واقعہ کے بعد وحی قرآن کا سلسلہ رک گیا (بخاری ومسلم) فترت وحی کی مدت کے متعلق سہیلی کی روایت ہے کہ ڈھائی سال تک رہی اور بعض روایات میں تین سال کی مدت بیان کی گئی ہے (مظہری) - اقرا باسم ربک الذی خلق، باسم ربک میں لفظ اسم بڑھانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ قرآن جب بھی پڑھیں اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحم پڑھ کر شروع کریں جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے، دوسرا اشارہ اس میں اس عذر کے جواب کا ہے جو آپ نے پیش کیا تھا کہ میں قاری نہیں، باسم ربک کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا کہ اگرچہ آپ اپنی موجودہ حالت کے اعتبار سے امی ہیں لکھے پڑھے نہیں، مگر آپ کے رب کو سب قدرت ہے وہ امی شخص کو اعلیٰ علوم اور خطابت کا سلیقہ اور فصاحت و بلاغت کا وہ درجہ دے سکتا ہے کہ جس کے سامنے بڑے بڑے لکھے پڑھے عاجز ہوجائیں جیسا کہ بعد میں اس کا ظہور (مظہری) اور اس جگہ اللہ تعالیٰ کے اسما حسنیٰ میں سے لفظ رب کو خصوصیت سے اختیار کرنے میں اس مضمون کی مزید تائید و تاکید ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ آپ کا پروردگار ہے ہر طرح کی تربیت کرتا ہے وہ امی ہونے کے باوجود آپ سے پڑھوا بھی سکتا ہے الذی خلق صفات الہیہ میں سے اس جگہ صفت تخلیق کو خصوصیت سے ذکر کرنے میں شاید یہ حکمت ہو کہ مخلوقات پر جیسے انعامات و احسانات حق تعالیٰ کے ہیں ان میں سب سے پہلا انعام اس کو وجود عطا کرنا ہغے جو تخلیق ربانی کے ذریعہ عطا ہوتا ہے، اور اس جگہ خلق کا مفعول یعنی جس چیز کو پیدا کیا وہ ذکر نہیں کی گئی اس میں اشارہ عموم کی طرف ہے کہ ساری ہی کائنات اس کی مخلوق ہیں۔
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ ١ ۚ- قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے
(1 ۔ 4) سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ سورت نازل ہوئی کہ اے پیغمبر آپ قرآن کریم اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے جس نے مخلوقات کو پیدا کیا، اور اولاد آدم کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا آپ نے جبریل امین سے فرمایا : کیا پڑھوں تو جبریل امین نے اس سورت کی پہلی چار آیات کو پڑھیں اور فرمایا کہ آپ قرآن پاک پڑھا کیجئے آپ کا رب بڑا کریم و حلیم ہے جس نے نوشتہ قلم سے تعلیم دی۔
سورة العلق حاشیہ نمبر : 1 جیسا کہ ہم نے دیباچہ میں بیان کیا ہے ، فرشتے نے جب حضور سے کہا کہ پڑھو ، تو حضور نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے وحی کے یہ الفاظ لکھی ہوئی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے اور انہیں پڑھنے کے لیے کہا تھا ۔ کیونکہ اگر فرشتے کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ جس طرح میں بولتا جاؤں آپ اسی طرح پڑھتے جائیں ، تو حضور کو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ سورة العلق حاشیہ نمبر : 2 یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھو ، یا بالفاظ دیگر بسم اللہ کہو اور پڑھو ۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کے آنے سے پہلے صرف اللہ تعالی کو اپنا رب جانتے اور مانتے تھے ۔ اسی لیے یہ کہنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آپ کا رب کون ہے ، بلکہ یہ کہا گیا کہ اپنے رب کا نام لے کر پڑھو ۔ سورة العلق حاشیہ نمبر : 3 مطلقا پیدا کیا فرمایا گیا ہے ، یہ نہیں کہا گیا کہ کس کو پیدا کیا ۔ اس سے خودبخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس رب کا نام لے کر پڑھو جو خالق ہے ، جس نے ساری کائنات کو اور کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔
1: اِس سورت کی پہلی پانچ آیتیں سب سے پہلی وحی ہیں، جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں نازل ہوئیں، آپ نبوت سے پہلے کئی کئی دن اِس غار میں عبادت کیا کرتے تھے، ایک روز اِسی دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، اورآپ کو دبایا اور کہا کہ: ’’پڑھو‘‘ آپ نے فرمایا کہ: ’’میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘ یہ مکالمہ تین مرتبہ ہوا، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ پانچ آیتیں پڑھیں۔