Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یصدر، یرجع (لوٹیں گے) یہ ورود کی ضد ہے یعنی قبروں سے نکل کر موقف حساب کی طرف، یا حساب کے بعد جنت اور دوزخ کی طرف لوٹیں گے۔ اشتاتا، متفرق، یعنی ٹولیاں ٹولیاں، بعض بےخوف ہوں گے، بعض خوف زدہ، بعض کے رنگ سفید ہوں گے جیسے جنتیوں کے ہوں گے اور بعض کے رنگ سیاہ، جو ان کے جہنمی ہونے کی علامت ہوگی۔ بیض کا رخ دائیں جانب ہوگا تو بعض کا بائیں جانب۔ یا یہ مختلف گروہ ادیان و مذاہب اور اعمال و افعال کی بنیاد پر ہوں گے۔ 6۔ 1 یعنی زمین اپنی خبریں اس لئے بیان کرے گی تاکہ انسانوں کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ سب انسان متفرق اور الگ ہوجائیں گے اور ہر ایک سے انفرادی طور پر اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی۔ اور دوسرا یہ کہ جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے۔ شرابیوں کا گروہ الگ ہوگا، زانیوں کا الگ، چوروں کا الگ، ڈاکوؤں اور لٹیروں کا الگ، غرض ہر انسان اپنے اپنے ہم جنسوں سے مل جائے گا۔- [٦] یہاں صرف اعمال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی سب قسم کے لوگوں کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں گے اور اس کی صورت وہی ہوگی جو اوپر مذکور ہوئی۔ یعنی ان کے اعمال کی فلمیں ہر ایک کو دکھا دی جائیں گی۔ تاکہ کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر شخص کا اعمال نامہ اس کے حوالہ کردیا جائے گا کہ وہ خود اپنے اعمال کو ٹھیک طرح پڑھ لے اور دیکھ بھال کرلے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(یومئذ یصدر الناس اشتاتاً ، لبروا اعمالھم :” یصدر “ واپس لوٹیں گے، یعنی پہلے قبروں میں گئے تھے، اب وہاں سے حساب کے لئے میدان محشر میں اللہ کے حضور واپس لوٹیں گے، جیسا کہ فرمایا :(ثم یمتکم ثم یحیکم ثم الیہ ترجعون) (البقرۃ : ٢٨)” پھر وہ تمہیں مارے گا، پھر زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ “- ” اشتاتاً ” شت “ کی جمع ہے، الگ الگ۔ ” لیروا “ (اری یری اراء ۃ “ (افعال) سے مضارع مجہول ہے، تاکہ وہ دکھائے جائیں اپنے عمل۔ ” لبروا “ میں ضمیر نئاب فاعل ہے اور ” اعمالھم “ مفعول ثانی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اکیلا اکیلا اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے لئے پیش ہوگا، اس کا قبیلہ، اس کی جماعت اور دوست احباب کوئی ساتھ نہیں ہوگا، جیسا کہ فرمایا :(ولقد جئتمونا فرادی کما خلقنکم اول مرۃ) (الانعام : ٩٣)” اور یقیناً تم ہمارے پاس اس طرح اکیلے آئے ہو جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔ “ الگ الگہ و کر اس لئے لوٹیں گے کہ ہر ایک کو اس کے اعمال دکھائے جائیں، جیسا کہ فرمایا :(اقرا کتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیباً ) (بنی اسرائیل : ١٣)” اپنی کتاب پڑھ، آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔ “ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ لوگ الگ الگ گروہ کی شکل میں میدان محشر کی طرف روانہ ہوں گے، اگر چہ اللہ تعالیٰ کے حضور فرداً فرداً پیش ہوں گے ، جیسا کہ فرمایا :(ویوم نحشرمن کل امۃ فوجاً ممن یکذب بایتنا فھم یوزعون) (النمل : ٨٣)” اور جس دن ہم ہر امت میں ایک گروہ ان لوگوں کا اکٹھا کریں گے جو ہماری آیت ا کو جھٹلاتے تھے، پھر ان کی جدا جداق س میں بنائی جائیں گی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا۝ ٠ۥۙ لِّيُرَوْا اَعْمَالَہُمْ۝ ٦ ۭ- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - شتت - الشَّتُّ : تفریق الشّعب، يقال : شَتَّ جمعهم شَتّاً وشَتَاتاً ، وجاؤوا أَشْتَاتاً ، أي : متفرّقي النّظام، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، وقال : مِنْ نَباتٍ شَتَّى[ طه 53] ، أي : مختلفة الأنواع، وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [ الحشر 14] ، أي : هم بخلاف من وصفهم بقوله : وَلكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [ الأنفال 63] . و ( شَتَّانَ ) : اسم فعل، نحو : وشکان، يقال : شتّان ما هما، وشتّان ما بينهما : إذا أخبرت عن ارتفاع الالتئام بينهما .- ( ش ت ت ) الشت - کے معنی قبیلہ کو متفرق کرنے کے ہیں محاورہ ہے ۔ شت جمعھم شتا وشتاتا ان کی جمیعت متفرق ہوگئی ۔ جاؤا اشتاتا وہ پر اگندہ حالت میں آئے قرآن میں ہے : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہوکر آئیں گے ۔ مِنْ نَباتٍ شَتَّى[ طه 53] ( یعنی انواع ( وہ اقسام ) کی مختلف روئیدگی پید اکیں ۔ وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [ الحشر 14]( مگر) ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں ۔ یعنی ان کی حالت مسلمانوں کی حالت کے برعکس ہے جن کے متعلق فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [ الأنفال 63] مگر خدا ہی نے ان میں الفت ڈال دی ۔ شتان یہ اسم فعل وزن وشگان ہے ۔ محاورہ ہے ؛۔ شتان ما ھما وشتان ما بینھما ان دونوں میں کس قدر بعد اور تفاوت ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًاج ” اس دن لوگ علیحدہ علیحدہ ہو کر نکل پڑیں گے “- اَشْتَاتًا جمع ہے شَتٌّکی ‘ یعنی منتشر و متفرق۔ نصب حالیت کی وجہ سے ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ سورة اللیل کی اس آیت میں بھی آیا ہے : اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی ۔ کہ تم انسان بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہو لیکن تمہاری سعی و جہد کے رخ بالکل مختلف ہیں۔ - لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ ۔ ” تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں۔ “- اس منظر کی ایک جھلک سورة الکہف کی اس آیت میں بھی دکھائی گئی ہے :- وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰٹہَاج وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ۔ - ” اور رکھ دیا جائے گا اعمال نامہ ‘ چناچہ تم دیکھو گے مجرموں کو کہ ڈر رہے ہوں گے اس سے جو کچھ اس میں ہوگا اور کہیں گے : ہائے ہماری شامت یہ کیسا اعمال نامہ ہے ؟ اس نے تو نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو ‘ مگر اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔ اور وہ پائیں گے جو عمل بھی انہوں نے کیا ہوگا اسے موجود۔ اور آپ کا رب ظلم نہیں کرے گا کسی پر بھی۔ “- آج کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا مفہوم یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس دن ایک بہت بڑا کمپیوٹر سرمحشر نصب کردیا جائے گا جس میں پوری نوع انسانی کے ایک ایک فرد کے اعمال سے متعلق تفصیلی ڈیٹا موجود ہوگا۔ جونہی کسی فرد کو حساب کے لیے پیش کیا جائے گا اس کی پوری زندگی کی آڈیو ویڈیو فلم فوراً سکرین پر چلنا شروع ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 5 اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر ایک اکیلا اپنی انفرادی حیثیت میں ہوگا ، خاندان ، جتھے ، پارٹیاں ، قومیں سب بکھر جائیں گی ۔ یہ بات قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی فرمائی گئی ہے ۔ مثلا سورہ انعام میں ہے کہ اللہ تعالی اس روز لوگوں سے فرمائے گا کہ لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا تھا ( آیت 94 ) اور سورہ مریم میں فرمایا یہ اکیلا ہمارے پاس آئے گا ( آیت 80 ) اور یہ کہ ان میں سے ہر ایک قیامت کے روز اللہ کے حضور اکیلا حاضر ہوگا ( آیت 95 ) دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو ہزار ہا برس کے دوران میں جگہ جگہ مرے تھے ، زمین کے گوشے گوشے سے گروہ در گروہ چلے آرہے ہوں گے ، جیسا کہ سورہ نباء میں فرمایا گیا جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی تم فوج در فوج آجاؤ گے ( آیت 18 ) اس کے علاوہ جو مطلب مختلف مفسرین نے بیان کیے ہیں ان کی گنجائش لفظ اشتاتا میں نہیں ہے ، اس لیے ہمارے نزدیک وہ اس لفظ کے معنوی حدود سے باہر ہیں ، اگرچہ بجائے خود صحیح ہیں اور قرآن و حدیث کے بیان کردہ احوال قیامت سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 6 اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں ، یعنی ہر ایک کو بتایا جائے کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے ۔ اگرچہ یہ دوسرے معنی بھی لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ کے لیے جاسکتے ہیں ، لیکن اللہ تعالی نے لِّيُرَوْا جَزٓاءَ اَعْمَالَهُمْ ( تاکہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے ) نہیں فرمایا ہے بلکہ لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ ( تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں ) فرمایا ہے ۔ اس لیے پہلے معنی ہی قابل ترجیح ہیں ، خصوصا جبکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ کافر و مومن ، صالح و فاسق ، تابع فرمان اور نافرمان ، سب کو ان کے نامہ اعمال ضرور دیے جائیں گے ( مثال کے طور پر ملاحظۃ ہو الحاقہ آیات 19 و 25 ، اور الانشقاق ، آیات7 و 10 ) ظاہر ہے کہ کسی کو اس کے اعمال دکھانے ، اور اس کارنامہ اعمال اس کے حوالہ کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ علاوہ بریں زمین جب اپنے اوپر گزرے ہوئے حالات پیش کرے گی تو حق و باطل کی وہ کشمکش جو ابتدا سے برپا ہے اور قیامت تک برپا رہے گی ، اس کا پورا نقشہ بھی سب کے سامنے آجائے گا ، اور اس میں سب ہی دیکھ لیں گے کہ حق کے لیے کام کرنے والوں نے کیا کچھ کیا ، اور باطل کی حمایت کرنے والوں نے ان کے مقابلہ میں کیا کیا حرکتیں کیں ۔ بعید نہیں کہ ہدایت کی طرف بلانے والوں اور ضلالت پھیلانے والوں کی ساری تقریریں اور گفتگوئیں لوگ اپنے کانوں سے سن لیں ۔ دونوں طرف کی تحریروں اور لٹریچر کا پورا ریکارڈ جوں کا توں سب کے سامنے لاکر رکھ دیا جائے ۔ حق پرستوں باطل پرستوں کے ظلم ، اور دونوں گروہوں کے درمیان برپا ہونے والے معرکوں کے سارے مناظر میدان حشر کے حاضرین اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: واپس آنے سے مراد قبروں سے نکل کر میدانِ حشر کی طرف جانا بھی ہوسکتا ہے، اُس صورت میں اعمال دکھانے کا مطلب یہ ہوگا کہ اعمال نامہ دکھا دیا جائے گا۔ اور واپسی کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لوگ حساب و کتاب سے فارِغ ہو کر مختلف حالتوں میں واپس آئیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال کا نتیجہ دکھادیا جائے۔ نیک لوگوں کو اپنی نیکیوں کا انعام دکھادیا جائے گا اور بُرے لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا دکھادی جائے گی۔