Blog
Books
Search Hadith

{وَھُوَ الَّذِیْنَ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ…} کی تفسیر

4 Hadiths Found
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ والے دن مکہ والوں میں سے اسی (۸۰) ہتھیاروں سے لیس آدمی تنعیم پہاڑ کی جانب سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر چڑھ آئے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر بددعا کی، پس ان کو گرفتا کر لیا گیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: { وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَ یْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَ ظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ} … وہی ہے جس نے خاص مکہ میںکافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا، اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا۔

Haidth Number: 8756

۔ (۸۷۵۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِیِّ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْحُدَیْبِیَۃِ فِی أَصْلِ الشَّجَرَۃِ الَّتِی قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی الْقُرْآنِ، وَکَانَ یَقَعُ مِنْ أَ غْصَانِ تِلْکَ الشَّجَرَۃِ عَلٰی ظَہْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَعَلِیُّ بْنُ أَ بِی طَالِبٍ وَسُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو بَیْنَیَدَیْہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔)) فَأَخَذَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو بِیَدِہِ، فَقَالَ: مَا نَعْرِفُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ اکْتُبْ فِی قَضِیَّتِنَا مَا نَعْرِفُ، قَالَ: ((اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ۔)) فَکَتَبَ: ((ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ ہْلَ مَکَّۃَ۔)) فَأَ مْسَکَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو بِیَدِہِ وَقَالَ: لَقَدْ ظَلَمْنَاکَ إِنْ کُنْتَرَسُولَہُ، اکْتُبْ فِی قَضِیَّتِنَا مَا نَعْرِفُ فَقَالَ: ((اکْتُبْ ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَ نَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔)) فَکَتَبَ فَبَیْنَا نَحْنُ کَذٰلِکَ إِذْ خَرَجَ عَلَیْنَا ثَلَاثُونَ شَابًّا عَلَیْہِمُ السِّلَاحُ، فَثَارُوْا فِی وُجُوہِنَا، فَدَعَا عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَ خَذَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِأَبْصَارِہِم، فَقَدِمْنَا إِلَیْہِمْ فَأَخَذْنَاہُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہَلْ جِئْتُمْ فِی عَہْدِ أَحَدٍ أَوْ ہَلْ جَعَلَ لَکُمْ أَ حَدٌ أَ مَانًا؟)) فَقَالُوْا: لَا، فَخَلّٰی سَبِیلَہُمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَ یْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَ ظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ، وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرًا} [الفتح: ۲۴]۔ (مسند احمد: ۱۶۹۲۳)

۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس درخت کی جڑ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے، جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے، اس درخت کی شاخیں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کمر مبارک پر پڑ رہی تھیں، سیدنا علی ابن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: (معاہدہ لکھو)، لکھو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔ لیکن سہیل بن عمرو نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ہم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کونہیں جانتے، ہمارے صلح کے فیصلہ میں وہ لکھو جو ہم جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (چلو) بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لکھوایا کہ یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مکہ والوں سے صلح کی ہے۔ لیکن سہیل نے اس بار پھر ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم نے آپ کو روک کر آپ پر ظلم کیا ہے، ہم آپ کی رسالت کو نہیں مانتے، ہمارے اس صلح نامہ میں لکھو جو ہم پہنچانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (ٹھیک ہے) لکھو، یہ وہ معاہدہ ہے، جس پر محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب نے صلح کی ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھ دو، لکھ دو، جبکہ میں واقعی اللہ کا رسول ہوں اور میں محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ ہم صلح کییہ شرائط لکھ رہے تھے کہ تیس (۳۰) نوجوان مسلح ہو کر ہمارے سامنے سے آ گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان پر بددعا کی، اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی ختم کر دی اور ہم نے آگے بڑھ کر ان کو گرفتار کر لیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم کسی کے عہد میں ہو، کیا کسی نے تم کو امان دی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں چھوڑ دیا اوراللہ تعالی نے یہ آیت اتاری:{ وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَ یْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَ ظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرًا۔} … وہی ہے جس نے خاص مکہ میںکافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا، اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا اور تم جو کچھ کر رہے ہو، اللہ تعالی اسے دیکھ خوب رہا ہے۔

Haidth Number: 8757

۔ (۱۱۳۶۷)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: تَمَتَّعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ وَأَہْدٰی فَسَاقَ مَعَہُ الْہَدْیَ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃَ، وَبَدَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَہَلَّ بِالْعُمْرَۃِ، ثُمَّ أَہَلَّ بِالْحَجِّ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ، فَإِنَّ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَہْدٰی فَسَاقَ الْہَدْیَ وَمِنْہُمْ مَنْ لَمْ یُہْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِلنَّاسِ: ((مَنْ کَانَ مِنْکُمْ أَہْدٰی فَإِنَّہُ لَا یَحِلُّ مِنْ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ حَتّٰییَقْضِیَ حَجَّہ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مِنْکُمْ أَہْدٰی فَلْیَطُفْ بِالْبَیْتِ وَبالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَلْیُقَصِّرْ وَلْیَحْلِلْ، ثُمَّ لِیُہِلَّ بِالْحَجِّ وَلْیُہْدِ، فَمَنْ لَمْ یَجِدْ ہَدْیًا فَلْیَصُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ وَسَبْعَۃً إِذَا رَجَعَ إِلٰی أَہْلِہِ۔)) وَطَافَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ قَدِمَ مَکَّۃَ اسْتَلَمَ الرُّکْنَ أَوَّلَ شَیْئٍ ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَۃَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْعِ وَمَشٰی أَرْبَعَۃَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ رَکَعَ حِیْنَ قَضٰی طَوَافَہُ بِالْبَیْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَانْصَرَفَ، فَأَتَی الصَّفَا فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ ثُمَّ لَمْ یَحْلِلْ مِنْ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ حَتّٰی قَضٰی حَجَّہُ وَنَحَرَ ہَدْیَہُیَوْمَ النَّحْرِ وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَیْتِ ثُمَّ حَلَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ، وَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْ أَہْدٰی وَسَاقَ الْہَدْیَ مِنَ النَّاسِ۔ (مسند احمد: ۶۲۴۷)

سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر حج کے ساتھ عمرہ کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذوالحلیفہ سے قربانی کا جانور ہمراہ لے گئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احرام کے دوران پہلے عمرہ اور پھر حج کا تلبیہ پڑھا اور لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں حج کے ساتھ عمرہ بھی کیا، کچھ لوگ تو قربانی کا جانور ہمراہ لے گئے تھے، لیکن کچھ لوگوں کے پاس قربانی کے جانور نہیں تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے فرمایا: جن کے ساتھ قربانی کا جانور ہے، ان پر احرام کی وجہ سے جو حلال چیز حرام ہو چکی ہے، وہ حج پورا ہونے تک حلال نہیں ہو گی، لیکن جن کے ہمراہ قربانی کا جانور نہیں ہے، وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد بال کٹوا کر احرام کھول دیں، پھر وہ حج کے لیے علیحدہ احرام باندھیں گے اور قربانی کریں گے، جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین روزے حج کے ایام میںاور سات روزے گھر جا کر رکھے گا۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا، سب سے پہلے حجر اسود کا بوسہ لیا، اس کے بعد بیت اللہ کے گرد سات چکروں میں سے پہلے تین میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رمل کیا اور باقی چار میں عام رفتار سے چلے، طواف مکمل کرنے کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقام ابراہیم کے قریب دو رکعتیں ادا کی اور جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو صفا پر تشریف لے گئے، اور صفا مروہ کی سعی کی اور حج سے فارغ ہونے تک احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی کوئی چیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر حلال نہ ہوئی، دس ذوالحجہ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قربانی کی اور بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی ہر چیز حلال ہو گئی،جو لوگ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، انھوں نے بھی اسی طرح کے اعمال سرانجام دیئے، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ادا کیے تھے۔

Haidth Number: 11367
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا اور اپنی چھڑی کے ساتھ حجر اسود کا استلام کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں تشریف لائے، جہاں زمزم کا پانی پلایا جا رہا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے بھی پلائو۔ انہوں نے کہا: اس پانی کو تو لوگ متأثر کرتے رہتے ہیں، ہم آپ کے لیے گھر سے (صاف) پانی لے آتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی ضرورت نہیںہے، جہاں سے لوگ پی رہے ہیں، وہیں سے مجھے بھی پلا دیں۔

Haidth Number: 11368