Blog
Books
Search Hadith

اس آدمی کا بیان جس نے اپنے باپ کے فدیے میں چار ہزار درہم دیئے

19 Hadiths Found

۔ (۵۰۸۹)۔ عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ: قَالَ أَبُو رَافِعٍ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : کُنْتُ غُلَامًا لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَکَانَ الْإِسْلَامُ قَدْ دَخَلَنَا، فَأَسْلَمْتُ وَأَسْلَمَتْ أُمُّ الْفَضْلِ، وَکَانَ الْعَبَّاسُ قَدْ أَسْلَمَ وَلٰکِنَّہُ کَانَ یَہَابُ قَوْمَہُ، وَکَانَ یَکْتُمُ إِسْلَامَہُ، وَکَانَ أَبُو لَہَبٍ عَدُوُّ اللّٰہِ، قَدْ تَخَلَّفَ عَنْ بَدْرٍ، وَبَعَثَ مَکَانَہُ الْعَاصَ بْنَ ہِشَامِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ، وَکَذٰلِکَ کَانُوْا صَنَعُوا لَمْ یَتَخَلَّفْ رَجُلٌ إِلَّا بَعَثَ مَکَانَہُ رَجُلًا، فَلَمَّا جَائَ نَا الْخَیْرُ، کَبَتَہُ اللّٰہُ وَأَخْزَاہُ وَوَجَدْنَا أَنْفُسَنَا قُوَّۃً، فَذَکَرَ الْحَدِیثَ وَمِنْ ہٰذَا الْمَوْضُوعِ فِی کِتَابِ یَعْقُوبَ مُرْسَلٌ لَیْسَ فِیہِ إِسْنَادٌ، وَقَالَ فِیہِ: أَخُو بَنِی سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: وَکَانَ فِی الْأُسَارٰی أَبُو وَدَاعَۃَ بْنُ صُبَیْرَۃَ السَّہْمِیُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ لَہُ بِمَکَّۃَ ابْنًا کَیِّسًا تَاجِرًا ذَا مَالٍ لَکَأَنَّکُمْ بِہِ قَدْ جَائَ نِی فِی فِدَائِ أَبِیہِ۔)) وَقَدْ قَالَتْ قُرَیْشٌ: لَا تَعْجَلُوْا بِفِدَاء ِ أُسَارَاکُمْ لَا یَتَأَرَّبُ عَلَیْکُمْ مُحَمَّدٌ وَأَصْحَابُہُ، فَقَالَ الْمُطَّلِبُ بْنُ أَبِی وَدَاعَۃَ: صَدَقْتُمْ فَافْعَلُوْا وَانْسَلَّ مِنْ اللَّیْلِ، فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ وَأَخَذَ أَبَاہُ بِأَرْبَعَۃِ آلَافِ دِرْہَمٍ، فَانْطَلَقَ بِہِ وَقَدِمَ مِکْرَزُ بْنُ حَفْصِ بْنِ الْأَخْیَفِ فِی فِدَائِ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَکَانَ الَّذِی أَسَرَہُ مَالِکُ بْنُ الدُّخْشُنِ أَخُو بَنِی مَالِکِ بْنِ عَوْفٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۳۶۵)

۔ عکرمہ سے مروی ہے کہ مولائے رسول سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں سیدنا عباس بن عبد المطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا غلام تھا، اسلام ہمارے اندر داخل ہو چکا تھا، میں بھی مسلمان ہو گیا تھا، سیدہ ام فضل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی مسلمان ہو گئی تھیں اور سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی مشرف باسلام ہو چکے تھے، البتہ وہ اپنی قوم سے ڈرتے تھے، اس لیے وہ اپنے اسلام کو چھپاتے تھے، اللہ کا دشمن ابو لہب غزوۂ بدر سے پیچھے رہ گیا تھا اور اس نے اپنی جگہ پر عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا، انھوں نے ایسے ہی کیا تھا کہ جو آدمی خود حاضر نہ ہو سکا، اس نے اپنی جگہ پر ایک جنگجو دیا، جب ہمارے پاس خیر والی بات پہنچی (کہ بدر کی لڑائی میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتح حاصل کی ہے) اور اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ذلیل اور رسوا کیا تو ہم نے اپنے اندر محسوس کیا کہ ہم قوی ہو گئے ہیں …، پھر انھوں نے پوری حدیث ذکر کی…، اسی موضوع کی کچھ باتیں یعقوب کی کتاب میں ہیں، لیکن وہ مرسل ہیں اور ان کی کوئی سند نہیں ہے، بہرحال بنو سالم کے بھائی نے کہا: قیدیوں میں ابو وداعہ بن صبیرہ سہمی بھی تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: اس کا مکہ میں ایک عقل مند تاجر بیٹا ہے، وہ بڑا مال دار ہے، لگتا ہے کہ وہ اپنے باپ کا فدیہ لے کر میرے پاس آئے گا۔ جبکہ اُدھر قریشیوں نے کہا: اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنے میں جلدی نہ کرو، تاکہ محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اور اس کے ساتھی تم سے فدیہ لینے میںزیادتی نہ کریں، اسی تاجر مطلب بن ابو وداعہ نے کہا: تم لوگ سچ کہہ رہے ہو، اسی طرح کرو، لیکن وہ خود چپکے سے رات کو نکل پڑا اور مدینہ منورہ پہنچ گیا اور چار ہزار درہم کا فدیہ دے کر اپنے باپ کو رہا کرا لیا، پھر وہ اس کو لے کر چلا گیا اور مکرز بن حفص ،سہیل بن عمرو کا فدیہ لے کر پہنچ گیا، بنو مالک بن عوف کے ایک بھائی مالک بن دخشن نے اس کو قید کیا تھا۔

Haidth Number: 5089

۔ (۵۰۹۰)۔ عَنْ رِعْیَۃَ السُّحَیْمِیِّ قَالَ: کَتَبَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَدِیمٍ أَحْمَرَ، فَأَخَذَ کِتَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً، فَلَمْ یَدَعُوْا لَہُ رَائِحَۃً وَلَا سَارِحَۃً وَلَا أَہْلًا وَلَا مَالًا إِلَّا أَخَذُوہُ، وَانْفَلَتَ عُرْیَانًا عَلٰی فَرَسٍ لَہُ لَیْسَ عَلَیْہِ قِشْرَۃٌ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی ابْنَتِہِ وَہِیَ مُتَزَوِّجَۃٌ فِی بَنِی ہِلَالٍ، وَقَدْ أَسْلَمَتْ وَأَسْلَمَ أَہْلُہَا، وَکَانَ مَجْلِسُ الْقَوْمِ بِفِنَائِ بَیْتِہَا، فَدَارَ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْہَا مِنْ وَرَائِ الْبَیْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتْہُ أَلْقَتْ عَلَیْہِ ثَوْبًا، قَالَتْ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ نَزَلَ بِأَبِیکِ مَا تُرِکَ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، قَالَتْ: دُعِیتَ إِلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: أَیْنَ بَعْلُکِ؟ قَالَتْ: فِی الْإِبِلِ، قَالَ: فَأَتَاہُ، فَقَالَ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ قَدْ نَزَلَ بِہِ مَا تُرِکَتْ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، وَأَنَا أُرِیدُ مُحَمَّدًا أُبَادِرُہُ قَبْلَ أَنْ یُقَسِّمَ أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: فَخُذْ رَاحِلَتِی بِرَحْلِہَا، قَالَ: لَا حَاجَۃَ لِی فِیہَا، قَالَ: فَأَخَذَ قَعُودَ الرَّاعِی وَزَوَّدَہُ إِدَاوَۃً مِنْ مَائٍ، قَالَ: وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ إِذَا غَطَّی بِہِ وَجْہَہُ خَرَجَتْ اسْتُہُ، وَإِذَا غَطَّی اسْتَہُ خَرَجَ وَجْہُہُ، وَہُوَ یَکْرَہُ أَنْ یُعْرَفَ حَتَّی انْتَہٰی إِلَی الْمَدِینَۃِ فَعَقَلَ رَاحِلَتَہُ، ثُمَّ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ بِحِذَائِہِ حَیْثُ یُصَلِّی، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْفَجْرَ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ابْسُطْ یَدَیْکَ فَلْأُبَایِعْکَ، فَبَسَطَہَا فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَضْرِبَ عَلَیْہَا قَبَضَہَا إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَفَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذٰلِکَ ثَلَاثًا، قَبَضَہَا إِلَیْہِ وَیَفْعَلُہُ، فَلَمَّا کَانَتِ الثَّالِثَۃُ قَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَضُدَہُ ثُمَّ رَفَعَہُ ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ! ہٰذَا رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ الَّذِی کَتَبْتُ إِلَیْہِ فَأَخَذَ کِتَابِی۔)) فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ فَأَخَذَ یَتَضَرَّعُ إِلَیْہِ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: ((أَمَّا مَالُکَ فَقَدْ قُسِّمَ، وَأَمَّا أَہْلُکَ فَمَنْ قَدَرْتَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ۔)) فَخَرَجَ فَإِذَا ابْنُہُ قَدْ عَرَفَ الرَّاحِلَۃَ وَہُوَ قَائِمٌ عِنْدَہَا فَرَجَعٰ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ہٰذَا ابْنِی، فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ اخْرُجْ مَعَہُ فَسَلْہُ أَبُوکَ ہٰذَا، فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ فَادْفَعْہُ إِلَیْہِ۔)) فَخَرَجَ بِلَالٌ إِلَیْہِ فَقَالَ: أَبُوکَ ہٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَرَجَعَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا اسْتَعْبَرَ إِلٰی صَاحِبِہِ، فَقَالَ: ((ذَاکَ جَفَائُ الْأَعْرَابِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۸۳۳)

۔ رعیہ سحمی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سرخ چمڑے کے ٹکڑے پر میری طرف خط لکھا، میں نے وہ خط لیا اور اس کے ساتھ اپنے ڈول کو مرمت کر لیا، اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا، اس لشکر نے نہ میرے اونٹ چھوڑے، نہ مویشی، نہ اہل اور نہ مال، بلکہ سب کچھ لے لیا، میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ننگی حالت میں بھاگ گیا، مجھ پر کوئی کپڑا نہیں تھا، یہاں تک کہ میں اپنی بیٹی کے پاس پہنچ گیا، بنو ہلال میں اس کی شادی ہوئی ہوئی تھی، وہ اور اس کے گھر والے مسلمان ہو چکے تھے اور لوگ اسی کے گھر کے صحن میں مجلس لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، پس میں گھوما اور گھر کے پیچھے سے اپنی بیٹی پر داخل ہوا، جب اس نے مجھے دیکھا تو مجھ پر کپڑے ڈالے اور کہا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: ہر قسم کا شرّ تیرے باپ پر ٹوٹ پڑا ہے، نہ اونٹ بچے ہیں، نہ مویشی، نہ اہل اور نہ مال، بلکہ ہر چیز چھین لی گئی ہے، بیٹی نے کہا: آپ کو اسلام کی دعوت تو نہیں دی گئی؟ میں نے آگے سے کہا: تیرا خاوند کہاں ہے؟ اس نے کہا: اونٹوں میں ہے، پس میں ا س کے پاس پہنچا اور اس نے مجھ سے کہا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: ہر قسم کا شرّ مجھ پر ٹوٹ پڑا ہے، میرے اونٹ، مویشی، اہل اور مال، بس سب کچھ مجھ سے چھین لیا گیا ہے اور میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس جلدی جلدی پہنچنا چاہتا ہوں، تاکہ وہ میرے پہنچنے سے پہلے میرے اہل و مال کو تقسیم نہ کر دیں، اس نے کہا: یہ میرے اونٹنی کجاوے سمیت ہے، تم یہ لے لو، میں نے کہا: اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے، پھر اس نے چرواہے کا اونٹ لیا اور چمڑے کے چھوٹے مشکیزے میں پانی ڈال کر بطورِ زادِ راہ دیا۔ مجھ پر اتنا کپڑا تھا کہ اگر اس سے سر ڈھانپتا تو سرین ننگے ہو جاتے اور اگر سرین پر پردہ کرتا تو چہرہ ننگا ہو جاتا، جبکہ میںچاہتا یہ تھا کہ کوئی آدمی مجھے پہچان نہ سکے، بہرحال میںمدینہ منورہ پہنچ گیا، سواری کو باندھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پا س گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے آ کر ٹھہر گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ہاتھ پھیلائیں، میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہاتھ پھیلایا، لیکن جب میں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ بند کر لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار ایسے ہی کیا، پھر تیسری بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ہے کون؟ میں نے کہا: جی میں رعیہ سحیمی ہوں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا بازو پکڑ ا اور اس کو بلند کر کے فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت! یہ رعیہ سحیمی ہے، یہ وہی ہے، جس کی طرف میں نے خط لکھا تھا اور اس نے اس خط کے ساتھ اپنا ڈول مرمت کیا تھا۔ پھر منت سماجت کرنے لگا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میرا اہل و مال، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا مال تو تقسیم ہو چکا ہے، البتہ اپنے اہل میں سے جو افراد لے سکتا ہے، وہ لے لے۔ پس میں وہاں سے نکلا اور میرے بیٹے نے میری سواری کو پہنچان لیا اور وہ اس کے پاس ہی کھڑا تھا، پس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹا اور کہا: یہ میرا بیٹا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بلال! تم جاؤ اور اس بچے سے پوچھو کہ کیا اس کا باپ یہی ہے، اگر وہ مثبت جواب دے تو اس کو اس کے حوالے کر دینا۔ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس بچے کی طرف گئے اور اس سے پوچھا: یہ تیرا باپ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس باپ اور بیٹے میںکسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے دوسرے کو ملتے وقت آنسو بہائے ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بدوؤںکی اکھڑ مزاجی اور سختی ہے۔

Haidth Number: 5090

۔ (۵۰۹۰)۔ عَنْ رِعْیَۃَ السُّحَیْمِیِّ قَالَ: کَتَبَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَدِیمٍ أَحْمَرَ، فَأَخَذَ کِتَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً، فَلَمْ یَدَعُوْا لَہُ رَائِحَۃً وَلَا سَارِحَۃً وَلَا أَہْلًا وَلَا مَالًا إِلَّا أَخَذُوہُ، وَانْفَلَتَ عُرْیَانًا عَلٰی فَرَسٍ لَہُ لَیْسَ عَلَیْہِ قِشْرَۃٌ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی ابْنَتِہِ وَہِیَ مُتَزَوِّجَۃٌ فِی بَنِی ہِلَالٍ، وَقَدْ أَسْلَمَتْ وَأَسْلَمَ أَہْلُہَا، وَکَانَ مَجْلِسُ الْقَوْمِ بِفِنَائِ بَیْتِہَا، فَدَارَ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْہَا مِنْ وَرَائِ الْبَیْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتْہُ أَلْقَتْ عَلَیْہِ ثَوْبًا، قَالَتْ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ نَزَلَ بِأَبِیکِ مَا تُرِکَ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، قَالَتْ: دُعِیتَ إِلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: أَیْنَ بَعْلُکِ؟ قَالَتْ: فِی الْإِبِلِ، قَالَ: فَأَتَاہُ، فَقَالَ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ قَدْ نَزَلَ بِہِ مَا تُرِکَتْ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، وَأَنَا أُرِیدُ مُحَمَّدًا أُبَادِرُہُ قَبْلَ أَنْ یُقَسِّمَ أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: فَخُذْ رَاحِلَتِی بِرَحْلِہَا، قَالَ: لَا حَاجَۃَ لِی فِیہَا، قَالَ: فَأَخَذَ قَعُودَ الرَّاعِی وَزَوَّدَہُ إِدَاوَۃً مِنْ مَائٍ، قَالَ: وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ إِذَا غَطَّی بِہِ وَجْہَہُ خَرَجَتْ اسْتُہُ، وَإِذَا غَطَّی اسْتَہُ خَرَجَ وَجْہُہُ، وَہُوَ یَکْرَہُ أَنْ یُعْرَفَ حَتَّی انْتَہٰی إِلَی الْمَدِینَۃِ فَعَقَلَ رَاحِلَتَہُ، ثُمَّ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ بِحِذَائِہِ حَیْثُ یُصَلِّی، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْفَجْرَ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ابْسُطْ یَدَیْکَ فَلْأُبَایِعْکَ، فَبَسَطَہَا فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَضْرِبَ عَلَیْہَا قَبَضَہَا إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَفَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذٰلِکَ ثَلَاثًا، قَبَضَہَا إِلَیْہِ وَیَفْعَلُہُ، فَلَمَّا کَانَتِ الثَّالِثَۃُ قَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَضُدَہُ ثُمَّ رَفَعَہُ ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ! ہٰذَا رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ الَّذِی کَتَبْتُ إِلَیْہِ فَأَخَذَ کِتَابِی۔)) فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ فَأَخَذَ یَتَضَرَّعُ إِلَیْہِ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: ((أَمَّا مَالُکَ فَقَدْ قُسِّمَ، وَأَمَّا أَہْلُکَ فَمَنْ قَدَرْتَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ۔)) فَخَرَجَ فَإِذَا ابْنُہُ قَدْ عَرَفَ الرَّاحِلَۃَ وَہُوَ قَائِمٌ عِنْدَہَا فَرَجَعٰ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ہٰذَا ابْنِی، فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ اخْرُجْ مَعَہُ فَسَلْہُ أَبُوکَ ہٰذَا، فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ فَادْفَعْہُ إِلَیْہِ۔)) فَخَرَجَ بِلَالٌ إِلَیْہِ فَقَالَ: أَبُوکَ ہٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَرَجَعَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا اسْتَعْبَرَ إِلٰی صَاحِبِہِ، فَقَالَ: ((ذَاکَ جَفَائُ الْأَعْرَابِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۸۳۳)

۔ (دوسری سند) اسی طرح کا متن ہے، البتہ مختصر ہے اور اس کے آخر میں ہے: ان کا خیال ہے کہ یہ شخص اپنے اوپر حملہ ہونے سے پہلے مسلمان ہو چکا تھا۔

Haidth Number: 5091
۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کے درمیان رائج سکہ کو توڑنے سے منع فرمایا ہے، الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو۔

Haidth Number: 5991

۔ (۸۵۵۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: خَاصَمَ رَجُلٌ مِنَ الْأَ نْصَارِ الزُّبَیْرَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ شِرَاجِ الْحَرَّۃِ الَّتِیْیَسْقُوْنَ بِہَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَ نْصَارِیُّ لِلزُّبَیْرِ: سَرِّحِ الْمَائَ، فَاَبٰی فَکَلَّمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اسْقِ یَا زُبَیْرُ! ثُمَّ ارْسِلْ إِلٰی جَارِکَ۔)) فَغَضِبَ الْأَ نْصَارِیُّ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَ نْ کَانَ ابنَ عَمَّتِکَ، فَتَلَوَّنَ وَجْہُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((احْبِسِ الْمَائَ حَتّٰییَبْلُغَ إِلَی الْجُدُرِ۔)) قَالَ الزُّبَیْرُ: وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَأَ حْسِبُ ھٰذِہٖالْاٰیَۃَ نَزَلَتْ فِیْ ذٰلِکَ: {فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰییُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ…} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (مسند احمد: ۱۶۲۱۵)

۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ایک انصاری کے درمیان حرہ کے ایک نالے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا، اس نالے سے کھجوروں کو سیراب کیا کرتے تھے۔ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میری کھجوروں کے لئے پانی چھوڑدو، لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، انصاری وہ مقدمہ لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے زبیر! تم پہلے سیراب کر کے پانی کواپنے ہمسائے کے لیے چھوڑ دیا کرو۔ لیکن اس فیصلے سے انصاری کو غصہ آ گیا اور اس نے کہا: یہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے اس لئے یہ فیصلہ کیا ہے، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے زبیر! اب اتنی دیر پانی روک کر رکھنا کہ دیوار تک پہنچ جائے، پھر آگے چھوڑنا۔ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں ہی نازل ہوئی تھی: {فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰییُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} … سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ (سورۂ نسائ: ۶۵)

Haidth Number: 8556

۔ (۱۰۶۱۶)۔ عَنْ أبِیْ اِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: اشْتَرٰی أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَازِبٍ سَرْجًا بِثَلَاثَۃَ عَشَرَ دِرْھَمًا، قَالَ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ لِعَازِبٍ: مُرِ الْبَرَائَ فَلْیَحْمِلْہُ اِلٰی مَنْزِلِیْ، فَقَالَ: لَا، حَتّٰی تُحَدِّثَنَا کَیْفَ صَنَعْتَ حِیْنَ خرَجَ َرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنْتَ مَعَہُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ: خَرَجْنَا فَأَدْلَجَنَا فَأَحْثَثْنَا یَوْمَنَا وَلَیْلَتَنَا حَتّٰی أَظْھَرْنَا وَقَامَ قَائِمُ الظَّھِیْرَۃِ فَضَرَبْتُ بِبَصَرِیْ ھَلْ أَرٰی ظِلًّا نَأْوِیْ اِلَیْہِ فَاِذَا أَنَا بِصَخْرَۃٍ فَاَھْوَیْتُ اِلَیْھَا فَاِذَا بَقِیَّۃُ ظِلِّھَا فَسَوَّیْتُہُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفَرَشْتُ لَہُ فَرْوَۃً وَقُلْتُ: اضْطَجِعْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَاضْطَجَعَ ثُمَّّ خَرَجْتُ أَنْظُرُ ھَلْ أَرٰی أَحَدًا مِنَ الطَّلَبِ فَاِذَا أَنَا بِرَاعِیْ غَنَمٍ۔ فَقُلْتُ: لِمَنْ أَنْتَ یَا غُلَامُ؟ فَقَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ فَسَمَّاہُ فَعَرَفْتُہُ فَقُلْتُ: ھَلْ فِیْ غَنَمِکَ مِنْ لَبَنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: ھَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لِیْ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرْتُہُ فَاعْتَقَلَ شَاۃً مِنْھَا ثُمَّّ أَمَرْتُہُ فَنَفَضَ ضَرْعَھَا مِنَ الْغُبَارِ ثُمَّّ أَمَرْتُہُ فَنَفَضَ کَفَّیْہِ مِنَ الْغُبَارِ وَمَعِیَ اِدَاوَۃٌ، عَلٰی فَمِھَا خِرْقَۃٌ فَحَلَبَ لِیْ کُثْبَۃً مِنَ اللَّبَنِ فَصَبَبْتُ یَعْنِی الْمَائَ عَلَی الْقَدَحِ حَتّٰی بَرَدَ أَسْفَلُہُ ثُمَّّ أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَافَیْتُہُ وَقَدِ اسْتَیْقَظَ فَقُلْتُ: اشْرَبْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَشَرِبَ حَتّٰی رَضِیْتُ ثُمَّّ قُلْتُ: أَنَی الرَّحِیْلُ؟ قَالَ: فَارْتَحَلْنَا وَالْقَوْمُ یَطْلُبُوْنَا فَلَمْ یُدْرِکْنَا أَحَدٌ مِنْھُمْ اِلَّا سُرَاقَۃُ بْنُ مَالِکِ بْنِ جُعْشُمٍ عَلٰی فَرَسٍ لَہُ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ھٰذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا فَقَالَ: ((لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا)) حَتّٰی اِذَا دَنَا مِنَّا فَکَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُ قَدْرُ رُمْحٍ أَوَ رُمْحَیْنِ أَوَ ثَلَاثَۃٍ، قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا وَبَکَیْتُ، قَالَ: ((لِمَ تَبْکِیْ؟)) قَالَ: قُلْتُ: أَمَا وَاللّٰہِ! مَا عَلٰی نَفْسِیْ أَبْکِیْ وَلٰکِنْ أَبْکِیْ عَلَیْکَ، قَالَ: فَدَعَا عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اللّٰھُمَّ اکْفِنَاہُ بِمَا شِئْتَ)) فَسَاخَتْ قَوَائِمُ فَرَسِہِ اِلٰی بَطْنِھَا فِیْ أَرْضٍ صَلْدٍ وَوَثَبَ عَنْھَا وَقَالَ: یَامُحَمَّدُ! قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ ھٰذَا عَمَلُکَ فَادْعُ اللّٰہَ أَنْ یُنْجِیَنِیْ مِمَّا أَنَا فِیْہِ، فَوَاللّٰہِ! لَأُعَمِّیَنَّ عَلٰی مَنْ وَرَائِیْ مِنَ الطَّلَبِ وَھٰذِہِ کِنَانَتِیْ فَخُذْ مِنْھَا سَھْمًا فَاِنَّکَ سَتَمُرُّ بِاِبِلِیْ وَغَنَمِیْ فِیْ مَوْضِعِ کَذَا وَکَذَا فَخُذْ مِنْھَا حَاجَتَکَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَا حَاجَۃَ لِیْ فِیْھَا، قَالَ: وَدَعَا لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأُطْلِقَ فَرَجَعَ اِلٰی اَصْحَابِہٖوَمَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا مَعَہُ حَتّٰی قَدِمْنَا الْمَدِیْنَۃَ فَتَلَقَّاہُ النَّاسُ فَخَرَجُوْا فِی الطَّرِیْقِ وَ عَلَی الْاَجَاجِیْرِ فَاشْتَدَّ الْخَدَمُ وَالصِّبْیَانُ فِی الطَّرِیْقِیَقُوْلُوْنَ: اَللّٰہُ اَکْبَرُ، جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، جَائَ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: وَتَنَازَعَ الْقَوْمُ أَیُّھُمْیَنْزِلُ عَلَیْہِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَنْزِلُ اللَّیْلَۃَ عَلٰی بَنِی النَّجَّارِ اَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لِاُکْرِمَھُمْ بِذٰلِکَ۔)) فَلَمَّا اَصْبَحَ غَدَا حَیْثُ أُمِرَ، قَالَ الْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ: اَوَّلُ مَنْ کَانَ قَدِمَ عَلَیْنَا مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ أَخُوْ بَنِیْ عَبْدِ الدَّارِ ثُمَّّ قَدِمَ عَلَیْنَا ابْنُ آَمِّ مَکْتُوْمٍ الْأَعْمٰی أَخُوْ بَنِیْ فِھْرٍ ثُمَّّ قَدِمَ عَلَیْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِیْ عِشْرِیْنَ رَاکِبًا فَقُلْنَا مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ھُوَ عَلٰی أَثَرِیْ ثُمَّّ قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ مَعَہُ قَالَ الْبَرَائُ: وَلَمْ یَقْدَمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی قَرَأْتُ سُوَرًا مِنَ الْمُفَصَّلِ، قَالَ اِسْرائِیْلُ: وَکَانَ الْبَرَائُ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِیْ حَارِثَۃَ۔ (مسند احمد: ۳)

۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میرے باپ سیدنا عازب سے تیرہ درہم کی ایک زین خریدی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میرے باپ سے کہا: براء کو کہہ دینا کہ میرے گھر چھوڑ آئے، انھوں نے کہا: جی نہیں، جب تک تم مجھے یہ بیان نہیں کرو گے کہ تم نے اس وقت کیا کیا تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ سے نکلے تھے اور تم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے؟ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم (غار سے) نکلے اور رات کے پہلے حصے میںچلتے رہے، ہم اس رات اور دن کو تیزی سے چلتے رہے، یہاں تک کہ دوپہر کا وقت ہو گیا، میں نے دور دور تک دیکھا کہ آیا کوئی سائے والی جگہ ہے، جس میں سستا سکیں، پس اچانک مجھے ایک چٹان نظر آئی، میں اس کی طرف جھکا، اس کا جو سایہ باقی تھا، اس جگہ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے برابر کیا اور اس پر چمڑا بچھایا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ لیٹ جائیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لیٹ گئے اور میں وہاں سے نکل پڑا تاکہ دیکھ سکوں کہ آیا کوئی تلاش کرنے والا پہنچ تو نہیں گیا، اچانک میری نظر بکریوں کے ایک چرواہے پر پڑی، میں نے اس سے پوچھا: او لڑکے! تو کس کا چرواہا ہے؟ اس نے کہا: فلاں قریشی کا، اس نے اس کا نام لیا اور میں نے اس کو پہچان لیا، پھر میں نے کہا: کیا تیری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، میں نے کہا: کیا تو مجھے دوہ کر دے گا؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس میں نے اس کو حکم دیا، اس نے بکری کی ٹانگوں کو باندھا، پھر میں نے اس کو حکم دیا کہ تھنوں سے گرد و غبار کو صاف کر دے، پھر میں نے اس کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے بھی غبار کو صاف کر دے، میرے پاس ایک برتن تھا، اس پر منہ پر ایک چیتھڑا تھا، پس اس نے میرے لیے تھوڑی مقدار میں دودھ دوہا، پھر میں نے پیالے پر پانی بہایا،یہاں تک کہ اس کے نیچے والا حصہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس حال میںپایا کہ آپ بیدار ہو چکے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ دودھ نوش فرمائیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیا،یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا، پھر میں نے کہا: کوچ کرنے کا وقت ہو چکا ہے، پس ہم وہاں سے چل پڑے، اُدھر لوگوں نے ہم کو تلاش تو کیا، لیکن صرف سراقہ بن مالک بن جعشم ہم تک پہنچ سکا، وہ گھوڑے پر سوار تھا، جب میں نے اس کو دیکھا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تلاش کرنے والا ہم تک پہنچ چکا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پریشان نہ ہو، بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ جب وہ اس قدر ہمارے قریب ہو گیا کہ ایکیا دو یا تین نیزوں کے فاصلے پر تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ متلاشی بالکل ہمارے پاس پہنچ چکا ہے ، ساتھ ہی میں رونے لگ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کیوں روتے ہو؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنی ذات کے لیے نہیں، آپ کی ذات کے لیے رو رہا ہوں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر بد دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ! اپنی چاہت کے مطابق کسی چیز کے ساتھ اس سے کفایت کر۔ پس اس کے گھوڑے کی ٹانگیں سخت زمین میں پیٹ تک گھس گئیں اور وہ کود کر اس سے پرے ہٹ گیا اور اس نے کہا: اے محمد! میں جانتا ہوں کہ تمہاری کاروائی ہے، اب اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دلا دے، اللہ کی قسم ہے، میں اپنے پیچھے آنے والے متلاشیوں کو تم لوگوں سے اندھا بنا دوں گا، یہ میرا ترکش ہے، اس میں سے ایک تیر آپ لے لیں، کیونکہ آپ عنقریب فلاں جگہ سے گزرنے والے ہیں، وہاں میرے اونٹ اور بکریاں ہیں، (میرے چرواہے کو یہ تیر دکھا کر) وہاں سے اپنی ضرورت کے مطابق جو چاہیں لے لینا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے دعا کی، پس اس کو آزاد کر دیا گیا، پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگے چل دیئے، جبکہ میں (ابو بکر) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے، پس لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملے اور لوگ راستوں پر اور چھتوں پر موجود تھے اور راستے میں خادموں اور بچوں نے ہجوم کیا ہوا تھا اور وہ کہہ رہے تھے: اللہ اکبر، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آ گئے ہیں، محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہنچ گئے ہیں، اب لوگوں میں یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس کے گھر اتریں گے، اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں آج رات عبد المطلب کے ماموؤں بنو نجار کے پاس اتروں گا، میں ان کو یہ شرف دینا چاہتا ہوں۔ جب صبح ہوئی تو جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حکم ہوا، اس کے مطابق چل پڑے۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہمارے پاس سب سے پہلے آنے والے مہاجر بنو عبد الدار کے بھائی سیدنا مصعب بن عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ان کے بعد بنو فہر کے بھائی سیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پہنچے، پھر بیس افراد سمیت سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے، ہم نے ان سے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیا کر رہے ہیں، انھوں نے کہا: وہ میرے پیچھے تشریف لا رہے ہیں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگئے، جبکہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ساتھ تھے۔ سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ابھی تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ میں تشریف نہیں لائے تھے کہ میں نے بعض مفصل سورتوں کی تعلیم حاصل کر لی تھی، اسرائیل راوی نے کہا: سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، بنو حارثہ کے انصار میں سے تھے۔

Haidth Number: 10616

۔ (۱۰۶۱۷)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ معْمَرٍ عَنِ الزُّھْرِیِّ قَالَ الزُّھْرِیُّ: وَأَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَالِکٍ الْمُدْلَجِیُّ وَھُوَ ابْنُ أَخِیْ سُرَاقَۃَ بْنِ مَالِکِ بْنِ جُعْشُمٍ اَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ أَنّہُ سَمِعَ سُرَاقَۃَیَقُوْلُ جَائَ نَا رُسُلُ کُفَّارِ قُرَیْشٍیَجْعَلُوْنَ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفِیْ أبِیْ بَکْرٍ دِیَّۃَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا لِمَنْ قَتَلَھُمَا أَوَ أَسَرَ ھُمَا فَبَیْنَا أَنَا جَالِسٌ فِیْ مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ قَوْمِیْ بَنِیْ مُدْلِجٍ أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْھُمْ حَتّٰی قَامَ عَلَیْنَا فَقَالَ: یَا سُرَاقَۃُ! اِنِّیْ رَأَیْتُ آنِفًا اَسْوِدَۃً بِالسَّاحِلِ اِنِّیْ أَرَاھَا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَہُ، قَالَ سُرَاقَۃُ: فَعَرَفْتُ أَنَّھُمْ ھُمْ، فَقُلْتُ: أَنَّھُمْ لَیْسُوْا بِھِمْ وَلٰکِنْ رَأَیْتَ فُلَانًا وَفُلَانًا، اِنْطَلَقَ آنِفًا قَالَ: ثُمَّّ لَبِثْتُ فِی الْمَجْلِسِ سَاعَۃً حَتّٰی قُمْتُ فَدَخَلْتُ بَیْتِیْ فَأَمَرْتُ جَارِیَتِیْ أَنْ تُخْرِجَ لِیْ فَرَسِیْ وَھِیَ مِنْ وَرَائِ أَکَمَۃٍ فَتَحْبِسَھَا عَلَیَّ، وَأَخَذْتُ رُمْحِیْ فَخَرَجْتُ بِہٖمِنْظَھْرِالبَیْتِ فَخَطَطْتُ بِرُمْحِی الْأَرْضَ وَخَفَضْتُ عَالِیَۃَ الرُّمْحِ حَتّٰی أَتَیْتُ فَرَسِیْ فَرَکِبْتُھَا فَرَفَعْتُھَا تَقَرَّبُ بِیْ حَتّٰی رَأَیْتُ أَسْوِدَتَھُمَا فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْھُمْ حَیْثُیُسْمِعُھُمُ الصَّوْتُ عَثَرَتْ بِیْ فَرَسِیْ فَخَرَرْتُ عَنْھَا فَقُمْتُ فَأَھْوَیْتُ بِیَدَیَّ اِلَی کِنَانَتِیْ فَاسْتَخْرَجْتُ مِنْھَا الْأَزْلَامَ فَاسْتَقْسَمْتُ بِھَا اَضُرُّھُمْ اَمْ لَا، فَخَرَجَ الَّذِیْ اَکْرَہُ أَنْ لَا أَضُرَّھُمْ فَرَکِبْتُ فَرَسِیْ وَعَصَیْتُ الْأَزْلَامَ فَرَفَعْتُھَا تَقَرَّبُ بِیْ اِذَا دَنَوْتُ مِنْھُمْ عَثْرَتْ بِیْفَرَسِیْ فَخَرَرْتُ عَنْھَا فَقُمْتُ فَأَھْوَیْتُ بَیَدَیَّ اِلَی کِنَانَتِیْ فَأَخْرَجْتُ الْأَزْلَامَ فَاسْتَقْسَمْتُ بِھَا فَخَرَجَ الَّذِیْ أَکْرَہُ اَنْ لَا أَضُرَّھُمْ، فَعَصَیْتُ الْأَزْلَامَ وَرَکِبْتُ فَرَسِیْ فَرَفَعْتُھَا تَقَرَّبُ بِیْ حَتّٰی اِذَا سَمِعْتُ قِرَائَۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ لَا یَلْتَفِتُ وَأَبُوْبَکْرٍ یُکْثِرُ الْاِلْتِفَاتَ سَاخَتْ یَدَا فَرَسِیْ فِی الْأَرْضِ حَتّٰی بَلَغَتِ الرُّکْبَتَیْنِ فَخَرَرْتُ عَنْھَا فَزَجَرْتُھَا فَنَھَضَتْ فَلَمْ تَکَدْ تُخْرِجُ یَدَیْھَا فَلَمَّا اسْتَوَتْ قَائِمَۃً اِذْ لَا أَثَرَ بِھَا عُثَانٌٍ سَاطِعٌ فِی السَّمَائِ مِثْلُ الدُّخَانِ، قُلْتُ لِأَبِیْ عَمْرِو بْنِ الْعَلَائِ مَا الْعُثَانُ؟ فَسَکَتَ سَاعَۃً ثُمَّّ قَالَ: ھُوَ الدُّخَانُ مِنْ غَیْرِ نَارٍ، قَالَ الزُّھْرِیُّ فِیْ حَدِیْثِہِ: فَاسْتَقْسَمْتُ بِالْاِزْلَامِ فَخَرَجَ الَّذِیْ اَکْرَہُ اَنْ لَا أَضُرَّھُمْ فَنَادَیْتُھُمَا بِالْأَمَانِ فَوَقَفُوْا فَرَکِبْتُ فَرَسِیْ حَتّٰی جِئْتُھُمْ فَوَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ حِیْنَ لَقِیْتُ مَالَقِیْتُ مِنَ الْحَبْسِ عَنْھُمْ أَنّہُ سَیَظْھَرُأَمْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقُلْتُ لَہُ: اِنَّ قَوْمَکَ قَدْ جَعَلُوْا فِیْکَ الدِّیَّۃَ وَأَخْبَرْتُھُمْ مِنْ أَخْبَارِ سَفَرِھِمْ وَمَا یُرِیْدُ النَّاسُ بِھِمْ وَعَرَضْتُ عَلَیْھِمُ الزَّادَ وَالْمَتَاعَ فَلَمْ یَرْزِئُ وْنِیْ شَیْئًا وَلَمْ یَسْأَلُوْنِیْ اِلَّا أَنْ أَخْفِ عَنَّا فَسَأَلْتُہُ اَنْ یَکْتُبَ لِیْ کِتَابَ مُوَادَعَۃٍ آمَنُ بِہٖ،فَأَمَرَعَامِرَ بْنَ فُھَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَکَتَبَ لِیْ فِیْ رُقْعَۃٍ مِنْ اَدِیْمٍ ثُمَّّ مَضٰی۔ (مسند احمد: ۱۷۷۳۴)

۔ سراقہ بن مالک سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: (جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہجرت کر کے نکل گئے تو) کافروں کے قاصد ہمارے پاس آئے اور انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میں ہر ایک کی دیت (سو اونٹ) کے بارے میں بتایا کہ جو ان کو قتل کر کے یا قید کر کے لائے گا، اس کویہ دیت ملے گی، میں اپنی قوم بنو مدلج کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آ کر ہمارے پاس کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے سراقہ! میں نے ابھی ساحل کے پاس کچھ افراد دیکھے ہیں، میرا خیال ہے کہ وہ محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اور اس کے ساتھ ہیں، سراقہ نے کہا: میں پہچان تو گیا کہ یہ وہی ہیں، لیکن میں نے ظاہر یہ کیا کہ یہ افراد وہ لوگ نہیں ہیں، تو نے تو فلاں فلاں کو دیکھا ہے، وہ تھوڑی دیر پہلے جا رہے تھے، میں کچھ دیر تک اسی مجلس میں بیٹھا رہا، پھر وہاں سے کھڑا ہوا، اپنے گھر میں داخل ہوا اور اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ وہ میرا گھوڑا نکالے، وہ ٹیلے کے پیچھے تھا، اور میرے آنے تک اس کو روک کر رکھے، اُدھر میں نے اپنے نیزے نکالے اور گھر کے پچھلی طرف سے نکل گیا، میں نے اپنے نیزے سے زمین پر لکیر لگائی اور ان کے اوپر والے حصے زمین کی طرف کر دیئے (تاکہ دور سے دیکھنے والا ان کی چمک کو دیکھ کر معاملے کو تاڑ نہ جائے)، پھر میں گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کو دوڑایا،یہاں تک کہ مجھے وہ وجود نظر آنے لگے، جب میں ان کے اتنے قریب پہنچا کہ میری آواز ان تک پہنچ سکتی تھی تو میرا گھوڑا پھسلا اور میں گر پڑا، میں نے اپنے ہاتھ ترکش میں ڈالے، تیر نکالے اورقسمت آزمائی کی کہ میں ان کو نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں، وہ تیر نکلا کہ جس کو میں ناپسند کرتا تھا، یعنی میں ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، لیکن میں گھوڑے پر سوار ہوا اور تیروں کی نافرمانی کی، میں نے پھر گھوڑے کو دوڑایا، جب میں ان کے قریب ہوا تو میرا گھوڑا پھر پھسل پڑا اور میں گر گیا، میں کھڑا ہوا، اپنا ہاتھ ترکش میں ڈالا اور تیر نکال کر قسمت آزمائی کی، پھر وہی تیر نکلا، جس کو میں ناپسند کرتا تھا کہ میں ان کو نقصان نہیں پہنچا سکوں گا، لیکن میں نے پھر تیروں کی نافرمانی کی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کو دوڑایا اور ان کے اتنے قریب ہو گیا کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تلاوت کی آواز سننے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف کوئی توجہ نہ کی، البتہ ابو بکر بار بار میری طرف دیکھتے تھے، جب میں ان کے قریب ہوا تو میرے گھوڑے کی اگلی ٹانگیں زمین میں دھنس گئیں،یہاں تک کہ اس کے گھٹنوں تک پہنچ گئیں، میں پھر گر پڑا اور گھوڑے کو ڈانٹ ڈپٹ کی، پس وہ کھڑا ہو گیا، لیکن لگتا ایسے تھا وہ اپنی ٹانگیںنہیں نکال سکے گا، جب وہ کھڑا ہو گیا تو اس پر کوئی اثر نہیں تھا، لیکن آگ والے دھویں کی طرح آسمان میں بلند ہونے والا آگ کے بغیر دھواں تھا۔ میں نے ابو عمرو سے پوچھا: عُثَان سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کہا: اس سے مراد آگے کے بغیر دھواں ہے، امام زہری نے اپنی حدیث میں کہا: سراقہ نے کہا: پس جب میں نے تیروں کے ساتھ قسمت آزمائی کی تو وہ تیر نکلا جس کو میں ناپسند کرتا تھا، یعنی میں ان کو نقصان نہیں پہنچا سکوں گا، پس میں نے ان کو امان کے ساتھ آواز دی، وہ رک گئے، میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور ان کے پاس پہنچ گیا، جس انداز میں مجھے رکنا پڑا، اس سے میرے نفس میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ عنقریب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معاملہ غالب آ جائے گا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: بیشک آپ کی قوم نے آپ کی دیت مقرر کر رکھی ہے، پھر میں نے ان کو سفر کے سارے واقعات بیان کیے اور یہ بھی بتلایا کہ لوگ ان کے بارے میں کیا چاہتے ہیں، پھر میں نے ان پر زادِ راہ اور سامان پیش کیا، لیکن انھوں نے میری کسی چیز میں کمی نہیں کی اور مجھ سے کسی قسم کا سوال نہیں کیا، البتہ اتنا کہا کہ تو نے ہمارے معاملے کو مخفی رکھنا ہے، پھر میں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے مصالحت کا پیغام لکھ کر دیں، جس کے ذریعے مجھے امن ملے گا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عامر بن فہیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا کہ وہ میرے لیے چمڑے کے ایک ٹکڑے میں یہ امان لکھ دیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگے چل پڑے۔

Haidth Number: 10617

۔ (۱۰۶۱۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ أَقْبَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَی الْمَدِیْنَۃِ وَھُوَ مُرْدِفٌ أَبَابَکْرٍ وَأَبُوْبَکْرٍ شَیْخٌیُعْرَفُ وَنَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَابٌّ لَایُعْرَفُ، قَالَ: فَیَلْقَی الرَّجُلُ أَبَا بَکْرٍ فَیَقُوْلُ: یَا أَبَابَکْرٍ! مَنْ ھٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ بَیْنَیَدَیْکَ؟ فَیَقُوْلُ: ھٰذَا الرَّجُلُ یَھْدِیْنِیْ اِلَی السَّبِیْلِ فَیَحْسَبُ الْحَاسِبُ أَنّہُ أَنَّمَا یَھْدِیْہِ اِلَی الطَّرِیْقِ وَاِنَّمَا یَعْنِیْ سَبِیْلَ الْخَیْرِ فَالْتَفَتَ أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَاِذَا ھُوَ بِفَارِسٍ قَدْ لَحِقَھُمْ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! ھٰذَا فَارِسٌ قَدْ لَحِقَ بِنَا قَالَ: فَالْتَفَتَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ اصْرَعْہُ۔)) فَصَرَعَتْہُ فَرَسُہُ ثُمَّّ قَامَتْ تُحَمْحِمُ قَالَ: ثُمَّّ قَالَ: یَانَبِیَّ اللّٰہِ! مُرْنِیْ بِمَا شِئْتَ، قَالَ: ((قِفْ مَکَانَکَ، لَاتَتْرُکَنَّ اَحَدًا یَلْحَقُ بِنَا۔)) قَالَ: فکَانَ أَوَّلُ النَّھَارِ جَاھِدًا عَلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ وَکَانَ آخِرَ النَّھَارِ مَسْلَحَۃً لَہُ قَالَ: فَنَزَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ جَانِبَ الْحَرَّۃِ ثُمَّّ بَعَثَ اِلَی الْأَنْصَارِ فَجَائُ وْا نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمُوْا عَلَیْھِمَا وَقَالُوْا ارْکَبَا آمِنَیْنِ مُطْمَئِنَّیْنِ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۳۷)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کے پیچھے سوار تھے، سیدنا ابو بکر بڑی عمر کے تھے، انکو پہنچان لیا جاتا تھا، جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نوجوان لگتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہیں پہچانا جاتا تھا، اس لیے لوگ سیدناابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملتے اور کہتے: یہ آپ کے آگے بیٹھا ہوا آدمی کون ہے؟ وہ کہتے: یہ راستے کی طرف میری رہنمائی کرنے والا آدمی ہے، سائل یہ خیال کرتا کہ وہ ان کا راستہ بتلانے والا ہے، جبکہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مراد خیر و بھلائی والا راستہ تھی، جب ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پیچھے کو متوجہ ہوئے تو کیا دیکھا کہ ایک گھوڑ سوار ان کو آ ملا ہے، پھر انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ ایک گھوڑ سوار ہم تک پہنچ گیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے اللہ! اس کو گرا دے۔ پس اس کے گھوڑے نے اس کو گرا دیا، پھر وہ گھوڑا کھڑا ہو کر ہنہنانے لگا، اس گھوڑ سوار نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ جو چاہتے ہیں، مجھے حکم دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہی کھڑا ہو جا اور کسی کو نہ چھوڑ کہ وہ ہمیں پا سکے۔ یہ شخص دن کے شروع میں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے لڑنے والا تھا، لیکن دن کے آخر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دفاع کرنے والا بن گیا، پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حرّہ کی ایک جانب اترے اور انصاریوں کو بلا بھیجا، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، ان دونوں ہستیوں کو سلام کیا اور پھر کہا: امن اور اطمینانکے ساتھ سوار ہو جاؤ۔

Haidth Number: 10618

۔ (۱۰۷۸۹)۔ عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ الزُّہْرِیُّ: أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ، یُصَدِّقُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا حَدِیثَ صَاحِبِہِ، قَالَا: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَمَانَ الْحُدَیْبِیَۃِ فِی بِضْعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً مِنْ أَصْحَابِہِ حَتّٰی إِذَا کَانُوا بِذِی الْحُلَیْفَۃِ قَلَّدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْہَدْیَ وَأَشْعَرَہُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَۃِ وَبَعَثَ بَیْنَیَدَیْہِ عَیْنًا لَہُ مِنْ خُزَاعَۃَیُخْبِرُہُ عَنْ قُرَیْشٍ، وَسَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا کَانَ بِغَدِیرِ الْأَشْطَاطِ قَرِیبٌ مِنْ عُسْفَانَ أَتَاہُ عَیْنُہُ الْخُزَاعِیُّ، فَقَالَ: إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ قَدْ جَمَعُوا لَکَ الْأَحَابِشَ، وَجَمَعُوا لَکَ جُمُوعًا، وَہُمْ مُقَاتِلُوکَ وَصَادُّوکَ عَنِ الْبَیْتِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَشِیرُوا عَلَیَّ أَتَرَوْنَ أَنْ نَمِیلَ إِلٰی ذَرَارِیِّ ہٰؤُلَائِ الَّذِینَ أَعَانُوہُمْ فَنُصِیبَہُمْ، فَإِنْ قَعَدُوا قَعَدُوا مَوْتُورِینَ مَحْرُوبِینَ وَإِنْ نَجَوْا، وَقَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: مَحْزُونِینَ وَإِنْ یَحْنُونَ، تَکُنْ عُنُقًا قَطَعَہَا اللَّہُ، أَوْ تَرَوْنَ أَنْ نَؤُمَّ الْبَیْتَ، فَمَنْ صَدَّنَا عَنْہُ قَاتَلْنَاہُ۔)) فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: اَللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنَّمَا جِئْنَا مُعْتَمِرِینَ وَلَمْ نَجِئْ نُقَاتِلُ أَحَدًا، وَلٰکِنْ مَنْ حَالَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْبَیْتِ قَاتَلْنَاہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَرُوحُوا إِذًا۔)) قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَیَقُولُ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا قَطُّ کَانَ أَکْثَرَ مَشُورَۃً لِأَصْحَابِہِ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ الزُّہْرِیُّ فِی حَدِیثِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ: فَرَاحُوا حَتّٰی إِذَا کَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ بِالْغَمِیمِ فِی خَیْلٍ لِقُرَیْشٍ طَلِیعَۃً، فَخُذُوا ذَاتَ الْیَمِینِ۔)) فَوَاللّٰہِ! مَا شَعَرَ بِہِمْ خَالِدٌ حَتّٰی إِذَا ہُوَ بِقَتَرَۃِ الْجَیْشِ فَانْطَلَقَ یَرْکُضُ نَذِیرًا لِقُرَیْشٍ، وَسَارَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا کَانَ بِالثَّنِیَّۃِ الَّتِییَہْبِطُ عَلَیْہِمْ مِنْہَا بَرَکَتْ بِہِ رَاحِلَتُہُ، وَقَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: بَرَکَتْ بِہَا رَاحِلَتُہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((حَلْ حَلْ۔)) فَأَلَحَّتْ فَقَالُوا: خَلَأَتِ الْقَصْوَائُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا خَلَأَتِ الْقَصْوَائُ وَمَا ذَاکَ لَہَا بِخُلُقٍ وَلٰکِنْ حَبَسَہَا حَابِسُ الْفِیلِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یَسْأَلُونِّی خُطَّۃًیُعَظِّمُونَ فِیہَا حُرُمَاتِ اللّٰہِ إِلَّا أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا۔)) ثُمَّ زَجَرَہَا فَوَثَبَتْ بِہِ، قَالَ: فَعَدَلَ عَنْہَا حَتّٰی نَزَلَ بِأَقْصَی الْحُدَیْبِیَۃِ عَلٰی ثَمَدٍ قَلِیلِ الْمَائِ، إِنَّمَا یَتَبَرَّضُہُ النَّاسُ تَبَرُّضًا فَلَمْ یَلْبَثْہُ النَّاسُ أَنْ نَزَحُوہُ، فَشُکِیَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعَطَشُ فَانْتَزَعَ سَہْمًا مِنْ کِنَانَتِہِ، ثُمَّ أَمَرَہُمْ أَنْ یَجْعَلُوہُ فِیہِ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا زَالَ یَجِیشُ لَہُمْ بِالرِّیِّ حَتّٰی صَدَرُوا عَنْہُ، قَالَ: فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ جَائَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ الْخُزَاعِیُّ فِی نَفَرٍ مِنْ قَوْمِہِ، وَکَانُوا عَیْبَۃَ نُصْحٍ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ أَہْلِ تِہَامَۃَ، وَقَالَ: إِنِّی تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ نَزَلُوا أَعْدَادَ مِیَاہِ الْحُدَیْبِیَۃِ مَعَہُمْ الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ وَہُمْ مُقَاتِلُوکَ وَصَادُّوکَ عَنِ الْبَیْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ وَلٰکِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِینَ، وَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ نَہَکَتْہُمُ الْحَرْبُ فَأَضَرَّتْ بِہِمْ، فَإِنْ شَائُ وا مَادَدْتُہُمْ مُدَّۃً وَیُخَلُّوا بَیْنِی وَبَیْنَ النَّاسِ، فَإِنْ أَظْہَرْ فَإِنْ شَائُ وْا أَنْ یَدْخُلُوا فِیمَا دَخَلَ فِیہِ النَّاسُ فَعَلُوا وَإِلَّا فَقَدْ جَمُّوْ وَإِنْ ہُمْ أَبَوْا، وَإِلَّا فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَأُقَاتِلَنَّہُمْ عَلٰی أَمْرِی ہٰذَا حَتّٰی تَنْفَرِدَ سَالِفَتِی، أَوْ لَیُنْفِذَنَّ اللّٰہُ أَمْرَہُ۔)) قَالَ یَحْیٰی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: ((حَتّٰی تَنْفَرِدَ، قَالَ: فَإِنْ شَائُ وْا مَادَدْنَاہُمْ مُدَّۃً۔))، قَالَ بُدَیْلٌ: سَأُبَلِّغُہُمْ مَا تَقُولُ، فَانْطَلَقَ حَتّٰی أَتٰی قُرَیْشًا فَقَالَ، إِنَّا قَدْ جِئْنَاکُمْ مِنْ عِنْدِ ہٰذَا الرَّجُلِ وَسَمِعْنَاہُ یَقُولُ قَوْلًا فَإِنْ شِئْتُمْ نَعْرِضُہُ عَلَیْکُمْ، فَقَالَ سُفَہَاؤُہُمْ: لَا حَاجَۃَ لَنَا فِی أَنْ تُحَدِّثَنَا عَنْہُ بِشَیْئٍ،وَقَالَ ذُو الرَّأْیِ مِنْہُمْ: ہَاتِ مَا سَمِعْتَہُ یَقُولُ، قَالَ: قَدْ سَمِعْتُہُ یَقُولُ: کَذَا وَکَذَا، فَحَدَّثَہُمْ بِمَا قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیُّ فَقَالَ: أَیْ قَوْمُ! أَلَسْتُمْ بِالْوَلَدِ؟ قَالُوا: بَلٰی! قَالَ: أَوَلَسْتُ بِالْوَالِدِ؟ قَالُوا: بَلٰی! قَالَ: فَہَلْ تَتَّہِمُونِی، قَالُوْا: لَا، قَالَ: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی اسْتَنْفَرْتُ أَہْلَ عُکَاظٍ فَلَمَّا بَلَّحُوا عَلَیَّ جِئْتُکُمْ بِأَہْلِی وَمَنْ أَطَاعَنِی؟ قَالُوا: بَلٰی! فَقَالَ: إِنَّ ہٰذَا قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوہَا وَدَعُونِی آتِہِ، فَقَالُوْا: ائْتِہِ فَأَتَاہُ، قَالَ: فَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لَہُ نَحْوًا مِنْ قَوْلِہِ لِبُدَیْلٍ، فَقَالَ عُرْوَۃُ عِنْدَ ذٰلِکَ: أَیْ مُحَمَّدُ! أَرَأَیْتَ إِنْ اسْتَأْصَلْتَ قَوْمَکَ، ہَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَہْلَہُ قَبْلَکَ، وَإِنْ تَکُنِ الْأُخْرٰی فَوَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی وُجُوہًا وَأَرٰی أَوْبَاشًا مِنَ النَّاسِ خُلُقًا أَنْ یَفِرُّوا وَیَدَعُوکَ، فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: امْصُصْ بَظْرَ اللَّاتِ، نَحْنُ نَفِرُّ عَنْہُ وَنَدَعُہُ فَقَالَ: مَنْ ذَا؟ قَالُوا: أَبُو بَکْرٍ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْلَا یَدٌ کَانَتْ لَکَ عِنْدِی، لَمْ أَجْزِکَ بِہَا لَأَجَبْتُکَ، وَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکُلَّمَا کَلَّمَہُ أَخَذَ بِلِحْیَتِہِ، وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ قَائِمٌ عَلٰی رَأْسِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ السَّیْفُ وَعَلَیْہِ الْمِغْفَرُ، وَکُلَّمَا أَہْوٰی عُرْوَۃُ بِیَدِہِ إِلَی لِحْیَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ضَرَبَ یَدَہُ بِنَصْلِ السَّیْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ یَدَکَ عَنْ لِحْیَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَفَعَ عُرْوَۃُیَدَہُ فَقَالَ: مَنْ ہٰذَا؟ قَالُوا: الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ، قَالَ: أَیْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعٰی فِی غَدْرَتِکَ؟ وَکَانَ الْمُغِیرَۃُ صَحِبَ قَوْمًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَقَتَلَہُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَہُمْ ثُمَّ جَائَ فَأَسْلَمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا الْإِسْلَامُ فَأَقْبَلُ وَأَمَّا الْمَالُ فَلَسْتُ مِنْہُ فِی شَیْئٍ۔)) ثُمَّ إِنَّ عُرْوَۃَ جَعَلَ یَرْمُقُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعَیْنِہِ قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نُخَامَۃً إِلَّا وَقَعَتْ فِی کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ، وَإِذَا أَمَرَہُمْ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلٰی وَضُوئِہِ، وَإِذَا تَکَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ، وَمَا یُحِدُّونَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیمًا لَہُ، فَرَجَعَ إِلٰی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: أَیْ قَوْمِ، وَاللّٰہِ! لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوکِ، وَوَفَدْتُ عَلٰی قَیْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِیِّ، وَاللّٰہِ! إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہُ أَصْحَابُہُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاللّٰہِ! إِنْ یَتَنَخَّمُ نُخَامَۃً إِلَّا وَقَعَتْ فِی کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ، وَإِذَا أَمَرَہُمْ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلٰی وَضُوئِہِ، وَإِذَا تَکَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ، وَمَا یُحِدُّونَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیمًا لَہُ، وَإِنَّہُ قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوہَا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی کِنَانَۃَ: دَعُونِی آتِہِ، فَقَالُوْا: ائْتِہِ، فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابِہِ، قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ہٰذَا فُلَانٌ وَہُوَ مِنْ قَوْمٍ یُعَظِّمُونَ الْبُدْنَ فَابْعَثُوْہَا لَہُ۔)) فَبُعِثَتْ لَہُ وَاسْتَقْبَلَہُ الْقَوْمُ یُلَبُّونَ، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! مَا یَنْبَغِی لِہٰؤُلَائِ أَنْ یُصَدُّوْا عَنِ الْبَیْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ إِلٰی أَصْحَابِہِ، قَالَ: رَأَیْتُ الْبُدْنَ قَدْ قُلِّدَتْ وَأُشْعِرَتْ، فَلَمْ أَرَ أَنْ یُصَدُّوا عَنِ الْبَیْتِ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ: مِکْرَزُ بْنُ حَفْصٍ، فَقَالَ: دَعُونِی آتِہِ، فَقَالُوْا: ائْتِہِ، فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَیْہِمْ، قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ہٰذَا مِکْرَزٌ وَہُوَ رَجُلٌ فَاجِرٌ۔)) فَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَبَیْنَا ہُوَ یُکَلِّمُہُ إِذْ جَائَہُ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ مَعْمَرٌ: وَأَخْبَرَنِیأَیُّوبُ عَنْ عِکْرِمَۃَ: أَنَّہُ لَمَّا جَائَ سُہَیْلٌ، قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((سَہُلَ مِنْ أَمْرِکُمْ۔)) قَالَ الزُّہْرِیُّ فِی حَدِیثِہِ: فَجَائَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ: ہَاتِ اکْتُبْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابًا، فَدَعَا الْکَاتِبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔)) فَقَالَ سُہَیْلٌ: أَمَّا الرَّحْمَنُ، فَوَاللّٰہِ! مَا أَدْرِی مَا ہُوَ؟ وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ: مَا ہُوَ؟ وَلَکِنْ اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ کَمَا کُنْتَ تَکْتُبُ، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: وَاللّٰہِ! مَا نَکْتُبُہَا إِلَّا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ۔)) ثُمَّ قَالَ: ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ، فَقَالَ سُہَیْلٌ: وَاللّٰہِ! لَوْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ مَا صَدَدْنَاکَ عَنِ الْبَیْتِ وَلَا قَاتَلْنَاکَ، وَلٰکِنْ اکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَاللّٰہِ! إِنِّی لَرَسُولُ اللّٰہِ وَإِنْ کَذَّبْتُمُونِی، اکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَذٰلِکَ لِقَوْلِہِ لَایَسْأَلُونِّی خُطَّۃًیُعَظِّمُونَ فِیہَا حُرُمَاتِ اللّٰہِ إِلَّا أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((عَلٰی أَنْ تُخَلُّوا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْبَیْتِ فَنَطُوفَ بِہِ۔)) فَقَالَ سُہَیْلٌ: وَاللّٰہِ! لَا تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّا أُخِذْنَا ضُغْطَۃً وَلٰکِنْ لَکَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَکَتَبَ، فَقَالَ سُہَیْلٌ: عَلٰی أَنَّہُ لَا یَأْتِیکَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ کَانَ عَلٰی دِینِکَ إِلَّا رَدَدْتَہُ إِلَیْنَا، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! کَیْفَیُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ وَقَدْ جَائَ مُسْلِمًا؟ فَبَیْنَا ہُمْ کَذٰلِکَ إِذْ جَائَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو یَرْسُفُ وَقَالَ یَحْیٰی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: یَرْصُفُ فِی قُیُودِہِ وَقَدْ خَرَجَ مِنْ أَسْفَلِ مَکَّۃَ حَتّٰی رَمٰی بِنَفْسِہِ بَیْنَ أَظْہُرِ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ سُہَیْلٌ: ہٰذَا یَا مُحَمَّدُ! أَوَّلُ مَا أُقَاضِیکَ عَلَیْہِ أَنْ تَرُدَّہُ إِلَیَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْکِتَابَ بَعْدُ۔)) قَالَ: فَوَاللّٰہِ! إِذًا لَا نُصَالِحُکَ عَلٰی شَیْئٍ أَبَدًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَأَجِزْہُ لِی۔)) قَالَ: مَا أَنَا بِمُجِیرِہِ لَکَ قَالَ: بَلَی، فَافْعَلْ، قَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، قَالَ مِکْرَزٌ: بَلٰی، قَدْ أَجَزْنَاہُ لَکَ، فَقَالَ أَبُو جَنْدَلٍ: أَیْ مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِینَ أُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ، وَقَدْ جِئْتُ مُسْلِمًا أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ لَقِیتُ، وَکَانَ قَدْ عُذِّبَ عَذَابًا شَدِیدًا فِی اللّٰہِ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ أَلَسْتَ نَبِیَّ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قُلْتُ: أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ؟ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قُلْتُ: فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا إِذًا؟ قَالَ: ((إِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ وَلَسْتُ أَعْصِیہِ وَہُوَ نَاصِرِی۔)) قُلْتُ: أَوَلَسْتَ کُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِی الْبَیْتَ فَنَطُوفُ بِہِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: ((أَفَأَخْبَرْتُکَ أَنَّکَ تَأْتِیہِ الْعَامَ؟)) قُلْتُ: لَا، قَالَ: ((فَإِنَّکَ آتِیہِ وَمُتَطَوِّفٌ بِہِ۔)) قَالَ: فَأَتَیْتُ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا بَکْرٍ! أَلَیْسَ ہٰذَا نَبِیُّ اللّٰہِ حَقًّا؟ قَالَ: بَلٰی، قُلْتُ: أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ؟ قَالَ: بَلٰی، قُلْتُ: فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا إِذًا؟ قَالَ: أَیُّہَا الرَّجُلُ! إِنَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَیْسَیَعْصِیرَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ نَاصِرُہُ فَاسْتَمْسِکْ، وَقَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ: بِغَرْزِہِ، وَقَالَ: تَطَوَّفْ بِغَرْزِہِ حَتّٰی تَمُوتَ فَوَاللّٰہِ! إِنَّہُ لَعَلَی الْحَقِّ، قُلْتُ: أَوَلَیْسَ کَانَ یُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِی الْبَیْتَ وَنَطُوفُ بِہِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: أَفَأَخْبَرَکَ أَنَّہُ یَأْتِیہِ الْعَامَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ فَإِنَّکَ آتِیہِ وَمُتَطَوِّفٌ بِہِ، قَالَ الزُّہْرِیُّ: قَالَ عُمَرُ: فَعَمِلْتُ لِذَلِکَ أَعْمَالًا، قَالَ: فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِیَّۃِ الْکِتَابِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَصْحَابِہِ: ((قُومُوْا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا۔)) قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا قَامَ مِنْہُمْ رَجُلٌ حَتّٰی قَالَ ذٰلِکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا لَمْ یَقُمْ مِنْہُمْ أَحَدٌ قَامَ فَدَخَلَ عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ فَذَکَرَ لَہَا مَا لَقِیَ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُحِبُّ ذٰلِکَ اخْرُجْ ثُمَّ لَا تُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْہُمْ کَلِمَۃً حَتّٰی تَنْحَرَ بُدْنَکَ وَتَدْعُوَ حَالِقَکَ فَیَحْلِقَکَ، فَقَامَ فَخَرَجَ فَلَمْ یُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْہُمْ حَتّٰی فَعَلَ ذٰلِکَ نَحَرَ ہَدْیَہُ وَدَعَا حَالِقَہُ، فَلَمَّا رَأَوْا ذٰلِکَ قَامُوا فَنَحَرُوا وَجَعَلَ بَعْضُہُمْ یَحْلِقُ بَعْضًا، حَتّٰی کَادَ بَعْضُہُمْ یَقْتُلُ بَعْضًا غَمًّا، ثُمَّ جَائَہُ نِسْوَۃٌ مُؤْمِنَاتٌ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا جَاء َکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ حَتّٰی بَلَغَ بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ} قَالَ: فَطَلَّقَ عُمَرُ یَوْمَئِذٍ امْرَأَتَیْنِ کَانَتَا لَہُ فِی الشِّرْکِ، فَتَزَوَّجَ إِحْدَاہُمَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ، وَالْأُخْرٰی صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّۃَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمَدِینَۃِ فَجَائَہُ أَبُو بَصِیرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ وَہُوَ مُسْلِمٌ، وَقَالَ یَحْیٰی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ: فَقَدِمَ عَلَیْہِ أَبُو بَصِیرِ بْنُ أُسَیْدٍ الثَّقَفِیُّ مُسْلِمًا مُہَاجِرًا، فَاسْتَأْجَرَ الْأَخْنَسُ بْنُ شَرِیقٍ رَجُلًا کَافِرًا مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ، وَمَوْلًی مَعَہُ وَکَتَبَ مَعَہُمَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْأَلُہُ الْوَفَائَ فَأَرْسَلُوْا فِی طَلَبِہِ رَجُلَیْنِ، فَقَالُوْا: الْعَہْدَ الَّذِی جَعَلْتَ لَنَا فِیہِ، فَدَفَعَہُ إِلَی الرَّجُلَیْنِ فَخَرَجَا بِہِ حَتَّی بَلَغَا بِہِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ فَنَزَلُوْا یَأْکُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَہُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِیرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَیْنِ: وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی سَیْفَکَیَا فُلَانُ ہٰذَا جَیِّدًا، فَاسْتَلَّہُ الْآخَرُ، فَقَالَ: أَجَلْ وَاللّٰہِ! إِنَّہُ لَجَیِّدٌ لَقَدْ جَرَّبْتُ بِہِ ثُمَّ جَرَّبْتُ، فَقَالَ أَبُو بَصِیرٍ: أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْہِ، فَأَمْکَنَہُ مِنْہُ فَضَرَبَہُ حَتّٰی بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتّٰی أَتَی الْمَدِینَۃَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ یَعْدُو، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَقَدْ رَأٰی ہٰذَا ذُعْرًا۔)) فَلَمَّا انْتَہٰی إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُتِلَ وَاللّٰہِ! صَاحِبِی وَإِنِّی لَمَقْتُولٌ، فَجَائَ أَبُو بَصِیرٍ، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! قَدْ وَاللّٰہِ! أَوْفَی اللّٰہُ ذِمَّتَکَ قَدْ رَدَدْتَنِی إِلَیْہِمْ ثُمَّ أَنْجَانِی اللّٰہُ مِنْہُمْ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَیْلُ أُمِّہِ مِسْعَرُ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَہُ أَحَدٌ۔)) فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ عَرَفَ أَنَّہُ سَیَرُدُّہُ إِلَیْہِمْ فَخَرَجَ حَتّٰی أَتٰی سِیفَ الْبَحْرِ، قَالَ: وَیَتَفَلَّتُ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلٍ فَلَحِقَ بِأَبِی بَصِیرٍ، فَجَعَلَ لَا یَخْرُجُ مِنْ قُرَیْشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلَّا لَحِقَ بِأَبِی بَصِیرٍ حَتَّی اجْتَمَعَتْ مِنْہُمْ عِصَابَۃٌ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا یَسْمَعُونَ بِعِیرٍ خَرَجَتْ لِقُرَیْشٍ إِلَی الشَّامِ إِلَّا اعْتَرَضُوا لَہَا فَقَتَلُوہُمْ وَأَخَذُوا أَمْوَالَہُمْ، فَأَرْسَلَتْ قُرَیْشٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تُنَاشِدُہُ اللّٰہَ وَالرَّحِمَ، لَمَّا أَرْسَلَ إِلَیْہِمْ فَمَنْ أَتَاہُ فَہُوَ آمِنٌ، فَأَرْسَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْہِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ حَتّٰی بَلَغَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ} وَکَانَتْ حَمِیَّتُہُمْ أَنَّہُمْ لَمْ یُقِرُّوا أَنَّہُ نَبِیُّ اللّٰہِ، وَلَمْ یُقِرُّوا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، وَحَالُوا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَیْتِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۳۶)

"سیدنا مسور بن مخرمۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا مروان بن حکم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے، ان دونوں کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حدیبیہ کے دنوں میں چودہ پندرہ سو صحابہ کی معیت میں روانہ ہوئے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذوالحلیفہ کے مقام پرپہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قربانی کے جانوروں کے گلوں میں بطور علامت قلادے ڈالے اور ان کے پہلو کو چیرا دیا اور عمرہ کا احرام باندھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے آگے آگے بنو خزاعہ کے ایک شخص کو بطور جاسوس بھیجا تاکہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو قریش کے ارادوں اور پروگرام سے آگاہ کرتا رہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سفر جاری رکھا، یہاں تک کہ جب آپ مقامِ عسفان کے قریب غدیرِ اشطاط پر پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خزاعی جاسوس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی کہ میں کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کو دیکھ کر آیا ہوں، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مدمقابل آنے کے لیے بہت سے قبائل کو جمع کر چکے ہیں۔ وہ آپ سے قتال کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ آپ کوبیت اللہ کی طرف جانے سے روکنے کے درپے ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! مجھے مشورہ دو، کیا خیال ہے کہ جن لوگوں نے ان قریش کی مدد کی ہے، ہم ان کی عورتوں اور بچوں کی طرف چل پڑیں، اگر یہ لوگ وہیں قریش کے پاس ہی بیٹھے رہے تو ہم ان کے اموال حاصل کر لیں گے اور ان کے اہل وعیال کو گرفتار کر لیں گے اور اگر یہ کفار کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اموال اور اہل وعیال کو بچانے کی خاطر ادھر سے واپس آگئے تو اس طرح اللہ تعالیٰ کفار کی معاون ایک جماعت کو ان سے الگ کر دے گا یا تم کیا مشورہ دیتے ہو کہ کیا ہم بیت اللہ کی طرف روا دواں رہیں، اور جس نے ہمیں اُدھر جانے سے روکا، ہم اس سے لڑ پڑیں گے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:اے اللہ کے نبی! اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، بہرحال ہم تو عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں، ہم کسی سے قتال کرنے کے لیے تو نہیں آئے، البتہ جو شخص ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا اس سے ہم قتال کر یں گے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا پھر چلو۔ راویِ حدیث امام زہری کہتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کرتے تھے کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر اپنے ساتھیوں سے اس قدر مشورے کرتا ہو، چنانچہ لوگ چل پڑے حتیٰ کہ جب راستے کے درمیان میں ہی تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خالد بن ولید قریش کے ایک چھوٹے سے گھڑ سوار لشکر کے ہمراہ( رابغ اور جحفہ کے درمیان) غمیم کے مقام پر موجود ہے، پس تم دائیں طرف والے راستے سے چلو۔ اللہ کی قسم! خالد کو ان کا پتہ بھی نہ چل سکا، یہاں تک کہ اس نے اچانک لشکر کے چلنے کی وجہ سے اڑتا غبار دیکھا وہ تو اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر قریش کوخبردار کرنے کے لیے دوڑنکلااور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رواں دواں رہے، تاآنکہ اس گھاٹی پر پہنچ گئے جہاں سے اہلِ مکہ کی طرف اترتے ہیں، وہاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی،تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چل چل۔ مگر وہ بیٹھی رہی اور کھڑی نہ ہوئی، صحابہ کہنے لگے کہ قصوا ضد کر گئی،قصواء اڑی کر گئی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قصواء نے ضدنہیں کی اور نہ ہییہ اس کی عادت ہے، دراصل اسے اس اللہ نے آگے جانے سے روکا ہے، جس نے ہاتھیوں کو روکا تھا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم! یہ کافر مجھ سے کوئی بھی ایسا مطالبہ کریں، جس سے وہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرتے ہوں تو میں ان کی ایسی ہر بات تسلیم کر لوں گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹنی کو کھڑا کرنے کے لیے ہانکا تو وہ کود کر اُٹھ کھڑی ہوئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس راستے سے دوسرے راستے پر چل دئیے۔ یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حدیبیہ کے قریب ایک ایسی جگہ جا کر رکے جہاں قلیل مقدار میں پانی تھا، لوگ اسے چلووں سے تھوڑا تھوڑا جمع کر سکتے تھے، لوگوں نے اسے کچھ ہی دیر میں ختم کر دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پیاس کی شکایت کی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور انہیں حکم دیا کہ اسے اس چشمے یا گڑھے میں گاڑ دیں۔اللہ کی قسم! صحابہ کی وہاں سے روانگیتک وہاں سے پانی جوش مار مار کر ابلتا رہا اور لوگوں کو سیراب کرتا رہا، صحابہ کرام وہیں اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی اپنی قوم کے افراد کے ہمراہ وہاں آگیا۔ اہلِ تہامہ میں سے یہ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خاص راز دار تھے۔ اس نے کہا میں نے کعب بن لوی اور عامر بن لوی کو حدیبیہ کے ختم نہ ہونے والے ذخیروں کے پاس چھوڑا ہے۔ ان کے پاس تازہ بچے دینے والی شیردار اونٹنیاں ہیں، جن کے بچے بھی ہم راہ ہیں، وہ آپ سے قتال کرنے اور آپ کو بیت اللہ کی طرف جانے سے روکنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم تو کسی سے لڑنے کے لیے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں، قریش کو لڑائیاں کم زور کر چکی ہیں اور ان کو شدید نقصان پہنچا چکی ہیں۔ وہ چاہیں گے تو میں انہیں ( جنگ نہ کرنے کے لیے) ایک لمبی مدت دے سکتا ہوں، بشرطیکہ وہ میرے اور لوگوں کے درمیان حائل نہ ہوں، اگر میں غالب رہوں تو ان کی مرضی ہے کہ یہ بھی اس دین میں آجائیں، جس میں دوسرے لوگ داخل ہو رہے ہیں، اگر وہ اسلام نہ بھی قبول کریں تب بھی جنگ کے سلسلہ میں تو مطمئن رہیں گے اور اگر ان سب باتوں کو ماننے سے انکار کریں تو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں اس دین کے بارے میں ان لوگوں سے قتال کروں گایہاں تک کہ یا تو اس راہ میں میری گردن کٹ جائے یا اللہ اپنے دین کو غالب کر دے۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر قریش چاہیں تو ہم انہیں جنگ نہ کرنے کی ایک طویل مدت دے سکتے ہیں۔ بدیل نے کہا: میں آپ کی باتیں قریش تک پہنچا دوں گا، وہ قریش کے ہاں گیا اور کہا کہ ہم تمہارے پاس اس آدمی کے ہاں سے آئے ہیں، ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے، اگر تم چاہو تو ہم اس کی بات تمہارے سامنے پیش کریں، ان قریش کے بعض کم عقل لوگوںنے کہا: ہمیں اس بات کی قطعاً ضرورت نہیں کہ تم ہمیں ان کی کوئی بات سناؤ۔ لیکن ان میں سے اصحابِ رائے نے کہا: ہاں ہاں بتاؤ وہ کیا کہتا ہے؟ بدیل نے کہا: میں نے اسے یہ کہتے سنا ہے اور اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ساری بات ان کو بتا دی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر عروہ بن مسعود ثقفی اُٹھا اور اس نے کہا: لوگو! کیا تم اولاد1 کی طرح نہیں ہو؟ اس نے کہا کیا میں باپ کی طرح نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ہاں وہ بولا تو کیا تم میرے متعلق کوئی بدگمانی کرتے ہو؟ وہ بولے کہ نہیں۔ اس نے کہا تم جانتے ہو کہ میں نے اہلِ عکاظ کو تمہارے حق میں لڑائی کے لیے پکارا تھا۔ ان میں سے کسی نے میری پکار کا اثبات میں جواب نہیں دیا تھا تو میں اپنے اہل وعیال کو اور اپنی بات ماننے والے سب لوگوں کو لے آیا تھا۔ سب نے کہا ہاں درست ہے۔ وہ بولا بے شک اس محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہارے سامنے بہترین تجویز رکھی ہے۔ تم اسے قبول کر لو۔ اور مجھے اجازت دو تاکہ میں بات چیت کرنے کے لیے اس کے پاس چلوں انہوں نے کہا تم جا سکتے ہو۔ وہ عروہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا۔ اور آپ سے گفت وشنید کرنے لگا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے بھی ویسی ! جس طرح صحیح بخاری میں الفاظ ہیں، عربی بھی اسی انداز میں اور ترجمہ بھی اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے اسل کی طرف رجوع بہتر رہے گا۔ (عبداللہ رفیق) ہی بات کی جیسی بدیل سے کی تھی۔ تب اس موقعہ پر عروہ نے کہا اے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! کیا خیال ہے اگر آپ اپنی قوم کی جڑیں کاٹ ڈالیں گے تو کیا آپ نے سنا کہ آپ سے پہلے بھی کسی نے اپنی قوم کے ساتھ یہ سلوک کیاہو؟ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی آپ کی قوم قریش غالب آجائے تو اللہ کی قسم میں آپ کے ساتھیوں میں ایسے چہرے اور ایسے مختلف اقوام وملل کے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو وقت آنے پر آپ کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر فرار ہو جائیں گے۔ یہ سن کر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے غصے سے کہا جا جا تو لات کی شرم گاہ کو بوسے دے، کیایہ ہو سکتا ہے کہ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یونہی بے یارومددگار چھور کر بھاگ جائیں۔ عروہ نے پوچھا۔ یہ بولنے والے کون ہیں؟لوگوں نے بتایایہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں تو عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمہارا مجھ پر ایک احسان ہے میں اس کا بدلہ نہیں چکا سکا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں تمہاری بات کا جواب دیتا۔ اور وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ محوِ گفتگو ہو گیا۔ وہ جب بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہم کلام ہوتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک کو ہاتھ لگا تا۔ مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تلوار ہاتھ میں لئے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب کھڑے تھے۔ ان کے سر پر خود تھی۔ جب عروہ اپنا ہاتھ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف بڑھانا تو مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تلوار کی نوک اس کے ہاتھ پر رکھتا اور فرماتا تم اپنا ہاتھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی سے دور رکھو۔ عروہ نے اپنا ہاتھ تو اُٹھالیا اور پوچھا یہ کون ہے؟ صحابہ نے بتلایا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے۔ وہ بولا ارے بے وفا؟ کیا میں تیری بے وفائی میں تیری معاونت نہیں کرتا رہا؟ دراصل مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قبل از اسلام کچھ لوگوں سے تعلق رکھا۔ پھر انہیں قتل کر کے اور ان کے اموال چھین کر آکر مسلمان ہو گیا تھا۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا تمہارا اسلام تو قبول ہے البتہ اس مال سے میرا کچھ تعلق اور واسطہ نہیں۔ اس دوران عروہ صحابہ کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رویہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔وہ کہتا ہے اللہ کی قسم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب بھی بلغم پھینکی تو ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر جا گری اور اس نے اسے اپنے چہرے یا جلد پر مل لیا۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب بھی انہیں کوئی حکم دیا تو سب اس کیتعمیل میں لپکے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب وضوء کیا تو وضوء سے نیچے گرنے والے پانی کو حاصل کرنے کی خاطر وہ یوں جھپٹتے گویا کہ وہ لڑ پڑیں گے۔ وہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب کوئی بات کرتے تو احتراماً اپنی آوازوں کو انتہائی پست کر لیتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تکریم کرتے ہوئے آپ کی طرف نظریں نہیں اُٹھاتے وہ اپنے ساتھیوں کی طرف واپس گیا تو اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی قسم! میں بڑے بڑے بادشاہوں قیصروکسریٰ اور نجاشی جیسے لوگوں کے پاس گیا ہوں اللہ کی قسم! میں نے نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے درباری اس کا اتنا احترام کرتے ہوں جتنا احترام اصحاب محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! وہ اگر بلغم پھینکے تو وہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر گرتی ہے اور وہ اسے اپنے چہرے اور جلد پر مل لیتا ہے۔ وہ جب انہیں کوئی حکم دیتا ہے تو اس کی تعمیل میں سب لوگ لپک لپک جاتے ہیں۔ وہ جب وضو کرتا ہے تو وہ اس کے وضوء سے نیچے گرنے والے پانی کو حاصل کرنے کے لیےیوں جھپٹتے ہیں کہ شاید لڑ پڑیں گے۔ وہ جب بولتے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب اپنی آوازوں کو انتہائی پست کر لیتے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا احترام کرتے ہوئے وہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف نظریں اُٹھا کر نہیں دیکھتے اس نے آپ لوگوں کے سامنے بہترین تجویز رکھی ہے تم لوگ اسے قبول کر لو۔ اس کی باتیں سن کر بنو کنانہ کا ایک آدمی بولا مجھے اجازت دو۔ اس ( محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس میں جاتا ہوں۔ لوگوں نے کہا تم ہو آؤ۔ وہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب کے سامنے آیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ فلان شخص ہے یہ لوگ قربانی کے اونٹوں کی خوب تعظیم کرتے ہیں۔ اس کے آنے پر تم اپنے قربانی کے ان اونٹوں کو کھڑا کر دو۔ چنانچہ اونٹوں کو کھڑا کر دیا گیا۔ اور صحابہ نے تلبیہ پڑھتے ہوئے اسکا استقبال کیا۔ وہ بولا سبحان اللہ ان جیسے لوگوں کو تو بیت اللہ کی طرف جانے سے نہیں روکا جانا چاہیے۔ وہ جب اپنے ساتھیوں کی طرف واپس ہوا تو اس نے کہا میں دیکھ آیا ہوں کہ قربانی کے اونٹوں کے گلوں میں بطور علامات ہار ڈالے گئے ہیں۔ اور ان کے دائیں پہلو پر چیرے دئیے گئے ہیں۔ ان کو بیت اللہ کی طرف آنے سے روکے جانے کو میں پسند نہیں کرتا۔ یہ سن کر ان میں سے مکرز بن حفص نامی ایک شخص اُٹھا اور بولا مجھے اجازت دو اس یعنی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس میں جاتا ہوں۔ اس کے ساتھیوں نے کہا تم ہو آؤ وہ جب مسلمانوں کے سامنے پہنچا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایایہ مکرز آرہا ہے یہ شریر آدمی ہے اور وہ آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کلام کرنے لگا۔ وہ ابھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے محوِ گفتگو ہی تھا کہ سہیل بن عمرو آگیا۔عکرمہ کہتے ہیں کہ جب سہیل آیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اب تمہارا کام آسان ہو گیا۔ زہری کی روایتمیں ہے کہ سہیل بن عمرو نے آکر کہا کوئی کاغذ لاؤ۔ میں اپنے اور آپ کے مابین ایک تحریر لکھ دیتا ہوں۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک کاتب ( سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کو بلایا۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم، سہیل نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ رحمان کون ہے؟ البتہ آپ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ لکھیں جیسا کہ اس سے پہلے آپ لکھا کرتے تھے، تو مسلمانوں نے کہا اللہ کی قسم ! ہم تو بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھیں گے۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ ہی لکھو۔ پھر فرمایایہ وہ تحریر ہے جس پر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم معاہدہ کرتے ہیں۔ تب بھی سہیل نے کہا اللہ کی قسم اگر ہم یہ مانتے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واقعی اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ کی طرف آنے سے نہ روکتے اور نہ آپ سے لڑائیاں کرتے۔ آپ لکھیں محمد بن عبداللہ زہری کہتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبل ازیں فرما چکے تھے کہ یہ لوگ مجھ سے کوئی بھی ایسا مطالبہ کریں جس میں وہ اللہ کی حرمات یعنی شعائر کی تعظیم کریں تو میں ان کی ایسی ہر بات تسلیم کر وں گا۔ اس لئے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا( لکھو) یہ معاہدہ ہے بشرطیکہ تم ہمارے بیت اللہ تک جانے سے رکاوٹ نہ ڈالو۔ تاکہ ہم وہاں جا کر طواف کر سکیں۔ تو سہیل نے کہا اللہ کی قسم! عرب یوں نہ کہیں کہ ہم پرزبردستی کی گئی ہے۔ لیکن آپ امسال کی بجائے اگلے سال تشریف لے آئیں۔ چنانچہ معاہدہ لکھا گیا۔ سہیل نے کہا یہ معاہدہ ہے کہ ہمارے ہاں سے( یعنی مکہ سے) کوئی آدمی اگر آپ کے ہاں( مدینہ) گیا تو آپ اسے واپس کریں گے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ سن کر مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور اسے مشرکین کے حوالے کر دیا جائے۔ وہ ابھی لکھ ہی رہے تھے کہ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن سہیل بن عمرو اپنی بیڑیوں میں مقید آہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں پہنچ گئے۔ وہ مکہ کے نشیبی حصہ کی طرف سے نکل آئے تھے۔ وہ آکر مسلمانوں کے درمیان گر گئے۔ یہ دیکھ کر سہیل نے کہا اے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! معاہدہ کے مطابق میں پہلا مطالبہ یہ کرتا ہوں کہ آپ اسے میرے حوالے کریں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابھی تک تو ہم معاہدہ کی تحریر لکھ کر فارغ ہی نہیں ہوئے یعنی معاہدہ مکمل ہی نہیں ہوا۔ وہ بولا اللہ کی قسم! اگر یہ بات ہے تو ہم آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاہدہ نہیں کرتے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا۔ اسے نافذ ہونے دو وہ بولا میں اس معاہدہ کو آپ کے حق میں نافذ نہ ہونے دوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، بہتر ہے کہ مان جاؤ۔ وہ بولا میں بالکل نہیں مان سکتا۔ تو مکرز نے کہا ٹھیک ہے ہم اس معاہدہ کو نافذ کرتے ہیں ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگے مسلمانو! میں مسلمان ہوں کیا مجھے مشرکین کے حوالے کر دیا جائے گا؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں کس قدر مصائب اور ظلم وستم جھیل رہا ہوں؟ اسے اللہ کی راہ میں بہت زیادہ ایذائیں دی گئی تھیں۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیںیہ مناظر دیکھ کر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے نبی نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کیوں نہیں؟ میں نے عرض کیا، کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کیوں دکھائیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں۔میں اس کی نافرمانی اور حکم عدولی نہیں کر سکتا۔ وہی میرا ناصر اور مددگار ہے۔ میں نے عرض کیا، کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے یوں نہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ جا کر اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہان لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سال؟ میں نے عرض کیا، نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا پس تم وہاں جاؤ گے اور طواف کرو گے۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس چلا گیا۔ اور عرض کیا اے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے سچے نبی نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے عرض کیا کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ انہوں نے کہا بالکل۔ میں نے کہا پھر ہم اپنے دین کے متعلق کمزوری کیوں دکھائیں؟ وہ بولے ارے وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اپنے رب کی نافرمانییا حکم عدولی نہیں کرتے، اللہ ہی ان کی مدد کرے گا۔ تم ان کی بات کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور مرتے دم تک اسی پر ثابت قدم رہو۔ اللہ کی قسم وہ (رسول) حق پر ہی ہیں۔ میں نے کہا کیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے یوں نہ کہا کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ جا کر اس کا طواف کریں گے؟ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا، ہاں، لیکن کیا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال؟ میں نے کہا کہ یہ تو نہیں کہا تھا۔ وہ بولے پس تم بیت اللہ جاؤ گے اور طواف کرو گے۔ زہری کی روایت میں ہے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنی اس جسارت کی تلافی کے لیے ( نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ) بہت سے اعمال کئے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم معاہدہ کی تحریر کے معاملہ سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا اُٹھ کر اونٹوں کو نحر کرو اور اس کے بعدسر منڈوا دو۔ اللہ کی قسم! آپ نے اپنییہ بات تین دفعہ کہی لیکن اس کام کے لیے ایک بھی آدمی کھڑا نہ ہوا۔ جب کوئی بھی آدمی نہ اُٹھا تو آپ اُمّ المؤمنین سیّدہ ام سلمہ c کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے لوگوں کی حالت کا ذکر کیا۔ تو انہوں نے عرض کیا اللہ کے رسول ! کیا آپ واقعییہ کام کرنا چاہتے ہیں؟ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی سے کچھ نہ کہیں اور جا کر اپنا اونٹ نحر کر دیں۔ اور بال مونڈنے والے کو بلا کر بال منڈا لیں۔ چنانچہ آپ اُٹھ کر باہر تشریف لائے۔ اور آپ نے کسی سے کچھ نہ کہا۔ آپ نے اپنے اونٹ کو نحرکیا۔ اور بال مونڈنے والے کو بلوایا۔ جب صحابہ نے یہ منظر دیکھا تو انہوں نے بھی اُٹھ کر اپنے اپنے اونٹوں کو نحر کیا اور وہ ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے غم کی شدت اس قدر تھی کہ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے کے بال مونڈتے مونڈتے کہیں ایک دوسرے کو قتل نہ کردیں۔ پھر اہل ایمان خواتین آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا جَائَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ حَتّٰی بَلَغَ بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ…} … ایمان والو! جب مسلمان خواتین ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو پہلے ان کو آزمالو، ان کے ایمان کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پس اگر تم ان کو ایمان سے پختہ پاؤ تو انہیں کفار کی طرف واپس مت کرو۔ یہ اُن کے لیے اور وہ ان کے لیے حلال نہیں۔ اور ان کا فروں نے ان پر جو کچھ خرچ کیا ہو تو ان کو ادا کردو۔ اور اگر تم ان خواتین کو مہر ادا کر دو تو ان سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں۔ اور تم کافر عورتوں کو اپنے عقد میں مت رکھو۔ ان دنوں عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زوجیت میں دو مشرک بیویاں تھیں، چنانچہ انہوں نے ان دونوں کو طلاق دے دی۔ تو ان میں سے ایک کے ساتھ معاویہ بن ابی سفیان نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کر لیا تھا۔ پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ آئے۔ تو ایک قریشی مسلمان ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن اسید ثقفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگیا۔ اخنس بن شریق نے بنو عامر بن لؤی کے ایک کافر شخص کو اجرت پر تیار کیا اور اپنا ایک غلام اس کے ساتھ روانہ کیا اور اس نے ان دونوں کے ذریعے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے معاہدہ کو پورا کرنے کا لکھا۔ مشرکین مکہ نے ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طلب میں ان دونوں کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمارے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس کے پیش ِنظر اسے ہمارے حوالے کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے ان کے سپرد کر دیا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے، تو وہ وہاں رک کر کھجوریں کھانے لگے ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان میں سے ایک سے کہا بھئی اللہ کی قسم! میں دیکھ رہا ہوں تمہاری تلوار بڑی شاندار ہے۔اس شخص نے تلوار کو لہرا کر کہا ہاں بالکل اللہ کی قسم! یہ بڑی اچھی اور عمدہ تلوار ہے۔ میں نے اسے کئی مواقع پر آزمایا ہے۔ ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا یار ذرا مجھے دکھانا، میں بھی دیکھوں تو سہییہ کیسی ہے؟ اس نے تلوار اسے پکڑا دی۔ ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تلوار لے کر اسے دے ماری اور وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔ اور دوسرا جان بچانے کی خاطر دوڑتا ہوا مدینہ منورہ جا پہنچا۔ وہ دوڑتا دوڑتا مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایایہ شدید خوف سے دو چار ہوا ہے۔ اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ کر بتلایا کہ اللہ کی قسم! میرا ساتھی تو قتل کر دیا گیا ہے اور میں بھی ابھی مارا جاؤں گا اتنے میں ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آگئے۔ انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی ! اللہ قسم اللہ نے آپ سے عہد پورا کر ا دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو مجھے واپس بھیج دیا تھا۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دلا دی ہے۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ے فرمایا اس کی ماں کا بھلا ہو، اگر اس کے ساتھ کوئی معاون ہو تو یہ ضرور لڑائی بھڑکائے گا۔ اس نے جب یہ سنا تو جان لیا کہ اللہ کے نبی ضرور اسے کفار کی طرف بھیج دیں گے۔ تو وہ وہاں سے نکل بھاگا اور سمندر کے کنارے جا ڈیرے ڈالے۔ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن سہیل بھی کفار کی قید سے نکل کر ابو بصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے آن ملا پھر تو ایسا ہوا کہ قریش کے ہاں سے جو بھی مسلمان بھاگتا وہ ابوبصیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آجاتا۔ یہاں تک کہ وہاں اچھے خاصے لوگ جمع ہو گئے اللہ کی قسم! وہ شام کی طرف جانے والے جس قریشی قافلے کی خبر پاتے اس کے راستے میں آجاتے۔ انہیں قتل کر ڈالتے اور ان کے اموال چھین لیتے آخر کار قریش نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پیغام بھیج کر آپ کو اللہ کے اور رشتے داری کے واسطے دے کر یہ اطلاع بھیجی کہ آئندہ جو بھی مسلمان مکہ سے آپ کی طرف آنا چاہے اسے امان، اجازت ہے۔ تب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کی طرف پیغام بھیج کر انہیں اپنے پاس مدینہ منورہ بلوایا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں۔ اور وہی اللہ ہے جس نے تمہیں فتح دینے کے بعد حدودِ مکہ میں کفار کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکا۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی ان کے قربان ہونے کے مقام تک پہنچنے سے روکا۔ اگر ان میں ایسے مومن مرد اور عورتیں نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے تو لا علمی میں ان کو قتل کر کے تمہیں پشیمانی ہوتی، اس لیے کہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے۔ اگر وہ مسلمان کفار سے الگ ہوئے تو ہم کافروں کو درد ناک عذاب سے دو چار کرتے۔ کیونکہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں کفر کی حمیت کو جگہ دے رکھی ہے۔ ان کفار کی حمیتیہ تھی کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نبوت کا اقرار نہ کرتے تھے۔ نہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا اقرار کرتے تھے اور انہوں نے مسلمانوں کے بیت اللہ تک جانے کے راستے میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ "

Haidth Number: 10789

۔ (۱۰۷۹۰)۔ (مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ قَالَا: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ،یُرِیدُ زِیَارَۃَ الْبَیْتِ لَا یُرِیدُ قِتَالًا، وَسَاقَ مَعَہُ الْہَدْیَ سَبْعِینَ بَدَنَۃً، وَکَانَ النَّاسُ سَبْعَ مِائَۃِ رَجُلٍ، فَکَانَتْ کُلُّ بَدَنَۃٍ عَنْ عَشَرَۃٍ، قَالَ: وَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا کَانَ بِعُسْفَانَ لَقِیَہُ بِشْرُ بْنُ سُفْیَانَ الْکَعْبِیُّ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہٰذِہِ قُرَیْشٌ قَدْ سَمِعَتْ بِمَسِیرِکَ فَخَرَجَتْ، مَعَہَا الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ قَدْ لَبِسُوا جُلُودَ النُّمُورِ، یُعَاہِدُونَ اللّٰہَ أَنْ لَا تَدْخُلَہَا عَلَیْہِمْ عَنْوَۃً أَبَدًا، وَہٰذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فِی خَیْلِہِمْ، قَدِمُوا إِلٰی کُرَاعِ الْغَمِیمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا وَیْحَ قُرَیْشٍ لَقَدْ أَکَلَتْہُمُ الْحَرْبُ، مَاذَا عَلَیْہِمْ لَوْ خَلَّوْا بَیْنِی وَبَیْنَ سَائِرِ النَّاسِ، فَإِنْ أَصَابُونِی کَانَ الَّذِی أَرَادُوْا وَإِنْ أَظْہَرَنِی اللّٰہُ عَلَیْہِمْ دَخَلُوا فِی الْإِسْلَامِ وَہُمْ وَافِرُونَ، وَإِنْ لَمْ یَفْعَلُوا قَاتَلُوا وَبِہِمْ قُوَّۃٌ فَمَاذَا تَظُنُّ قُرَیْشٌ؟ وَاللّٰہِ! إِنِّی لَا أَزَالُ أُجَاہِدُہُمْ عَلَی الَّذِی بَعَثَنِی اللّٰہُ لَہُ حَتّٰییُظْہِرَہُ اللّٰہُ لَہُ أَوْ تَنْفَرِدَ ہٰذِہِ السَّالِفَۃُ۔)) ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ فَسَلَکُوا ذَاتَ الْیَمِینِ بَیْنَ ظَہْرَیِ الْحَمْضِ عَلٰی طَرِیقٍ تُخْرِجُہُ عَلٰی ثَنِیَّۃِ الْمِرَارِ وَالْحُدَیْبِیَۃِ مِنْ أَسْفَلِ مَکَّۃَ، قَالَ: فَسَلَکَ بِالْجَیْشِ تِلْکَ الطَّرِیقَ، فَلَمَّا رَأَتْ خَیْلُ قُرَیْشٍ قَتَرَۃَ الْجَیْشِ قَدْ خَالَفُوا عَنْ طَرِیقِہِمْ، نَکَصُوا رَاجِعِینَ إِلٰی قُرَیْشٍ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا سَلَکَ ثَنِیَّۃَ الْمُرَارِ بَرَکَتْ نَاقَتُہُ، فَقَالَ النَّاسُ: خَلَأَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا خَلَأَتْ وَمَا ہُوَ لَہَا بِخُلُقٍ وَلٰکِنْ حَبَسَہَا حَابِسُ الْفِیلِ عَنْ مَکَّۃَ، وَاللّٰہِ! لَا تَدْعُونِی قُرَیْشٌ الْیَوْمَ إِلٰی خُطَّۃٍیَسْأَلُونِی فِیہَا صِلَۃَ الرَّحِمِ إِلَّا أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: انْزِلُوا۔)) فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا بِالْوَادِی مِنْ مَائٍ یَنْزِلُ عَلَیْہِ النَّاسُ، فَأَخْرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَہْمًا مِنْ کِنَانَتِہِ فَأَعْطَاہُ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِہِ، فَنَزَلَ فِی قَلِیبٍ مِنْ تِلْکَ الْقُلُبِ، فَغَرَزَہُ فِیہِ فَجَاشَ الْمَاء ُ بِالرَّوَائِ حَتّٰی ضَرَبَ النَّاسُ عَنْہُ بِعَطَنٍ، فَلَمَّا اطْمَأَنَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ فِی رِجَالٍ مِنْ خُزَاعَۃَ، فَقَالَ لَہُمْ کَقَوْلِہِ لِبُشَیْرِ بْنِ سُفْیَانَ، فَرَجَعُوا إِلٰی قُرَیْشٍ: فَقَالُوْا: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنَّکُمْ تَعْجَلُونَ عَلٰی مُحَمَّدٍ، وَإِنَّ مُحَمَّدًا لَمْ یَأْتِ لِقِتَالٍ، إِنَّمَا جَائَ زَائِرًا لِہٰذَا الْبَیْتِ مُعَظِّمًا لَحَقِّہِ فَاتَّہَمُوہُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: یَعْنِی ابْنَ إِسْحَاقَ، قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَکَانَتْ خُزَاعَۃُ فِی عَیْبَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُسْلِمُہَا وَمُشْرِکُہَا لَا یُخْفُونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا کَانَ بِمَکَّۃَ قَالُوا: وَإِنْ کَانَ إِنَّمَا جَائَ لِذٰلِکَ فَلَا وَاللّٰہِ! لَا یَدْخُلُہَا أَبَدًا عَلَیْنَا عَنْوَۃً وَلَا تَتَحَدَّثُ بِذٰلِکَ الْعَرَبُ، ثُمَّ بَعَثُوا إِلَیْہِ مِکْرَزَ بْنَ حَفْصِ بْنِ الْأَخْیَفِ أَحَدَ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ، فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ہٰذَا رَجُلٌ غَادِرٌ۔)) فَلَمَّا انْتَہٰی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَلَّمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوٍ مِمَّا کَلَّمَ بِہِ أَصْحَابَہُ، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی قُرَیْشٍ فَأَخْبَرَہُمْ بِمَا قَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَبَعَثُوا إِلَیْہِ الْحِلْسَ بْنَ عَلْقَمَۃَ الْکِنَانِیَّ، وَہُوَیَوْمَئِذٍ سَیِّدُ الْأَحَابِشِ، فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ہٰذَا مِنْ قَوْمٍ یَتَأَلَّہُونَ، فَابْعَثُوا الْہَدْیَ فِی وَجْہِہِ۔)) فَبَعَثُوا الْہَدْیَ فَلَمَّا رَأَی الْہَدْیَیَسِیلُ عَلَیْہِ مِنْ عَرْضِ الْوَادِی فِی قَلَائِدِہِ قَدْ أَکَلَ أَوْتَارَہُ مِنْ طُولِ الْحَبْسِ عَنْ مَحِلِّہِ، رَجَعَ وَلَمْ یَصِلْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِعْظَامًا لِمَا رَأٰی، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! قَدْ رَأَیْتُ مَا لَا یَحِلُّ صَدُّہُ الْہَدْیَ فِی قَلَائِدِہِ قَدْ أَکَلَ أَوْتَارَہُ مِنْ طُولِ الْحَبْسِ عَنْ مَحِلِّہِ، فَقَالُوا: اجْلِسْ إِنَّمَا أَنْتَ أَعْرَابِیٌّ لَا عِلْمَ لَکَ، فَبَعَثُوا إِلَیْہِ عُرْوَۃَ بْنَ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیَّ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ مَا یَلْقٰی مِنْکُمْ مَنْ تَبْعَثُونَ إِلٰی مُحَمَّدٍ، إِذَا جَائَ کُمْ مِنَ التَّعْنِیفِ وَسُوئِ اللَّفْظِ، وَقَدْ عَرَفْتُمْ أَنَّکُمْ وَالِدٌ وَأَنِّی وَلَدٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ بِالَّذِی نَابَکُمْ فَجَمَعْتُ مَنْ أَطَاعَنِی مِنْ قَوْمِی، ثُمَّ جِئْتُ حَتّٰی آسَیْتُکُمْ بِنَفْسِی، قَالُوْا: صَدَقْتَ مَا أَنْتَ عِنْدَنَا بِمُتَّہَمٍ، فَخَرَجَ حَتّٰی أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَلَسَ بَیْنَیَدَیْہِ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! جَمَعْتَ أَوْبَاشَ النَّاسِ ثُمَّ جِئْتَ بِہِمْ لِبَیْضَتِکَ لِتَفُضَّہَا، إِنَّہَا قُرَیْشٌ قَدْ خَرَجَتْ مَعَہَا الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ، قَدْ لَبِسُوا جُلُودَ النُّمُورِ، یُعَاہِدُونَ اللّٰہَ أَنْ لَا تَدْخُلَہَا عَلَیْہِمْ عَنْوَۃً أَبَدًا، وَأَیْمُ اللّٰہِ! لَکَأَنِّی بِہٰؤُلَائِ قَدِ انْکَشَفُوا عَنْکَ غَدًا، قَالَ، وَأَبُوبَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ خَلْفَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَاعِدٌ، فَقَالَ: امْصُصْ بَظْرَ اللَّاتِ! أَ نَحْنُ نَنْکَشِفُ عَنْہُ؟ قَالَ: مَنْ ہٰذَا؟ یَا مُحَمَّدُ! قَالَ: ((ہٰذَا ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ۔)) قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْلَا یَدٌ کَانَتْ لَکَ عِنْدِی لَکَافَأْتُکَ بِہَا وَلٰکِنَّ ہٰذِہِ بِہَا، ثُمَّ تَنَاوَلَ لِحْیَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ وَاقِفٌ عَلٰی رَأْسِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْحَدِیدِ، قَالَ: یَقْرَعُیَدَہُ، ثُمَّ قَالَ، أَمْسِکْ یَدَکَ عِنْ لِحْیَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلُ وَاللّٰہِ! لَا تَصِلُ إِلَیْکَ، قَالَ: وَیْحَکَ مَا أَفَظَّکَ وَأَغْلَظَکَ؟ قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: مَنْ ہٰذَا؟ یَا مُحَمَّدُ! قَالَ: ((ہٰذَا ابْنُ أَخِیکَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ۔)) قَالَ: أَغُدَرُ ہَلْ غَسَلْتَ سَوْأَتَکَ إِلَّا بِالْأَمْسِ، قَالَ: فَکَلَّمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمِثْلِ مَا کَلَّمَ بِہِ أَصْحَابَہُ فَأَخْبَرَہُ أَنَّہُ لَمْ یَأْتِیُرِیدُ حَرْبًا، قَالَ: فَقَامَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ رَأٰی مَا یَصْنَعُ بِہِ أَصْحَابُہُ لَا یَتَوَضَّأُ وُضُوئً إِلَّا ابْتَدَرُوہُ، وَلَا یَبْسُقُ بُسَاقًا إِلَّا ابْتَدَرُوہُ، وَلَا یَسْقُطُ مِنْ شَعَرِہِ شَیْئٌ إِلَّا أَخَذُوہُ، فَرَجَعَ إِلٰی قُرَیْشٍ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنِّی جِئْتُ کِسْرٰی فِی مُلْکِہِ، وَجِئْتُ قَیْصَرَ وَالنَّجَاشِیَّ فِی مُلْکِہِمَا، وَاللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ مِثْلَ مُحَمَّدٍ فِی أَصْحَابِہِ، وَلَقَدْ رَأَیْتُ قَوْمًا لَا یُسْلِمُونَہُ لِشَیْئٍ أَبَدًا فَرَوْا رَأْیَکُمْ، قَالَ: وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ ذٰلِکَ بَعَثَ خِرَاشَ بْنَ أُمَیَّۃَ الْخُزَاعِیَّ إِلٰی مَکَّۃَ وَحَمَلَہُ عَلٰی جَمَلٍ لَہُ یُقَالُ لَہُ: الثَّعْلَبُ، فَلَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ عَقَرَتْ بِہِ قُرَیْشٌ وَأَرَادُوْا قَتْلَ خِرَاشٍ، فَمَنَعَہُمْ الْأَحَابِشُ حَتّٰی أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا عُمَرَ لِیَبْعَثَہُ إِلٰی مَکَّۃَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أَخَافُ قُرَیْشًا عَلٰی نَفْسِی وَلَیْسَ بِہَا مِنْ بَنِی عَدِیٍّ أَحَدٌ یَمْنَعُنِی، وَقَدْ عَرَفَتْ قُرَیْشٌ عَدَاوَتِی إِیَّاہَا وَغِلْظَتِی عَلَیْہَا، وَلٰکِنْ أَدُلُّکَ عَلٰی رَجُلٍ ہُوَ أَعَزُّ مِنِّی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ، فَدَعَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَبَعَثَہُ إِلٰی قُرَیْشٍ،یُخْبِرُہُمْ أَنَّہُ لَمْ یَأْتِ لِحَرْبٍ وَأَنَّہُ جَائَ زَائِرًا لِہٰذَا الْبَیْتِ مُعَظِّمًا لِحُرْمَتِہِ فَخَرَجَ عُثْمَانُ حَتّٰی أَتٰی مَکَّۃَ، وَلَقِیَہُ أَبَانُ بْنُ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ فَنَزَلَ عَنْ دَابَّتِہِ وَحَمَلَہُ بَیْنَیَدَیْہِ وَرَدِفَ خَلْفَہُ وَأَجَارَہُ حَتّٰی بَلَّغَ رِسَالَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَانْطَلَقَ عُثْمَانُ حَتّٰی أَتٰی أَبَا سُفْیَانَ وَعُظَمَائَ قُرَیْشٍ، فَبَلَّغَہُمْ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَرْسَلَہُ بِہِ،فَقَالُوا لِعُثْمَانَ: إِنْ شِئْتَ أَنْ تَطُوفَ بِالْبَیْتِ فَطُفْ بِہِ، فَقَالَ: مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ حَتّٰییَطُوفَ بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَاحْتَبَسَتْہُ قُرَیْشٌ عِنْدَہَا، فَبَلَغَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُسْلِمِینَ أَنَّ عُثْمَانَ قَدْ قُتِلَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَحَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ: أَنَّ قُرَیْشًا بَعَثُوا سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو أَحَدَ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ، فَقَالُوا: ائْتِ مُحَمَّدًا فَصَالِحْہُ وَلَا یَکُونُ فِی صُلْحِہِ إِلَّا أَنْ یَرْجِعَ عَنَّا عَامَہُ ہٰذَا فَوَاللّٰہِ! لَا تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّہُ دَخَلَہَا عَلَیْنَا عَنْوَۃً أَبَدًا، فَأَتَاہُ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فَلَمَّا رَآہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قَدْ أَرَادَ الْقَوْمُ الصُّلْحَ حِینَ بَعَثُوا ہٰذَا الرَّجُلَ۔)) فَلَمَّا انْتَہٰی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَکَلَّمَا وَأَطَالَا الْکَلَامَ وَتَرَاجَعَا حَتّٰی جَرٰی بَیْنَہُمَا الصُّلْحُ، فَلَمَّا الْتَأَمَ الْأَمْرُ وَلَمْ یَبْقَ إِلَّا الْکِتَابُ، وَثَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَتٰی أَبَا بَکْرٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ! أَوَلَیْسَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوَلَسْنَا بِالْمُسْلِمِینَ أَوَلَیْسُوا بِالْمُشْرِکِینَ؟ قَالَ، بَلٰی، قَالَ: فَعَلَامَ نُعْطِی الذِّلَّۃَ فِی دِینِنَا؟ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: یَا عُمَرُ الْزَمْ غَرْزَہُ حَیْثُ کَانَ، فَإِنِّی أَشْہَدُ أَنَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ، قَالَ عُمَرُ: وَأَنَا أَشْہَدُ، ثُمَّ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَوَلَسْنَا بِالْمُسْلِمِینَ أَوَلَیْسُوا بِالْمُشْرِکِینَ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: فَعَلَامَ نُعْطِی الذِّلَّۃَ فِی دِینِنَا؟ فَقَالَ: ((أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ لَنْ أُخَالِفَ أَمْرَہُ وَلَنْ یُضَیِّعَنِی۔)) ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: مَا زِلْتُ أَصُومُ وَأَتَصَدَّقُ وَأُصَلِّی وَأَعْتِقُ مِنَ الَّذِی صَنَعْتُ مَخَافَۃَ کَلَامِی الَّذِی تَکَلَّمْتُ بِہِ یَوْمَئِذٍ حَتّٰی رَجَوْتُ أَنْ یَکُونَ خَیْرًا، قَالَ: وَدَعَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔)) فَقَالَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو: لَا أَعْرِفُ ہٰذَا وَلٰکِنْ اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ، ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو۔)) فَقَالَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو: لَوْ شَہِدْتُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ لَمْ أُقَاتِلْکَ وَلٰکِنْ اکْتُبْ ہٰذَا مَا اصْطَلَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَسُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو عَلٰی وَضْعِ الْحَرْبِ عَشْرَ سِنِینَ،یَأْمَنُ فِیہَا النَّاسُ وَیَکُفُّ بَعْضُہُمْ عَنْ بَعْضٍ، عَلٰی أَنَّہُ مَنْ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ أَصْحَابِہِ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہِ رَدَّہُ عَلَیْہِمْ، وَمَنْ أَتٰی قُرَیْشًا مِمَّنْ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَرُدُّوہُ عَلَیْہِ، وَإِنَّ بَیْنَنَا عَیْبَۃً مَکْفُوفَۃً، وَإِنَّہُ لَا إِسْلَالَ وَلَا إِغْلَالَ، وَکَانَ فِی شَرْطِہِمْ حِینَ کَتَبُوا الْکِتَابَ أَنَّہُ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ مُحَمَّدٍ وَعَہْدِہِ دَخَلَ فِیہِ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ دَخَلَ فِیہِ، فَتَوَاثَبَتْ خُزَاعَۃُ فَقَالُوا: نَحْنُ مَعَ عَقْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَہْدِہِ، وَتَوَاثَبَتْ بَنُو بَکْرٍ فَقَالُوا: نَحْنُ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ، وَأَنَّکَ تَرْجِعُ عَنَّا عَامَنَا ہٰذَا فَلَا تَدْخُلْ عَلَیْنَا مَکَّۃَ، وَأَنَّہُ إِذَا کَانَ عَامُ قَابِلٍ خَرَجْنَا عَنْکَ فَتَدْخُلُہَا بِأَصْحَابِکَ وَأَقَمْتَ فِیہِمْ ثَلَاثًا مَعَکَ سِلَاحُ الرَّاکِبِ لَا تَدْخُلْہَا بِغَیْرِ السُّیُوفِ فِی الْقُرُبِ، فَبَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَکْتُبُ الْکِتَابَ إِذْ جَائَ ہُ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو فِی الْحَدِیدِ، قَدْ انْفَلَتَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَقَدْ کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجُوا وَہُمْ لَا یَشُکُّونَ فِی الْفَتْحِ لِرُؤْیَا رَآہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا رَأَوْا مَا رَأَوْا مِنَ الصُّلْحِ وَالرُّجُوعِ وَمَا تَحَمَّلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی نَفْسِہِ، دَخَلَ النَّاسَ مِنْ ذَلِکَ أَمْرٌ عَظِیمٌ حَتّٰی کَادُوا أَنْ یَہْلَکُوا، فَلَمَّا رَأٰی سُہَیْلٌ أَبَا جَنْدَلٍ قَامَ إِلَیْہِ فَضَرَبَ وَجْہَہُ ثُمَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! قَدْ لُجَّتِ الْقَضِیَّۃُ بَیْنِی وَبَیْنَکَ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَکَ ہٰذَا، قَالَ: ((صَدَقْتَ۔)) فَقَامَ إِلَیْہِ فَأَخَذَ بِتَلْبِیبِہِ، قَالَ: وَصَرَخَ أَبُو جَنْدَلٍ بِأَعْلٰیصَوْتِہِیَا مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِینَ! أَتَرُدُّونَنِی إِلٰی أَہْلِ الشِّرْکِ، فَیَفْتِنُونِی فِی دِینِی، قَالَ: فَزَادَ النَّاسُ شَرًّا إِلٰی مَا بِہِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا أَبَا جَنْدَلٍ! اصْبِرْ وَاحْتَسِبْ فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَاعِلٌ لَکَ وَلِمَنْ مَعَکَ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِینَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا، إِنَّا قَدْ عَقَدْنَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ صُلْحًا، فَأَعْطَیْنَاہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ، وَأَعْطَوْنَا عَلَیْہِ عَہْدًا، وَإِنَّا لَنْ نَغْدِرَ بِہِمْ۔)) قَالَ: فَوَثَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَعَ أَبِی جَنْدَلٍ فَجَعَلَ یَمْشِی إِلٰی جَنْبِہِ وَہُوَ یَقُولُ: اصْبِرْ أَبَا جَنْدَلٍ فَإِنَّمَا ہُمُ الْمُشْرِکُونَ وَإِنَّمَا دَمُ أَحَدِہِمْ دَمُ کَلْبٍ، قَالَ: وَیُدْنِی قَائِمَ السَّیْفِ مِنْہُ قَالَ: یَقُولُ: رَجَوْتُ أَنْ یَأْخُذَ السَّیْفَ فَیَضْرِبَ بِہِ أَبَاہُ، قَالَ: فَضَنَّ الرَّجُلُ بِأَبِیہِ وَنَفَذَتِ الْقَضِیَّۃُ، فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ الْکِتَابِ وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّی فِی الْحَرَمِ وَہُوَ مُضْطَرِبٌ فِی الْحِلِّ، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ انْحَرُوا وَاحْلِقُوا۔)) قَالَ: فَمَا قَامَ أَحَدٌ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ بِمِثْلِہَا فَمَا قَامَ رَجُلٌ حَتّٰی عَادَ بِمِثْلِہَا فَمَا قَامَ رَجُلٌ، فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ عَلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ فَقَالَ: ((یَا أُمَّ سَلَمَۃَ مَا شَأْنُ النَّاسِ؟)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ دَخَلَہُمْ مَا قَدْ رَأَیْتَ فَلَا تُکَلِّمَنَّ مِنْہُمْ إِنْسَانًا وَاعْمِدْ إِلٰی ہَدْیِکَ حَیْثُ کَانَ فَانْحَرْہُ وَاحْلِقْ، فَلَوْ قَدْ فَعَلْتَ ذٰلِکَ فَعَلَ النَّاسُ ذٰلِکَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُکَلِّمُ أَحَدًا حَتّٰی أَتٰی ہَدْیَہُ فَنَحَرَہُ، ثُمَّ جَلَسَ فَحَلَقَ فَقَامَ النَّاسُ یَنْحَرُونَ وَیَحْلِقُونَ، قَالَ: حَتّٰی إِذَا کَانَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ فِی وَسَطِ الطَّرِیقِ فَنَزَلَتْ سُورَۃُ الْفَتْحِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۷)

۔(دوسری سند) سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا مروان بن حکم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے سال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیارت بیت اللہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لڑائی کا کوئی ارادہ نہیں تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذبح کرنے کے لیے اپنے ساتھ ستر اونٹ بھی لے گئے، آپ کے رفقاء کی تعداد سات سو تھی۔ ہر دس آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ تھا،اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہوئے،جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عسفان کے مقام پر پہنچے تو بشر بن سفیان کعبی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملا۔ اس نے بتلایا کہ اللہ کے رسول! قریش کو آپ کی روانگی کی اطلاع ہو چکی ہے، وہ نئے نئے بچوں والی شیر دار اونٹنیاں لئے، چیتوں کی کھالیں اوڑھے آپ کے مقابلے اور راستہ روکنے کے لیے نکلے ہوئے ہیں اور وہ اللہ کے ساتھ عہد کر چکے ہیں کہ وہ ہمیں زبردستی مکہ میں بالکل داخل نہیں ہونے دیں گے اور خالد بن ولید اپنے گھڑ سواروں کے ساتھ کراع غمیم کی طرف بڑھتا آ رہا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے قریش کی ہلاکت! لڑائیوں نے ان کا ستیاناس کر دیا ہے، اگر یہ لوگ میرے اور میرے ان صحابہ کے سامنے سے ہٹ جاتے اور (حرم میںجانے دیتے) تو ان کو کیا تکلیف تھی، اگر ان لوگوں نے اپنے ارادے کے مطابق مجھے تکلیف دی لی تو (ٹھیک ہے)، اور اگر اللہ تعالی نے مجھے ان پر غالب کر دیا اور یہ اسلام میں داخل ہو گئے، جبکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، (تو ٹھیک)، بصورتِ دیگر اگر انھوں نے ایسا نہ کیا، تو یہ لڑیں گے، جبکہ ان کے پاس قوت بھی ہے، لیکن اب قریشی لوگ کیا گمان رکھتے ہیں؟ اللہ کی قسم! میں اس نکتے کو سامنے رکھ کر ان سے لڑتا رہوں،یہاں تک کہ اللہ تعالی اس دین کو غالب کر دے گا، یا پھر میری گردن کا یہ پہلو الگ ہو جائے گا (یعنی میں فوت ہو جاؤں گا)۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو حکم دیا، پس حمض بوٹی سے ہوتے ہوئے اور اپنی دائیں طرف چلتے ہوئے ایسے راستے پر ہو لیے ، جو مرار گھاٹی اور حدیبیہکی طرف جار رہا تھا، یہ مکہ سے نشیبی جگہ تھی،یہ لشکر اس راستے پر ہو لیا، جب قریشیوں کے گھڑ سوار لشکر نے اِس لشکر کا غبار اور اس کے راستہ تبدیل کر لینے کو دیکھا تو وہ قریش کی طرف واپس پلٹ گئے۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی روانہ ہو گئے اور جب مِرار گھاٹی میں چلے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئے، لوگوں نے کہا: اونٹنی ضد کر گئی، اڑی کر گئی، نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہ اس نے ضدکی ہے اور نہ یہ اس کی عادت ہے، دراصل اسے اس اللہ نے آگے جانے سے روکا ہے، جس نے ہاتھیوں کو روکا تھا۔ اللہ کی قسم! یہ کافر مجھ سے کوئی بھی ایسا مطالبہ کریں، جس کے ذریعے وہ مجھ سے صلہ رحمی کا سوال کریں گے تو میں ان کا وہ مطالبہ پورا کر دوں گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے فرمایا: اتر جاؤ۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس علاقے میں تو پانی ہی نہیں ہے کہ اس کے پاس لشکر پڑاؤ ڈال سکے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور اپنے صحابہ میں سے ایک آدمی کو دیا، اس نے وہ تیر کنویں میں گاڑھا اور بہت زیادہ پانی ابلنے لگا، (لوگوں نے پیا) یہاں تک کہ انھوں نے اپنے اونٹوں کو بھی سیراب کر لیا، ابھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مطمئن ہوئے ہی تھے کہ بنو خزاعہ کے چند افراد سمیت بدیل بن ورقا آ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے وہی بات کہی، جو بشیر بن سفیان کو کہی تھی، سو وہ قریشیوں کی طرف لوٹ گئے اور کہا: اے قریش کی جماعت! تم محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) پر جلدی کر رہے ہو، جبکہ وہ قتال کے لیے نہیں آئے، وہ تو صرف اس گھر کی زیارت اور اس کے حق کی تعظیم کے لیے آئے ہیں، لیکن قریشیوں نے اِن کی بات کی تصدیق نہیں کی، دراصل بنو خزاعہ کے مسلمان اور مشرک، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راز دان تھے، مکہ میں جو کچھ ہوتا، یہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی چیز مخفی نہیں رکھتے تھے۔ پس قریشیوں نے کہا: اگرچہ (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اس مقصد کے لیے آئے ہوں گے، لیکن نہیں، بخدا! یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ہم پر زبردستی گھس آئیں اور عرب لوگ مختلف باتیں کرنے لگیں۔ پھر انھوں نے بنو عامر بن لؤی کے ایک آدمی مکرز بن حفص بن اخیف کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف بھیجا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو دیکھا تو (اپنے صحابہ کو متنبہ کرتے ہوئے) فرمایا: یہ دھوکے باز آدمی ہے۔ جب وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے وہی گفتگو جو اس سے پہلے اس کے ساتھیوں سے کی تھی،یہ بھی قریش کی طرف لوٹ گیا اور انھیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیانات کی خبر دی، قریش نے اب کی بار حلس بن علقمہ کنانی کو بھیجا،یہ آدمی مختلف قبائل کی جماعتوں کا سردار تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا: یہ آدمی ان لوگوں میں ہے، جو اللہ تعالی کے حق اور حرمت کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، ہدی کے جانوروں کو اس کے سامنے لاؤ۔ صحابہ نے ایسے ہی کیا اور ہدیاں اس کے سامنے لے آئے، اب ہوا یوں کہ جب اس آدمینے وادی کے عرض میں ہدیاں اور ان کے گردنوں میں قلادے دیکھے اور دیکھا کہ زیادہ دیر ان کو ٹھہرانے کی وجہ سے ان کے تانت کھائے جا چکے ہیں، تو یہ آدمییہ منظر دیکھنے کے بعد ان چیزوں کی تعظیم کی وجہ سے واپس لوٹ گیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچا ہی نہیں، اس نے واپس آ کر کہا: اے قریش کی جماعت! میں ایسی چیزیں دیکھ آیا ہوں، جن کو روکنا حلال نہیں ہے، ہدی کے جانور ہیں، ان کے گردنوں میں قلادے ہیں اور زیادہ دیر ٹھہرائے جانے کی وجہ سے ان کے تانت کھائے جا چکے ہیں، قریش نے جواباً کہا: تو بیٹھ جا، تو تو بدّو ہے اور تجھے کوئی علم نہیں ہے، اب کی بار انھوں نے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا، اس نے کہا: قریش کی جماعت! تم لوگ جن افراد کو محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی طرف بھیج رہے ہو اور ان کے تبصروں کی وجہ سے تمہیں جو سرزنش اور برے الفاظ سننے پڑ رہے ہیں، میں وہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں، تم جانتے ہو کہ تم والد کے اور میں تمہارا بیٹا ہونے کے قائم مقام ہوں (لہذا میں تمہارا پاس و لحاظ رکھوں گا)، جس معاملے کا تمہیں سامنا کرنا پڑا، میں وہ باتیں بھی سن چکا ہوں۔ پھر میں نے اپنی قوم میں سے ان لوگوں کو جمع کیا، جنہوں نے میری بات مان لی، پھر میں آیا اور میں نے اپنی جان کے ساتھ تمہارا تعاون کیا، قریشیوں نے کہا: تم سچ کہہ رہے ہو اور تم ہمارے نزدیک قابل اعتماد آدمی ہو، پس یہ آدمی نکل پڑا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا: اے محمد! آپ نے جنگوں میں ثابت قدم نہ رہنے والے مختلف لوگوں کو جمع کر لیا اور پھر ان کو لے کر یہاں آ گئے، تاکہ ان کی اصل کو ہی ختم کر دیں،یہ قریش نکل پڑے ہیں، ان کے ساتھ حاملہ اور دودھ والی اونٹنیاں موجود ہیں (مراد کہ یہ ان کا کھانا پینا ہے )، انھوں نے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں اور انھوں نے اللہ تعالی سے معاہدہ کر رکھا ہے کہ آپ کبھی بھی ان پر زبردستی نہ گھس سکیں گے، اور اللہ کی قسم ہے، مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ لوگ کل (جب میدان سجے گا) تو تجھے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے بیٹھے تھے، انھوں نے اِس کییہ بات سن کر کہا: تو لات کے ختنے میں کٹ جانے چمڑے کے ٹکڑے کو چوسے، کیا ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھوڑ جائیں گے؟ اس نے کہا: اے محمد! یہ آدمی کون ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ابن ابی قحافہ ہیں۔ عروہ بن مسعود نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تیرا مجھ پر احسان نہ ہوتا تو میں تجھ سے اس بات کا بدلہ لیتا، چلو یہ بات اس احسان کے بدلے ہو گئے، پھر عروہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک پکڑی، جبکہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اسلحہ سے لیس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر مبارک کے پاس کھڑے تھے، انھوں نے عروہ کے ہاتھ پر ضرب لگائی اور کہا: اپنے ہاتھ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک سے دور رکھ، اللہ کی قسم! وگرنہ تیرا ہاتھ تجھ تک نہ پہنچ پائے گا (یعنی میں اس کو کاٹ دوں گا)، عروہ نے آگے سے کہا: او تو ہلاک ہو جائے، تو تو کس قدر سخت گیر آدمی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا دیئے، اس نے کہا: اے محمد! یہ کون ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیرا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے۔ عروہ نے کہا: او دھوکے باز! تو نے تو کل اپنی شرمگاہ کو دھویا ہے (یعنی ماضی قریب میں ہی مال خرچ کر کے اپنی خیانت کے ضرر کودور کیا ہے)، بہرحال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اِس آدمی سے اسی طرح کی گفتگو فرمائی، جیسے اس سے قبل اس کے ساتھیوں سے کی تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لڑائی کے ارادے سے نہیںآئے۔ پس یہ آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے چلا گیا اور اس نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وضو کرتے ہیں تو یہ لوگ (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اعضائے شریفہ سے گرنے والے پانی کی طرف) لپک پڑتے ہیں اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھوکتے ہیں تو یہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تھوک کی طرف لپک پڑتے ہیں اور جب بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کوئی بال گرتا ہے تو یہ اس کو اٹھا لیتے ہیں، پس عروہ قریش کی طرف لوٹ گیا اور کہا: اے قریش کی جماعت! میں کسریٰ کے ہاں اس کی مملکت میں اور قیصرونجاشی کے ہاں بھی ان کے ملکوں میں گیا ہوں، اللہ کی قسم! میں نے کبھی کسی بادشاہ کا اتنا احترام نہیں دیکھا جتنا احترام محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کا ان کے اصحاب میں ہے، میں نے ان کو دیکھا ہے کہ وہ اسے کسی ناگوار حالت کے سپرد نہ کریں گے، اب تم غور کر لو، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبل ازیں خراش بن امیہ خزاعی کو مکہ کی طرف بھیج چکے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے ثعلب نامی ایک اونٹ پر سوار کرایا تھا، وہ جب مکہ میں پہنچا تو قریش نے اس کے اونٹ کی کونچیں کاٹ دی تھیں اسے بھی قتل کرنا چاہتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے انہیں ان کو قتل کرنے سے روک دیا، وہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خدمت میں واپس آگیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ کی طرف بطور سفیر بھیجنے کے لیے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلوایا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے قریش کی طرف سے اپنی جان کا خطرہ ہے اور وہاں بنو عدی کا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو مجھے تحفظ دے سکے اور مجھے قریش سے جس قدر عداوت ہے، وہ سب اس سے بخوبی واقف ہیں، البتہ میں آپ کو ایک ایسے آدمی کے متعلق بتلاتا ہوں جو اہلِ مکہ کے ہاں مجھ سے زیادہ معزز اور محترم ہے اور وہ ہیں سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بلوا کر قریش کی طرف اپنا سفیر بنا کر بھیجا تاکہ ان کو بتلائیں کہ ہم لوگ لڑائی کے لیے نہیں، محض بیت اللہ کی حرمت کی تعظیم کرنے کی خاطر صرف زیارت و طواف کے لیےآئے ہیں۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روانہ ہو کر مکہ مکرمہ آئے۔ ان کی ابان بن سعید بن العاص سے ملاقات ہو گئی، وہ اپنی سواری سے نیچے اترا اور آپ کو اپنے آگے بٹھا کر خود پیچھے بیٹھا اور اس نے عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پناہ دی تاکہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیغام پہنچا دیں۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ابو سفیان اور دیگر عظائے قریش کے پاس گئے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جو پیغام دے کر بھیجا تھا، وہ پیغام ان تک پہنچایا۔ انہوں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اگر آپ بیت اللہ کا طواف کرنا چاہیں تو کر لیں، وہ بولے جب تک اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیت اللہ کا طواف نہ کریں میں نہیں کر سکتا۔ ان کو قریش نے اپنے ہاں روک لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مسلمانوں تک یہ افواہ پہنچی کہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ قریش نے سہیل بن عمرو کو جو بنو عامر بن لؤی میں سے تھے کو بھیجا اور کہا کہ تم جا کر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے صلح کی بات کرو۔ اس میںیہ شق ضرور ہو کہ وہ امسال بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں، تاکہ عرب کبھی یہ نہ کہہ سکیں کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زبردستی ہمارے ہاں آگئے، پھر سہیل آیا، اس سے آگے سارا وہی بیان ہے جو قبل ازیں پہلی سند سے حدیث میں بیان ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ صلح ہو گئی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلا کر ان سے فرمایا لکھو۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم تو سہیل بن عمر ونے کہا میں تو اس کلام کو نہیں سمجھتا۔ اس کی بجائے آپ لکھیں: بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا تم بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ ہی لکھ دو،یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سہیل بن عمرو کے ساتھ کر رہے ہیں، سہیل بن عمرو پھر بولا کہ اگر میںیہ گواہی دیتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو میں آپ سے کبھی بھی قتال نہ کرتا۔ آپ یوں لکھیں کہ یہ وہ معاہدہ جس کے تحت محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک آپس میں کوئی لڑائی نہ کریں گے۔ اس عرصہ میں لوگ اطمینان اور امن سے رہیں گے اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے باز رہیں گے۔ نیزیہ کہ ( مکہ سے) کوئی مسلمان اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا تو وہ اسے اہل مکہ کی طرف واپس بھیجیں گے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھیوں میں سے اگر کوئی قریش کے پاس آیا تو وہ اسے واپس نہیں کریں گے، اس دوران ہمارے دل ایک دوسرے کی طرف سے صاف رہیں گے، خفیہ چوریاں نہ کریں گے اور نہ دلوں میں بغض رکھیں گے، معاہدہ صلح میںیہ شرط بھی تھی کہ دیگر قبائل میں سے جو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حلیف بننا چاہے بن سکے گا، اسی طرح جو قریش کا حلیف بننا چاہے بن سکے گا۔ خزاعہ قبیلہ نے جلدی سے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عقدوعہد میں آتے ہیں اور بنو بکر قبیلہ نے کہا کہ ہم قریش کے عقدوعہد میں آتے ہیں۔ نیزیہ کہ آپ اس سال عمرہ کئے بغیر واپس چلے جائیں اور مکہ میں نہ آئیں، جب آئندہ سال ہو گا ہم آپ کو نہیں روکیں گے۔ آپ اپنے اصحاب کی معیت میں مکہ میں آسکیں گے اور تین دن قیام کریں گے۔ آپ کے ہمراہ محض اس قدر ہتھیار ہوں گے، جس قدر کسی سوار کے پاس دورانِ سفر ہوتے ہیں، آپ کی تلواریں میانوں میں رہیں گی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابھییہ تحریر لکھوا رہے تھے کہ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن سہیل بن عمر بیڑیوں میں مقید کسی طرح بچ بچا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب جب مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خواب کی بنیاد پر انہیں فتح کا کامل یقین تھا، لیکن جب انہوں نے یہ صورت حال دیکھی کہ آپ کفار کے ساتھ صلح کر رہے ہیں اور عمرہ کئے بغیر واپسی کے لیے آمادہ ہوئے ہیں۔ اور آپ نے بظاہر اپنے خلاف شرائط کو قبول کر لیا ہے تو صحابہ کو شدید دھچکا لگا، قریب تھا کہ کچھ لوگ ہلاک ہو جاتے۔ سہیل نے ابو جندل کو دیکھا تو وہ اُٹھ کر ابو جندل کی طرف گیا اور اس کے چہرے پر تھپڑ مارا اور کہا: اے محمد! آپ کے اور میرے درمیان صلح کا معاہدہ اس کے آنے سے پہلے طے پا چکا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے۔ تو وہ اُٹھ کر ابو جندل کی طرف گیا اور اس کے کپڑوں کو پکڑ کر سختی سے جھنجوڑا۔ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بلند آواز سے چیخے: ارے مسلمانو! کیا تم مجھے مشرکین کی طرف واپس کر دو گے تاکہ وہ دین کی وجہ سے مجھے مزید سزائیں دیں؟ لوگوں کے دلوں میں جو برے خیالات آچکے تھے، یہ دیکھ کر ان کے خیالات مزید منتشر ہو گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: صبر کرو اور اللہ سے ثواب وجزا کی امید رکھو،تم اور تمہارے علاوہ جس قدر کمزور لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ تم سب کی رہائی کی کوئی راہ نکال دے گا، ہم ان لوگوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر چکے ہیں، اس بارے میں ہم ان کو اور وہ ہمیں عہد دے چکے ہیں، ہم وعدہ خلافی ہرگز نہیں کریں گے۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف لپک کر گئے اور اس کے پہلو بہ پہلو چلنے لگے اور ان سے کہنے لگے: ابو جندل! صبر کرو، یہ لوگ مشرک ہیں، ان کا خون کتوں کا سا ہے۔ ساتھ ہی سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی تلوار کا دستہ ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قریب کرتے گئے، مجھے لگتا تھا کہ وہ تلوار ابو جندل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے باپ کو مار دیں گے، اس نے اپنے باپ کو بچا لیا اور یہ قضیہ مکمل ہو گیا، اس کے بعد راوی نے ساری تفصیل ذکر کی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو اونٹ نحر کرنے اور بال منڈوانے کا حکم دیا، انہوں نے تعمیل میں توقف کیا،یہاں تک کہ پہلے خود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اونٹ کو نحر کیا اور سر منڈوایا جیسا کہ پہلی سند سے مفصل بیان ہو چکا ہے، اس کے بعد لوگ اُٹھ کر اپنے اپنے اونٹوں کو نحر کرنے لگے اور بال منڈانے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ اور مدینہ کے درمیان ابھی راستہ ہی میں تھے کہ سورۂ فتح نازل ہوئی۔

Haidth Number: 10790
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ قریش کے کچھ آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور انہوں نے کہا: اے محمد! ہم آپ کے ہمسائے اور حلیف ہیں، ہمارے کچھ غلام جنہیں نہ تو دین کا کچھ شوق ہے اور فقہ کی کچھ رغبت، وہ آپ کے پاس آگئے ہیں،یہ لوگ محض ہمارے اہل اور اموال میں سے فرار ہو کر آئے ہیں، آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ان کی بات تو درست ہے، یہ واقعی آپ کے ہمسائے ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے بھی کہا: ان کی بات تو درست ہے، یہ لوگ آپ کے ہمسائے اور حلیف بھی ہیں۔ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ انور متغیر ہو گیا۔

Haidth Number: 10791

۔ (۱۱۷۰۸)۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اجْتَمَعَ جَعْفَرٌ وَعَلِیٌّ وَزَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ زَیْدٌ: أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: انْطَلِقُوا بِنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی نَسْأَلَہُ، فَقَالَ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ: فَجَائُ وْا یَسْتَأْذِنُونَہُ، فَقَالَ: ((اخْرُجْ فَانْظُرْ مَنْ ہٰؤُلَائِ؟)) فَقُلْتُ: ہٰذَا جَعْفَرٌ وَعَلِیٌّ وَزَیْدٌ، مَا أَقُولُ أَبِی؟ قَالَ: ((ائْذَنْ لَہُمْ۔)) وَدَخَلُوْا فَقَالُوْا: مَنْ أَحَبُّ إِلَیْکَ؟ قَالَ: ((فَاطِمَۃُ۔)) قَالُوْا: نَسْأَلُکَ عَنْ الرِّجَالِ، قَالَ: ((أَمَّا أَنْتَ یَا جَعْفَرُ فَأَشْبَہَ خَلْقُکَ خَلْقِی وَأَشْبَہَ خُلُقِی خُلُقَکَ وَأَنْتَ مِنِّی وَشَجَرَتِی، وَأَمَّا أَنْتَ یَا عَلِیُّ! فَخَتَنِی وَأَبُو وَلَدِی وَأَنَا مِنْکَ وَأَنْتَ مِنِّی، وَأَمَّا أَنْتَ یَا زَیْدُ! فَمَوْلَایَ وَمِنِّی وَإِلَیَّ وَأَحَبُّ الْقَوْمِ إِلَیَّ۔)) (مسند احمد: ۲۲۱۲۰)

سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا جعفر، سیدنا علی اور سیدنا زید بن حارثہ اکٹھے ہوگئے۔ سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول کو تم میں سب سے زیادہ محبت مجھ سے ہے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول کو تم میں سب سے زیادہ مجھ سے محبت ہے۔ اور سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی کہا کہ تم سب کی بہ نسبت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مجھ سے زیادہ محبت ہے۔ پھر وہ سب بولے کہ چلو اللہ کے رسول کے پاس چلتے ہیں، پس ان سب نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسامہ باہر جا کر دیکھو کون لوگ ہیں؟ انھوں نے بتلایا کہ سیدنا جعفر، سیدنا علی اور سیدنا زید ہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ میرے والد ہیں (یاد رہے کہ سیدنا زید، سیدنا اسامہ کے والد تھے)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو آنے کی اجازت دے دو۔ سو وہ لوگ آئے اور انہوںنے دریافت کیا کہ آپ کو ہم میں سے زیادہ محبت کس کے ساتھ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فاطمہ کے ساتھ۔ ‘ انھوں نے کہا: ہم تو آپ سے مردوں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اے جعفر ! تمہاری شکل و صورت میری شکل و صورت سے اور میری شکل و صورت تمہاری شکل و صورت کے مشابہ ہے، آپ مجھ سے اور میرے خاندان میں سے ہیں، اے علی! آپ میرے داماد اور میری اولاد کے باپ ہیں، میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو اور اے زید! آپ میرے آزاد کردہ غلام ہو اور مجھ سے ہیں، آپ کا مجھ سے گہرا تعلق ہے اور تم مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔

Haidth Number: 11708
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جس لشکر میں بھی روانہ کیا، ان کو اس کا امیر ہی مقررکیا، اگر وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد زندہ رہتے تو آپ انہیں کو لشکروں کا امیر بنا دیتے۔

Haidth Number: 11709
ابووائل سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: یہ کیسے ہوا کہ آپ لوگوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو چھوڑ کر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت کر لی، انہوں نے کہا: اس میں میراکیا قصور ہے؟میں پہلے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیاا ور میںنے کہا: میں اللہ کی کتاب، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سنت اور ابوبکر و عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی سیرت کی روشنی میں آپ کی بیعت کرتاہوں، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لیکن میری طاقت کے مطابق، عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پھرمیں نے یہ چیز سیدنا عثمان پر پیش کی تو انہوں نے اسے قبول کرلیا۔

Haidth Number: 12236

۔ (۱۲۷۰۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِی مُوَیْہِبَۃَ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ، فَقَالَ: ((یَا أَبَا مُوَیْہِبَۃَ! إِنِّی قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأَہْلِ الْبَقِیعِ فَانْطَلِقْ مَعِی۔)) فَانْطَلَقْتُ مَعَہُ، فَلَمَّا وَقَفَ بَیْنَ أَظْہُرِہِمْ، قَالَ: ((السَّلَامُ عَلَیْکُمْ! یَا أَہْلَ الْمَقَابِرِ، لِیَہْنِ لَکُمْ مَا أَصْبَحْتُمْ فِیہِ، مِمَّا أَصْبَحَ فِیہِ النَّاسُ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا نَجَّاکُمُ اللّٰہُ مِنْہُ، أَقْبَلَتِ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، یَتْبَعُ أَوَّلُہَا آخِرَہَا، الَآخِرَۃُ شَرٌّ مِنَ الْأُولٰی۔)) قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیَّ، فَقَالَ: ((یَا أَبَا مُوَیْہِبَۃَ! إِنِّی قَدْ أُوتِیتُ مَفَاتِیحَ خَزَائِنِ الدُّنْیَا وَالْخُلْدَ فِیہَا ثُمَّ الْجَنَّۃَ، وَخُیِّرْتُ بَیْنَ ذٰلِکَ وَبَیْنَ لِقَائِ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ وَالْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: قُلْتُ بِأَبِی وَأُمِّی فَخُذْ مَفَاتِیحَ الدُّنْیَا وَالْخُلْدَ فِیہَا ثُمَّ الْجَنَّۃَ، قَالَ: ((لَا، وَاللّٰہِ! یَا أَبَا مُوَیْہِبَۃَ، لَقَدْ اخْتَرْتُ لِقَائَ رَبِّی عَزَّوَجَلَّ وَالْجَنَّۃَ۔)) ثُمَّ اسْتَغْفَرَ لِأَہْلِ الْبَقِیعِ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَبُدِیئَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ وَجْعِہِ الَّذِیْ قَبَضَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْہِ حِیْنَ اَصْبَح۔ (مسند احمد: ۱۶۰۹۳)

مولائے رسول سیدنا ابو مویہبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آدھی رات کو مجھے بیدا رکیا اور فرمایا: ابو مویہبہ!مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں بقیع قبرستان والوں کے لیے مغفرت کی دعا کروں، تم بھی میرے ساتھ چلو۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ چل پڑا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں جا کر جب ان کے درمیان کھڑے ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے قبر والو! تم پر سلامتی ہو، تم جس حال میں ہو، وہ تمہیں مبارک ہو، ان حالات سے کہ جن میں اب لوگ ہیں، کاش کہ تم جان لو کہ اللہ نے تمہیں کس چیز سے بچا لیا ہے، فتنے اندھیری رات کے حصوں کی مانند ایک دوسرے کے پیچھے لگا تار آرہے ہیں، بعدمیں آنے والا فتنہ پہلے سے بدتر ہے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ابو مویہبہ! مجھے دنیا اور اس میں ہمیشگی کے خزانے دئیے گئے ہیں اور اس کے بعد جنت دی گئی ہے اور مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں دنیا یا اپنے رب کی ملاقات اور جنت میں سے جس چیز کا انتخاب کرنا چاہوں، کر لوں۔ ابو مو یہبہ کہتے ہیں: میں نے کہا: ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا کے خزانوں اور اس میں ہمیشگی اور اس کے بعد جنت کا انتخاب فرما لیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابومویہبہ! اللہ کی قسم! ایسا نہیں میں نے اپنے رب کی ملاقات اور جنت کا انتخاب کر لیا ہے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہل بقیع کے حق میں مغفرت کی دعائیں کیں اور واپس چل دئیے، دوسرے دن صبح کو ہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وہ بیماری شروع ہوگئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا سے اٹھالیا۔

Haidth Number: 12707
۔ (دوسری سند)سیدنا ابو مویہبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بقیع قبرستان والوں کے حق میں دعا کرنے کا حکم دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک رات میں تین مرتبہ ان کے حق میں دعائیں کیں، جب دوسری رات ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو مویہبہ! میری سواری تیار کرو۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہوئے اور میں پیدل چلا، تاآنکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اہل بقیع کے پاس جا پہنچے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری سے نیچے اترے اور میں نے سواری کو پکڑ لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے اہل بقیع! تم جس حال میں ہو، تمہیں مبارک ہو، اِدھر تو رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے چڑھے آ رہے ہیں، ہر بعد والا فتنہ پہلے والے سے سخت ہے، لہذا تم جس حالت میں ہو، تمہیں یہ مبارک ہو۔

Haidth Number: 12708
سیدناسوید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ اصحاب ِ رسول میں سے تھے، سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوہ ٔ خیبر سے واپس آ رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو احد پہاڑ دکھائی دیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر، احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

Haidth Number: 12709
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بلاشبہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

Haidth Number: 12710
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، بلاشبہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جبل احد پر تشریف لے گئے، سیدناابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے آ گئے، ان کی آمد پر پہاڑہلنے لگا،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: رک جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔

Haidth Number: 12711