طالب علم اور طالب دنیا: فرماتا ہے کہ انسان کے پاس جہاں دو پیسے ہوئے ذرا فارغ البال ہوا کہ اسکے دل میں کبر و غرور ، عجب و خود پسندی آئی اسے ڈرتے رہنا چاہیے اور خیال رکھنا چاہیے کہ اسے ایک دن اللہ کی طرف لوٹنا ہے وہاں جہاں اور حساب ہوں گے ۔ مال کی بابت بھی سوال ہو گا کہ لایا کہاں سے خرچ کہاں کیا ؟ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں دو لالچی ایسے ہیں جن کا پیٹ ہی نہیں بھرتا ایک طالبعلم اور دوسرا طالب دنیا ۔ ان دونوں میں بڑافرق ہے ۔ علم کا طالب تو اللہ کی رضامندی کے حاصل کرنے میں بڑھتا رہتا ہے اور دنیاکا لالچی سرکشی اور خود پسندی میں بڑھتا رہتا ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں دنیا داروں کا ذکر ہے پھر طالب علموں کی فضیلت کے بیان کی یہ آیت تلاوت کی انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العما ءُ یہ حدیث مرفوعاً یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سے بھی مروی ہے کہ دو لالچی ہیں جو شکم پر نہیں ہوتے طالب علم اور طالب دنیا اس کے بعد کی آیات ابو جہل ملعون کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتا تھا ۔ پس پہلے تو اسے بہترین طریقہ سمجھا گیا کہ جنھیں تو روکتا ہے یہی اگر سیدھی راہ پر ہوں انہی کی باتیں تقوے کی طرف بلاتی ہوں ، پھر تو انہیں پر تشدد کرے اور خانہ اللہ سے روکے تو تیری بد قسمتی کی انتہا ہے یا نہیں ؟ کیا یہ روکنے والا جو نہ صرف خود حق کی راہنمائی سے محروم ہے بلکہ راہ حق سے روکنے کے درپے ہے اتنا بھی نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اس کا کلام سن رہا ہے اور اس کے کلام اور کام پر اسے سزا دے گا ، اس طرح سمجھا چکنے کے بعد اب اللہ ڈرارہا ہے کہ اگر اس نے مخالفت ، سرکشی اور ایذاء دہی نہ چھوڑ دی تو ہم بھی اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے جو اقوال میں جھوٹا اور افعال میں بدکار ہے یہ اپنے مدد گاروں ، ہم نشینوں قرابت داروں اور کنبہ قبیلے والوں کو بلالے ۔ دیکھیں تو کون اس کی مدافعت کر سکتا ہے ۔ ہم بھی اپنے عذاب کے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں پھر ہر ایک کو کھل جائے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا ؟ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابو جہل نے کہا کہ اگر میں محمد کو ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھوں گا تو گردن سے دبوچوں گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ ایسا کرے گا تو اللہ کے فرشتے پکڑ لیں گے دوسری روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ یہ ملعون آیا اور کہنے لگا کہ میں نے تجھے منع کردیا پھر بھی تو باز نہیں آیا اگر اب میں نے تجھے کعبے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو سخت سزا دوں گا وغیرہ ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے جواب دیا اس کی بات کو ٹھکرا دیا اور اچھی طرح ڈانٹ دیا ، اس پر وہ کہنے لگا کہ تو مجھے ڈانٹتا ہے اللہ کی قسم میری ایک آواز پر یہ ساری وادی آدمیوں سے بھر جائے گی اس پر یہ آیت اتری کہ اچھا تو اپنے حامیوں کو بلا ہم بھی اپنے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں اگر وہ اپنے والوں کو پکارتا تو اسی وقت عذاب کے فرشتے اسے لپک لیتے ( ملاحظہ ہو ترمذی وغیرہ ) مسند احمد میں ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو جہل نے کہا اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت اللہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لونگا تو اس کی گردن توڑ دوں گا ۔ آپ نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتا تو اسی وقت لوگوں کے دیکھتے ہوئے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اسی طرح جبکہ یہودیوں سے قرآن نے کہا تھا کہ اگر تم سچے ہو تو موت مانگو اگر وہ اسے قبول کر لیتے اور موت طلب کرتے تو سارے کے سارے مر جاتے اور جہنم میں اپنی جگہ دیکھ لیتے اور جن نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی اگر یہ مباہلہ کے لیے نکلتے تو لوٹ کر نہ اپنا مال پاتے نہ اپنے بال بچوں کو پاتے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ابو جہل نے کہا اگر میں آپ کو مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھتا ہوا دیکھ لوں گا تو جان سے مار ڈالوں گا اس پر یہ سورت اتری ۔ حضور علیہ السلام تشریف لے گئے ابو جہل موجود تھا اور آپ نے وہیں نماز ادا کی تو لوگوں نے اس بدبخت سے کہا کہ کیوں بیٹھا رہا ؟ اس نے کہا کیا بتاؤں کون میرے اور ان کے درمیان حائل ہوگئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اگر ذرا بھی ہلتا جلتا تو لوگوں کے دیکھتے ہوئے فرشتے اسے ہلاک کر ڈالتے ابن جریر کی اور روایت میں ہے کہ ابو جہل نے پوچھا کہ کیا محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمھارے سامنے سجدہ کرتے ہیں؟ لوگوں نے کہا ہاں تو کہنے لگا کہ اللہ کی قسم اگر میرے سامنے اس نے یہ کیا تو اس کی گردن روند دوں گا اور اس کے منہ کو مٹی میں ملادوں گا ادھر اس نے یہ کہا ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بارک علیہ نے نماز شروع کی جب آپ سجدے میں گئے تو یہ آگے بڑھا لیکن ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو بچاتا ہوا پچھلے پیروں نہایت بد حواسی سے پیچھے ہٹا ۔ لوگوں نے کہا کیا ہوا ہے ؟ کہنے لگا کہ میرے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان آگ کی خندق ہے اور گھبراہٹ کی خوفناک چیزیں ہیں اور فرشتوں کے پر ہیں وغیرہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ ذرا قریب آجاتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو الگ الگ کر دیتے پس یہ آیتیں کلا ان الا نسان لیطغٰی سے آخر تک سورت تک نازل ہوئیں ۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ کلام حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ہے یا نہیں؟ یہ حدیث مسند مسلم ، نسائی ابن ابی حاتم میں بھی ہے پھر فرمایا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم اس مردود کی بات نہ ماننا ، عبادت پر مداومت کرنا اور بکثرت عبادت کرتے رہنا اور جہاں جی چاہے نماز پڑھتے رہنا اور اس کی مطلق پرواہ نہ کرنا ۔ اللہ تعالیٰ خود تیرا حافظ وناصر ہے ۔ وہ تجھے دشمنوں سے محفوظ رکھے گا ، تو سجدے میں اور قرب اللہ کی طلب میں مشغول رہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے بہت ہی قریب ہوتا ہے پس تم بکثرت سجدوں میں دعائیں کرتے رہو پہلے یہ حدیث بھی گذر چکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورہ اذالسماء نشقت میں اور اس سورت میں سجدہ کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سورہ اقراء کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ کا شکر و احسان ہے ۔
(١) کلا ان الانسان لیطغی …:” کلا “ کا معنی ” ہرگز نہیں “ ،” خبر ’ ار “ اور ” حق یہ ہے “ میں سے موقع کی مناسبت سے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔” الرجعی “” رجع یرجع “ ) (ض) سے ” بشری “ کے وزن پر مصدر ہے۔- (٢) یہ آیات پہلی پانچ آیات کے بعد وقفہ سے نازل ہوئیں، جب ابوجہل نے آپ کو نماز پڑھنے سے روکا۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل آیا اور کہنے لگا :” کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا ؟ “ یہ بات اس نے تین بار کہی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو اسے ڈانٹا، اس پر ابوجہل کہنے لگا :” تم جانتے ہو اس شہر میں مجلس کے ساتھ مجھ سے زیادہ کسی کے نہیں۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں :(فلیدع نادیہ، سندع الربانیۃ) (العلق : ١٨، ١٨) ’ پس وہ اپنی مجلس کو بلا لے۔ ہم عنقریب جہنم کے فرشوتں کو بلا لیں گے۔ “ (ترمذی : تفسیر القرآن، باب ومن سورة اقرا باسم ربک : ٣٣٣٩) ترمذی اور البانی (رح) نے اسے صحیح کا ہے۔- (٣) سورت کی ابتدائی پانچ آیات کے ساتھ ان آیات کی مناسبت یہ ہے کہ انسان اتنی نعمتیں جو اوپر ذکر ہوئیں، ملنے کے باوجود احسان ماننے اور شکر کرنے کے بجائے سرکشی اختیار کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اسے ضرورت کی ہر چیز دے کر دوسروں سے غنی کردیتا ہے تو وہ بندگی کی حد سے نکل کر مقابلے پر آجاتا ہے۔ فرمایا، بندے جتنی چاہے سرکشی کرلے، یقیناً تجھے اپنے رب کے پاس واپس آنا ہے۔
کلا ان الانسان لیطغی، ان راہ استغنی، اس آیت کا روئے سخن اگرچہ ایک خاص شخص یعنی ابوجہل کی طرف ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کی تھی مگر عنوان عام رکھا ہے جس میں عام انسانوں کی ایک کمزوری بیان کی گئی وہ یہ ہے کہ انسان جب تک دوسروں کا محتاج رہتا ہے تو سیدھا چلتا ہے اور جب اس کو یہ گمان ہوجائے کہ میں کسی کا محتاج نہیں سب سے بےنیاز ہوں تو اس کے نفس میں طغیان یعنی سرکشی وغیرہ اور دوسروں پر ظلم وجور کے رجحانات پیدا ہوجاتے ہیں، جیسا کہ عموماً مالداروں اور اقتدار حکومت والوں اور اولاد و احباب یا خدام کی کثرت رکھنے الوں میں اس کا بکثرت مشاہدہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمول اور جماعت جتھے کی طاقت میں مست ہو کر کسی کو نظر میں نہیں لاتے، چونکہ ابوجہل کا بھی یہی حال تھا کہ مکہ مکرمہ کے خوشحال لوگوں میں سے تھا اور اس کے قبیلے بلکہ پورے شہر کے لوگ اس کی تعظیم و تکریم کرتے اور بات مانتے تھے وہ بھی اسی پندار میں مبتلا ہوا یہاں تک کہ سید الانبیاء اور اشرف الخلائق کی شان میں گستاخی کر بیٹھا۔ اگلی آیت میں ایسے سرکشوں کے برے انجام پر تنبیہ ہے۔
كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى ٦ ۙ- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔
(6 ۔ 7) کافر کھانے، پینے، لباس اور سواری میں حد آدمیت سے نکل جاتا ہے اسوجہ سے کہ وہ اپنے آپ کو مال کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے مستغنی سمجھتا ہے آخر میں سب کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف جانا ہوگا۔- شان نزول : كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى الخ - ابن منذر نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ابوجہل کہنے لگا کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے درمیان نماز پڑھتے ہیں جواب میں کہا گیا ہاں تو وہ بدبخت کہنے لگا لات و عزی کی قسم اگر میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو نعوذ باللہ ان کی گردن پر پیر رکھ دوں گا ان کے چہرہ انور کو مٹی میں رگڑ دوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى الخ
آیت ٦ کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓی ۔ ” کوئی نہیں انسان سرکشی پر آمادہ ہو ہی جاتا ہے۔ “- انسان سرکشی اور ظلم و زیادتی پر کیوں اتر آتا ہے ؟ اس کی وجہ اگلی آیت میں بتائی گئی :
سورة العلق حاشیہ نمبر : 7 یعنی ایسا ہرگز نہ ہونا چاہیے کہ جس خدائے کریم نے انسان پر اتنا بڑا کرم فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں وہ جہالت برت کر وہ رویہ اختیار کرے جو آگے بیان ہورہا ہے ۔
3: یہاں سے سورت کے آخر تک جو آیتیں ہیں، وہ غارِ حرا کے مذکورہ بالا واقعے کے کافی بعد نازل ہوئی تھیں۔ اور اُن کا واقعہ یہ ہے کہ ابوجہل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا سخت دُشمن تھا، ایک دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حرم میں نماز پڑھ رہے تھے، اُس نے آپ کو نماز پڑھنے سے منع کیا، اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ نے نماز پڑھی تو میں (معاذاللہ) آپ کی گردن کو پاوں سے کچل دُوں گا، اِس موقع پر یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔