غیر متعلقہ روایات اور بحث: مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے اسی کا نام لیلۃ المبارکہ بھی ہے اور جگہ ارشاد ہے انا انزلنٰہ فی لیلۃ مبارکتہ اور یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ یہ رات رمضان المبارک کے مہینے میں ہے جیسے فرمایا شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ابن عباس وغیرہ کا قول ہے کہ پورا قرآن پاک لوح محفوظ سے آسمان اول پر بیت العزت میں اس رات اترا پھر تفصیل وار واقعات کے مطابق بتدریج تئیس سال میں رسول اللہ صلی اللہ پر نازل ہوا ۔ پھر اللہ تعالیٰ لیلۃ القدر کی شان و شوکت کا اظہار فرماتا ہے کہ اس رات کی ایک زبردست برکت تو یہ ہے کہ قرآن کریم جیسی اعلیٰ نعمت اسی رات اتری ، تو فرماتا ہے کہ تمہیں کیا خبر لیلۃ القدر کیا ہے؟ پھر خود ہی بتاتا ہے کہ یہ ایک رات ایک ہزار مہینہ سے افضل ہے امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ترمذی شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت لائے ہیں کہ یوسف بن سعد نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے جبکہ آپ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کر لی کہا کہ تم نے ایمان والوں کے منہ کالے کر دئیے یا یوں کہا کہ اے مومنو کے منہ سیاہ کرنے والے تو آپ نے فرمایا اللہ تجھ پر رحم کرے مجھ پر خفا نہ ہو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھلایا گیا کہ گویا آپ کے منبر پر بنو امیہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ برا معلوم ہوا تو انااعطیناک الکوثر نازل ہوئی یعنی جنت کی نہر کوثر آپ کو عطا کیے جانے کی خوش خبری ملی اور اناانزلناہ اتری پس ہزار مہینے سے وہ مراد ہیں جن میں آپ کے بعد بنو امیہ کی مملکت رہے گی ، قاسم کہتے ہیں ہم نے حساب لگایا تو وہ پورے ایک ہزار دن ہوئے نہ ایک دن زیادہ نہ ایک دن کم امام ترمذی اس روایت کو غریب بتلاتے ہیں اور اس کی سند میں یوسف بن سعد ہیں جو مجہول ہیں اور صرف اسی ایک سند سے یہ مروی ہے مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت ہے امام ترمذی کا یہ فرمانا کہ یہ یوسف مجہول ہیں اس میں ذرا تذبذب ہے اس کے بہت سے شاگرد ہیں ، یحییٰ بن معین کہتے ہیں یہ مشہور ہیں اور ثقہ ہیں ، اور اس کی سند میں کچھ اضطراب ہے جیسا بھی ہے واللہ اعلم بہر صورت یہ بہت ہی منکر روایت ہے ہمارے شیخ حافظ حجت ابو الحجاج مزی بھی اس روایت کو منکر بتلاتے ہیں ( یہ یاد رہے کہ قاسم کا قول جو ترمذی کے حوالے سے بیان ہوا ہے ) کہ وہ کہتے ہیں ہم نے حساب لگایا تو بنو امیہ کی سلطنت ٹھیک ایک ہزار دن تک رہی یہ نسخے کی غلطی ہے ایک ہزار مہینے لکھنا چاہیے تھا میں نے ترمذی شریف میں دیکھا تو وہاں بھی ایک ہزارمہینے ہیں اور آگے بھی یہی آتا ہے ۔ مترجم قاسم بن فضل حدانی کا یہ قول کہ بنو امیہ کی سلطنت کی ٹھیک مدت ایک ہزار مہینے تھی یہ بھی صحیح نہیں اس لیے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مستقل سلطنت سنہ ٤٠ ہجری میں قائم ہوئی جبکہ حضرت امام حسن نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور امر خلافت آپ کو سونپ دیا اور سب لوگ بھی حضرت معاویہ کی بیعت پر جمع ہوگئے اور اس سال کا نام ہی عام الجماعہ مشہور ہوا پھر شام وغیرہ میں برابر بنو امیہ کی سلطنت قائم رہی ہاں تقریباً نو سال تک حرمین شریفین اور اہواز اور بعض شہروں پر حضرت عبداللہ بن زبیر کی سلطنت ہو گئی تھی لیکن تاہم اس مدت میں بھی کلیۃ ان کے ہاتھ سے حکومت نہیں گئی البتہ بعض شہروں پر سے حکومت ہٹ گئی تھی ، ہاں سنہ ١٣٢ھ میں بنو العباس نے ان سے خلافت اپنے قبضہ میں کر لی پس ان کی سلطنت کی مدت بانوے برس ہوئی اور یہ ایک ہزار ماہ سے بہت زیادہ ہے ایک ہزارمہینے کے تراسی سال چار ماہ ہوتے ہیں ہاں قاسم بن فضل کا یہ حساب اس طرح تو تقریبا ٹھیک ہو جاتا ہے کہ حضرت ابن زبیر کی مدت خلافت اس گنتی میں سے نکال دی جائے واللہ اعلم ۔ اس وایت کے ضعیف ہونے کی ایک یہ وجہ بھی ہے کہ بنو امیہ کی سلطنت کے زمانہ کی تو برائی اور مذمت بیان کرنی مقصود ہے اور الیلۃ القدر کی اس زمانہ پر فضیلت کا ثابت ہونا کچھ ان کے زمانہ کی مذمت کی دلیل نہیں لیلۃ القدر تو ہر طرح بندگی والی ہے ہی اور یہ پوری سورت اس مبارک رات کی مد و ستائش بیان کر رہی ہے پس بنو امیہ کے زمانہ کے دنوں کی مذمت سے لیلۃ القدر کی کونسی فضیلت ثابت وہ جائیگی یہ تو بالکل وہی مثل اصل ہو جائیگی کہ کوئی شخص تلوار کی تعریف کرتے ہوئے کہے کہ لکڑی سے بہت تیز ہے کسی بہترین فضیلت والیش خص کو کسی کم درجہ کے ذلیل شخص پر فضیلت دینا تو اس شریف بزرگ کی توہین کرنا ہے اور وجہ سنئے اس روایت کی بنا پر یہ ایک ہزارمہینے وہ ہوئے جن میں بنو امیہ کی سلطنت رہیگی اور یہ سورت اتری ہے مکہ شریف میں تو اس میں ان مہینوں کا حوالہ کیسے دیا جا سکتا ہے جو بنو امیہ کے زمانہ کے ہیں اس پر نہ تو کوئی لفظ دلالت کرتا ہے نہ معنی کے طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے منبر تو مدینہ میں قائم ہوتا ہے اور ہجرت کی ایک مدت بعد منبر بنایا جاتا ہے اور رکھا جاتا ہے پس ان تمام وجوہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف اور منکر ہے ، واللہ اعلم ۔ ماہ رمضان اور لیلۃ القدر کی فضیلت: ابن ابی حاتم میں ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کی راہ میں یعنی جہاد میں ہتھیار بند رہا مسلمانوں کو یہ سن کر تعجب معلوم ہوا تو اللہ عزوجل نے یہ سورت اتاری کہ ایک لیلۃ القدر کی عبادت اس شخص کی ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے ابن جریر میں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو رات کو قیام کرتا تھا صبح تک اور دن میں دشمنان دین سے جہاد کرتا تھا شام تک ایک ہزار مہینے تک یہی کرتا رہا پس اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمایا کہ اس امت کے کسی شخص کا صرف لیلۃ القدر کا قیام اس عابد کی ایک ہزارمہینے کی اس عبادت سے افضل ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار عابدوں کا ذکر کیا جنہوں نے اسی سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کے نافرمانی نہیں کی تھی حضرت ایوب ، حضرت زکریا ، حضرت حزقیل بن عجوز ، حضرت یوشع بن نون علیہم السلام ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت تعجب ہوا آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی امت نے اس جماعت کی اس عبادت پر تعجب کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی افضل چیز آپ پر نازل فرمائی اور فرمایا کہ یہ افضل ہے اس سے جن پر آپ اور آپ کی امت نے تعجب ظاہر کیا تھا پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ بیحد خوش ہوئے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اس رات کا نیک عمل اس کا روزہ اس کی نماز ایک ہزارمہینوں کے روزے اور نماز سے افضل ہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو اور مفسرین کا بھی یہ قول ہے امام ابن جریر نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے کہ وہ ایک ہزار مہینے جن میں لیلۃ الدقر نہ ہو یہی ٹھیک ہے اس کے سوا اور کوئی قول ٹھیک نہیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رات کی جہاد کی تیاری اس کے سوال کی ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ( مسند احمد ) اسی طرح اور حدیث میں ہے کہ جو شخص اچھی نیت اور اچھی حالت سے جمعہ کی نماز کے لیے جائے اس کے لیے ایک سال کے اعمال کا ثواب لکھا جاتا ہے سال بھر کے روزوں کا اور سال بھر کی نمازوں کا اسی طرح کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں پس مطلب یہ ہے کہ مراد ایک ہزار مہینے سے وہ مہینے ہیں جن میں لیلۃ القدر نہ آئے جیسے ایک ہزار راتوں سے مراد وہ راتیں ہیں جن میں کوئی رات اس عبادت کی نہ ہو اور جیسے جمعہ کی طرف جانے والے کو ایک سال کی نیکیاں یعنی وہ سال جس میں جمعہ نہ ہو مسند احمد میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگو تم پر رمضان کا مہینہ آ گیا یہ بابرکت مہینہ آ گیا اس کے روزے اللہ نے تم پر فرض کیے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں شیاطین قید کر لیے جاتے ہیں اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینے سے افضل ہے اس کی بھلائی سے محروم رہنے والا حقیقی بد قسمت ہے نسائی شریف میں بھی یہ روایت ہے چونکہ اس رات کی عبادت ایک ہزارمہینے کی عبادت سے افضل ہے اس لیے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص لیلۃ القدر کا قیام ایمانداری اور نیک نیتی سے کرے اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں پھر فرماتا ہے کہ اس رات کی برکت کی زیادتی کی وجہ سے بکثرت فرشتے اس میں نازل ہوتے ہیں فرشتے تو ہر برکت اور رحمت کے ساتھ نازل ہوتے رہتے ہیں جیسے تلاوت قرآن کے وقت اترتے ہیں اور ذکر کی مجلسوں کو گھیر لیتے ہیں اور علم دین کے سیکھنے والوں کے لیے راضی خوشی اپنے پر بچھا دیا کرتے ہیں اور اس کی عزت و تکریم کرتے ہیں روح سے مراد یہاں حضرت حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ، یہ خاص کا عطف ہے عام پر بعض کہتے ہیں روح کے نام کے ایک خاص قسم کے فرشتے ہیں جیسے کہ سورہ عم یتسآء لون کی تفسیر میں تفصیل سے گذر چکا ، واللہ اعلم پھر فرمایا وہ سراسر سلامتی والی رات ہے جس میں شیطان نہ تو برائی کی سکتا ہے نہ ایذاء پہنچا سکتا ہے حضرت قتادہ وغیر فرماتے ہیں اس میں تمام کاموں کا فیصلہ کیا جاتا ہے عمر اور رزق مقدر کیا جاتا ہے جیسے اور جگہ ہے فیھا یفرق کل امر حکیمُ یعنی اسی رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اس رات میں فرشتے مسجد والوں پر صح تک سلام بھیجتے رہتے ہیں امام بیہقی نے اپنی کتاب فضائل اوقات میں حضرت علی کا ایک غریب اثر فرشتوں کے نازل ہونے میں اور نمازیوں پر ان کے گذرنے میں اور انہیں برکت حاصل ہونے میں وارد کیا ہے ابن ابی حاتم میں حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک عجیب و غریب بہت طول طویل اثر وارد کیا ہے جس میں فرشتوں کا سدرۃ المنتہی سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ زمین پر آنا اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے دعائیں کرنا وارد ہے ، ابو داؤد طیالسی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لیلۃ القدر ستائیسویں ہے یا انتیسویں اس رات میں فرشتے زمین پر سنگریزوں کی گنتی سے بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ عبدالرحمن بن ابو یعلی فرماتے ہیں اس رات میں ہر امر سے سلامتی ہے یعنی کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوتی حضرت قتادہ اور حضرت ابن زید کا قول ہے کہ یہ رات سراسر سلامتی والی ہے کوئی برائی صبح ہونے تک نہیں ہوتی مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لیلۃ القدر آخری دس راتوں میں ہے جوان میں طلب ثواب کی نیت سے قیام کرے اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرماد یتا ہے یہ رات اکائی کی ہے یعنی اکیسویں یا تیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا آخری رات آپ فرماتے ہیں یہ رات بالکل صاف اور ایسی رونی ہوتی ہے کہ گویا چاند چڑھا ہوا ہے اس میں سکون اور دلجمعی ہوتی ہے نہ سردی زیادہ ہوتی ہے نہ گرمی صبح تک ستارے نہیں جھڑتے ایک نشانی اس کی یہ بھی ہے کہ اس صبح کو سورج تیز شعاؤں کے ساتھ نہیں نکلتا بلکہ وہ چودہویں رات کی طرح صاف نکلتا ہے ۔ اس دن اس کے ساتھ شیطان بھی نہیں نکلتا یہ اسناد تو صحیح ہے لیکن متن میں غرابت ہے اور بعض الفاظ میں نکارت بھی ہے اور ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لیلۃ القدر صاف پر سکون سردی گرمی سے خالی رات ہے اسکی صبح مدھم روشنی والا سرخ رنگ نکلتا ہے ، حضرت ابو عاصم نبیل اپنی اسناد سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایکمرتبہ فرمایا میں لیلۃ القدر دکھلایا گیا پھر بھلا دیا گیا یہ آخری دس راتوں میں ہے یہ صاف شفاف سکون و وقار والی رات ہے نہ زیادہ سردی ہوتی ہے نہ زیادہ گرمی اس قدر روشنی رات ہوتی ہے کہ یہ معلوم ہوتا ہے گویا چاند چڑھا ہوا ہے سورج کے ساتھ شیطان نہیں نکلتا یہاں تک کہ دھوپ چڑھ جائے ۔ فصل ٭٭ اس باب میں علماء کا اختلاف ہے کہ لیلۃ القدر اگلی امتوں میں بھی تھی یا صرف اسی امت کو خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہے پس ایک حدیث میں تو یہ آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب نظریں ڈالیں اور یہ معلوم کیا کہ سابقہ لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی تھیں تو آپ کو خیال گذرا کہ میری امت کی عمریں ان کے مقابلہ میں کم ہیں تو نیکیاں بھی کم رہیں گیں اور پھر درجات اور ثواب میں بھی کمی رہیں گی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ رات عنایت فرمائی اور اس کا ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ دینے کا وعدہ فرمایا اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف اسی امت کو یہ رات دی گئی ہے بلکہ صاحب عدۃ نے جو شافعیہ میں سے ایک امام ہیں جمہورعلماء کا یہی قول نقل کیا ہے واللہ اعلم ۔ اور خطابی نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے لیکن ایک اور حدیث ہے جس سے یہ معلوم ہوتا کہ یہ رات جس طرح اس امت میں ہے ، اگلی امتوں میں بھی تھی ، چنانچہ حضرت مرثد فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے لیلۃ القدر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا سوال کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا سنو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اکثر باتیں دریافت کرتا رہتا تھا ایک مرتبہ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو فرمائیے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہی ہے یا اور مہینوں میں ؟ آپ نے فرمایا رمضان میں ۔ میں نے کہا اچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ انبیاء کے ساتھ ہی ہے کہ جب تک وہ ہیں یہ بھی ہے جب انبیاء قبض کئے جاتے ہیں تو یہ اٹھ جاتی ہیں یا یہ قیامت تک باقی رہیں گی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں وہ قیامت تک باقی رہے گی ، میں نے کہا اچھا رمضان کے کس حصہ میں ہے ؟ آپ نے فرمایا اسے رمضان کے پہلے اور آخری عشرہ میں ڈھونڈ ۔ پھر میں خاموش ہو گیا ، آپ بھی اور باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ میں نے پھر موقع پاکر سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں عشروں میں سے کس عشرے میں اس رات کو تلاش کروں؟ آپ نے فرمایا آخری عشرے میں ، بس کچھ نہ پوچھنا میں پھر چپکا ہو گیا لیکن پھر موقعہ پاکر میں نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قسم ہے میرا بھی کچھ حق آپ پر ہے فرما دیجئے کہ وہ کونسی رات ہے ؟ آپ سخت غصے ہوئے میں نے تو کبھی آپ کو اپنے اوپر اتنا غصہ ہوئے ہوئے دیکھا ہی نہیں اور فرمایا آخری ہفتہ میں تلاش کرو ، اب کچھ نہ پوچھا ۔ یہ روایت نسائی میں بھی مروی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات اگلی امتوں میں بھی تھی ، اور اس حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی قیامت تک ہرسال آتی رہے گی ۔ بعض شیعہ کا قول ہے کہ یہ رات بالکل اٹھ گئی ، یہ قول غلط ہے ان کو غلط فہمی اس حدیث سے ہوئی ہے جس میں ہے کہ وہ اٹھالی گئی اور ممکن ہے کہ تمھارے لیے اسی میں بہتری ہو یہ حدیث پوری بھی آئے گی ۔ مطلب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے یہ ہے کہ اس رات کی تعین اور اس کا تقرر بھی ساتھ گیا نہ یہ کہ سرے سے لیلۃ القدر ہی اٹھ گئی مندرجہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ رات رمضان شریف میں آتی ہے کسی اور مہینہ میں نہیں ، حضرت ابن مسعود اور علماء کوفہ کا قول ہے کہ سارے سال میں ایک رات ہے اور ہر مہینہ میں اس کا ہو جانا ممکن ہے ۔ یہ حدیث اس کے خلاف ہے سنن ابو داؤد میں باب ہے کہ اس شخص کی دلیل جو کہتا ہے لیلۃ القدر سارے رمضان میں ہے ۔ پھر حدیث لائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لیلۃ القدر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ سارے رمضان میں ہے ، اس کی سند کے کل راوی ثقہ ہیں یہ موقوف بھی مروی ہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت میں ہے کہ رمضان المبارک کے سارے مہینہ میں اس رات کا ہونا ممکن ہے غزالی نے اسی کو نقل کیا ہے لیکن رافعی اسے بالکل غریب بتلاتے ہیں ۔ فصل ٭٭ ابو زرین تو فرماتے ہیں کہ رمضان کی پہلی رات ہی لیلۃ القدر ہے امام محمد بن ادریس شافعی کا رفان ہے کہ یہ سترھویں شب ہے ابو داؤد میں اس مضمون کی ایک حیدث مرفوع مروی ہے اور حضرت ابن مسعود حضرت زید بن ارقم اور حضرت عثمان بن العاص سے موقوف بھی مروی ہے حضرت حسن بصری کا مذہب بھی یہی نقل کیا گیا ہے اس کی ایک دلیل یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ رمضان المبارک کی یہی سترھویں رات شب جمعہ تھی اور یہی رات بدر کی رات تھی اور سترھویں تاریخ کو جنگ بدر واقع ہوئی تھی جس دن کو قرآن نے یوم الفرقان کہا ہے حضرت علی اور حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ انیسویں رات لیلۃ القدر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اکیسویں رات ہے حضرت ابو سعید خذری کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان شریف کے دس پہلے دن کا اعتکاف کیا ہم بھی آپ کے ساتھ ہی اعتکاف بیٹھے پھر آپ کے پاس حضرت جبرائیل آئے اور فرمایا کہ جسے آپ ڈھونڈتے ہیں وہ تو آپ کے آگے ہے پھر آپ نے دس سے بیس تک کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی ۔ پھر حضرت جبرائیل آئے اور یہی فرمایا کہ جسے آپ ڈھونڈتے ہیں وہ تو ابھی بھی آگے ہیں یعنی لیلۃ القدر ۔ پس رمضان کی بیسویں تاریخ کی صبح کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ فرمایا اور فرمایا کہ میرے ساتھ اعتکاف کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ پھر اعتکاف میں بیٹھ جائیں میں نے لیلۃ القدر دیکھ لی لیکن میں بھول گیا لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے میں نے دیکھا ہے کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں راوی حدیث فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کی چھت صرف کھجور کے پتوں کی تھی آسمان پر اس وقت ابر کا ایک چھوٹا ساٹکڑا بھی نہ تھا پھر ابر اٹھا اور بارش ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب سچا ہوا اور میں نے خود دیکھا کہ نماز کے بعد آپ کی پیشانی پر ترمٹی لگی ہوئی تھی اسی روایت کے ایک طریق میں ہے کہ یہ اکیسویں رات کا واقعہ ہے یہ حدیث صحیح بخاری صحیح بخاری صحیح مسلم دونوں میں ہے امام شافعی فرماتے ہیں تمام روایتوں میں سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان شریف کی تئیسویں رات ہے اور اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن انیس کی صحیح مسلم والی ایسی ہی ایک روایت ہے واللہ اعلم ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ چوبیسویں رات ہے ابو داؤد طیالسی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لیلۃ القدر چوبیسویں شب ہے اس کی سند بھی صحیح ہے مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ ہیں جو ضعیف ہیں بخاری میں حضرت بلال سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موذن ہیں مروی ہے کہ یہ پہلی ساتویں ہے آخری دس میں سے یہ موقوف روایت ہی صحیح ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابن مسعود ابن عباس جابر حسن قتادہ عبداللہ بن وہب بھی فرماتے ہیں کہ چوبیسویں رات لیلۃ القدر ہے سورہ بقرہ کی تفسیر میں حضرت واثلہ بن اسقع کی روایت کی ہوئی مرفوع حدیث بیان ہو چکی ہے کہ قرآن کریم رمضان شریف کی چوبیسویں رات کو اترا ، بعض کہتے ہیں پچیسویں رات لیلۃ القدر ہے ان کی دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈو ۔ نوباقی رہیں تب ، سات باقی رہیں تب ، پانچ باقی رہیں تب ۔ اکثر محدثین نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے مراد طاق راتیں ہیں یہی زیادہ ظاہر ہے اور زیادہ مشہور ہے گو بعض اوروں نے اسے جفت راتوں پر بھی محمول کیا ہے جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ حضرت ابو سعید نے اسے جفت پر محمول کیا ہے واللہ اعلم ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ستائیسویں رات ہے اس کی دلیل صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یہ ستائیسویں رات ہے مسند احمد میں ہے حضرت زر نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو فرماتے ہیں جو شخص سال بھر راتوں کو قیام کرے گا وہ لیلۃ القدر کو پائے گا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے وہ جانتے ہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی ہے یہ ستائیسویں رات رمضان کی ہے پھر اس بات پر حضرت ابی نے قسم کھائی میں نے پوچھا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ جواب دیا کہ ان نشانیوں کو دیکھنے سے جو ہم بتائے گئے ہیں کہ اس دن سورج شعاعوں بغیر نکلتا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی ہے آپ نے اس پر انشاء اللہ بھی نہیں فرمایا اور پختہ قسم کھالی پھر فرمایا مجھے خوب معلوم ہے کہ وہ کونسی رات ہے جس میں قیام کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے یہ ستائیسویں رات ہے اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کی صبح کو سورج سفید رنگ نکلتا ہے اور تیزی زیادہ نہیں ہوتی حضرت معاویہ ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس وغیرہ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ رات ستائیسویں رات ہے ، سلف کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مختار مسلک بھی یہی ہے اور امام ابو حنیفہ سے ایک روایت اسی قول کی منقول ہے بعض سلف نے قرآن کریم کے الفاظ سے بھی اس کے ثبوت کا حوالہ دیا ہے اس طرح کہ ھی اس سورت میں ستائیسواں کلمہ ہے اور اس کے معنی ہیں یہ فاللہ اعلم ، طبرانی میں ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمع کیا اور ان سے لیلۃ القدر کی بابت سوال کیا تو سب کا اجماع اس امر پر ہوا کہ یہ رمضان کے آخری عشرہ میں ہے ابن عباس نے اس وقت فرمایا کہ میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ کونسی رات ہے حضرت عمر نے فرمایا پھر کہو وہ کونسی رات ہے؟ فرمایا اس آخری عشرے میں سات گزرنے پر یا سات باقی رہنے پر حضرت عمر نے پوچھا یہ کیسے معلوم ہوا تو جواب دیا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے آسمان بھی سات پیدا کیے اور زمین بھی سات بنائیں مہینہ بھی ہفتوں پر ہے انسان کی پیدائش بھی سات پر ہے کھانا بھی سات ہے سجدہ بھی سات پر ہے طواف بیت اللہ کی تعداد بھی سات کی ہے رمی جمار کی کنکریاں بھی سات ہیں اور اسی طرح کی سات کی گنتی کی بہت سی چیزیں اور گنوادیں ۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا تمہاری سمجھ وہاں پہنچی جہاں تک ہمارے خیالات کو رسائی نہ ہو سکی یہ جو فرمایا سات ہی کھانا ہے اس سے قرآن کریم کی آیتیں ( فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا 27ۙ ) 80-عبس:27 ) ، مراد ہیں جن میں سات چیزوں کا ذکر ہے جو کھائی جاتی ہیں اس کی اسناد بھی جید اور قوی ہے کہ انتیسویں رات ہے ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اسے آخری عشرے میں ڈھونڈو طاق راتوں میں ، اکیس ، تیئس ، پچیس ستائیس اور انتیس یا آخری رات ۔ مسند میں ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے ، یا انتیسویں ۔ اس رات فرشتے زمین پر سنگریزوں کی گنتی سے بھی زیادہ ہوتے ہویں اس کی اسناد بھی اچھی ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ آخری رات لیلۃ القدر ہے کیونکہ ابھی جو حدیث گزری اس میں ہے اور ترمذی اور نسائی میں بھی ہے کہ جب نو باقی رہ جائیں یا سات یا پانچ یا تین یا آخری رات یعنی ان راتوں میں لیلۃ القدر کی تلاش کرو ، امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں مسند میں ہے یہ آخری رات ہے ۔ فصل ٭٭ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ان مختلف احادیث میں تطبیق یوں ہو سکتی ہے کہ یہ سوالوں کا جواب ہے کسی نے کہا حضرت ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں تو آپ نے فرما دیا ہاں حقیقت یہ ہے کہ لیلۃ القدر مقرر ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہوتی امام ترمذی نے امام شافعی کا اسی معنی کا قول نقل کیا ہے ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ آخری عشرے کی راتوں میں یہ پھیر بدل ہوا کرتی ہے امام مالک امام ثوری امام احمد بن خنبل ، امام اسحاق بن راہویہ ، ابو ثور مزنی ، ابو بکر بن خزیمہ وغیرہ نے بھی یہی فرمایا ہے امام شافعی سے بھی قاضی نے یہی نقل کیا ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے واللہ اعلم ۔ اس قول کی تھوڑی بہت تائید بخاری و مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ چند اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں لیلۃ القدر رمضان کی سات پچھلی راتوں میں دکھائے گئے آپ نے فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب اس بارے میں موافق ہیں ہر طلب کرنے والے کو چاہیے کہ لیلۃ القدر کو ان سات آخری راتوں میں تلاش کرے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ رضول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر کی جستجو کرو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان پر کہ لیلۃ القدر ہر رمضان میں ایک معین رات ہے اور اس کا ہیر پھیر نہیں ہوتا یہ حدیث دلیل بن سکتی ہے جو صحیح بخاری میں حضرت عبادہ صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے ( کہ فلاں رات لیلۃ القدر ہے ) نکلے ۔ دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ تمہیں لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے آیا تھا لیکن فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے وہ اٹھالی گئی اور ممکن ہے کہ اسی میں تمہاری بہتری ہو اب اسے نویں ساتویں اور پانچویں میں ڈھونڈو وجہ دلالت یہ ہے کہ اگر اس کا تعین ہمیشہ کے لیے نہ ہوتا تو ہر سال کی لیلۃ القدر کا علم حاصل نہ ہوتا اگر لیلۃ القدر کا تغیر و تبدل ہوتا رہتا تو صرف اس سال کے لیے تو معلوم ہو جاتا کہ فلاں رات ہے لیکن اور برسوں کے لیے تعین نہ ہوتی ہاں یہ ایک جواب اس کا ہو سکتا ہے کہ آپ صرف اسی سال کی اس مبارک رات کی خبر دینے کے لیے تشریف لائے تھے اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑائی جھگڑا خیرو برکت اور نفع دینے والے علم کو غارت کر دیتا ہے ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے گناہ کے باعث اللہ کی روزی سے محروم رکھ دیا جاتا ہے یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو آپ نے فرمایا کہ وہ اٹھالی گئی اس سے مراد اس کے تعین کے علم کا اٹھا لیا جانا ہے نہ یہ کہ بالکل لیلۃ القدر ہی دنیا سے اٹھالی گئی جیسے کہ جاہل شیعہ کا قول ہے اس پر بڑی دلیل یہ ہے کہ اس لفظ کے بعد ہی یہ ہے کہ آپ نے فرمایا اسے نویں ، ساتویں اور پانچویں میں ڈھونڈو ۔ آپ کا یہ فرمان کہ ممکن ہے اسی میں تمہاری بہتری ہو یعنی اس کی مقررہ تعین کا علم نہ ہونے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ مبہم ہے تو اس کا ڈھونڈنے والا جن جن راتوں میں اس کا ہونا ممکن دیکھے گا ان تمام راتوں میں کوشش و خلوص کے ساتھ عبادت میں لگا رہیگا بخلاف اس کے کہ معلوم ہو جائے کہ فلاں رات ہی ہے تو وہ صرف اسی ایک رات کی عبادت کریگا کیونکہ ہمتیں پست ہیں اس لیے حکمت حکیم کا تقاضا یہی ہوا کہ اس رات کے تعین کی خبر نہ دی جائے تاکہ اس رات کے پا لینے کے شوق میں اس مبارک مہینہ میں جی لگا کر اور دل کھول کر بندے اپنے معبود برحق کی بندگی کریں اور آخری عشرے میں تو پوری کوشش اور خلوص کے ساتھ عبادتوں میں مشغول رہیں اسی لیے خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے انتقال تک رمضان شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت میں ہے کہ آپ رمضان شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری دس راتیں رمضان شریف کی رہ جاتیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری رات جاگتے اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور کمر کس لیتے ( بخاری و مسلم ) مسلم شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں میں جس محنت کے ساتھ عبادت کرتے اتنی محنت سے عبادت آپ کی اور دنوں میں نہیں ہوتی تھی یہی معنی ہیں اوپر والی حدیث کے اس جملہ کے کہ آپ تہمد مضبوط باندھ لیا کرتے یعنی کمر کس لیا کرتے یعنی عبادت میں پوری کوشش کترے گو اس کے یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ آپ بیویوں سے نہ ملتے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی باتیں مراد ہوں یعنی بیویوں سے ملنا بھی ترک کر دیتے تھے اور عبادت کی مشغولی میں بھی کمر باندھ لیا کرتے تھے چنانچہ مسند احمد کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ باقی رہ جاتا تو آپ تہمد مضبوط باندھ لیتے اور عورتوں سے الگ رہتے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں لیلۃ القدر کی یکساں جستجو کرے کسی ایک رات کو دوسری رات پر ترجیح نہ دے ( شرح رافعی ) یہ بھی یاد رہے کہ یوں تو ہر وقت دعا کی کثرت مستجب ہے لیکن رمضان میں اور زیادتی کرے اور خصوصاً آخری عشرے میں اور بالخصوص طاق راتوں میں اس دعا کو بہ کثرت پڑھے ۔ اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ، اللہ تو درگزر کرنے والا اور درگذر کو پسند فرمانے والا ہے مجھ سے بھی درگذر فرما ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر مجھے لیلۃ لاقدر مل جائے تو میں کیا دعا پڑھوں؟ آپ نے یہی دعا بتائی یہ حدیث ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں مستدرک حاکم میں بھی یہ مروی ہے اور امام حاکم اسے شرط بخاری و مسلم پر صحیح بتاتے ہیں ایک عجیب و غریب اثر جس کا تعلق لیلۃ القدر سے ہے امام ابو محمد بن ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اس سورت کی تفسیر میں حضرت کعب سے اس روایت کے ساتھ وارد کیا ہے کہ سدرۃ المنتہی جو ساتویں آسمان کی حد پر جنت سے متصل ہے جو دنیا اور آخرت کے فاصلہ پر ہے اس کی بلندی جنت میں ہے اس کی شاخیں اور ڈالیں کرسی تلے ہیں اس میں اس قدر فرشتے ہیں جن کی گنتی اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اس کی ہر ایک شاخ پر بیشمار فرشتے ہیں ایک بال برابر بھی جگہ ایسی نہیں جو فرشتوں سے خالی ہو اس درخت کے بیچوں بیچ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا مقام ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرائیل کو آواز دی جاتی ہے کہ اے جبرائیل لیلۃ القدر میں اس درخت کے تمام فرشتوں کو لے کر زمین پر جاؤ یہ کل کے کل فرشتے رافت ورحمت والے ہیں جن کے دلوں میں ہر ہر مومن کے لیے رحم کے جذبات موجزن ہیں سورج غروب ہوتے ہی یہ کل کے کل فرشتے حضرت جبرائیل کے ساتھ لیلۃ القدر میں اترتے ہیں تمام روئے زمین پر پھیل جاتے ہیں ہر ہر جگہ پر سجدے میں قیام میں مشغول ہو جاتے ہیں اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں ہاں گرجا گھر میں مندر میں آتش کدے میں بت خانے میں غرض اللہ کے سوا اوروں کی جہاں پرستش ہوتی ہے وہاں تو یہ فرشتے نہیں جاتے اور ان جگہوں میں بھی جن میں تم گندی چیزیں ڈالتے ہو اور اس گھر میں بھی جہاں نشے والا شخص ہو یا نشہ والی چیز ہو یا جس گھر میں کوئی بت گڑا ہوا ہو یا جس گھر میں باجے گاجے گھنٹیاں ہوں یا مجسمہ ہو یا کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ ہو وہاں تو یہ رحمت کے فرشتے جاتے نہیں باقی چپے چپے پر گھوم جاتے ہیں اور ساری رات مومن مردوں عورتوں کے لیے دعائیں مانگنے میں گذارتے ہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام تمام مومنوں سے مصافحہ کرتے ہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ روئیں جسم پر کھڑے ہو جائیں دل نرم پڑ جائے آنکھیں بہہ نکلیں اس وقت آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت میرا ہاتھ حضرت جبرائیل علیہ اللام کے ہاتھ میں ہے حضرت کعب فرماتے ہیں جو شخص اس رات میں تین مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھے اس کی پہلی مرتبہ کے پڑھنے پر گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے دوسری مرتبہ کے کہنے پر آگ سے نجات مل جاتی ہے تیسری مرتبہ کے کہنے پر جنت میں داخل ہو جاتا ہے راوی نے پوچھا کہ اے ابو اسحاق جو اس کلمہ کو سچائی سے کہے اس کے ؟ فرمایا یہ تو نکلے گاہی اس کے منہ سے جو سچائی سے اس کا کہنے والا ہو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ لیلۃ القدر کافرو منافق پر تو اتنی بھاری پڑتی ہے کہ گویا اس کی پیٹھ پر پہاڑ آپڑا ۔ غرض فجر ہونے تک فرشتے اسی طرح رہتے ہیں پھر سب سے پہلے حضرت جبرائیل چڑھتے ہیں اور بہت اونچے چڑھ کر اپنے پروں کو پھیلا دیتے ہیں بالخصوص ان دو سبز پروں کو جنہیں اس رات کے سوا وہ کبھی نہیں پھیلاتے یہی وجہ ہے کہ سورج کی تیزی ماند پڑجاتی ہے اور شعائیں جاتی رہتی ہیں پھر ایک ایک فرشتے کو پکارتے ہیں اور سب کے سب اوپر چڑھتے ہیں پس فرشتوں کا نور اور جبرائیل علیہ السلام کے پروں کا نور مل کر سورج کو ماند کر دیتا ہے اس دن سورج متحیر رہ جاتا ہے حضرت جبرائیل اور یہ سارے کے سارے بیشمار فرشتے اس دن آسمان و زمین کے درمیان مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے رحمت کی دعائیں مانگتے ہیں اور ان کے گناہوں کی بخشش طلب کرنے میں گذار دیتے ہیں نیک نیتی کے ساتھ روزے رکھنے والوں کے لیے اور ان لوگوں کے لیے بھی جن کا یہ خیال رہا کہ اگلے سال بھی اگر اللہ نے زندگی رکھی تو رمضان کے روزے عمدگی کے ساتھ پورے کریں گے یہی دعائیں مانگتے رہتے ہیں شام کو دنیا کے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں وہاں کے تمام فرشتے حلقے باندھ باندھ کر ان کے پاس جمع ہو جاتے ہیں اور ایک ایک مرد اور ایک ایک عورت کے بارے میں ان سے سوال کرتے ہیں اور یہ جواب دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص کو امسال تم نے کس حالت میں پایا تو یہ کہتے ہیں کہ گذشتہ سال تو ہم نے اسے عبادتوں میں پایا تھا لیکن اس سال تو وہ بدعتوں میں مبتلا تھا اور فلاں شخص گذشتہ سال بدعتوں میں مبتلا تھا لیکن اس سال ہم نے اسے سنت کے مطابق عبادتوں میں پایا پس یہ فرشتے اس سے پہلے شخص کے لیے بخشش کی دعائیں مانگنی موقوف کر دیتے ہیں اور اس دوسرے شخص کے لیے شروع کر دیتے ہیں اور یہ فرشتے انہیں سناتے ہیں کہ فلاں فلاں کو ہم نے ذکر اللہ میں پایا اور فلاں کو رکوع میں اور فلاں کو سجدے میں اور فلاں کو کتاب اللہ کی تلاوت میں غرض ایک رات دن یہاں گذار کر دوسرے آسمان پر جاتے ہیں یہاں بھی یہی ہوتا ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی میں اپنی اپنی جگہ پہنچ جاتے ہیں اس وقت سدرۃ المنتہی ان سے پوچھتا ہے کہ مجھ میں بسنے والو میرا بھی تم پر حق ہے میں بھی ان سے محبت رکھتا ہوں جو اللہ سے محبت رکھیں ذرا مجھے بھی تو لوگوں کی حالت کی خبر دو اور ان کے نام بتاؤ حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اب فرشتے اس کے سامنے گنتی کر کے اور ایک ایک مردو عورت کا مع ولدیت کے نام بتاتے ہیں پھر جنت سدرۃ المنتہی کی طرف متوجہ ہو کر پوچھتی ہے کہ تجھ میں رہنے والے فرشتوں نے جو خبریں تجھے دی ہیں مجھ سے بھی تو بیان کر چنانچہ سدرہ اس سے ذکر کرتا ہے یہ سن کر وہ کہتی ہے اللہ کی رحمت ہو فلاں مرد اور فلاں عورت پر اللہ انہیں جلدی مجھ سے ملا جبرائیل علیہ السلام سب سے پہلے اپنی جگہ پہنچ جاتے ہیں انہیں الہام ہوتا ہے اور یہ عرص کرتے ہیں پروردگار میں نے تیرے فلاں فلاں بندوں کو سجدے میں پایا تو انہیں بخش اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے انہیں بخشا حضرت جبرائیل علیہ السلام اسے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کو سناتے ہیں پھر سب کہتے ہیں فلاں فلاں مرد و عورت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوئی اور مغفرت ہوئی پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام خبر دیتے ہیں کہ باری تعالیٰ فلاں شخص کو گذشتہ سال تو عامل سنت اور عابد چھوڑا تھا لیکن امسال تو بدعتوں میں پڑ گیا اور تیرے احکام سے روگردانی کر لی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے جبرائیل اگر یہ مرنے سے تین ساعت پہلے بھی توبہ کر لے گا تو میں اسے بخش دوں گا اس وقت حضرت جبرائیل بےساختہ کہہ اٹھتے ہیں اللہ تیرے ہی لیے سب تعریفیں سزا وار ہیں الٰہی تو اپنی مخلوق پر سب سے زیادہ مہربان ہے بندوں پر تیری مہربانی خود ان کی مہربانی سے بھی بڑھی ہوئی ہے اس وقت عرش اور اس کے آس پاس کی چیزیں پردے اور تمام آسمان جنبش میں آ جاتے ہویں اور کہہ اٹھتے ہیں الحمد اللّٰہ الرحیم ۔ الحمد اللّٰہ الرحیم ، حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو شخص رمضان شریف کے روزے پورے کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ رمضان کے بعد بھی میں گناہو سے بچتا رہوں گا وہ بغیر سوال جواب کے اور بغیر حسات کتاب کے جنت میں داخل ہو گا ، سورہ لیلۃ القدر کی تفسیر الحمد اللہ ختم ہوئی ۔
1۔ 1 یعنی اتار نے کا آغاز کیا، یا لوح محفوظ سے بیت العزت میں، جو آسمان دنیا پر ہے، ایک ہی مرتبہ اتار دیا، اور وہاں سے حسب واقعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترتا رہا تاآنکہ 23 سال میں پورا ہوگیا۔ اور لیلۃ القدر رمضان میں ہی ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن کی آیت (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ) 2 ۔ البقرۃ :185) سے واضح ہے۔
[١] لیلۃ القدر اور شب قدر یا لیلہ مبارکہ ایک ہی رات کے نام ہیں :۔ اس سورت میں قرآن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اور سورة الدخان کی آیت نمبر ٣ میں فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ مبارکہ میں نازل کیا جس سے معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکہ ایک ہی رات کی دو صفات یا دو نام ہیں۔ یہ الگ الگ راتیں نہیں ہیں اور لیلۃ القدر ہی کا ترجمہ فارسی میں شب قدر یا شب برات ہے۔ گویا شب قدر یا شب برات، لیلۃ القدر سے علیحدہ کوئی رات نہیں۔ جیسا کہ ہمارے یہاں ١٥ شعبان کو شب برات سمجھی بلکہ آتش بازی سے منائی جاتی ہے اور اس نظریہ کا ماخذ چند انتہائی ضعیف روایات ہیں۔ پھر قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات رمضان میں ہے۔ جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا ( شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ١٨٥۔ ) 2 ۔ البقرة :185) اور معتبر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات رمضان کے آخری عشرہ میں آتی ہے اور بعض روایات کے مطابق وہ ستائیسویں شب رمضان ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے :- خ لیلۃ القدر کونسی رات ہے ؟:۔ ١۔ عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے حجرہ سے نکلے۔ آپ لوگوں کو لیلۃ القدر بتانا چاہتے تھے۔ اتنے میں دو مسلمان لڑ پڑے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اس لیے نکلا تھا کہ تمہیں لیلۃ القدر بتاؤں مگر فلاں فلاں لڑ پڑے تو وہ بات (میرے دل سے) اٹھا لی گئی۔ اور اسی میں شاید تمہاری بہتری تھی۔ اب تم اسے (آخری عشرہ) کی ساتویں، نانویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب خوف المومن ان یحبط عملہ) - ٢۔ زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب سے کہا کہ : تمہارے بھائی عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جو شخص سال بھر قیام کرے وہ اس رات کو پالے گا ابی بن کعب کہنے لگے : اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن ( عبداللہ بن مسعود (رض) کی کنیت) کو بخشے وہ خوب جانتے ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے۔ اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ مگر وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اسی پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں پھر ابی نے بغیر استثناء کے قسم کھائی کہ وہ ستائیسویں رات ہے میں نے پوچھا : ابوالمنذر (ابی بن کعب کی کنیت) تم کیسے یہ بات کہتے ہو انہوں نے کہا : اس نشانی کی بنا پر جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بتائی اور وہ علامت یہ ہے کہ اس کی صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) - یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن تو بتدریج تیئس سال کے عرصہ میں نازل ہوا تھا۔ مگر یہاں سارا قرآن ایک ہی رات میں نازل ہونے کا ذکر ہے تو اس کا جواب مفسرین دو طرح سے دیتے ہیں ایک یہ کہ اس رات کو سارا قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کردیا گیا تھا۔ وہاں سے حسب موقع و ضرورت بتدریج تئیس سال میں نازل کیا جاتا رہا اور دوسرا یہ کہ سارا قرآن اس رات کو حاملان وحی فرشتوں کے حوالے کردیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بتدریج نازل کیا جاتا رہا۔
١(١) انا انزلنہ فی لیلۃ القدر :” ہم نے اسے قدر کی رات میں نازل کیا “ یعنی قرآن مجید کو ۔ جب کوئی چیز اتنی مشہور ہو کہ خود بخود ذہن میں آاجتی ہو تو اس کی عظمت واضح کرنے کے لئے نام لینے کے بجائے اس کی ضمیر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔- (٢) ” القدر “ کا معنی قدیرہے، یعنی قدیر کی رات۔ اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے :(فیھا یفرق کل امر حکیم) (الدخان : ٣)” اس رات میں ہر ممکن کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ “ یعنی سال بھر میں جو کام ہونا ہوتا ہے اس رات میں لوح محفوظ سے نقلک ر کے ان فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جو اسے سر انجام دیتے ہیں۔” القدر “ کا دورسا معنی عظمت ہے، یعنی عظمت والی رات۔ اس کے بعد اس کی عظمت پر دلالت کرنے والی چیزیں ب یان کی ہیں، یعنی اس کا ہزار مہینے سے بہتر ہونا، اس میں ملائکہ اور جبریل (علیہ السلام) کا اترنا اور اس کا سرا سر سلامتیو الی ہونا۔ لیلتہ القدر کے مفہوم میں یہ عنی بھی شامل ہے۔- (٣) لیلتہ القدر میں قرآن مجید اتارنے کا مطلب عبداللہ بن عباس (رض) عنہمانے یہ بیان فرمایا ہے کہ لیلتہ القدر میں پورا قرآن ایک ہی دفعہ آسمان دنیا پر نازل کیا گیا، پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا کر کے کئی سالوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے سورة بنی اسرائیل کی آیت (١٠٦) (وقرانا فرقنہ لتقراہ علی الناس علی مکث)ؐی تفسیر کی تحقیق میں ابن عباس (رض) عنہماکے اس قول کے متعلق فرمایا ہے کہ اسے طبری، نسائی (سنن کبریٰ ، تفسیر سورة فرقان) حاکم (مستدرک خ ٢ ٣٦٨) اور بیہقی (دلائل النبوۃ : ٧ ١٣١) نیر وایت کیا ہے اور سب نے اسے دداؤد بن ابی ھند عن عکرمۃ عن ابن عباس “ کی سند سے بیان کیا ہے۔ حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری (٩ ) میں ان کی موافقت کی ہے۔- دوسرا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید کے نزول کی ابتدا لیلتہ القدر میں ہوئی۔ یہ معنی شعبی (رح) نے کیا ہے۔ (طبری اور زمین پر قرآن مجید کے لیلتہ القدر میں اترنے کا معنی اس کے سوا ہو بھی نہیں سکتا۔- (٤) اس رات کے رمضان میں ہونے کی تصریح خود قرآن میں ہے، فرمایا (شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن) (البقرۃ : ١٨٥) ” رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ “ اور صحیح احادیث میں ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے کی کوئی ایک طاق رات (٢١، ٢٣، ٢٥، ٢٧، ٢٩) ہے۔ متعین نہ کرنے میں یہ حکمت ہے کہ مسلمان ان راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرلیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورے آخری عشرے ہی میں شب بیداری، اعتکاف اور گھر والوں کو جگانے کا اہتمام کرتے تھے۔ (دیکھیے بخاری، فضل لیلۃ القدر، باب العمل فی العشر الاواخر من رضمان : ٢٠٢٣)
خلاصہ تفسیر - بیشک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے (تحقیق شب قدر میں نازل ہونے کی سورة دخان میں گزری ہے) اور زیادت تشویف کے لئے فرماتے ہیں کہ۔ ) آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے (آگے جواب ہے کہ) شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے (یعنی ہزار مہینہ تک عبادت کرنے کا جس قدر ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر میں عبادت کرنے کا ثواب ہے، کذا فی الخازن اور وہ رات ایسی ہے کہ) اس رات میں فرشتے اور روح القدس (یعنی جبرائیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر (زمین کی طرف) اترتے ہیں (اور وہ شب) سراپا سلام ہے (جیسا حدیث بیہقی میں حضرت انس سے مرفوعاً مروی ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) فرشتوں کے ایک گروہ میں آتے ہیں اور جس شخص کو قیام و قعود و ذکر میں مشغول دیکھتے ہیں تو اس پر صلوة بھجیتے ہیں یعنی اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں اور خازن نے ابن الجوزی سے اس روایت میں یسلمون بھی بڑھایا ہے یعنی سلامتی کی دعا کرتے ہی اور یصلون کا خلاصہ بھی یہی ہے کیونکہ رحمت و سلامتی میں تلازم ہے اسی کو قرآن میں سلام فرمایا ہے اور امر خیر سے مراد یہی ہے اور نیز روایات میں اس میں توبہ کا قبول ہونا ابواب سماء کا مفتوح ہونا اور ہر مومن پر ملائکہ کا سلام کرنا آیا ہے۔ کذا فی الدرالمنشور اور ان امور کا بواسطہ ملائکہ کے ہونا اور موجب سلامت ہونا ظاہر ہے یا امر سے مراد وہ امور ہوں جن کا عنوان سورة دخان میں امر حکیم اور اس شب میں ان کا طے ہونا ذکر فرمایا ہے اور) وہ شب قدر (اسی صفت و برکت کے ساتھ) طلوع فجر تک رہتی ہے (یہ نہیں کہ اس شب کے کسی حصہ خاص میں یہ برکت ہو اور کسی میں نہ ہو) - معارف و مسائل - شان نزول :۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد سے مرسلاً روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا حال ذکر کیا جو ایک ہزار مہینے تک مسلسل مشغول جہاد رہا، کبھی ہتھیار نہیں اتارے۔ مسلمانوں کو یہ سن کر تعجب ہوا، اس پر سورة قدر نازل ہوئی جس میں اس امت کے لئے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی عمر بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا ہے اور ابن جریر نے بروایت مجاہد ایک دوسرا واقعہ یہ ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد کا یہ حال تھا کہ ساری رات عبادت میں مشغول رہتا اور صبح ہوتے ہی جہاد کے لئے نکل کھڑا ہوتا دن بھر جہاد میں مشغول رہتا، ایک ہزار مہینے اس نے اسی مسلسل عبادت میں گزار دیئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورة قدر نازل فرما کر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت فرما دی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے۔ (مظہری) - ابن کثیر نے یہی قول امام مالک کا نقل کیا ہے اور بعض ائمہ شافعیہ نے اس کو جمہور کا قول کلھا ہے۔ خطابی نے اس پر اجتماع کا دعویٰ کیا ہے مگر بعض محدثین نے اس میں اختلاف کیا ہے۔ (ماخوذ ازا بن کثیر) - لیلتہ القدر کے معنے :۔ قدر کے ایک معنی عظمت و شرف کے ہیں۔ زہری وغیرہ حضرات علماء نے اس جگہ یہی معنی لئے ہیں اور اس رات کو لیلتہ القدر کہنے کی وجہ سے اس رات کی عظمت و شرف ہے۔ اور ابوبکر وراق نے فرمایا کہ اس رات کو لیلتہ القدر اسوجہ سے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بےعملی کے سبب کوئی قدر و قیمت نہ تھی اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادت کے ذریعہ وہ صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے۔- قدر کے دوسرے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہیں، اس معنے کے اعتبار سے لیلتہ القدر کہنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لئے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال میں رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنیوالا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنقید امور کے لئے مامور ہیں، اس میں ہر انسان کی عمر اور موت اور رزق اور بارش وغیرہ کی مقداریں مقررہ فرشتوں کو لکھوا دی جاتی ہیں یہاں تک کہ جس شخص کو اس سال میں حج نصیب ہوگا وہ بھی لکھدیا جاتا ہے اور یہ فرشتے جن کو یہ امور سپرد کئے جاتے ہیں۔ بقول ابن عباس چار ہیں۔ اسرافیل، میکائیل، عزرائیل، جبرئیل (علیہم السلام) (قرطبی) - سورة دخان کی آیت انا انزلنہ فی لیلة مبرکة انا کنا منذرین، فیھا یفرق کل امر حکیم، امراً من عندنا میں یہ مضمون خود صراحت کے ساتھ آ گیا ہے کہ اس لیلتہ مبارکہ میں تمام امور تقدیر کے فیصلے لکھے جاتے ہیں اور اس آیت کی تفسیر میں گزر گیا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک لیلتہ مبارکہ سے مراد بھی لیلتہ القدر ہی ہے اور بعض حضرات نے جو لیلہ مبارکہ سے نصف شعبان کی رات یعنی لیلتہ البرائت مراد لی ہے تو وہ اس کی تطبیق اس طرح کرتے ہیں کہا بتدائی فیصلے امور تقدیر کے اجمالی طور پر شب براءت میں ہوجاتے ہیں پھر ان کی تفصیلات لیلتہ القدر میں لکھی جاتی ہیں اس کی تائید حضرت ابن عباس کے ایک قول سے ہوتی ہے جس کو بغوری نے بروایت ابوالضحی نقل کیا ہے اس میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سال بھر کے تقدیری امور کا فیصلہ تو شب برائت یعنی نصف شعبان کی رات میں کرلیتے ہیں پھر شب قدر میں یہ فصلے متعلقہ فرشتوں کے سپرد کردیئے جاتے ہیں (مظہری) اور یہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ امور تقدیر کے فیصلے اس رات میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سال میں جو امور تقدیر نافذ ہونا ہیں وہ لوح محفوظ سے نقل کر کے فرشتوں کے حوالے کردیئے جاتے ہیں اور اصل نوشتہ تقدیر پر ازل میں لکھا جا چکا ہے۔- لیلة القدر کی تعیین :۔ اتنی بات تو قرآن کریم کی تصریحات سے ثابت ہے کہ شب قدر ماہ رمضان المبارک میں آتی ہے مگر تاریخ کے تعین میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جو چالیس تک پہنچتے ہیں مگر تفسیر مظہری میں ہے کہ ان سب اقوال میں تاریخ کے تعین میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جو چالیس تک پہنچتے ہیں مگر تفسیر مظہری میں ہے کہ ان سب اقوال میں صحیح یہ ہے کہ لیلتہ القدر رمضان مبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے مگر آخری عشرہ کی کوئی خاص تاریخ متعین نہیں بلکہ ان میں سے کسی بھی رات میں ہو سکتی ہے وہ ہر رمضان میں بدلتی بھی رہتی ہے اور ان دس میں سے خاص طاق راتیں یعنی 29 27 25 23 21 میں ازروئے احادیث صحیحہ زیادہ احتمال ہے۔ اس قول میں تمام احادیث جو تعیین شب قدر کے متعلق آئی ہیں جمع ہوجاتی ہیں جن میں 29 27 25 23 21 راتوں میں شب قدر ہونے کا ذکر آیا ہے۔ اگر شب قدر کو ان راتوں میں دائر اور ہر رمضان میں منتقل ہونے والا قرار دیا جائے تو یہ سب روایات حدیث اپنی اپنی جگہ درست اور ثابت ہوجاتی ہیں کسی میں تاویل کی ضرورت نہیں رہتی، اسی لئے اکثر ائمہ فقہاء نے اس کو عشرہ اخیرہ میں منتقل ہونے والی رات قرار دیا ہغے۔ ابوقلابہ، امام مالک، احمد بن حنبل، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ ابوثور، مزنی، ابن خزیمہ وغیرہ سب نے یہی فرمایا ہے اور ایک روایت میں امام شافعی سے بھی اس کے مواقف منقول ہے اور دوسری روایت امام شافعی کی یہ ہے کہ یہ رات منتقل ہونے والی نہیں بلکہ معین ہے۔ (ابن کثیر) - صحیح بخاری میں حضرت صدیقہ عائشہ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تحروالیلة القدر فی العشر الاواخر من رمضان، یعنی شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فاطلبوھا فی الوتر منھا، یعنی شب قدر کو رمضان کے عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں طلب کرو۔ (مظہرٍی) - لیلتہ القدر کے بعض فضائل اور اس رات کی مخصوص دعا :۔ اس رات کی سب سے بڑی فضیلت تو وہی ہے جو اس سورت میں بیان ہئیو ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں یعنی تراسی 83 سال سے زائد کی عبادت سے بھی بہتر ہے پھر بہتر ہونے کی کوئی حد مقرر نہیں، کتنی بہتر ہے کہ دوگنی چوگنی دس گنی سوگنی وغیرہ سبھی احتمالات ہیں۔- او صیحیین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شب قدر میں عبادت کے لئے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شب قدر میں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرة المنتہیٰ پر ہے جبرئیل امین کیساتھ دنیا میں اترتے ہیں اور کوئی مومن مرد یا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں بجز اس آدمی کے جو شراب پیتا یا خنزیر کا گوشت کھاتا ہو۔ - اور ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص شب قدر کی خیر و برکت سے محروم رہا وہ بالکل ہی محروم بدنصیب ہے۔ شب قدر میں بعض حضرات کو خاص انوار کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے مگر نہ یہ سب کو اصل ہوتا ہے نہ رات کی برکات اور ثواب حاصل ہونے میں ایسے مشاہدات کا کچھ دخل ہے اس لئے اس کی فکر میں نہ پڑنا چاہئے۔- حضرت صدیقہ عائشہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اگر میں شب قدر کو پاؤں تو کیا دعاء کروں آپ نے فرمایا کہ یہ دعا کرو اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی یا اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور معافی کو پسند کرتے ہیں۔ میری خطائیں معاف فرمایئے۔ (قرطبی) - انا انزلنہ فی لیلة القدر اس آیت میں تصریح ہے کہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا، اس کا یہ مفوم بھی ہوسکتا ہے۔ پورا قرآن لوح محفوظ سے اس رات میں اتارا گیا پھر جبرئیل امین اس کو تدریجاً تئیس سال کے عرصہ میں حسب ہدایت تھوڑا تھوڑا لاتے رہے اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہا بتدائے نزول قرآن اس رات میں چند آیتوں سے ہوگیا باقی بعد میں نازل ہوتا رہا۔- تمام آسمانی کتابیں رمضان ہی میں نازل ہوئی ہیں :۔ حضرت ابوذر غفاری نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صحف ابراہیم (علیہ السلام) تیسری تاریخ رضمان میں اور تو رات چھٹی تاریخ میں اور انجیل تیرہویں تاریخ میں اور زبور اٹھارویں تاریخ رمضان میں نازل ہوئی ہیں اور قرآن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چوبیس تاریخ رمضان میں اترا ہے۔ (مظہری)
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ ١ - إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - قَدْرُ والتَّقْدِيرُ- والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال :- قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ.- يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه،- فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين :- أحدهما : بإعطاء القدرة .- والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان :- ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات .- فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين :- أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] .- والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله :- فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال،- القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔
شب قدر - قول باری ہے (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے) تا قول باری (لیلۃ القدر خیر من الف شھر قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے) ایک قول کے مطابق شب قدر اس ہزار مہینے سے بہتر ہے جس میں شب قدر واقع نہ ہوئی ہو۔ وہ اس لئے کہ شب قدر میں اس قدر خیر اور بھلائی تقسیم ہوتی ہے کہ ایک ہزار مہینوں میں اتنی بھلائی تقسیم نہیں ہوتی۔ اس بنا پر شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔- اوقات واماکن کی ایک دوسرے پر فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ فضیلت والے اوقات اور مقامات میں بہت زیادہ خیروبرکت ہوتی ہے اور ان کا نفع بھی بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ قدر کی رات کب ہوتی ہے اس کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف روایات مروی ہیں۔- صحابہ کے مابین بھی اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ یہ رمضان کی تیسیویں رات ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی روایت کی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) نے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (التمسوھا فی العشر الاواخروا طلبوھا فی کل وتر۔ اسے رمضان کے آخری عشر میں تلاش کرو، اسے طاق راتوں میں تلاش کرو) ۔- حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لیلۃ تسع عشرۃ من رمضان ولیلہ احدی وعشرین ولیلۃ ثلاث وعشرین۔ رمضان کی انیسویں رات، اکیسویں رات اور تیئسویں رات) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (تحروالیلۃ القدرو فی السبع الاواخر۔ شب قدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کرو)- ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا کہ ” ستائیسویں کی رات میں تلاش کرو۔ “- ہمیں محمد بن بکرالبصری نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں حمید بن زنجویہ النسائی نے ، انہیں سعید ابی مریم نے، انہیں محمد بن جعفر بن ابی کثیر نے، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے ابواسحق سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شب قدر کے متعلق دریافت کیا گیا۔ حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ اس وقت میں یہ گفتگو سن رہا تھا۔ آپ نے فرمایا (ھی فی کل رمضان یہ ہر رمضان میں آتی ہے)- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں سلیمان بن حرب اور مسدد نے ، انہیں حماد بن زیدنے عاصم سے۔ انہوں نے زر سے زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے شب قدر کے متعلق دریافت کیا گیا تھا، انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ جو شخص پورا سال قیام اللیل کرے گا وہ شب قدر کو پالے گا۔ “ یہ سن کر حضرت ابی بن کعب نے کہا ۔” اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن (حضرت ابن مسعود (رض) ) پر رحم کرے بخدا انہیں یہ بات معلوم تھی کہ شب قدر رمضان میں آتی ہے لیکن انہوں نے یہ پسند نہ کیا کہ لوگ اسی پر تکیہ کرلیں ، خدا کی قسم یہ رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان تمام روایات کا درست ہونا جائز ہے۔ اس صورت میں شب قدر کسی سال کسی رات میں آتی ہے اور کسی سال کسی اور رات میں کسی سال وہ رمضان کے آخری عشرے میں، کسی سال درمیانی عشرے میں اور کسی سال پہلے عشرے میں آتی ہے اور کسی سال غیر رمضان میں آتی ہے۔- حضرت ابن مسعود (رض) نے توقیف یعنی شرعی دلیل کی رہنمائی میں یہ بات نہیں کی تھی کہ جو شخص پورا سال قیام اللیل کرے گا وہ اسے پالے گا۔ کیونکہ اس بات کا علم صرف اللہ کی طرف سے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجی ہوئی وحی کے ذریعے ہوسکتا ہے۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ شب قدر سال کے کسی مہینے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ پورے سال کے دوران ہوتی ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے ” تمہیں شب قدر میں طلاق ہے۔ “ تو جب تک پورا سال گزر نہیں جائے گا طلاق واقع نہیں ہوگی۔ کیونکہ شک کی بنا پر طلاق واقع کرنا جائز نہیں ہوتا۔- دوسری طرف یہ بات ثابت نہیں کہ شب قدر کسی وقت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس لئے طلاق واقع ہونے کا یقین سال گزرنے پر ہی حاصل ہوگا۔
(1 ۔ 2) ہم نے بذریعہ جبریل پورے قرآن حکیم کو ایک مرتبہ فرشتوں کے دستہ کے ساتھ آسمان دنیا پر حکم و قضاء والی رات میں یا یہ کہ رحمت و برکت اور مغفرت والی رات میں اتارا ہے۔ پھر اس کے بعد قرآن حکیم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا۔- شان نزول : اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ الخ - امام ترمذی حاکم اور ابن جریر نے حسن بن علی سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی امیہ کو اپنے منبر پر دیکھا تو آپ کو برا معلوم ہوا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ انا اعطیناک الکوثر اور انا انزلنہ فی لیلۃ القدر وما ادرٰک ما لیلۃ القدر لیلۃ القدر خیر من الف شہر۔ آپ کے بعد اس چیز کے بنو امیہ مالک ہوگئے۔ قاسم حرافی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اس کا شمار کیا تو وہ پورے ہزار مہینے ہیں نہ اس سے کم اور نہ زیادہ۔- امام ترمذی فرماتے ہیں یہ روایت غریب ہے اور مزنی اور ابن کثیر فرماتے ہیں یہ روایت بہت ہی منکر ہے۔- اور ابن ابی حاتم اور واحدی نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے بنی اسرائیل میں سے ایک شکص کا ذکر کیا کہ اس نے اللہ کی راہ میں ایک ہزار سال تک ہتھیار پہنے رکھے مسلمانوں کو اس پر تعجب ہوا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شب قدر میں نازل کیا ہے اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے شب قدر ان ہزار مہینوں سے بہتر ہے جس میں بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے اللہ کی راہ میں ہتھیار پہنے رکھے۔- اور ابن جریر نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو رات کو صبح تک نماز پڑھا کرتا تھا پھر دن کو شام تک دشمن کے ساتھ جہاد کیا کرتا تھا یک ہزار سال تک اس نے یہی عمل کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ شب قدر ان ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے جس میں اس آدمی نے یہ عمل کیا۔
آیت ١ اِنَّــآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ ۔ ” یقینا ہم نے اتارا ہے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں۔ “- ” اَنْزَلْنٰـہُ “ کی ضمیر مفعولی کا مرجع بالاتفاق قرآن مجید ہی ہے۔ نوٹ کیجیے ان سورتوں کے مضامین کے اندر ایک ربط پایا جاتا ہے ‘ یعنی پہلی وحی (سورۃ العلق) کے فوراً بعد بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے اس کلام کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ قدر کا معنی تقدیر اور قسمت بھی ہے اور عزت و منزلت بھی۔ یہاں دونوں معنی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ یعنی ہم نے اس قرآن کو اس رات میں اتارا ہے جو قدر و منزلت کے اعتبار سے بےمثل رات ہے ‘ یا اس رات میں اتارا ہے جو تقدیر ساز ہے۔ سورة الدخان میں اس رات کا ذکر لَیْلَۃ مُبَارَکَۃ کے نام سے آیا ہے : اِنَّــآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ (آیت ٣) ” یقینا ہم نے نازل کیا ہے اس (قرآن) کو ایک مبارک رات میں “۔ یہ کونسی رات ہے ؟ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ) (١) ” لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو “۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ ستائیسویں رمضان کی شب ہی لیلۃ القدر ہے۔ لیکن جیسا کہ سورة الفجر کی آیت ٣ کے ضمن میں بھی وضاحت کی جا چکی ہے ‘ قمری کیلنڈر کی طاق اور جفت راتوں کی گنتی دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً آج ہمارے ہاں جو طاق رات ہے سعودی عرب میں ممکن ہے وہ جفت رات ہو۔ اس لیے لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کا محتاط طریقہ یہی ہے کہ اسے رمضان کے آخری عشرے کی تمام راتوں (جفت اور طاق دونوں) میں تلاش کیا جائے۔ اور اگر واقعی ستائیسویں رمضان کی شب ہیلیلۃ القدر ہے تو اس بارے میں میرا اپنا خیال یہ ہے کہ پھر یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی ستائیسویں شب ہے ۔ واللہ اعلم - اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس رات کو پورا قرآن مجید لوح محفوظ سے حاملین ِوحی فرشتوں کے سپرد کردیا گیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ٢٣ سال کے دوران میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کرتے رہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اس رات سے ہوئی ۔
سورة القدر حاشیہ نمبر : 1 اصل الفاظ ہیں اَنْزَلْنٰهُ ہم نے اس کو نازل کیا ہے لیکن بغیر اس کے کہ پہلے قرآن کا کوئی ذکر ہو ، اشارہ قرآن ہی کی طرف ہے ، اس لیے کہ نازل کرنا خود بخود اس پر دلالت کرتا ہے کہ مراد قرآن ہے ۔ اور قرآن مجید میں اس امر کی بکثرت مثالیں موجود ہیں کہ اگر سیاق کلام یا انداز بیان سے ضمیر کا مرجع خود ظاہر ہورہا ہو تو ضمیر ایسی حالت میں بھی استعمال کر لی جاتی ہے جب کہ اس کے مرجع کا ذکر پہلے یا بعد میں کہیں نہ کیا گیا ہو ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، النجم ، حاشیہ 9 ) یہاں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ، اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ( البقرہ 185 ) اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غار حرا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی ، اس رات کو یہاں شب قدر کہا گیا ہے اور سورہ دخان میں اسی کو مبارک رات فرمایا گیا ہے ۔ اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے ( آیت 3 ) اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس رات پورا قرآن حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کردیا گیا ، اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتا فوقتا 23 سال کے دوران میں جبریل علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرتے رہے ۔ یہ مطلب ابن عباس نے بیان کیا ہے ( ابن جریر ، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، حاکم ، ابن مردویہ ، بیہقی ) دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اس رات سے ہوئی ۔ یہ امام شعبی کا قول ہے ، اگرچہ ان سے بھی دوسرا قول وہی منقول ہے جو ابن عباس کا اوپر گزرا ہے ۔ ( ابن جریر ) بہرحال دونوں صورتوں میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا اور یہی رات تھی جس میں سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل کی گئیں ۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتیں اللہ تعالی اسی وقت تصنیف نہیں فرماتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت اسلامی کو کسی واقعہ یا معاملہ میں ہدایت کی ضرورت پیش آتی تھی ، بلکہ کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے ازل میں اللہ تعالی کے ہاں زمین پر نوع انسانی کی پیدائش ، اس میں انبیاء کی بعثت ، انبیاء پر نازل کی جانے والی کتابوں اور تمام انبیاء کے بعد آخر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمانے اور آپ پر قرآن نازل کرنے کا پورا منصوبہ موجود تھا ۔ شب قدر میں صرف یہ کام ہوا کہ اس منصوبے کے آخرے حصے پر عملدر آمد شروع ہوگیا ۔ اس وقت اگر پورا قرآن حاملین وحی کے حوالہ کردیا گیا ہو تو کوئی قابل تعجب امر نہیں ہے ۔ قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لیے ہیں ۔ یعنی یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالی تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کردیتا ہے ۔ اس کی تائید سورہ دخان کی یہ آیت کرتی ہے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے ( آیت 4 ) بخلاف اس کے امام زہری کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیںِ یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے ، اس معنی کی تائید اسی سورۃ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ شب قدر ہزار مہینوں سے زیاہ بہتر ہے ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کون سی رات تھی ، تو اس میں اتنا اختلاف ہوا ہے کہ قریب قریب 40 مختلف اقوال اس کے بارے میں ملتے ہیں ۔ لیکن علماء امت کی بڑی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک طاق رات شب قدر ہے ، اور ان میں بھی زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ ستائیسویں رات ہے ۔ اس معاملہ میں جو معتبر احادیث منقول ہوئی ہیں انہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں: حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے بارے میں فرمایا وہ ستائیسویں یا انتیسویں رات ہے ( ابوداؤد طیالسی ) ۔ دوسری روایت حضرت ابو ہریرہ سے یہ ہے کہ وہ رمضان کی آخری رات ہے ۔ ( مسند احمد ) حضرت ابی بن کعب سے زر بن حبیش نے شب قدر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا اور استثناء نہ کیا کہ وہ ستائیسویں رات ہے ( احمد ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن حبان ) حضرت ابو ذر سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا حضرت عمر ، حضرت حذیفہ اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے لوگوں کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ رمضان کی ستائیسویں رات ہے ( ابن ابی شیبہ ) حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات ہے ، اکیسویں ، یا تئیسویں ، یا پچیسویں ، یا ستائیسویں ، یا انتیسویں ، یا آخری ( مسند احمد ) حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جب کہ مہینہ ختم ہونے میں 9 دن باقی ہوں ، یا سات دن باقی ، یا پانچ دن باقی ( بخاری ) اکثر اہل علم نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ حضور کی مراد طاق راتوں سے تھی ۔ حضرت ابوبکرہ کی روایت ہے کہ 9 دن باقی ہوں ، یا سات دن ، یا پانچ دن ، یا تین دن ، یا آخری رات ۔ مراد یہ تھی کہ ان تاریخوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو ۔ ( ترمذی ، نسائی ) حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات میں تلاش کرو ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ترمذی ) حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عمر کی یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تازیست رمضان کی آخری دس راتوں میں اعتکاف فرمایا ہے ۔ اس معاملہ میں جو روایات حضرت معاویہ ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس وغیرہ بزرگوں سے مروی ہیں ان کی بنا پر علمائے سلف کی بڑی تعداد ستائیسویں رمضان ہی کو شب قدر سمجھتی ہے ۔ غالبا کسی رات کا تعین اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ شب قدر کی فضیلت سے فیض اٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت مکہ معظمہ میں رات ہوتی ہے اس وقت دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں دن ہوتا ہے ، اس لیے ان علاقوں کے لوگ تو کبھی شب قدر کو پا ہی نہیں سکتے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اس لیے رمضان کی ان تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصہ میں ہو اس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کے لیے شب قدر ہوسکتی ہے ۔
1: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پورا قرآن لوحِ محفوظ سے اس رات میں اتارا گیا، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام اسے تھوڑا تھوڑا کرکے تئیس سال تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل کرتے رہے، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرآنِ کریم کا نزول سب سے پہلے شب قدر میں شروع ہوا۔ شب قدر رمضان کی آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی رات میں ہوتی ہے، یعنی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں، یا انتیسویں رات میں