ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ ان لوگوں پر خوش ہوتا ہے جو پابند سلاسل جنت میں داخل کیے جائیں گے ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ جنہیں بیڑیاں پہنا کر جنت کی طرف چلایا جائے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں ، دورانِ سفر مشرکین میں سے ایک جاسوس آپ ﷺ کے پاس آیا اور وہ آپ کے ساتھیوں کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا رہا ، پھر غائب ہو گیا ، تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اسے تلاش کرو اور اسے قتل کر دو ۔‘‘ چنانچہ میں نے اسے قتل کر دیا تو آپ ﷺ نے اس کا سامان مجھے عطا فرما دیا ۔ متفق علیہ ۔
سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوازن قبیلے سے جہاد کیا ، اس اثنا میں کہ ہم چاشت کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے ایک آدمی سرخ اونٹ پر آیا تو اس نے اسے بٹھا دیا اور وہ جائزہ لینے لگا ، اس وقت ہم میں ضعف و سستی تھی ، سواریاں کم تھیں جبکہ ہم میں سے بعض پیادہ تھے ، وہ آدمی اچانک ہمارے بیچ میں سے نکلا تیزی سے اپنے اونٹ کے پاس آیا اسے کھڑا کیا اور اونٹ اسے تیزی کے ساتھ لے گیا ، میں بھی تیزی سے روانہ ہوا حتی کہ میں نے اونٹ کی لگام پکڑ لی ، اسے بٹھایا پھر میں نے اپنی تلوار سونت لی ، میں نے اس آدمی کا سر قلم کر دیا اور اونٹ لے آیا ، اس کا سازو سامان اور اس کا اسلحہ بھی اس پر لے آیا ، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ نے میرا استقبال کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس آدمی کو کس نے قتل کیا ؟ صحابہ نے بتایا : ابن اکوع نے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کا سارا سازو سامان اس کے لیے ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، جب بنو قریظہ سعد بن معاذ ؓ کے فیصلے پر رضا مند ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے معاذ ؓ کو پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے ، جب وہ قریب آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے سردار کا استقبال کرو ۔‘‘ چنانچہ وہ آئے اور بیٹھ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ لوگ تمہارے فیصلے پر رضا مند ہوئے ہیں ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : میں فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجو قتل کر دیے جائیں اور بچے قیدی بنا لیے جائیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے ان کے درمیان اللہ بادشاہ کا فیصلہ کیا ہے ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ اللہ کے حکم کے مطابق (فیصلہ کیا ہے) ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا ، وہ بنو حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی شخص کو پکڑ لائے جو کہ اہل یمامہ کا سردار تھا ، انہوں نے اسے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا ، رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے تو فرمایا :’’ ثمامہ ! تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘ اس نے کہا : محمد ﷺ ! خیر ہے ، اگر تم نے قتل کیا تو صاحبِ خون کو قتل کرو گے ، اگر احسان کرو گے تو قدر دان پر احسان کرو گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں مطالبہ کریں آپ کو دیا جائے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا ، حتی کہ اگلا روز ہوا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا :’’ ثمامہ ! تیرا کیا خیال ہے ؟‘‘ اس نے کہا : میرا وہی خیال ہے جو میں نے تمہیں کہا تھا ، اگر احسان کرو گے تو ایک قدر دان پر احسان کرو گے ، اگر قتل کرو گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کرو گے ، جس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہو مطالبہ کرو آپ کو دیا جائے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا ، حتی کہ اگلا روز ہوا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا :’’ ثمامہ ! تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘ اس نے کہا : میرا وہی موقف ہے جو میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اگر تم احسان کرو گے تو ایک قدر دان شخص پر احسان کرو گے اگر قتل کرو گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر تمہیں مال چاہیے تو پھر جتنا چاہو مطالبہ کرو تمہیں دیا جائے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ثمامہ کو کھول دو َ‘‘ وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے درختوں کی طرف گیا ، غسل کیا ، پھر مسجد میں آیا اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘ محمد ﷺ ! روئے زمین پر آپ کا چہرہ مجھے سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا جبکہ اب آپ کا چہرہ مجھے تمام چہروں سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے ، اللہ کی قسم ! آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی دین مجھے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا ، اب آپ کا دین میرے نزدیک تمام ادیان سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ اللہ کی قسم ! آپ کا شہر مجھے تمام شہروں سے زیادہ ناپسندیدہ تھا ، اب آپ کا شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ آپ کے لشکر نے مجھے گرفتار کر لیا جبکہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، آپ میرے بارے کیا فرماتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے اسے بشارت سنائی اور اسے عمرہ کرنے کا حکم فرمایا ، جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے انہیں کہا : کیا تم بے دین ہو گئے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ہے ، اللہ کی قسم ! جب تک رسول اللہ ﷺ اجازت نہ فرما دیں یمامہ سے تمہارے پاس گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا ۔ مسلم ، امام بخاری نے اسے مختصر بیان کیا ہے ۔ متفق علیہ ۔
جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا :’’ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا ، پھر وہ ان ناپاکوں کے متعلق سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ اہل مکہ کے اسّی آدمی مسلح ہو کر نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ پر اچانک حملہ کرنے کی غرض سے جبلِ تنعیم سے رسول اللہ ﷺ پر اتر آئے ، آپ نے انہیں مغلوب کر کے گرفتار کر لیا ، لیکن آپ نے انہیں زندہ چھوڑ دیا ۔ ایک دوسری روایت میں ہے : آپ ﷺ نے انہیں آزاد کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’ وہی ذات ہے جس نے وادئ مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے روکے رکھے اور تمہارے ہاتھ ان سے روکے رکھے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
قتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، انس بن مالک ؓ نے ابوطلحہ ؓ کی سند سے ہمیں بتایا کہ نبی ﷺ نے غزوہ بدر کے روز قریش کے چوبیس سرداروں کے متعلق حکم فرمایا تو انہیں بدر کے ایک بند کنویں میں ڈال دیا گیا جو کہ خبیث اور خبیث بنا دینے والا تھا ، اور آپ کا معمول تھا کہ جب آپ کسی قوم پر غالب آتے تو آپ میدان قتال میں تین راتیں قیام فرماتے ، چنانچہ جب بدر میں تیسرا روز ہوا تو آپ نے رخت سفر باندھنے کا حکم فرمایا ، سواریاں تیار کر دیں گئیں ، پھر آپ چلے اور آپ کے صحابہ بھی آپ کے پیچھے چلنے لگے ، حتی کہ آپ اس کنویں کے کنارے ، جس میں سردارانِ قریش کی لاشیں پھینکی گئی تھیں ، کھڑے ہو گئے اور آپ انہیں ان کے اور ان کے آباء کے نام لیکر پکارنے لگے :’’ ٖفلاں بن فلاں ! فلاں بن فلاں ! اور تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتے ، چنانچہ ہمارے رب نے جس چیز کا ہم سے وعدہ کیا تھا ہم نے تو اسے سچ پا لیا ، تمہارے رب نے جس چیز کا تم سے وعدہ کیا تھا ، کیا تم نے اسے سچا پایا ؟‘‘ عمر ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا آپ مردہ جسموں سے کلام فرما رہے ہیں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ! میں جو کہہ رہا ہوں تم اسے ان سے زیادہ نہیں سن رہے ۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’ تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے لیکن وہ جواب نہیں دیتے ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ اور امام بخاری ؒ نے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ قتادہ ؓ نے فرمایا : اللہ نے انہیں زندہ کر دیا حتی کہ باعث توبیخ و تحقیر ، انتقام و حسرت اور ندامت ، انہیں آپ ﷺ کی بات سنا دی ۔ متفق علیہ ۔
مروان اور مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ جب قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ، انہوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ ان کے اموال اور ان کے قیدی لوٹا دیے جائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دونوں میں سے ایک چیز اختیار کر لو ، خواہ قیدی ، خواہ مال ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، ہم اپنے قیدی لینا چاہتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے پھر اللہ کی شایان شان اس کی ثنا بیان کی ، پھر فرمایا :’’ امابعد ! تمہارے بھائی مسلمان ہو کر آئے ہیں ، میری رائے تو یہی ہے کہ ان کے قیدی انہیں لوٹا دیے جائیں ، تم میں سے جو کوئی شخص بخوشی بے لوث ایسے کرنا چاہتا ہے تو وہ کرے اور اگر تم میں سے کوئی اپنا حصہ لینا پسند کرتا ہو تو وہ انتظار کرے حتی کہ اللہ ہمیں جو سب سے پہلے مال فے عطا فرمائے تو ہم اسے وہی چیز عطا کر دیں گے ، لہذا اب وہ ایسا کر لے (کہ قیدی واپس کر دے) ۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم نے یہ کام خوشی سے کر دیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی اور کس نے اجازت نہیں دی ، تم لوٹ جاؤ حتی کہ تمہارے رؤساء تمہارا معاملہ ہمارے سامنے پیش کریں ۔‘‘ لوگ لوٹ گئے ، ان کے رؤساء نے ان سے بات چیت کی ، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دوبارہ آئے اور انہوں نے آپ کو بتایا کہ وہ راضی ہیں اور انہوں نے اجازت دی ہے ۔ رواہ البخاری ۔
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، ثقیف ، بنو عُقیل کے حلیف تھے ، ثقیف (قبیلے) نے رسول اللہ ﷺ کے دو صحابی قید کر لیے ، اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے بنو عقیل کا ایک آدمی قید کر لیا اور اسے باندھ کر پتھریلی زمین پر پھینک دیا ، رسول اللہ ﷺ اس کے پاس سے گزرے تو اس نے آپ کو آواز دی : محمد ! محمد ! مجھے کس لیے پکڑا گیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کے بدلہ میں ۔‘‘ آپ نے اسے اس کے حال پر چھوڑا اور آگے چل دیے ، اس نے پھر آواز دی ، محمد ! محمد ! رسول اللہ ﷺ کو اس پر ترس آ گیا اور واپس تشریف لا کر فرمایا :’’ تمہارا کیا حال ہے ؟‘‘ اس نے کہا : میں مسلمان ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم اس وقت کہتے جب کہ تم اپنے معاملے کے خود مختار تھے تو تم مکمل فلاح پا جاتے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے اسے ان دو آدمیوں ، جنہیں ثقیف نے قید کر رکھا تھا ، کے بدلے میں چھوڑ دیا ۔ (یعنی تبادلہ کر لیا) رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب مکہ والوں نے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ بھیجا تو زینب ؓ نے ابوالعاص (اپنے خاوند) کے فدیہ میں مال بھیجا اور اس میں اپنا ہار بھی بھیجا جو خدیجہ ؓ کا تھا جو انہوں نے انہیں ابوالعاص کے ساتھ شادی کے موقع پر عطا کیا تھا ، جب رسول اللہ ﷺ نے اس (ہار) کو دیکھا تو ان (زینب ؓ) کی خاطر آپ پر شدید رقت طاری ہو گئی اور آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم مناسب سمجھو تو اس کی خاطر قیدی کو رہا کرو اور اس کا ہار بھی واپس کر دو ۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا : (اللہ کے رسول !) ٹھیک ہے ، اور نبی ﷺ نے ابوالعاص سے یہ عہد لیا کہ وہ زینب کو میرے پاس (مدینہ) آنے کی اجازت دے دے ، اور رسول اللہ ﷺ نے زید بن حارثہ ؓ اور انصار کے ایک آدمی کو (مکہ) بھیجا تو فرمایا :’’ تم دونوں یا حج کے مقام پر ہونا حتی کہ زینب تمہارے پاس سے گزریں تو تم اس کے ساتھ ہو لینا حتی کہ تم انہیں (یہاں مدینہ) لے آنا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہل بدر کو قید کیا تو آپ نے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کیا اور ابوعزہ جمحی پر (بلا معاوضہ آزاد کرنے کا) احسان کیا ۔ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عقبہ بن ابی معیط کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا : بچوں کے لیے کون (کفیل) ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (تم اپنی جان کی فکر کرو تمہارے لیے) آگ ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
علی ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جبریل ؑ کا نزول ہوا تو انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا ، اپنے صحابہ کو بدر کے قیدیوں کے بارے میں اختیار دیں کہ وہ انہیں قتل کریں یا فدیہ لے لیں کہ آئندہ سال اتنے ہی (ستر) ان میں سے شہید کر دیے جائیں گے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، فدیہ قبول کرتے ہیں ، اور ہمیں منظور ہے کہ ہم میں سے قتل کیے جائیں ۔ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عطیہ قرظی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں قریظہ کے قیدیوں میں تھا ، ہمیں نبی ﷺ کے روبرو پیش کیا گیا ، وہ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگے ہوتے اسے قتل کر دیا جاتا اور جس کے بال نہ ہوتے اسے قتل نہ کیا جاتا ، انہوں نے میری شرم گاہ سے پردہ اٹھایا اور دیکھا کہ وہاں بال نہیں اُگے تو انہوں نے مجھے قیدیوں میں شامل کر دیا ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، صلح حدیبیہ کے روز صلح سے پہلے کچھ غلام رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو ان کے مالکوں نے آپ ﷺ کے نام خط لکھا : محمد (ﷺ) ! اللہ کی قسم ! یہ لوگ آپ کے دین میں رغبت رکھنے کے پیش نظر آپ کے پاس نہیں آئے ، بلکہ یہ تو غلامی سے بھاگ کر آئے ہیں ۔ لوگوں نے کہا ، اللہ کے رسول ! انہوں نے سچ کہا ہے ، آپ انہیں لوٹا دیجیے ، رسول اللہ ﷺ ناراض ہو گئے اور فرمایا :’’ جماعتِ قریش ! میں سمجھتا ہوں کہ تم باز نہیں آؤ گے حتی کہ اللہ تم پر ایسے شخص کو بھیجے جو اس (تعصب) پر تمہاری گردنیں اڑا دے ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے ان کو لوٹانے سے انکار کر دیا ، اور فرمایا :’’ وہ اللہ کے لیے آزاد کردہ ہیں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے خالد بن ولید ؓ کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا ، انہوں نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ، انہوں نے واضح طور پر (لفظ اَسْلَمْنَا) ہم نے اسلام قبول کر لیا نہ کہا ، بلکہ انہوں نے (لفط صَبأْنا) ہم بے دین ہوئے کہا ، اس پر خالد ؓ انہیں قتل کرنے لگے اور قیدی بنانے لگے ، اور انہوں نے ہم میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی دیا حتی کہ ایک روز ایسے ہوا کہ انہوں نے حکم دیا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کرے ، میں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اپنا قیدی قتل کروں گا نہ میرا کوئی ساتھی اپنے قیدی کو قتل کرے گا ، حتی کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ سے اس کا ذکر کیا ، آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دو مرتبہ فرمایا :’’ اے اللہ ! خالد نے جو کیا میں اس سے تیرے حضور براءت کا اعلان کرتا ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔