Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] رُجْعٰی بمعنی لوٹ کر واپس جانے کا مقام، یعنی انسان دنیا میں خواہ کتنی ہی سرکشی اختیار کرلے۔ بالآخر اسے اپنے پروردگار کے پاس جانا پڑے گا۔ اس وقت اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس کی اس متکبرانہ روش کا انجام کیسا ہوتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ان الی ربک الرجعی، رجعی مثل بشریٰ کے اسم مصدر ہے۔ معنے یہ ہیں کہ سب کو اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے اس کے ظاہر معنے تو یہی ہیں کہ مرنے کے بعد سب کو اللہ کے پاس جانا اور اچھے برے اعمال کا حساب دینا ہی اس وقت اس طغیانی اور سرکشی کے انجام بد کو آنکھوں سے دیکھ لیگا اور یہ بھی بعید نہیں کہ اس جملے میں مغرور انسان کے غرور کا علاج بتلایا گیا ہو کہ اے احمق تو اپنے آپ کو سب سے بےنیاز خود مختار سمجھتا ہے اگر غور کرے گا تو اپنی ہر حالت بلکہ ہر حرکت و سکون میں تو اپنے آپ کو رب تعالیٰ کا محتاج پائیگا، اگر اس نے تجھے کسی انسان کا محاتج بظاہر نہیں بنایا تو کم از کم اس کو تو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا تو ہر چیز میں محتاج ہے اور انسانوں کی محتاجی سے بےنیاز سمجھنا بھی صرف ظاہری مغالطہ ہی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مدنی الطبع بنایا ہے وہ اکیلا اپنی ضروریات میں سے کسی ایک ضرورت کو بھی پورا نہیں کرسکتا، اپنے ایک لقمہ کو دیکھے تو پتہ چلے گا کہ ہزاروں انسانوں اور جانوروں کی محنت شاقہ اور مدت دراز تک کام میں لگے رہنے کا نتیجہ یہ لقمہ تر ہے جو بےفکری کے ساتھ نگل رہا ہے اور اتنے ہزاروں انسانوں کو اپنی خدمت میں لگا لینا کسی کے بس کی بات نہیں، یہی حال اس کے لباس اور تمام دوسری ضروریات کا ہے کہ ان کے مہیا کرنے میں ہزاروں لاکھوں انسانوں اور جانوروں کی محنت کا دخل ہے جو تیرے غلام نہیں اگر تو ان سب کو تنخواہیں دے کر بھی چاہتا کہ اپنے اس کام کو پورا کرے تو ہرگز تیرے بس میں نہ آتا، ان باتوں میں غور و فکر انسان پر یہ راز کھولتا ہے کہ اس کی تمام ضروریات کے مہیا کرنے کا نظام خود اس کا بنایا ہوا نہیں بلکہ خالق کائنات نے اپنی حکمت بالغہ سے بنایا اور چلایا ہے کسی دل میں ڈال دیا کہ زمین میں کشات کا کام کرے، کسی کے دل میں یہ پیدا کردیا کہ وہ لکڑی اور نجاری کا کام کرے، کسی کے دل میں لوہار کے کام کی رغبت ڈال دی، کسی کو محنت مزدوری کرنے ہی میں راضی کردیا، کسی کو تجارت و صنعت کی طرف راغب کر کے انسانی ضروریات کے بازار لگا دیئے۔ نہ کوئی حکومت اس کا نظم قانون سے کرسکتی تھی نہ کوئی فرد۔ اس لئے اس غور فو کر کا لازمی نتیجہ الی ربک الرجع ہے یعنی انجام کار سب چیزوں کا حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے تابع ہونا مشاہدہ میں آجاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى۝ ٨ ۭ- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی ۔ ” یقینا تجھے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ “- گویا انسان کو راہ راست پر رکھنے کا جو موثر ترین علاج ہے وہ ہے عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین ۔ یعنی یہ یقین کہ ایک دن اسے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے اور وہ عدالت بھی ایسی ہے جہاں ذرّہ برابر بھی کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکے گی : فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ - وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ۔ (الزلزال) ” جس کسی نے ذرّے کے ہم وزن نیکی کمائی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ۔ اور جس کسی نے ذرّے کے ہم وزن برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا “۔ گویا یہ عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین اور قیامت کے دن کی پیشی کا خوف ہی ہے جو انسان کے اندر خود احتسابی کا احساس اجاگر کرتا ہے ۔ یہی یقین اور خوف اسے خلوت و جلوت میں ‘ اندھیرے اجالے میں اور ہر جگہ ‘ ہر حال میں غلط روی اور ظلم وتعدی کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ ورنہ انسان کی سرشت ایسی ہے کہ جس مفاد تک اس کا ہاتھ پہنچتا ہو اسے سمیٹنے کے لیے وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی حدود کی پروا نہیں کرتا۔- اب اگلی آیت سے اس سورت کا تیسرا حصہ شروع ہو رہا ہے ۔ سورة المدثر کے ساتھ اس سورت کے مضامین کی مشابہت کا انداز ملاحظہ ہو کہ سورة المدثر کے تیسرے حصے میں ولید بن مغیرہ کے کردار کی جھلک دکھائی گئی ہے ‘ جبکہ یہاں اس کے مقابل ابوجہل کے طرزعمل کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العلق حاشیہ نمبر : 9 یعنی خواہ کچھ بھی اس نے دنیا میں حاصل کرلیا ہو جس کے بل پر وہ تمرد اور سرکشی کر رہا ہے ۔ آخر کار اسے جانا تو تیرے رب ہی کے پاس ہے ۔ پھر اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس روش کا انجام کیا ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani