Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 روح سے مراد حضرت جبرائیل ہیں یعنی فرشتے حضرت جبرائیل سمیت، اس رات میں زمین پر اترتے ہیں ان کاموں کو سر انجام دینے کے لیے جن کا فیصلہ اس سال میں اللہ فرماتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] روح سے مراد جبریل امین ہیں جن کی قدر و منزلت کی وجہ سے ان کا علیحدہ ذکر کیا گیا اور اتنی کثیر تعداد میں فرشتے نازل ہوتے ہیں جن سے ساری زمین بھر جاتی ہے اور ہر حکم سے مراد انسانوں کی تقدیریں ہیں جو اس دن طے کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سورة الدخان کی آیت ( فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ۝ ۙ ) 44 ۔ الدخان :4) کے تحت اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) تنزل المئکۃ والروح فیھا…” الروح “ سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(نزل بہ الروح الامین) (الشعرائ : ١٩٣)” یہ قرآن روح الامین لے کر اترے ہیں۔ “ ملائکہ میں شامل ہونے کے باوجود ان کے شرف کی وجہ سے ان کا الگ ذکر فرمایا، جس طرح سورة بقرہ کی اس آیت میں فرشوتں کے ذکر کے بعد ان کے شرف کی وجہ سے ان کا خاص طور پر الگ ذکر فرمایا :(من کان عدوا للہ و ملائکتہ و رسلہ و جبرئیل و میکسل فان اللہ عدو للکفرین) (البقرۃ : ٩٨) ” جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسلووں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بیشک اللہ سب کافروں کا دشمن ہے۔ “- (٢) یعنی ملائکہ اور جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر امر کے متعلق آئندہ سال میں جو کچھ ہونے کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ہے وہ لے کر زمین پر اترتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تنزل الملکة والروح روح سے مراد جبرئیل امین ہیں۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل امین فرشتوں کی بڑی جماعت کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور جتنے اللہ کے بندے مرد و عورت نماز یا ذکر اللہ میں مشغول ہوتے ہیں سب کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ (مظہری) - من کل امر میں حرف من بمعنے با رہے جیسے یحفظونہ من امر اللہ آلایتہ میں بھی من و بمعنے باء استعمال ہوا ہے۔ معنے یہ ہیں کہ فرشتے لیلتہ القدر میں تمام سال کے اندر پیش آنے والے تقدیری واقعات لے کر زمین پر اترتے ہیں۔ اور بعض حضرات مفسرین مجاہد وغیرہ نے من کل امر کو سلام کے ساتھ متعلق کر کے یہ معنے قرار دیئے ہیں کہ یہر ات سلامتی ہے ہر شر و آفت اور بری چیز سے۔ (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَالرُّوْحُ فِيْہَا بِـاِذْنِ رَبِّہِمْ۝ ٠ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ۝ ٤ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- روح ( فرشته)- وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89]- روح - اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے - الروح : کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔- (1) اس سے مراد ہے ارواح بنی آدم۔- (2) بنی آدم فی انفسہم۔- (3) خد ا کی مخلوق میں سے بنی آدم کی شکل کی ایک مخلوق جو نہ فرشتے ہیں نہ بشر۔ - (4) حضرت جبرئیل علیہ السلام۔- (5) القران - (6) جمیع مخلوق کے بقدر ایک عظیم فرشتہ وغیرہ۔ ( اضواء البیان)- ا۔ ابن جریر نے ان جملہ اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے سے توقف کیا ہے ۔- ب۔ مودودی، پیر کرم شاہ، صاحب تفسیر مدارک، جمہور کے نزدیک حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔- ج۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کے نزدیک تمام ذی ارواح۔ - مولانا عبد الماجد دریا بادی (رح) کے نزدیک اس سیاق میں روح سے مراد ذی روح مخلوق لی گئی ہے۔ - وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ ۔ ” (اس رات میں) اُترتے ہیں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے۔ “- روح سے مراد یہاں روح الامین یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) فرشتوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں خصوصی مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔ جیسا کہ سورة التکویر میں فرمایا گیا : ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ - مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ ۔ ” وہ (جبرائیل (علیہ السلام) بہت قوت والا ہے ‘ صاحب عرش کے قرب میں اس کا ٹھکانہ ہے۔ اس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہاں وہ امانت دار بھی ہے “۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور فرشتوں کا ذکر آتا ہے تو ان (علیہ السلام) (حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا ذکر عام طور پر علیحدہ کیا جاتا ہے۔ - لیلۃ القدر میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور فرشتوں کا خصوصی نزول دراصل اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ سورة الدخان میں لیلۃ القدر یا لیلۃ مبارکہ کے بارے میں ایک خصوصی بات یہ بتائی گئی ہے : فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ۔ کہ اس رات میں تمام ُ پر حکمت امور کے فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔ سورة الدخان کے مطالعے کے دوران اس آیت کے تحت اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ مختصراً یہ کہ لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کی تکوینی سلطنت سے متعلق فیصلوں کے لیے سالانہ بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس رات میں اگلے سال کے لیے تمام اہم امور کے فیصلے کر کے تعمیل و تنفیذ کی غرض سے فرشتوں کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔ چناچہ فرشتے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی قیادت میں ان احکامات پر عمل درآمد کے لیے پوری زمین میں پھیل جاتے ہیں۔ نظامِ کائنات سے متعلق اللہ تعالیٰ کی اس ” تدبیر ِامر “ کا ذکر سورة السجدۃ کی اس آیت میں بھی آیا ہے : یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ (آیت ٥) ” وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘ پھر وہ (امر) چڑھتا ہے اس کی طرف “ ۔ گویا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کے بعد متعلقہ فرشتے تکمیلی رپورٹیں بھی بھیجتے ہیں ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القدر حاشیہ نمبر : 3 روح سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں جن کے فضل و شرف کی بنا پر ان کا ذکر فرشتوں سے الگ کیا گیا ہے ۔ سورة القدر حاشیہ نمبر : 4 یعنی وہ بطور خود نہیں آتے بلکہ اپنے رب کے اذن سے آتے ہیں ۔ اور ہر حکم سے مراد وہی ہے جسے سورۃ دخان آیت 5 میں امر حکیم ( حکیمانہ کام ) کہا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: اس رات میں فرشتوں کے اترنے کے دو مقصد ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اس رات جو لوگ عبادت میں مشغول ہوتے ہیں فرشتے اُن کے حق میں رحمت کی دعا کرتے ہیں اور دوسرا مقصدآیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس رات میں سال بھر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرمادیتے ہیں، تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر اُن کی تعمیل کرتے رہیں۔ ’’ہر کام اترنے‘‘ کا یہی مطلب مفسرین نے بیان فرمایا ہے۔