3۔ 1 یعنی اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اور ہزار مہینے 83 سال چار مہینے بنتے ہیں یہ امت محمدیہ پر اللہ کا کتنا احسان عظیم ہے کہ مختصر عمر میں زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے کیسی سہولت عطا فرما دی۔
[٢] ہزار مہینے سے بہتر ہونے کے مختلف مفہوم :۔ یہاں ہزار مہینوں سے مراد ہزار مہینے کی معینہ مدت نہیں جس کے تراسی سال اور چار مہینے بنتے ہیں۔ اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ جب انہیں بہت زیادہ مقدار یا مدت کا اظہار کرنا مقصود ہوتا تو ہزار یعنی الف کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ وہ حساب نہیں جانتے تھے۔ اور ان کے ہاں گنتی کا سب سے بڑا عدد الف یعنی ہزار ہی تھا۔ بلکہ اس سے مراد ایک طویل زمانہ ہے۔ اس وضاحت کے بعد اس آیت کے دو مطلب بیان کیے جاتے ہیں ایک یہ کہ بنی نوع انسان کی خیر و بھلائی کا کام جتنا اس ایک رات میں ہوا (یعنی قرآن نازل ہوا) اتنا کام کسی طویل دور انسانی میں بھی نہیں ہوا تھا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک طویل مدت کی عبادت سے بہتر ہے اور اس مطلب کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الایمان۔ باب قیام لیلۃ القدر من الایمان) - علاوہ ازیں بعض حضرات ہزار مہینے سے مراد ہزار مہینے (یعنی ٨٣ سال اور ٤ ماہ) ہی لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس ایک رات کی عبادت تراسی سالوں کی عبادت سے بہتر ہے جن میں شب قدر کو شمار نہ کیا جائے۔- خ لیلۃ القدر سے متعلق ایک سوال کا جواب :۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس رات مثلاً مکہ معظمہ میں شب قدر ہوگی تو اس وقت زمین کے آدھے حصے پر تو دن ہوگا اور سورج چمک رہا ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز رات ہے۔ قرآن میں جب کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کا اکٹھا ذکر فرمایا تو رات کا پہلے ذکر فرمایا۔ نیز بعض مقامات پر اللہ نے صرف لیلۃ کا ذکر کرکے اس سے مراد رات اور دن کا عرصہ (یعنی پورے چوبیس گھنٹے) لی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ (تورات دینے کے لئے) کیا تھا۔ تو ان تیس راتوں سے مراد تیس راتیں اور ان کے دن بھی تھے۔ اس لحاظ سے ہر مقام پر رمضان کی وہی مخصوص رات ہی لیلۃ القدر سمجھی جائے گی اور اس رات کا تعین اس خاص مقام پر چاند دیکھنے سے متعلق ہوگا۔
(لیلتۃ القدر خیر من الف شھر : یعنی لیتۃ القدر اپنی برکتوں اور عبادت کے اجر و ثواب کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جن میں یہ رات نہ ہو۔ پھر ہزار ماہ سے یا تو یہ عدد مراد ہے یا عربوں کے عام دستور کے مطابق کثرت مراد ہے جو اس عدد سے بھی زیادہ ہوس کتی ہے۔ یہاں بعض مفسرین نے بنو امیہ کے ایام حکومت (جو ایکہ زار ماہ تھے) کی مذمت میں ایک روایت لکھی ہے ، حالانکہ ترمذی (رح) نے اسے روایت کر کے خود ہی ضعیف قرار دیا ہے۔ (دیکھیے ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة لیلتۃ القدر : ٣٣٥٠) اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ بنو امیہ کا عہد اگرچہ خلفائے راشدین کے عہد کا مقابلہ نہیں کرسکتا، مگر وہ بھی اسلام کے عروج کا عہد ہے جس میں سالام کا پھریرا مشرق سے مغرب تک لہرایا۔ انھی کے عہد تک پورا عالم سالام ایک خلیفہ کے تحت رہا اور سالام غالب، سر بلند اور محفوظ رہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لایزال ھذا الذین عزیاً منیعاً الی اثنی عشر خلیفۃ ، کلھم من قریش) (مسلم، الامارۃ باب الناس تبع لقریش…: ٩ ١٨٢١، عن جابر بن مسرۃ (رض) ” یہ دین بارہ لخفاء تک غالب و محفوظ رہے گا ، جو سب قریش سے ہوں گے۔ “ ابو داؤد میں انھی جابر ابن مسرہ (رض) سے مروی الفاظ ہی ہیں :(لا یزال ھذا الدین قائما حتی یکون علیکم اثنا عشر خلیفۃ ، کلھم تجتمع علیہ الامۃ، کلھم من قریش) (ابو داؤد، کتاب المھدی : ٣٢٨٩، وقال الالبانی صحیح)” یہ دین قائم رہے گا حتی کہ بارہ خلفاء ہوں، جن سب پر امت جمع ہوگی، سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ “ روا فض اور ان سے متاثر لوگ اسلام کے اس سنہر یدور کے متعلق فضول باتیں کرتے رہتے ہیں، حالانکہ اس کے بعد نہ اتم سملمہ کو ایک خلیفہ پر جمع ہونے کی سعادت حاصل ہو کسی اور نہ اسلام اس طرح غالب رہا جس طرح ان کے عہد میں غالب تھا۔
لَيْلَۃُ الْقَدْرِ ٠ۥۙ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ ٣ ۭ ؔ- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- ألف - الأَلِفُ من حروف التهجي، والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] .- والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . والأَلْفُ : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت .- ( ا ل ف ) الالف ۔ حروف تہجی کا پہلا حرف ہے اور الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔ اوالف الطیر مانوس پرندے جو گھروں میں رہتے ہیں ۔- الالف - ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے - شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [ البقرة 185] ، الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] ، إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] ، فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] ، والْمُشَاهَرَةُ : المعاملة بالشّهور کالمسانهة والمیاومة، وأَشْهَرْتُ بالمکان : أقمت به شهرا، وشُهِرَ فلان واشْتُهِرَ يقال في الخیر والشّرّ.- ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں ۔۔۔ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] حج کے مہینے معین ہیں جو معلوم ہیں ۔ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] تو مشرکوا زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ المشاھرۃ کے معنی ہیں مہینوں کے حساب سے معاملہ کرنا ۔ جیسے مسانھۃ ( سال وار معاملہ کرنا ) اور میاومۃ ( دنوں کے حساب سے معاملہ کرنا ) اشھرت بالمکان کسی جگہ مہینہ بھر قیا م کرنا شھر فلان واشتھر کے معنی مشہور ہونے کے ہیں خواہ وہ شہرت نیک ہو یا بد ۔
(3 ۔ 5) اور شب قدر اس قدر فضیلت والی رات ہے کہ اس شب میں عبادت کرنا ہزار مہینوں میں عبادت کرنے سے جس میں شب قدر نہ بہتر ہے اس رات میں فرشتے اور جبریل امین اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں اور امت محمدیہ میں ہر ایک نمازی اور روزہ دار کو سلام کرتے ہیں یا یہ کہ ہر ایک آفت سے اس رات میں سلامتی ہوتی ہے اور اسرات کی فضیتل و برکت فجر تک رہتی ہے۔
آیت ٣ لَـیْلَۃُ الْقَدْرِلا خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ ۔ ” لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ “- یہ بہتری اور افضلیت کس اعتبار سے ہے ؟ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ اس رات کا عمل ِخیر ہزار مہینوں کے عمل ِخیر سے بہتر ہے جس میں لیلۃ القدر نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ) (١) ’ ’ جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ سے اجر کی امید میں کھڑارہا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے گئے “۔ اس رات کی افضلیت کے ضمن میں ایک رائے یہ ہے کہ اس ایک رات میں اتنی خیر تقسیم کی جاتی ہے جتنی ایک ہزار مہینہ میں بھی تقسیم نہیں کی جاتی۔ اس رات کی افضلیت کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ انسان کی اصلاح اور فلاح کے لیے جو کام (نزولِ قرآن) اس ایک رات میں ہوا ‘ خیر اور بھلائی کا اتنا بڑا کام کبھی انسانی تاریخ کے کسی طویل زمانے میں بھی نہ ہوا تھا۔ واضح رہے کہ اہل عرب بڑی کثیر تعداد کا تصور دلانے کے لیے اَلْف (ہزار) کا لفظ بولتے تھے۔
سورة القدر حاشیہ نمبر : 2 مفسرین نے بالعموم اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ اس رات کا عمل خیر ہزار مہینوں کے عمل خیر سے افضل ہے جن میں شب قدر شمار نہ ہو ۔ اس میں شک ہیں کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کے عمل کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کے لیے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے ۔ اور مسند احمد میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے ، جو شخص ان کے ا جر کی طلب میں عبادت کے لیے کھڑا رہا اللہ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے گا ۔ لیکن آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ العمل فی لیلۃ القدر خیر من العمل فی الف شھر ( شب قدر میں عمل کرنا ہزار مہینوں میں عمل کرنے سے بہتر ہے ) بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور ہزار مہینوں سے مراد بھی گنے ہوئے 83 سال چار مہینے نہیں بلکہ اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ بڑی کثیر تعداد کا تصور دلانے کے لیے وہ ہزار کا لفظ بلوتے تھے ۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات میں خیر اور بھلائی کا اتنا بڑا کام ہوا کہ کبھی انسانی تاریخ کے کسی طویل زمانے میں بھی ایسا کام نہ ہوا تھا ۔
2: یعنی اس ایک رات میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینوں میں عبادت کرنے سے بھی زیادہ ہے۔