Blog
Books
Search Hadith

معراج کا بیان

بَابٌ فِي الْمِعْرَاجِ

6 Hadiths Found

عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالك بن صعصعة أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدثهمْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ: «بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ - وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ - مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ» يَعْنِي مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ «فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ» - وَفِي رِوَايَةٍ: ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثمَّ ملئ إِيماناً وَحِكْمَة - ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ يُقَالُ لَهُ: الْبُرَاقُ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ. قَالَ: نَعَمْ. قيل: مرْحَبًا بِهِ فَنعم الْمَجِيء جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ: هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالح وَالنَّبِيّ الصَّالح ثمَّ صعد بِي حَتَّى السَّماءَ الثانيةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ. فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا خَالَةٍ. قَالَ: هَذَا يَحْيَى وَهَذَا عِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ. ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ: هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ. ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِدْرِيسُ فَقَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ: هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَهل أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ: هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالح فَلَمَّا جَاوَزت بَكَى قيل: مَا بيكيك؟ قَالَ: أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرَ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: هَذَا أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرد السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ [ص:1637] رُفِعْتُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبِقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ: هَذَا سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ: نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ. قُلْتُ: مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِيَ الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ: هِيَ الْفِطْرَةُ أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَاةُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ. قَالَ: إِنَّ أمتك لَا تستطع خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلى مُوسَى فَقَالَ مثله فَرَجَعت فَوضع عني عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنَى عَشْرًا فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ: سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ. قَالَ: فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ: أَمْضَيْتُ فريضتي وخففت عَن عبَادي . مُتَّفق عَلَيْهِ

قتادہ ؒ انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے شب معراج کے متعلق انہیں بتایا کہ ’’میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا ، اور بعض روایات میں ہے ، میں حجر میں لیٹا ہوا تھا ، کہ اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا تو اس نے میرا سینہ چاک کیا ، میرے دل کو نکالا ، پھر میرے پاس ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا ، میرے دل کو دھویا گیا ، پھر اسے بھر دیا گیا ، پھر اسے واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ پھر (میرے) پیٹ کو آب زم زم سے دھویا گیا ، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا ، پھر خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی سفید رنگ کی براق نامی ایک سواری میرے پاس لائی گئی ، وہ اپنی انتہائے نظر تک اپنا قدم رکھتی تھی ، مجھے اس پر سوار کیا گیا ، جبریل ؑ مجھے ساتھ لے چلے ، حتی کہ وہ آسمان دنیا پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، ان سے پوچھا گیا ، آپ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : جبریل ، پوچھا گیا : اور آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : محمد (ﷺ) ، پوچھا گیا ، کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ، اور تشریف لانے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں وہاں پہنچا تو میں نے وہاں آدم ؑ کو دیکھا ، جبریل ؑ نے بتایا : یہ آپ کے والد آدم ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر انہوں نے فرمایا : صالح بیٹے ! اور صالح نبی خوش آمدید ، پھر جبریل ؑ مجھے اوپر لے گئے حتی کہ وہ دوسرے آسمان پر پہنچ گئے ، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، پوچھا گیا : کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا : جبریل ؑ ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : محمد ! پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ! آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں وہاں پہنچا تو یحیی اور عیسیٰ ؑ سے ملاقات ہو گئی ، اور وہ دونوں خالہ زاد تھے ۔ فرمایا : یہ یحیی ؑ ہیں اور یہ عیسیٰ ؑ ہیں ، ان دونوں کو سلام کریں ، میں نے سلام کیا ، تو ان دونوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی ! خوش آمدید ، نبی صالح خوش آمدید ، پھر مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا ، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، پوچھا گیا ، کون ہے ؟ فرمایا : جبریل ، کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا : محمد (ﷺ) پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ، آنے والے کیا ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں ادھر پہنچا تو وہاں یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے بتایا ، یہ یوسف ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید ، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا ، حتیٰ کہ چوتھے آسمان پر پہنچے ، پھر دروازہ کھولنے کے لیے درخواست کی ، پوچھا کون ہے ؟ کہا : جبریل ، پوچھا گیا : آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا : محمد ﷺ ، پوچھا گیا : کیا ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ! کہا گیا : خوش آمدید ، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، جب میں وہاں پہنچا تو ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی ، تو انہوں نے کہا ، یہ ادریس ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا : صالح نبی خوش آمدید ، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتیٰ کہ وہ پانچویں آسمان پر پہنچے اور انہوں نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو ان سے پوچھا گیا ، آپ کون ہیں ؟ کہا : جبریل ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا : محمد ﷺ ، پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، پھر کہا گیا : خوش آمدید ، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی فرمایا : یہ ہارون ؑ ہیں انہیں سلام کریں ، پس میں نے انہیں سلام کیا ، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی ، اور نبی صالح خوش آمدید ، پھر وہ مجھے اور اوپر لے گئے ، حتیٰ کہ ہم چھٹے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، انہوں نے پوچھا : کون ہیں ؟ فرمایا : جبریل ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا : محمد ﷺ ، پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا ، خوش آمدید ، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں ، دروازہ کھول دیا گیا ، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں موسی ؑ تشریف فرما تھے ، جبریل ؑ نے فرمایا : یہ موسیٰ ہیں ، انہیں سلام کریں ، میں نے انہیں سلام کیا ، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید جب میں ان سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے ، ان سے پوچھا گیا : آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوجوان میرے بعد مبعوث کیا گیا ، اور اس کی امت کے جنت میں جانے والے افراد ، میری امت کے جنت میں جانے والے افراد سے زیادہ ہوں گے ، پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا ، جبریل ؑ نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی ، تو پوچھا گیا : آپ کون ہیں ؟ فرمایا : جبریل ، پوچھا گیا ، آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا : محمد ﷺ ، پوچھا گیا ، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : ہاں ، کہا گیا : خوش آمدید ، کتنے ہی اچھے ہیں آنے والے ؟ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ابراہیم ؑ تشریف فرما تھے ، جبریل نے فرمایا ، یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ ہیں ، انہیں سلام کریں ، چنانچہ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا : صالح بیٹے اور صالح نبی خوش آمدید ، پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا ، اس کے میوے (بیر) حجر کے مٹکوں کی طرح تھے ، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے ، انہوں نے بتایا ، یہ سدرۃ المنتہی ہے ، وہاں چار نہریں تھیں : دو باطنی تھیں اور دو ظاہری تھیں میں نے کہا : جبریل ! یہ دو چیزیں کیا ہیں ، انہوں نے فرمایا : دو باطنی نہریں ، یہ دو نہریں جنت میں بہتی ہیں ، اور دو ظاہری نہریں ، اور یہ نیل و فرات ہیں ، پھر مجھے بیت المعمور کی طرف لے جایا گیا ، پھر میرے پاس شراب ، دودھ اور شہد کا برتن لایا گیا ، میں نے دودھ والا برتن اٹھا لیا ، انہوں نے فرمایا : یہ وہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے ، پھر مجھ پر دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں ، میں واپس آیا اور موسی ؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا : آپ ﷺ کو کیا حکم ملا ہے ؟ میں نے کہا : مجھے ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، انہوں نے فرمایا : آپ ﷺ کی امت ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی ، اللہ کی قسم ! میں آپ ﷺ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں ، اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے ، آپ اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں ، میں دوبارہ گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں ، پھر میں موسی ؑ کے پاس آیا ، انہوں نے پھر وہی بات کی ، میں پھر حاضر خدمت ہوا ، اللہ تعالیٰ نے پھر دس نمازوں کی تخفیف فرما دی ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی ، میں پھر حاضر خدمت ہوا ، اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات دہرائی ، میں پھر اللہ کے پاس گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں ، اور مجھے ہر روز دس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر ویسے ہی فرمایا ، میں پھر (رب کے حضور) گیا تو مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا : آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے ؟ میں نے کہا : مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، انہوں نے فرمایا : آپ ﷺ کی امت ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی ، کیونکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے ، آپ اپنے رب کے پاس پھر جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں ، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنے رب سے (تخفیفِ نماز کے لیے اتنی مرتبہ) سوال کیا ہے لہذا اب مجھے حیا آتی ہے ، اب میں راضی ہوں اور تسلیم کرتا ہوں ، فرمایا : جب میں وہاں سے چلا تو آواز دینے والے نے آواز دی ، میں نے (پانچ نمازوں کا) اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف فرما دی ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5862

وَعَن ثابتٍ البُنانيِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُتيتُ بالبُراق وَهُوَ دابَّة أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ يَقَعُ حَافِرُهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ فَرَكِبْتُهُ حَتَّى أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي تَرْبُطُ بِهَا الْأَنْبِيَاءُ» . قَالَ: ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثمَّ خرجتُ فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لبن فاختَرتُ اللَّبن فَقَالَ جِبْرِيل: اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ . وَسَاقَ مِثْلَ مَعْنَاهُ قَالَ: «فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ فرحَّبَ بِي وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ» . وَقَالَ فِي السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ: «فَإِذا أَنا بِيُوسُف إِذا أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ بِي وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ» . وَلَمْ يَذْكُرْ بُكَاءَ مُوسَى وَقَالَ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ: فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ ثمَّ ذهب بِي إِلَى سِدْرَة الْمُنْتَهى فَإِذا وَرقهَا كآذان الفيلة وَإِذا ثمارها كَالْقِلَالِ فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشَّى تَغَيَّرَتْ فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا وَأَوْحَى إِلَيَّ مَا أوحى فَفرض عَليّ خمسين صَلَاة كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلَاة كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ. قَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَإِنِّي بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ. قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي فَقُلْتُ: يَا رَبِّ خَفِّفْ عَلَى أُمَّتِي فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقُلْتُ: حَطَّ عَنِّي خَمْسًا. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ . قَالَ: فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي وَبَيْنَ مُوسَى حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ لَهُ شَيْئًا فَإِنَّ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً . قَالَ: فَنَزَلْتُ حَتَّى انتهيتُ إِلى مُوسَى فَأَخْبَرته فَقَالَ: ارجعْ إِلى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقُلْتُ: قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حَتَّى استحييت مِنْهُ . رَوَاهُ مُسلم

ثابت بنانی ؒ انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے پاس براق لائی گئی ، وہ سفید لمبا چوپایہ تھا ، جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا ، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی ، میں اس پر سوار ہوا ، اور بیت المقدس پہنچا وہاں میں نے اسے اس حلقے (کنڈے) کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ انبیا ؑ اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے ۔‘‘ فرمایا :’’ پھر میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں دو رکعتیں پڑھیں ، پھر وہاں سے نکلا تو جبریل ؑ میرے پاس ایک برتن شراب اور ایک برتن دودھ کا لائے تو میں نے دودھ کا برتن منتخب کیا ، اس پر جبرائیل ؑ نے فرمایا : آپ نے فطرت کا انتخاب فرمایا ہے ، پھر ہمیں آسمان کی طرف لے جایا گیا ۔‘‘ اس کے بعد راوی نے حدیث سابق کے ہم معنی روایت بیان کی ، فرمایا :’’ میں آدم ؑ سے ملا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا ، اور میرے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی ۔‘‘ اور فرمایا :’’ تیسرے آسمان پر یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی ، ان کی شان یہ ہے کہ انہیں نصف حسن عطا کیا گیا ہے ، انہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا ، اور دعائے خیر فرمائی ۔‘‘ اس روایت میں راوی نے موسی ؑ کے رونے کا ذکر نہیں کیا ، اور فرمایا :’’ ساتویں آسمان پر ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی ، آپ بیت المعمور سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ، وہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر دوبارہ ان کی باری نہیں آتی ، پھر مجھے سدرۃ المنتہی لے جایا گیا ، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے ، جبکہ اس کا پھل مٹکوں کی طرح تھا ، جب اس کو اللہ کے حکم سے جس چیز نے ڈھانپنا تھا ڈھانپ لیا ، تو اس کی حالت بدل گئی ، اللہ کی مخلوق میں سے اس کے حسن کی کوئی تعریف بیان نہیں کر سکتا ، چنانچہ اس نے میری طرف جو وحی کرنی تھی ، وہ کر دی ، اور دن رات میں مجھ پر پچاس نمازیں فرض کر دی گئیں ، میں (یہ حکم لے کر) موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا : آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا : ہر روز پچاس نمازیں ، انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی ، کیونکہ میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور ان کا تجربہ کر چکا ہوں ۔‘‘ فرمایا :’’ میں اپنے رب کے پاس گیا ، تو عرض کیا ، رب جی ! میری امت پر تخفیف فرمائیں ، مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دی گئیں ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہیں بتایا کہ مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دی گئیں ہیں ، انہوں نے فرمایا : آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ، آپ اپنے رب کے پاس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں اپنے رب اور موسی ؑ کے درمیان آتا جاتا رہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : محمد ! ہر روز یہ پانچ نمازیں ہیں ، اور ہر نماز کے لیے دس گنا اجر ہے ، اس طرح یہ پچاس نمازیں ہوئیں ، جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور وہ اسے نہ کر سکے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے ، اور اگر وہ اس نیکی کو کر لے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں ، اور جو شخص کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے لیکن وہ اس برائی کا ارتکاب نہیں کرتا تو اس کے لیے کچھ بھی نہیں لکھا جاتا ، اور اگر وہ اس کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس کے لیے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نیچے آیا حتیٰ کہ موسی ؑ کے پاس آ کر انہیں بتایا تو انہوں نے پھر بھی یہی فرمایا : اپنے رب کے پاس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے کہا : میں اتنی بار اپنے رب کے پاس گیا ہوں لہذا اب مجھے (اس تخفیف کی درخواست کرتے ہوئے) حیا آتی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5863

وَعَن ابْن شهَاب عَن أنسٍ قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُرِجَ عني سقفُ بَيْتِي وَأَنا بِمَكَّة فَنزل جِبْرِيل فَفَرَجَ صَدْرِي ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٌ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهُ فِي صَدْرِي ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ أَخَذَ بيَدي فعرج بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا. قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ: افْتَحْ. قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ جِبْرِيلُ. قَالَ: هَل مَعَك أحد؟ قَالَ: نعم معي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ فَلَمَّا فَتَحَ عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا إِذَا رَجُلٌ قَاعِدٌ عَلَى يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ وَعَلَى يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ إِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شَمَالِهِ بَكَى فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ. قُلْتُ لِجِبْرِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ فَأَهْلُ الْيَمين مِنْهُم أهل الْجنَّة والأسودة عَن شِمَاله أهلُ النَّار فَإِذا نظر عَن يَمِينِهِ ضَحِكَ وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شَمَالِهِ بَكَى حَتَّى عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَقَالَ لِخَازِنِهَا: افْتَحْ فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُ قَالَ أَنَسٌ: فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَاوَاتِ آدَمَ وَإِدْرِيسَ وَمُوسَى وَعِيسَى وَإِبْرَاهِيمَ وَلَمْ يُثْبِتْ كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَبَّةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولَانِ. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «ثمَّ عرج بِي حَتَّى وصلت لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ» وَقَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَأَنَسٌ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى. فَقَالَ: مَا فَرْضُ اللَّهِ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلَاةً. قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِن أُمَّتكَ لَا تطِيق فراجعت فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقُلْتُ: وَضَعَ شَطْرَهَا فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَاجَعْتُهُ فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ. فَقُلْتُ: اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي ثُمَّ انْطُلِقَ بِي حَتَّى انْتُهِيَ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ؟ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ

ابن شہاب ، انس ؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا : ابوذر ؓ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں مکہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی تو جبریل ؑ نازل ہوئے انہوں نے میرا سینہ چاک کیا ، پھر اسے آب زم زم کے ساتھ دھویا ، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھری ہوئی سونے کی طشت لائے ، اسے میرے سینے میں ڈال دیا ، پھر اسے جوڑ دیا ، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے گئے ، جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل نے آسمان کے محافظ سے کہا ، دروازہ کھولو ، اس نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ فرمایا ، جبریل ، اس نے پوچھا : آپ کے ساتھ کوئی ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں ۔ اس نے پوچھا : کیا ان کی طرف بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، جب دروازہ کھول دیا گیا تو ہم آسمان دنیا پر چلے گئے ، وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا کچھ لوگ اس کے دائیں طرف تھے اور کچھ اس کے بائیں طرف ، جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب اپنی بائیں جانب دیکھتے تو رونا شروع کر دیتے ، انہوں نے کہا : خوش آمدید نبی صالح اور بیٹے صالح ، میں نے جبریل ؑ سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ آدم ؑ ہیں ، اور ان کے دائیں اور بائیں جانب جو گروہ ہیں ، یہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں ، ان کے دائیں طرف والا گروہ اہل جنت کا ہے ، اور ان کے بائیں طرف والا گروہ جہنمیوں کا ہے ، جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو مسکراتے ہیں ، اور جب اپنی بائیں جانب دیکھتے ہیں تو رو دیتے ہیں ، پھر مجھے دوسرے آسمان تک لے جایا گیا ، جبریل ؑ نے اس کے محافظ سے کہا : دروازہ کھولو ، اس کے محافظ نے بھی انہیں ویسے ہی کہا جیسا پہلے آسمان والے محافظ نے کہا تھا ۔‘‘ انس ؓ بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے ذکر فرمایا کہ انہوں نے آسمانوں میں آدم ، ادریس ، موسیٰ ، عیسیٰ اور ابراہیم ؑ سے ملاقات کی ، اور ابوذر ؓ نے یہ بیان نہیں کیا کہ ان کی منازل کیسی ہیں ، البتہ انہوں نے یہ ذکر کیا کہ آپ ﷺ نے آدم ؑ کو آسمان دنیا پر اور ابراہیم ؑ کو چھٹے آسمان پر پایا ، ابن شہاب نے بیان کیا ، ابن حزم نے مجھے خبر دی کہ ابن عباس اور ابوحبہ انصاری ؓ دونوں بیان کیا کرتے تھے ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتیٰ کہ میں اس قدر بلند جگہ پر پہنچ گیا کہ میں قلموں کے لکھنے کی آواز سنتا تھا ۔‘‘ ابن حزم اور انس ؓ نے بیان کیا ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں ، میں یہ (حکم) لے کر واپس ہوا ، اور میرا گزر موسی ؑ کے پاس سے ہوا تو انہوں نے فرمایا : اللہ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا : پچاس نمازیں ، انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت طاقت نہیں رکھے گی ، انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا ، تو اللہ تعالیٰ نے ان (نمازوں) کا کچھ حصہ کم کر دیا ، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو میں نے بتایا کہ اس نے ان میں سے کچھ کم کر دی ہیں ، انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکے گی ، میں واپس گیا اور اپنی بات دہرائی تو اس نے ان میں سے کچھ اور کم کر دیں ، میں پھر ان کے پاس واپس آیا ، تو انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی ، میں نے پھر اس سے درخواست کی تو اس نے فرمایا : وہ (ادائیگی میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) وہ پچاس ہیں میرے ہاں بات تبدیل نہیں کی جاتی ، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس پھر جائیں ، میں نے کہا : مجھے اپنے رب کے (پاس بار بار جانے) سے شرم آتی ہے ، پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا ، کئی رنگوں نے اسے ڈھانپ رکھا تھا ، میں نہیں جانتا وہ کیا ہیں ؟ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا ، وہاں موتیوں کے گنبد تھے اور اس کی مٹی کستوری کی تھی ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5864
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ کو معراج کرائی گئی تو انہیں سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا ، وہ چھٹے آسمان پر ہے ، زمین سے اوپر جانے والی ہر چیز کی حد یہاں تک ہے ، اسی مقام سے احکامات لئے جاتے ہیں اور اوپر سے جو حکم آتا ہے وہ یہیں آ کر رکتا ہے ، اور پھر یہاں سے احکام لیے جاتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس چیز نے سدرہ کو ڈھانپنا تھا اس نے اسے ڈھانپ رکھا تھا ۔‘‘ ابن مسعود ؓ نے بیان کیا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ سونے کے پروانے اور پتنگے تھے ۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں ، آپ کو پانچ نمازیں عطا کی گئیں ، سورہ بقرہ کی آخری آیات اور آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے جیسے کبیرہ گناہ نہیں کرے گا اس کو بخش دیا جائے گا ۔ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5865

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا فَكُرِبْتُ كَرْبًا مَا كُرِبْتُ مِثْلَهُ فَرَفَعَهُ اللَّهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي. فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جعد كَأَنَّهُ أَزْد شَنُوءَةَ وَإِذَا عِيسَى قَائِمٌ يُصَلِّي أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شبها عروةُ بن مسعودٍ الثَّقفيُّ فإِذا إِبْرَاهِيمُ قَائِمٌ يُصَلِّي أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ - يَعْنِي نَفْسَهُ - فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ لِي قَائِلٌ: يَا مُحَمَّدُ هَذَا مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَهَذَا الْبَابُ خَالٍ عَنِ: الْفَصْلِ الثَّانِي

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے اپنے آپ کو حجر (حطیم) میں (کھڑے ہوئے) دیکھا ، جبکہ قریش مجھ سے میرے سفر معراج کے متعلق سوال کر رہے تھے ، انہوں نے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کے متعلق مجھ سے سوالات کیے لیکن مجھے وہ یاد نہیں تھیں ، میں اس قدر غمگین ہوا کہ اس طرح کا غم مجھے کبھی نہیں ہوا تھا ، چنانچہ اللہ نے اسے میری نظروں کے سامنے بلند کر دیا میں اسے دیکھ رہا تھا ، اس لئے وہ مجھ سے جس بھی چیز کے متعلق سوال کرتے تو میں انہیں بتا دیتا تھا ، میں نے اپنے آپ کو انبیا ؑ کی جماعت میں دیکھا ، میں نے اچانک موسی ؑ کو حالت قیام میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، ان کا قد میانہ ہے اور بال گھنگھریالے ہیں ، گویا وہ شنوءہ قبیلے کے آدمی ہیں ، پھر میں نے عیسیٰ ؑ کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، عروہ بن مسعود ثقفی ؓ کی ان سے بہت زیادہ مشابہت ہے ، اور ابراہیم ؑ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ، میں ان سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں ، نماز کا وقت ہوا تو میں نے ان کی امامت کرائی ، چنانچہ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو کسی کہنے والے نے مجھے کہا : محمد ! یہ جہنم کا داروغہ مالک ہے ، آپ اسے سلام کریں ، میں نے اس کی طرف توجہ کی تو اس نے مجھے سلام میں پہل کی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5866
جابر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جب قریش نے (واقعہ معراج کے متعلق) مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا ، اللہ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا ، چنانچہ میں نے اسے دیکھ کر اس کی علامات بیان کرنی شروع کر دیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5867