Blog
Books
Search Hadith

{وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا …} کی تفسیر

7 Hadiths Found
۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! یہ چار کلمات باقی رہنے والی نیکیاں ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور اللّٰہُ اَکْبَرُ۔

Haidth Number: 8666

۔ (۱۱۰۵۲)۔ حَدَّثَنَا بَہْزٌ وَأَبُو کَامِلٍ قَالَا: ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی عِمْرَانَ یَعْنِی الْجَوْنِیَّ عَنْ أَبِی عَسِیبٍ أَوْ أَبِی عَسِیمٍ قَالَ بَہْزٌ: إِنَّہُ شَہِدَ الصَّلَاۃَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالُوْا: کَیْفَ نُصَلِّی عَلَیْہِ، قَالَ: ادْخُلُوْا أَرْسَالًا أَرْسَالًا، قَالَ: فَکَانُوا یَدْخُلُونَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ فَیُصَلُّونَ عَلَیْہِ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ، قَالَ: فَلَمَّا وُضِعَ فِی لَحْدِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ الْمُغِیرَۃُ: قَدْ بَقِیَ مِنْ رِجْلَیْہِ شَیْئٌ لَمْ یُصْلِحُوہُ، قَالُوْا: فَادْخُلْ فَأَصْلِحْہُ، فَدَخَلَ وَأَدْخَلَ یَدَہُ فَمَسَّ قَدَمَیْہِ، فَقَالَ: أَہِیلُوْا عَلَیَّ التُّرَابَ، فَأَہَالُوْا عَلَیْہِ التُّرَابَ حَتَّی بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَیْہِ ثُمَّ خَرَجَ، فَکَانَ یَقُولُ: أَنَا أَحْدَثُکُمْ عَہْدًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۴۷)

سیدنا ابو عسیبیا ابو عسیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز جنازہ کے موقع پر حاضر تھے، بیان کرتے ہیں: صحابہ کہنے لگے کہ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نماز کیسے پڑھیں، انھوں نے کہا: تم گروہوں کی صورت میں اندر جاؤ، سو وہ اس دروازے سے داخل ہوتے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز ادا کرتے اور پھر دوسرے دروازے سے باہر چلے جاتے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو لحد میں رکھ دیا گیا، تو سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں کی جانب کچھ جگہ قابلِ اصلاح رہ گئی ہے، صحابہ نے ان سے کہا: تم لحد میں داخل ہو کر اسے ٹھیک کر آؤ، وہ اندر گئے، اپنا ہاتھ اندر داخل کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدم مبارک کو مس کیا اور ساتھ ہی کہا کہ تم میرے اوپر مٹی ڈال دو، صحابہ نے ان کے اوپر مٹی ڈال دی،یہاں تک کہ ان کی نصف پنڈلیوں تک مٹیآگئی، اس کے بعد وہ باہر آگئے، وہ کہا کرتے تھے تم سب کی نسبت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے آخر میں مس کرنے کا اعزاز حاصل کر چکا ہوں۔

Haidth Number: 11052

۔ (۱۱۰۵۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: اعْتَمَرْتُ مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِی زَمَانِ عُمَرَ أَوْ زَمَانِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَنَزَلَ عَلٰی أُخْتِہِ أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ عُمْرَتِہِ رَجَعَ فَسُکِبَ لَہُ غُسْلٌ فَاغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِہِ دَخَلَ عَلَیْہِ نَفَرٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ، فَقَالُوا: یَا أَبَا حَسَنٍ جِئْنَاکَ نَسْأَلُکَ عَنْ أَمْرٍ نُحِبُّ أَنْ تُخْبِرَنَا عَنْہُ، قَالَ: أَظُنُّ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَیُحَدِّثُکُمْ أَنَّہُ کَانَ أَحْدَثَ النَّاسِ عَہْدًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالُوا: أَجَلْ عَنْ ذٰلِکَ جِئْنَا نَسْأَلُکَ، قَالَ: أَحْدَثُ النَّاسِ عَہْدًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُثَمُ بْنُ الْعَبَّاسِ۔ (مسند احمد: ۷۸۷)

عبداللہ بن حارث سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دورِ خلافت میں سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں عمرہ کیا، آپ اپنی ہمشیرہ سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں مہمان ٹھہرے، جب آپ عمرہ سے فارغ ہوئے تو آپ کے غسل کے لیے پانی رکھا گیا، چنانچہ آپ نے غسل کیا، جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو عراق کے کچھ لوگ آپ سے ملنے آئے، انہوں نے کہا: اے ابو الحسن! ہم آپ سے ایک بات پوچھنے آئے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اس کے متعلق بتلائیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ لوگوں سے کہتے ہوں گے کہ ان کو سب سے آخر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے؟ ان لوگوں نے کہا: جی ہاں، ہم اسی کے متعلق آپ سے دریافت کرنے آئے ہیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے آخر میں سیدنا قثم بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے چھونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

Haidth Number: 11053

۔ (۱۱۹۵۰)۔ عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ، قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَفَرٍ، فَقَالَ: (( إِنَّکُمْ إِنْ لَا تُدْرِکُوْا الْمَائَ غَدًا تَعْطَشُوْا، وَانْطَلَقَ سَرَعَانُ النَّاسِ یُرِیدُونَ الْمَائَ، وَلَزِمْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَالَتْ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَاحِلَتُہُ فَنَعَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَمْتُہُ فَأَدْعَمَ، ثُمَّ مَالَ فَدَعَمْتُہُ فَأَدْعَمَ، ثُمَّ مَالَ حَتّٰی کَادَ أَنْ یَنْجَفِلَ عَنْ رَاحِلَتِہِ فَدَعَمْتُہُ فَانْتَبَہَ، فَقَالَ: ((مَنِ الرَّجُلُ؟)) قُلْتُ: أَبُو قَتَادَۃَ، قَالَ: ((مُذْ کَمْ کَانَ مَسِیرُکََ۔)) قُلْتُ: مُنْذُ اللَّیْلَۃِ، قَالَ: ((حَفِظَکَ اللّٰہُ کَمَا حَفِظْتَ رَسُولَہُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((لَوْ عَرَّسْنَا۔)) فَمَالَ إِلٰی شَجَرَۃٍ فَنَزَلَ فَقَالَ: ((انْظُرْ ہَلْ تَرٰی أَحَدًا؟)) قُلْتُ: ہٰذَا رَاکِبٌ ہٰذَانِ رَاکِبَانِ حَتّٰی بَلَغَ سَبْعَۃً، فَقَالَ: ((احْفَظُوْا عَلَیْنَا صَلَاتَنَا۔)) فَنِمْنَا فَمَا أَیْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ فَانْتَبَہْنَا فَرَکِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَارَ وَسِرْنَا ہُنَیْہَۃً ثُمَّ نَزَلَ فَقَالَ: ((أَمَعَکُمْ مَائٌ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، مَعِی مِیضَأَۃٌ فِیہَا شَیْئٌ مِنْ مَائٍ، قَالَ: ((ائْتِ بِہَا؟)) فَأَتَیْتُہُ بِہَا فَقَالَ: ((مَسُّوْا مِنْہَاَ، مَسُّوْا مِنْہَا۔)) فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ وَبَقِیَتْ جَرْعَۃٌ فَقَالَ: ((ازْدَہِرْ بِہَا یَا أَبَا قَتَادَۃَ! فَإِنَّہُ سَیَکُونُ لَہَا نَبَأٌ۔)) ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ وَصَلَّوُا الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، ثُمَّ صَلَّوُا الْفَجْرَ، ثُمَّ رَکِبَ وَرَکِبْنَا فَقَالَََََ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: فَرَّطْنَا فِی صَلَاتِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا تَقُولُونَ؟ إِنْ کَانَ أَمْرَ دُنْیَاکُمْ فَشَأْنُکُمْ، وَإِنْ کَانَ أَمْرَ دِینِکُمْ فَإِلَیَّ۔)) قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَرَّطْنَا فِی صَلَاتِنَا، فَقَالَ: ((لَا تَفْرِیطَ فِی النَّوْمِ، إِنَّمَا التَّفْرِیطُ فِی الْیَقَظَۃِ، فَإِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَصَلُّوہَا وَمِنَ الْغَدِ وَقْتَہَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((ظُنُّوْا بِالْقَوْمِ۔)) قَالُوْا: إِنَّکَ قُلْتَ بِالْأَمْسِ: ((إِنْ لَا تُدْرِکُوا الْمَائَ غَدًا تَعْطَشُوا۔)) فَالنَّاسُ بِالْمَائِ، فَقَالَ: أَصْبَحَ النَّاسُ وَقَدْ فَقَدُوا نَبِیَّہُمْ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَائِ وَفِی الْقَوْمِ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَا: أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَکُنْ لِیَسْبِقَکُمْ إِلَی الْمَائِ وَیُخَلِّفَکُمْ، وَإِنْ یُطِعِ النَّاسُ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ یَرْشُدُوْا قَالَہَا ثَلَاثًا، فَلَمَّا اشْتَدَّتِ الظَّہِیرَۃُ رَفَعَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ہَلَکْنَا عَطَشًا تَقَطَّعَتِ الْأَعْنَاقُ، فَقَالَ: ((لَا ہُلْکَ عَلَیْکُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا أَبَا قَتَادَۃَ ائْتِ بِالْمِیضَأَۃِ۔)) فَأَتَیْتُہُ بِہَا فَقَالَ: ((احْلِلْ لِی غُمَرِی۔)) یَعْنِی قَدَحَہُ، فَحَلَلْتُہُ فَأَتَیْتُہُ بِہِ فَجَعَلَ یَصُبُّ فِیہِ وَیَسْقِی النَّاسَ فَازْدَحَمَ النَّاسُ عَلَیْہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَحْسِنُوا الْمَلَأَ فَکُلُّکُمْ سَیَصْدُرُ عَنْ رِیٍّ۔)) فَشَرِبَ الْقَوْمُ حَتّٰی لَمْ یَبْقَ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَبَّ لِیََََ فَقَالَ: ((اشْرَبْ یَا أَبَا قَتَادَۃَ!۔)) قَالَ: قُلْتُ: اشْرَبْ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((إِنَّ سَاقِیَ الْقَوْمِ آخِرُہُمْ۔)) فَشَرِبْتُ وَشَرِب بَعْدِی وَبَقِیَ فِی الْمِیضَأَۃِ نَحْوٌ مِمَّا کَانَ فِیہَا، وَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَلَاثُ مِائَۃٍ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَسَمِعَنِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ وَأَنَا أُحَدِّثُ ہٰذَا الْحَدِیثَ فِی الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ، فَقَالَ: مَنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِیُّ، قَالَ الْقَوْمُ: أَعْلَمُ بِحَدِیثِہِمْ انْظُرْ کَیْفَ تُحَدِّثُ فَإِنِّی أَحَدُ السَّبْعَۃِ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ قَالَ: مَا کُنْتُ أَحْسِبُ أَنَّ أَحَدًا یَحْفَظُ ہٰذَا الْحَدِیثَ غَیْرِیْ، قَالَ حَمَّادٌ: وَحَدَّثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیلُ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْمُزَنِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمِثْلِہِ وَزَادَ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا عَرَّسَ وَعَلَیْہِ لَیْلٌ تَوَسَّدَ یَمِینَہُ، وَإِذَا عَرَّسَ الصُّبْحَ وَضَعَ رَأْسَہُ عَلٰی کَفِّہِ الْیُمْنٰی وَأَقَامَ سَاعِدَہُ۔ (مسند احمد: ۲۲۹۱۳)

سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا: اگر تمہیں کل پانی نہ ملا تو تم پیاسے رہو گے۔ تیز رفتار لوگ آگے چلے گئے تاکہ پانی تلاش کریں۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری آپ کو لیے راستے سے ایک طرف ہٹ گئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سواری پر ہی اونگھ آگئی، میں نے آپ کو ذراآسرا دے کر سیدھا کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدھے ہوگئے، اس کے بعد پھر جھک گئے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدھا کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدھے ہوگئے، اس کے بعد پھر اونگھ کی وجہ سے اس قدر جھکے یا آپ کو جھٹکا لگا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری سے گرنے کے قریب ہوگئے، میں نے آپ کو سیدھا کیا تو آپ متنبہ ہوئے اور دریافت کیا: تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا: جی میں ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کب سے اس طرح میرے ساتھ چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: ساری رات اسی طرح گزر گئی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے جس طرح اللہ کے رسول کی حفاظت کی، اللہ تمہاری حفاظت کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہتر ہوگا کہ ہم کہیں رک کر آرام کر لیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک درخت کی طرف گئے اور وہاں اترے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ذرا دیکھو کوئی آدمی دکھائی دیتا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ ایک سوار آرہا ہے، یہ دو سوار آرہے ہیں،یہاں تک کہ آنے والوں کی تعداد سات ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہمارے لیے نماز کے وقت کا خیال رکھنا۔ پھر ہم سو گئے اور اس قدر سوئے کہ سورج کی تمازت نے ہمیں بیدار کیا، ہم بیدار ہوئے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہو کر روانہ ہوئے، ہم بھی آپ کے ساتھ کچھ دور تک گئے، اس کے بعد آپ سواری سے نیچے اترے اور دریافت فرمایا: کیا تمہارے پاس پانی موجود ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، میرے پاس وضو کے برتن میں کچھ پانی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی لے آئو۔ میں پانی کا برتن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے کر آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے پانی لے کر وضو کر لو۔ چنانچہ لوگوں نے وضو کیا، برتن میں ایک گھونٹ جتنا پانی باقی رہ گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابو قتادہ! اسے محفوظ کرلو، عنقریب اس گھونٹ کی بڑی شان ہوگی۔ پھر سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اذان کہی اور سب نے فجر سے پہلی د ورکعتیں ادا کیں اور پھر فجر کی نماز با جماعت ادا کی۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہوئے اور ہم بھی سوار ہوگئے، ہم میں سے بعض لوگوں نے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے نماز کے بارے میں بڑی کوتاہی سرزد ہو گئی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: کیا باتیں کر رہے ہو؟ اگر دنیاوی باتیں ہیں توتم جانو اور تمہارا کام اور اگر دین کی کوئی بات ہے تو مجھ سے کرو۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!ہم سے نماز کے بارے میں بہت بڑی کوتاہی سر زد ہوئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نیند کے سبب نماز میںتاخیر ہو جانا کوتاہی نہیں، کوتاہی تو اس صورت میں ہوتی ہے جب آدمی بیدار ہو اور نماز کو لیٹ کر دے، جب ایسی صورت حال پیش آجائے تو اسی وقت نماز ادا کر لو اور آئندہ اس نماز کو اس کے اپنے مقرر وقت پر ادا کرو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو لوگ آگے گئے ہوئے ہیں، ان کے بارے میں اندازہ کرو کہ وہ اس وقت کہاں پہنچ چکے ہوں گے؟ صحابۂ کرام نے گزارش کی کہ آپ ہی نے توکل ارشاد فرمایا تھا کہ اگر کل تمہیں پانی نہ ملا تو پیاسے رہو گے۔ اس لیے لوگ پانی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے پاس موجود نہ پایا، پس وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی پانی والے مقام پر ہوں گے۔ ان لوگوں میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی موجود تھے، ان دونوں حضرات نے کہا: لوگو! یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہیں پیچھے چھوڑ کر خود پہلے پانی کے مقام پر چلے جائیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے تین بار فرمایا کہ اگر لوگ ابو بکر اور عمر کی بات مان لیں تو اچھے رہیں گے۔ جب دھوپ خوب چڑھ گئی اور گرمی شدید ہوگئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے سامنے نمودار ہوئے تو لوگ چیخ اٹھے کہ: اے اللہ کے رسول! ہم تو پیاسے مر گئے اور پیاس کی شدت سے ہماری گردنیں کٹنے کو ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا: تمہارے اوپر ہلاکت نہیں آئے گی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : اے ابو قتادہ! پانی والا برتن لے آئو۔ میں وہ برتن لے کر آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ تم میرا پیالہ کھول کر لے آئو۔ میں نے اسے کھول کر آپ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ اس برتن میں سے پانی کو اس پیالے میں انڈیل انڈیل کر لوگوں کو پلانے لگے۔ آپ کے اردگرد لوگوں کا ہجوم ہوگیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے اچھا برتائو کرو عنقریب تم میں سے ہر کوئی سیراب ہو کر جائے گا۔ چنانچہ سب لوگوں نے پانی نوش کر لیا صرف میں اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی باقی رہ گئے۔ تو آپ نے میرے لیے پیالے میں انڈیلا اور فرمایا ابو قتادہ! ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لو یہ نوش کرو۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! پہلے آپ نوش فرمائیں۔ آپ نے فرمایا دوسروں کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے۔ چنانچہ میں نے پانی پیا اور میرے بعد آپ نے نوش کیا۔ اوربرتن میں پانی اتنا بچ رہا جتنا اس میں پہلے سے تھا۔ اس دن لوگوں کی تعداد تین سو تھی۔عبداللہ سے مروی ہے کہ میں جامع مسجد میں یہ حدیث بیان کر رہا تھا کہ عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میری آواز سن لی۔ انھوں نے کہا کہ بیان کرنے والا آدمی کون ہے؟میں نے عرض کیا کہ میں عبداللہ بن رباح انصاری ہوں۔ تو انہوںنے فرمایا کہ قوم کے افراد ہی اپنی بات کو بہتر طور پر جانتے ہوتے ہیں۔ بہر حال تم ذرا خیال کرکے بیان کرو۔ اس رات جمع ہونے والے سات افراد میں سے ایک میں بھی ہوں جب میں حدیث بیان کرکے فارغ ہوا تو انہوںنے فرمایا کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ اس حدیث کو میرے سوا کوئی دوسرا بھییاد رکھتا ہوگا۔ حماد بن سلمہ نے بیان کیا کہ ہم سے اس حدیث کو حمید طویل نے بکر بن عبداللہ مزنی سے انہوںنے عبداللہ بن رباح سے انہوںنے ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسے اسی طرح بیان کیا۔ اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب رات کو آرام کی غرض سے کہیں ٹھہرتے اور رات کا کچھ حصہ باقی ہوتا تو اپنے داہنے ہاتھ کو تکیہ کے طور پر استعمال کرتے اورجب صبح بالکل قریب ہوتی تو اپنا سر اپنی داہنی ہتھیلی پر رکھ کر اپنے بازو کو سیدھا اوپر کو کھڑا کر لیتے۔

Haidth Number: 11950
Haidth Number: 11951
Haidth Number: 11952
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بھی بہتر آدمییعنی سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا تھا: تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔

Haidth Number: 11953