ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بہت سے پراگندہ بالوں والے جنہیں دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے اگر وہ اللہ پر قسم اٹھا لے تو اللہ اسے پوری فرما دیتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں ، کہ سعد ؓ نے خیال کیا کہ اسے اپنے سے کم درجہ لوگوں پر (سخاوت کرنے میں) فضیلت و برتری حاصل ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ ہی سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور انہی کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جاتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں (معراج کی رات) جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر داخل ہونے والے مساکین تھے ، جبکہ صاحب ثروت روک لیے گئے تھے ، اور آگ والوں (یعنی کافروں) کے لیے جہنم کا حکم دے دیا گیا تھا ، اور میں باب جہنم پر کھڑا ہوا اور دیکھا کہ اس میں جانے والوں کی اکثریت عورتوں کی تھی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثریت فقرا کی تھی ، اور میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا تو میں نے دیکھا کہ وہاں اکثریت عورتوں کی ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ ﷺ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص سے فرمایا :’’ اس (شخص) کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟‘‘ اس نے کہا : معزز لوگوں میں سے ہے ، اللہ کی قسم ! یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں پیغام نکاح بھیجے تو اس کی شادی کر دی جائے ، اور اگر کہیں سفارش کرے تو وہ قبول کی جائے ، راوی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ خاموش رہے ، پھر ایک آدمی گزرا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا :’’ اس شخص کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہ شخص غریب مسلمانوں میں سے ہے ، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں پیغام نکاح بھیجے تو اس کی شادی نہ کی جائے اور اگر کہیں سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر بات کرے تو اس کی بات نہ سنی جائے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ (تنہا) شخص اس شخص جیسے لوگوں سے بھری زمین سے بہتر ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
سعید مقبری ؒ ، ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے ان کے سامنے بھنی ہوئی بکری تھی ، انہوں نے انہیں دعوت دی تو انہوں نے اسے کھانے سے انکار کر دیا اور فرمایا : نبی ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور آپ نے پیٹ بھر کر جو کی روٹی نہیں کھائی ۔ رواہ البخاری ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ جو کی روٹی اور رنگت بدلی ہوئی چربی لے کر نبی ﷺ کی طرف گئے جبکہ نبی ﷺ کی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے پاس گروی تھی ، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لیے جَو لیے تھے ، اور میں (راوی) نے انسؓ کو بیان کرتے ہوئے سنا : آل محمد (ﷺ) کے ہاں شام کے وقت نہ ایک صاع گندم ہوتی تھی اور نہ ایک صاع کوئی اور اناج ہوتا تھا جبکہ آپ ﷺ کی نو ازواج مطہرات تھیں ۔ رواہ البخاری ۔
عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور آپ نے کوئی بستر وغیرہ نہیں بچھایا ہوا تھا ، اور اس چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر تھے ، اور آپ نے چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائی ہوئی تھی ، جس میں کھجور کے درخت کے پتے بھرے ہوئے تھے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کے حضور دعا فرمائیں کہ وہ آپ کی امت پر فراخی فرمائے ، کیونکہ فارسیوں اور رومیوں پر بہت نوازشات ہیں ، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابن خطاب ! کیا تم ابھی تک اسی مقام پر ہو ؟ یہ (کفار) وہ لوگ ہیں کہ انہیں ان کی لذتیں اس دنیا کی زندگی میں جلد عطا کر دی گئی ہیں ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ کیا تم خوش نہیں کہ ان کے لیے دنیا میں ہوں اور ہمارے لیے آخرت میں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میری ستر اصحاب صفہ سے ملاقات ہوئی ہے ، ان میں سے کسی ایک آدمی پر بھی بڑی چادر نہیں تھی ، ان کے پاس یا تو ایک ایک تہبند تھا یا ایک چادر تھی ، انہوں نے اس کے کنارے کو گردنوں کے ساتھ باندھ رکھا تھا ، ان میں سے کچھ چادریں ایسی تھیں جو نصف پنڈلیوں تک پہنچتی تھیں کچھ کی ٹخنوں تک پہنچتی تھیں ، اور وہ اسے اپنے ہاتھ کے ساتھ اکٹھا کرتا تھا کہ کہیں اس کا ستر نہ کھل جائے ۔ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی مال اور صورت و جمال میں اپنے سے بہتر شخص کو دیکھے تو وہ اپنے سے کم تر شخص کو دیکھ لے ۔‘‘
اور مسلم کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ (دنیوی امور میں) اپنے سے کم تر شخص کو دیکھو اور اپنے سے بہتر شخص کو نہ دیکھو ، کیونکہ یہ زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کو حقیر نہ جانو جو اس نے تم پر انعام کی ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! مجھے مسکین زندہ رکھنا ، مسکین ہی فوت کرنا اور مجھے مساکین کے گروہ میں جمع فرمانا ۔‘‘ عائشہ ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیونکہ وہ مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے ، عائشہ ! کسی مسکین کو خالی ہاتھ نہ موڑنا خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہو ، عائشہ ! مساکین سے محبت کرنا ، انہیں قریب رکھنا چنانچہ روز قیامت اللہ تجھے (اپنے) قریب کرے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابودرداء ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے اپنے ضعیفوں میں تلاش کرو ، تم اپنے ان کمزوروں ہی کی وجہ سے رزق دیے جاتے یا مدد کیے جاتے ہو ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
امیہ بن خالد بن عبداللہ بن اسید ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ مہاجر فقرا کی دعاؤں کے ذریعے فتح طلب کیا کرتے تھے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی فاجر شخص کو نعمتوں میں دیکھ کر اس پر رشک نہ کرنا کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس کی موت کے بعد اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے ، اس کے لیے اللہ کے ہاں ایک مہلک چیز ہے جو مرے گی نہیں ۔‘‘ یعنی : جہنم ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور قحط ہے ، جب وہ دنیا سے جدا ہوتا ہے تو وہ قید خانے اور قحط سے جدا ہو جاتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
قتادہ بن نعمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب اللہ کسی بندے کو پسند فرماتا ہے تو اسے دنیا (کے مال و منصب) سے بچا لیتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے بچاتا ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و الترمذی ۔
محمود بن لبید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ دو چیزیں ہیں جنہیں انسان ناپسند کرتا ہے ، انسان موت کو ناپسند کرتا ہے ، حالانکہ موت مومنوں کے لیے فتنے سے بہتر ہے ، اور وہ قلت مال کو ناپسند کرتا ہے جبکہ قلت مال کا حساب کم ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد ۔
عبداللہ بن مغفل ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ، میں آپ سے محبت کرتا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، اللہ کی قسم ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں ، اس نے تین مرتبہ کہا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم (اپنے دعویٰ میں) سچے ہو تو پھر فقر و فاقہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈھال تیار رکھو کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے تو اس کی طرف فقر سیلاب کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے اللہ کی راہ میں جتنا ڈرایا گیا ہے اتنا کسی کو نہیں ڈرایا گیا ، اللہ کی راہ میں جتنی مجھے اذیت دی گئی ہے اتنی کسی کو اذیت نہیں دی گئی ، مجھ پر تیس دن رات بھی گزرے ہیں کہ میرے اور بلال ؓ کے لیے ایسی کوئی چیز نہیں تھی جسے کوئی جاندار کھاتا ہے ، البتہ اتنی (قلیل) چیز تھی جسے بلال ؓ کی بغل چھپا لیتی تھی ۔‘‘ اور امام ترمذی ؒ نے فرمایا : اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب نبی ﷺ مکہ سے بھاگ نکلے تھے تو بلال ؓ آپ کے ساتھ تھے ، اور بلال ؓ کے پاس بس اتنا سا کھانا تھا جو وہ اپنی بغل کے نیچے رکھتے تھے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
طلحہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بھوک کی شکایت کی اور ہم نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر ایک پتھر بندھا ہوا دکھایا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے دکھائے ۔ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دو خصلتیں جس شخص میں ہوں اللہ اسے شاکر صابر لکھ دیتا ہے ، جو شخص اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھتا ہے اور پھر اس کی اقتدا کرتا ہے ، اور دنیا کے معاملے میں وہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھتا ہے اور اللہ نے جو اس کو اس پر فضیلت عطا کی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ، تو اللہ اسے شکر گزار صبر کرنے والا لکھ دیتا ہے ، اور جو شخص اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے کم تر کو اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے برتر کو دیکھتا ہے اور جو چیز اسے نہیں ملی اس پر افسوس کرتا ہے تو اللہ اسے شاکر و صابر نہیں لکھتا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
اور ابوسعید سے مروی حدیث :’’ مہاجرین کی فقیر جماعت خوش ہو جاؤ ‘‘ فضائل القرآن کے باب کے بعد ذکر کی گئی ہے ۔
ابو عبد الرحمن حبلی بیان کرتے ہیں ، میں نے عبداللہ بن عمرو ؓ سے سنا ، ایک آدمی نے ان سے سوال پوچھا : کیا ہم مہاجر فقرا میں سے نہیں ؟ عبداللہ ؓ نے اسے فرمایا : کیا تمہاری بیوی ہے جس کے پاس تم رات بسر کرتے ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! انہوں نے فرمایا : کیا تیرے رہنے کے لیے گھر ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! انہوں نے فرمایا : تم تو مال داروں میں سے ہو ، اس نے کہا : میرے پاس تو ایک خادم بھی ہے ، انہوں نے فرمایا : تم تو بادشاہ ہو ، عبد الرحمن نے کہا ، تین آدمی عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس آئے ، میں اس وقت ان کے پاس تھا ، انہوں نے کہا : ابو محمد ! اللہ کی قسم ! ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ، کوئی خرچہ ہے نہ سواری اور نہ ہی ساز و سامان ، انہوں نے انہیں فرمایا : تم کیا چاہتے ہو ؟ اگر تم کچھ چاہو تو تم ہمارے پاس آنا ، اللہ نے تمہارے لیے جو میسر فرمایا وہ ہم تمہیں عطا کریں گے ، اور اگر تم چاہو تو ہم تمہارا معاملہ بادشاہ سے ذکر کریں گے ؟ اور اگر تم چاہو تو صبر کرو ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ مہاجر فقرا روز قیامت مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے ۔‘‘ انہوں نے کہا : ہم صبر کرتے ہیں اور ہم کوئی چیز نہیں مانگیں گے ۔ رواہ مسلم ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ فقرا مہاجرین کا بھی ایک حلقہ لگا ہوا تھا ۔ جب نبی ﷺ تشریف لائے تو آپ ان کے حلقے میں شامل ہو گئے ، میں بھی اٹھ کر ان کی طرف چلا گیا ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ فقرا مہاجرین کو اس بات کی بشارت دی جائے جس سے ان کے چہرے خوش ہو جائیں ، کیونکہ وہ مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے چمکنے لگے ، اور عبداللہ بن عمرو ؓ نے بیان کیا ، حتیٰ کہ میں نے تمنا کی کہ میں ان کے ساتھ ہوتا یا ان میں سے ہوتا ۔ صحیح ، رواہ الدارمی ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، میرے خلیل نے مجھے سات چیزوں کے متعلق حکم فرمایا ، آپ ﷺ نے مساکین سے محبت کرنے اور ان کے قریب رہنے کا مجھے حکم فرمایا ، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اپنے سے کم تر کی طرف دیکھوں اور جو مجھ سے (دنیا کے لحاظ سے) برتر ہے اس کی طرف نہ دیکھوں ، آپ نے مجھے صلہ رحمی کا حکم فرمایا اگرچہ وہ قطع رحمی کریں ، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں کسی سے کوئی چیز نہ مانگوں ، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں حق بات کروں اگرچہ وہ کڑوی ہو ، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اللہ کے (حق کے) بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈروں ، اور آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں ((لَا حَوْلَ وَلَا قَوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ)) کثرت سے پڑھا کروں ، کیونکہ وہ (کلمات) عرش کے نیچے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ کو دنیا کی تین چیزیں پسند تھیں ، کھانا ، عورتیں اور خوشبو ، آپ کو دو چیزیں مل گئیں اور ایک نہ مل سکی ، آپ کو عورتیں (ازواج مطہرات ؓ) اور خوشبو مل گئی لیکن (شکم سیر) کھانا نہ ملا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔