4۔ 1 قلم کا معنی ہے قطع کرنا، تراشنا، قلم بھی پہلے زمانے میں تراش کر ہی بنائے جاتے تھے۔ اس لیے آلہ کتابت کو قلم سے تعبیر کیا۔
[٥] انسان کی بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ صاحب علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ مہربانی فرمائی کہ اسے قلم کے استعمال کا طریقہ سکھایا۔ جس سے علم کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہوسکتی ہے اور لکھی ہوئی چیز کسی عالم کی موت کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔ اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو علم اور کتابت کے فن کا طریقہ الہام نہ کرتا تو انسان کی علمی قابلیتیں سمٹ کر انتہائی محدود رہ جاتیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عام دستور ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ جو علم انبیاء کو بذریعہ وحی عطا فرماتا ہے وہ انسانی علوم سے بلند تر اور ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہوتا ہے۔ یہ استثنائی صورت ہے اور بالخصوص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے قلم کے ذریعہ علم نہیں سکھایا جس میں کفار کے کئی اعتراضات کے جواب اور کئی دیگر مصلحتیں تھیں جن کا قرآن نے جابجا ذکر کردیا ہے۔
الذی علم بالقلم تخلیق انسانی کے بعد اس کی تعلیم کا بیان ہے کیونکہ تعلیم ہی وہ چیز ہے جو انسان کو دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز اور تمام مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ بناتی ہے پھر تعلیم کی عام صورتیں دو ہیں ایک زبانی تعلیم دوسرے بذریعہ قلم تحریر و خط سے ابتدائے سورت میں لفظ اقراء میں اگرچہ زبانی تعلیم ہی کی ابتدا ہے مگر اس آیت میں جہاں تعلیم دینے کا بیان آیا ہے اس میں قلمی تعلیم کو مقدم کر کے بیان فرمایا ہے۔- تعلیم کا سب سے پہلا اور اہم ذریعہ قلم اور کتابت ہے :۔ ایک صحیح حدیث حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لما خلق اللہ الخلق کتب فی کتابہ فھو عندہ فوق العرش، ان رحمتی غلبت غضبی، یعنی اللہ تعالیٰ نے ازل میں جب مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں جو عرش پر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے یہ کلمہ لکھا کہ ” میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔ “- اور حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اول ماخلق اللہ القلم فقال لھم اکتب فکتب مایکون الی یوم القیمة فھو عندہ فی الذکر فوق عرشہ، یعنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس کو حکم دیا کہ لکھے، اس نے تمام چیزیں جو قیامت تک ہونے والی تھیں لکھدیں، یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے پاس عرش پر ہے (قرطبی) - قلم کی تین قسمیں :۔ علماء نے فرمایا ہے کہ عالم میں قلم تین ہیں۔ ایک سب سے سے پہلا قلم جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور تقدیر کائنات لکھنے کا اس کو حکم دیا، دوسرے فرشتوں کے قلم جس سے وہ تمام ہونے والے واقعات اور ان کی مقادیر کو نیز انسانوں کے اعمال کو لکھتے ہیں۔ تیسرے عام انسانوں کے قلم جن سے وہ اپنے کلام لکھتے اور اپنے مقاصد میں کام لیتے ہیں اور کتابت درحقیقت بیان کی ایک قسم ہے اور بیان انسان کی مخصوص صفت ہے (قرطبی) امام تفسیر مجاہد نے ابوعمرو سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات میں چار چیزیں اپنے دست قدرت سے خود بنائیں اور ان کے سوا باقی مخلوقات کے لئے حکم دین کن یعنی ہو جاوہ موجود ہوگئیں۔ یہ چار چیزیں یہ ہیں۔ قلم، عرش، جنت عدن، آدم (علیہ السلام) - علم کتابت سب سے پہلے دنیا میں کس کو دیا گیا :۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ سب سے پہلے یہ فن کتابت ابوالبشر حضرت آدم کو سکھایا گیا تھا اور سب سے پہلے انہوں نے لکھنا شروع کیا (کعب احبار) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سب سے پہلے یہ فن حضرت ادریس (علیہ السلام) کو ملا ہے اور سب سے پہلے کاتب دنیا میں وہی ہیں (ضحاک) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ہر شخص جو کتابت کرتا ہے وہ تعلیم منجانب اللہ ہی ہے۔- خط و کتابت اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے :۔ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ قلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اگر یہ تو ہوتا تو نہ کوئی دین قائم رہتا نہ دنیا کے کاروبار درست ہوتے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو ان چیزوں کا علم دنی اجن کو وہ نہیں جانتے تھے اور ان کو جہل کی اندھیری سے نور علم کی طرف نکالا اور علم کتابت کی ترغیب دی کیونکہ اس میں بیشمار اور بڑے منافع ہیں جن کا اللہ کے سوا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ تمام علوم و حکم کی تدوین اور اولین و آخرین کی تاریخ اس کے حالات و مقامات اور اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتابیں سب قلم ہی کے ذریعہ لکھی گئیں اور رہتی دنیا تک باقی رہیں گی، اگر قلم نہ ہو تو دنیا و دین کے سارے ہی کام مختل ہوجائیں۔- علمائے سلف و خلف نے ہمیشہ خط و کتابت کا بہت اہتمام کیا ہے :۔ علمائے سلف و خلف نے ہمیشہ تعلیم خط و کتابت کا بڑا اہتمام کیا ہے جس پر ان کی تصانیف کے عظیم الشان ذخائر آج تک شاید ہیں۔ افسوس ہے کہ ہمارے اس دور میں علماء و طلباء نے اس اہم ضرورت کو ایسا نظر انداز کیا ہے کہ سینکڑوں میں دوچار آدمی مشکل سے تحریر کتابت کے جاننے والے نکلتے ہیں فی اللہ المشت کے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتابت کی تعلیم نہ دینے کا راز :۔ حق تعالیٰ جل شانہ، نے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کو لوگوں کے فکر و قیاس سے بالاتر بنانے کے لئے آپ کی جائے پیدائش سے لے کر آپ کے ذاتی حالات تک سب ایسے بنائے تھے کہ جن میں کوئی انسان اپنی ذاتی کوشش و محنت سے کوئی کمال حاصل نہیں کرسکتا۔ جائے پیدائش کے لئے عرب کا صحرا تجویز ہوا جو متمدن دنیا اور علم و حکمت کے گہواروں سے بالکل کٹا ہوا تھا اور راستے اور مواصلات اتنے دشوار گزار تھے کہ شام و عراق اور مصر وغیرہ کے متمدن شہروں سے یہاں کے لوگوں کا کوئی جوڑ نہ تھا، اسی لئے عرب سب کے سب ہی امیین کہلاتے ہیں، ایسے ملک اور ایسے قبائل میں آپ پیدا ہوئے اور پھر حق تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ عرب کے لوگوں میں جو خال خال کوئی علم و حکمت اور خط و کتابت سیکھ لیتا تھا، آپ کو اس کے سیکھنے کا بھی موقع نہ دیا گیا، ان حالات میں پیدا ہونے والے انسان سے علم و حکمت اور اخلاق فاضلہ اس کے سیکھنے کا بھی موقع نہ دیا گیا، ان حالات سے پیدا ہونے والے انسان سے علم و حکمت اور اخلاق فاضلہ عالیہ کا کس کو تصور ہوسکتا ہے۔ اچانک حق تعالیٰ نے خلعت نبوت سے نوازا اور علم و حکمت کا غیر منقطع سلسلہ آپ کی زبان مبارک پر جاری فرما دیا، فصاحت و بلاغت میں عرب کے بڑے بڑے شعراء و بلغار آپ کے سامنے عاجز ہوگئے یہ ایک ایسا کھلا ہوا معجزہ تھا کہ ہر آنکھوں والا اس کو دیکھ کر یہ یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ کے کمالات انسانی سعی و عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے غیبی عطیات ہیں، خط و کتابت کی تعلیم نہ دینے میں بھی یہی حکمت تھی۔ (ماخوذ از قرطبی) - علم الانسان مالم یعلم، اس سے پہلی آیت میں تعلیم کے ایک خاص ذریعہ کا ذکر تھا جو عام طور پر تعلیم کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی قلمی تعلیم۔- ذریعہ علم صرف قلم نہیں بلکہ بیشمار ذرائع ہیں :۔ اس آیت میں اس کا ذکر ہے کہ اصل تعلیم دینے والا اللہ تعالیٰ سبحانہ ہے اور اس کے لئے ذرائع تعلیم بیشمار ہیں، کچھ قلم ہی کیساتھ مخصوص نہیں اس لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ علم دیا جس سے وہ پہلے ناواقف تھا، اس میں قلم یا کسی دوسرے ذریعہ تعلیم کا ذکر نہ فرمانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ کی یہ تعلیم انسان کی ابتداء آفرنیشن سے جاری ہے کہ اول اس میں عقل پیدا کی جو سب سے بڑا ذریعہ لم ہے، انسان اپنی عقل سے خود بغیر کسی تعلیم کے بہت سی چیزیں سمجھتا ہے پھر اس کے پس و پیش میں اپنی قدرت کاملہ کے ایسے مناظر اور دلائل قدتر رکھ دیئے جن کا مشاہدہ کر کے وہ اپنی عقل سے اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان سکے۔ پھر وحی اور الہام کے ذریعہ بہت سی چیزوں کا علم انسان کو عطا فرمایا اور بہت سی ضروری چیزوں کا علم انسان کے ذہن میں خود بخود پیدا فرما دیا جس میں کسی زبان یا قلم کی تعلیم کا دخل نہیں، ایک بےشعور بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اپنی غذا کے مرکز یعنی ماں کی چھاتیوں کو پہچان لیتا ہے پھر چھاتی سے دودھ اتارنے کے لئے منھ کو دبانا (اس کو کس نے سکھایا اور کو نسکھا سکتا تھا، پھر اس کو ایک ہنر رونے کا اللہ تعالیٰ نے اول ولادت ہی سے سکھا دیا، بچے کا یہ رونا اس کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اس کو روتا ہوا دیکھ کر ماں باپ اس فکر میں پڑجاتے ہیں کہ اس کو کیا تکلیف ہے۔ اس کی بھوک پیاس، سردی، گرمی کی سب ضروریات اسی رو دینے سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ یہ رونے کی تعلیم اس نومولود کو کون کرسکتا تھا اور کس طرح کرتا۔ یہ سب وہبی علم ہے جو اللہ تعالیٰ ہر جاندار کے خصوصاً انسان کے ذہن میں پیدا فرما دیتا ہے۔ اس ضروری علم کے بعد پھر زبانی عتلیم پھر قلبی تعلیم کے ذریعہ اس کے علوم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور مالم یعلم یعنی جس کو وہ نہیں جانتا تھا اس کے کہنے کی بظاہر کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ عادة تعلیم تو اسی چیز کی ہوتی ہے جس کو انسان نہیں چاہتا اس کے فرمانے میں اشارہ اس طرف ہے کہ اس خداداد علم و ہنر کو انسان اپنا ذاتی کمال نہ سمجھ بیٹھے، مالم یعلم سے اشارہ فرما دیا کہ انسان پر ایک ایسا وقت بھی آیا ہے جب وہ کچھ نہیں جانتا تھا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ہے اخرجکم من بطون امھتکم لاتعلمون شیاً یعنی اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے بطن سے ایسی حالت میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے، معلوم ہوا کہا نسان کو بھی جو بھی علم و ہنر ملا ہے وہ اس کا ذاتی نہیں بلکہ سب خالق ومالک کا عطیہ ہے۔ (مظہری) اور بعض حضرات مفسرین نے اس آیت میں انسان سے حضرت آدم یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مراد قرار دیا ہے کیونکہ آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان ہیں جن کو تعلیم دی گی وعلم ادم الاسمآء کلھا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ آخری پیغمبر ہیں جن کی تعلیم میں تمام انبیاء سابقین کے علوم اور لوح و قلم کے علوم شامل ہیں کما قال ومن علومک علم اللوح والقلم - یہاں تک سورة اقراء کی پانچ آیتیں سب سے پہلے نازل ہوئیں، اس کے بعد کی آیتیں کافی عرصہ کے بعد نازل ہوئی ہیں کیونکہ باقی آیتیں آخر سورت تک ابوجہل کے ایک واقعہ کے متعلق ہیں اور ابتداء وحی و نبوت میں تو مکہ میں کوئی بھی آپ کا مخالف نہ تھا سب آپ کو امین کے لقب سے پکارتے تھے اور محبت و تعظیم کرتے تھے، ابوجہل کی مخالفت اور دشمنی خصوصاً نماز پڑھنے سے روکنے کا واقعہ جو آگے آنے والی آیات میں مذکور ہے ظار ہے کہ اس وقت کا ہے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت و دعوت کا اعلان فرمایا اور شب معراج میں آپ کو نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔
الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ٤ - علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - قلم - أصل القَلْمِ : القصّ من الشیء الصّلب، کا لظفر وکعب الرّمح والقصب، ويقال لِلْمَقْلُومِ : قِلْمٌ. كما يقال للمنقوض : نقض . وخصّ ذلک بما يكتب به، وبالقدح الذي يضرب به، وجمعه : أَقْلَامٌ. قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] . وقال : وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان 27] ، وقوله : إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران 44] أي : أقداحهم، وقوله تعالی: عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] تنبيه لنعمته علی الإنسان بما أفاده من الکتابة وما روي «أنه عليه الصلاة والسلام کان يأخذ الوحي عن جبریل وجبریل عن ميكائيل وميكائيل عن ؟ ؟ ؟ إسرافیل وإسرافیل عن اللّوح المحفوظ واللّوح عن القَلَمِ» فإشارة إلى معنی إلهيّ ، ولیس هذا موضع تحقیقه . والْإِقْلِيمُ : واحد الْأَقَالِيمِ السّبعة . وذلک أنّ الدّنيا مقسومة علی سبعة أسهم علی تقدیر أصحاب الهيئة .- ( ق ل م ) القلم ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی کسی سخت چیز کو تراشنے کے ہیں ۔ اس لئے ناخن بانس کی گرہ اور سر کنڈ سے وغیرہ کے تراشنے پر قلم کا لفظ بو لاجاتا ہے اور تراشیدہ چیز کو ہے جیسے کہا جاتا ہے تو قلم مقلوم ہے جیسے نقض بمعنی منقوض اتا ہے ۔ اور ( عرف میں ) خاص کر لکھنے کے آلہ اور قرعہ اندازی کے تیر پر یہ لفظ بولاجاتا ہے ۔ اس کی جمع اقلام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان 27] اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں ( سب کے سب ) قلم ہوں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران 44] جب وہ لوگ اپنے قلم بطور قرعہ ڈال رہے تھے ۔ میں اقلام سے قرعہ اندازی کے تیر مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] جس نے قلم کے ذر یعہ سے علم سکھایا ۔ میں تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انسان کو کتابت کی تعلیم دینا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اور جو حدیث میں ایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبیریل (علیہ السلام) سے وحی اخذ کرتے تھے اور جبیریل مکائیل سے وہ اسرافیل سے اور اسرافیل لوح محفوظ سے اور لوح محفوظ قلم سے تو یہاں سر الہٰی کی طرف اشارہ ہے جس کی تحقیق کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ الاقلیم ۔ ربع مسکون کا ساتواں حصہ ۔ علماء بیئت کی تحقیق کے مطابق زمین کے سات حصے ہیں ۔ اور ہر حصہ پر اقلیم کا لفظ بولتے ہیں اس کی جمع اقالیم ہے ۔
آیت ٤ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ ” جس نے تعلیم دی ہے قلم کے ساتھ۔ “- گویا عام انسانی تعلیم کا ذریعہ قلم ہے ‘ جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم کے لیے فرشتہ مقرر ہوا۔
سورة العلق حاشیہ نمبر : 5 یعنی یہ اس کا انتہائی کرم ہے کہ اس حقیر ترین حالت سے ابتدا کر کے اس نے انسان کو صاحب علم بنایا جو مخلوقات کی بلند ترین صفت ہے ، اور صرف صاحب علم ہی نہیں بنایا ، بلکہ اس کو قلم کے استعمال سے لکھنے کا فن سکھایا جو بڑے پیمانے پر علم کی اشاعت ، ترقی ، اور نسلا بعد نسل اس کے بقا اور تحفظ کا ذریعہ بنا ۔ اگر وہ الہامی طور پر انسان کو قلم اور کتابت کے فن کا یہ علم نہ دیتا تو انسان کی علمی قابلیت ٹھٹھر کر رہ جاتی اور اسے نشو و نما پانے ، پھیلنے اور ایک نسل کے علوم دوسری نسل تک پہنچنے اور آگے مزید ترقی کرتے چلے جانے کا موقع ہی نہ ملتا ۔