Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] آپ کے بیت اللہ میں نماز پڑھنے پر ابوجہل کا سیخ پا ہونا اور متعدد بار حملے کرنا :۔ ایک دفعہ ابو جہل نے قریشی سرداروں سے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہے۔ (یعنی بیت اللہ میں نماز ادا کرنے کے دوران سجدہ کرتا ہے) لوگوں نے کہا : ہاں کہنے لگا : لات و عزیٰ کی قسم اگر میں نے اسے اب اس حال میں دیکھ لیا تو اس کی گردن روند ڈالوں گا اور اس کا چہرہ مٹی پر رگڑ دوں گا۔ اس کے بعد جب اس نے آپ کو کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھا تو اس برے ارادے سے آپ کی طرف بڑھا۔ پھر اچانک پیچھے ہٹنے لگا۔ سرداران قریش نے جب اپنے رئیس کو اس حال میں دیکھا تو حیرانی سے پوچھا : ابوالحکم کیا ہوا ؟ وہ گھبرایا ہوا کہنے لگا : کہ میرے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک خوفناک آگ حائل ہوگئی تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بتایا کہ اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو اچک لیتے (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر لئن لم ینتہ، نیز مسلم کتاب صفۃ القیامۃ والجنہ والنار) - نیز ایک دفعہ ابو جہل اپنے اہل مجلس سے کہنے لگا کہ : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے معبودوں کی تذلیل اور بزرگوں کی توہین کرکے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب میں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ جب اسے نماز میں دیکھوں گا۔ اس کا سر ایک بھاری پتھر سے کچل دوں گا۔ پھر تم خواہ بنو عبدمناف سے میری حفاظت کرو یا مجھے بےیارو مددگار چھوڑو اس کے ساتھیوں نے کہا : ہم تجھے بےیارو مددگار نہ چھوڑیں گے۔ تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو چناچہ جب صبح ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب ِ دستور نماز ادا کرنے لگے تو وہ اپنے پروگرام کے مطابق ایک بھاری پتھر اٹھا کر آگے بڑھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سجدہ میں جانے کا انتظار کرنے لگا۔ قریب پہنچا ہی تھا کہ پھر پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کا رنگ اڑ گیا اور وہ بدحواسی کی وجہ سے اپنے ہاتھ سے پتھر بھی نیچے نہ پھینک سکا۔ اس کے دوستوں نے پوچھا : ابوالحکم یہ کیا ماجرا ہے ؟ اس کے حواس ٹھکانے آئے تو کہنے لگا : کیا بتاؤں۔ ایک کریہہ المنظر اونٹ آڑے آگیا تھا۔ اس اونٹ جیسی کھوپڑی، اس جیسی گردن اور اس اونٹ کے دانتوں جیسے دانت میں نے آج تک نہیں دیکھے یہ اونٹ مجھے نگل جانا چاہتا تھا (ابن ہشام ١: ٢٩٨، ٢٩٩) - خ ایذا پہنچانے والے کافروں کے حق میں آپ کی بد دعا :۔ ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابو جہل اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہنے لگا : تم میں سے کون ہے جو فلاں شخص کے ہاں ذبح شدہ اونٹنی کا بچہ دان اٹھا لائے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ میں جائے تو اس کی پیٹھ پر رکھ دے ؟ عقبہ بن ابی معیط جھٹ بول اٹھا کہ یہ کام میں کروں گا چناچہ وہ گیا اور بچہ دان اٹھا لایا۔ پھر جب آپ سجدہ میں گئے تو اسے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں ان کے مقابلہ میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کچھ بھی نہ کرسکتا تھا۔ کاش میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کچھ مدد کرسکتا یہ منظر دیکھ کر ابو جہل اور اس کے ساتھی ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنے بوجھ کی وجہ سے اپنا سر اٹھا بھی نہ سکتے تھے۔ اتنے میں کسی نے سیدہ فاطمہ (رض) کو خبر کردی۔ وہ آئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن سے بچہ دانی کو اٹھا کر پرے پھینک دیا اور انہیں برا بھلا کہنے لگیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ سے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا : اللھم علیک بقریش (اے اللہ ان قریشیوں سے تو خود نمٹ لے) یہ کلمات سن کر وہ لوگ سہم گئے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا رنگ لاکے رہے گی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مجمع کے چھ آدمیوں کے نام لے کر انہیں بددعا دی اور فرمایا : یا اللہ ابو جہل سے نمٹ لے، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن امیہ، امیہ بن خلف اور عتبہ بن ابی معیط سے نمٹ لے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یہ سب لوگ بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور بدر کے کنوئیں میں پھینکے گئے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب دعاء النبی علی المشرکین)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ارء یت الذی ینھی…: ان آیات میں ابوجلہ کے رویے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ فرمایا اے مخاطب بھلا تو نے اس شخص کو دیکھا جو اللہ کے بندے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے ؟ بھلا یہ بھی کوئی جرم ہے جس سے وہ منع کر رہا ہے ؟ پھر تو نے دیکھا، اگر یہ نماز پڑھنے والا راہ راست پر ہو یا امر بالمعروف کر رہا ہو تو کیا اس سے یہ سلوک ہونا چاہیے ؟ پھر کیا تو نے دیکھا کہ اگر یہم نع کرنے والا جھٹلا رہا ہو اور منہ موڑ رہا ہو تو کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے ؟ آیت :(ارء یت ان کان علی الھدی ، او ام بالتقویٰ ) کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ کیا تو نے دیکھا کہ یہ نماز سے منع کرنے والا نماز سے روکنے کے بجائے ہدایت پر ہوتا یا نیکی کا حکم یدتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ارءیت الذی ینھی عبداً اذا صلی، اس آیت سے آخر سورة تک ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہی کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے کا حکم دیا اور آپ نے نماز پڑھنا شروع کی تو ابوجہل نے آپ کو نماز پڑھنے سے روکا اور دھمکی دی کہ آئندہ نماز پڑھیں گے اور سجدہ کریں گے تو وہ معاذ اللہ آپ کی گردن کو پاؤں سے کچل دے گا، اس کے جواب اور اس کو زجر کرنے کے لئے یہ آیات آئی ہیں ان میں فرمایا الم یعلم بان اللہ یریٰ یعنی کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے، یہاں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس کو دیکھ رہا ہے اس لئے عام اور شامل ہے کہ نماز پڑھنے والی بزرگ ہستی کو بھی دیکھ رہا ہے اور اس سے روکنے والے بدبخت کو بھی اور یہاں صرف اس جملہ پر اکتفا کیا گیا کہ ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، آگے دیکھنے کے بعد کیا حشر ہوگا اس کے ذکر نہ کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہولناک انجام قابل تصور نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْہٰى۝ ٩ ۙ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(9 ۔ 13) اگلی آیات ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اس نے حالت نماز میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن مبارک پر پیر رکھنے کا ارادہ کیا تھا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بھلا اس شخص کا حال تو بتلا جو محمد کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے اور وہ ہدایت یعنی نبوت واسلام پر ہیں اور دوسروں کو توحید کا حکم دیتے ہیں اور بوجہل توحید کو جھٹلاتا اور ایمان سے اعراض کرتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani