[٧] آیت نمبر ٦ اور آیت نمبر ٧ میں انسانوں کی اکثریت یا خدا فراموش انسان کی ایک عام خصلت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی کو سیر ہو کر کھانے کو ملنے لگتا ہے اور اس پر خوش حالی کا دور آتا ہے تو وہ اپنے جیسے انسانوں کو درکنارا اپنے خالق ومالک کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور اس کی سرکشی اور بغاوت پر اتر آتا ہے۔
اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰى ٧ ۭ- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی
آیت ٧ اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی ۔ ” اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے۔ “- وہ دیکھتا ہے کہ اس پر کوئی پکڑ نہیں۔ دنیا میں نہ تو ظالم کو اس کے ظلم کی قرار واقعی سزا ملتی ہے اور نہ ہی مظلوم کی کماحقہ داد رسی ہوتی ہے ۔ چناچہ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس دنیاکا نظام محض طبعی قوانین و ضوابط ( ) کے مطابق چل رہا ہے اور یہ کہ یہاں اخلاقی قوانین ( ) کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسان کی روز مرہ زندگی کا تجربہ بھی اسے یہی بتاتا ہے کہ زہر کھانے سے تو آدمی ہلاک ہوجاتا ہے لیکن حرام کھانے سے اسے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ چناچہ جب معاشرے کے عام آدمی کو نیکی ‘ انصاف ‘ دیانت داری جیسے الفاظ عملی طور پر بےمعنی اور بےوقعت نظرآتے ہیں تو وہ سرکشی اور َمن مرضی کے راستے پر چل نکلتا ہے ۔ اب اگلی آیت میں انسان کی اس سرکشی اور بغاوت کا علاج بتایا جا رہا ہے ۔ اس کا علاج اس یاد دہانی میں ہے کہ :
سورة العلق حاشیہ نمبر : 8 یعنی یہ دیکھ کر کہ مال ، دولت ، عزت و جاہ اور جو کچھ بھی دنیا میں وہ چاہتا تھا وہ اسے حاصل ہوگیا ہے ، شکر گزار ہونے کے بجائے وہ سرکشی پر اتر آتا ہے اور حد بندگی سے تجاوز کرنے لگتا ہے ۔
4: یعنی اپنے مال و دولت اور سرداری کی وجہ سے اپنے آپ کو بے نیاز اور بے پروا سمجھتا ہے کہ کوئی مجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا، اگلی آیت میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سب کو آخر کار اﷲ تعالیٰ کے پاس لوٹنا ہے، وہاں یہ ساری بے نیازی اور بے پروائی دھری رہ جائے گی۔