Blog
Books
Search Hadith

تیمم کا بیان

9 Hadiths Found
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ایک ہار بطورِ استعارہ لیا تھا، لیکن وہ گم ہو گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ افراد کو اس کو تلاش کرنے کے لیے بھیجا، ان کو وہ مل گیا، لیکن نماز نے ان کو اس حال میں پا لیا کہ ان کے ساتھ پانی نہیںتھا، پس انھوں نے بغیروضو کے نماز پڑھی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف یہ شکایت کی، پس اللہ تعالی نے تیمم کی رخصت نازل کر دی، سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: اللہ تعالی تم کو جزائے خیر دے، جب بھی تمہارا کوئی ایسا معاملہ بنتا ہے، جس کو تم ناپسند کرتی ہے، اللہ تعالی اس میں تمہارے لیے اور مسلمانوں کے لیے خیر و بھلائی بنا دیتا ہے۔

Haidth Number: 8579

۔ (۸۵۷۹م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ نَّہَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَعْضِ أَ سْفَارِنَا حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِالْبَیْدَائِ أَوْ بِذَاتِ الْجَیْشِ، انْقَطَعَ عِقْدٌ لِی، فَأَ قَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی الْتِمَاسِہِ وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَہُ، وَلَیْسُوا عَلٰی مَائٍ وَلَیْسَ مَعَہُمْ مَائٌ، فَأَ تَی النَّاسُ إِلٰی أَ بِی بَکْرٍ فَقَالُوْا: أَ لَا تَرٰی مَا صَنَعَتْ عَائِشَۃُ؟ أَ قَامَتْ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبِالنَّاسِ، وَلَیْسُوا عَلٰی مَائٍ وَلَیْسَ مَعَہُمْ مَائٌ، فَجَائَ أَ بُو بَکْرٍ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاضِعٌ رَأْسَہُ عَلٰی فَخِذِی، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالنَّاسَ، وَلَیْسُوا عَلَی مَائٍ وَلَیْسَ مَعَہُمْ مَائٌ، قَالَتْ: فَعَاتَبَنِی أَ بُو بَکْرٍ وَقَالَ مَا شَائَ اللّٰہُ أَ نْ یَقُولَ، وَجَعَلَ یَطْعَنُ بِیَدِہِ فِی خَاصِرَتِی، وَلَا یَمْنَعُنِی مِنْ التَّحَرُّکِ إِلَّا مَکَانُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی فَخِذِی، فَنَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أَ صْبَحَ النَّاسُ عَلٰی غَیْرِ مَائٍ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ آیَۃَ التَّیَمُّمِ فَتَیَمَّمُوا، فَقَالَ أُسَیْدُ بْنُ الْحَضِیرِ: مَا ہِیَ بِأَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ یَا آلَ أَبِی بَکْرٍ! قَالَتْ: فَبَعَثْنَا الْبَعِیرَ الَّذِی کُنْتُ عَلَیْہِ فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَہُ۔ (مسند احمد: ۲۵۹۶۹)

۔ (دوسری سند) عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے یہ بھی روایت ہے کہ ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم بیداءیا ذات الجیش جگہ پر پہنچے تو میرا ایک ہار گم ہوگیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی تلاش کے لئے ٹھہر گئے لوگ بھی ٹھہر گئے نہ وہ پانی پر تھے اور نہ ہی ان کے پاس پانی تھا۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے سو رہے تھ۔ ابوبکر کہنے لگے تو نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو روک رکھا ہے اور لوگوں کو بھی نہ وہ پانی کے پاس ہیں اور نہ ہی ان کے پاس پانی ہے۔ کہا مجھے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بہت سرزنش کی اور جو چاہا کہا اور میری کوکھ میں مارنا شروع ہوئے۔ مجھے حرکت میں یہ چیز رکاوٹ تھی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری ران پر سر رکھے ہوئے تھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے صبح تک لوگوں کے پاس پانی نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی لوگوں نے تیمم کیا سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فرماتے ہیں اے ابوبکر کی اولاد! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں تم ہمیشہ باعث برکت ثابت ہوئے ہو۔ تو بعد میں ہم نے اونٹ اٹھایا جس پر میں تھی تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔

Haidth Number: 8579

۔ (۱۰۸۳۱)۔ إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی قُحَافَۃَ، وَأَمَّرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیْنَا، قَالَ: غَزَوْنَا فَزَارَۃَ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْمَائِ أَمَرَنَا أَبُو بَکْرٍ فَعَرَّسْنَا، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّیْنَا الصُّبْحَ أَمَرَنَا أَبُو بَکْرٍ فَشَنَنَّا الْغَارَۃَ، فَقَتَلْنَا عَلَی الْمَائِ مَنْ قَتَلْنَا، قَالَ سَلَمَۃُ: ثُمَّ نَظَرْتُ إِلٰی عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ، فِیہِ الذُّرِّیَّۃُ وَالنِّسَائُ نَحْوَ الْجَبَلِ، وَأَنَا أَعْدُو فِی آثَارِہِمْ، فَخَشِیتُ أَنْ یَسْبِقُونِی إِلَی الْجَبَلِ، فَرَمَیْتُ بِسَہْمٍ فَوَقَع بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْجَبَلِ، قَالَ: فَجِئْتُ بِہِمْ أَسُوقُہُمْ إِلَی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی أَتَیْتُہُ عَلَی الْمَائِ، وَفِیہِمْ امْرَأَۃٌمِنْ فَزَارَۃَ، عَلَیْہَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ، وَمَعَہَا ابْنَۃٌ لَہَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، قَالَ: فَنَفَّلَنِی أَبُو بَکْرٍ ابْنَتَہَا، قَالَ: فَمَا کَشَفْتُ لَہَا ثَوْبًا حَتّٰی قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ، ثُمَّ بِتُّ فَلَمْ أَکْشِفْ لَہَا ثَوْبًا، قَالَ: فَلَقِیَنِیرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی السُّوقِ، فَقَالَ لِی: ((یَا سَلَمَۃُ! ہَبْ لِیَ الْمَرْأَۃَ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَاللّٰہِ! لَقَدْ أَعْجَبَتْنِی وَمَا کَشَفْتُ لَہَا ثَوْبًا، قَالَ: فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَتَرَکَنِی حَتّٰی إِذَا کَانَ مِنَ الْغَدِ لَقِیَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی السُّوقِ، فَقَالَ: ((یَا سَلَمَۃُ! ہَبْ لِیَ الْمَرْأَۃَ لِلّٰہِ أَبُوکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَاللّٰہِ أَعْجَبَتْنِی، مَاکَشَفْتُ لَہَا ثَوْبًا، وَہِیَ لَکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: فَبَعَثَ بِہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ وَفِی أَیْدِیہِمْ أُسَارٰی مِنْ الْمُسْلِمِینَ، فَفَدَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِتِلْکَ الْمَرْأَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۱۶)

سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا ابوبکر بن ابی قحافہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں روانہ ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ہم پر امیر مقرر فرمایا تھا۔ ہم فزارہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ جب ہم اپنی منزل مقصود کے پانی کے قریب پہنچے تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے رات کے آخری حصہ میں کچھ دیر آرام کر لیا، جب ہم نے فجر کی نماز ادا کی تو ہم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حکم سے یکبارگی حملہ کر دیا اور ہم نے اس پانی کے قریب بہت سے لوگوں کو قتل کر دیا۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر میں نے پہاڑ کی جانب جانے والے لوگوں کی ایک جماعت دیکھی، اس میں عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی، میں ان کے پیچھے دوڑنے لگا مجھے خطرہ تھا کہ وہ مجھ سے پہلے پہاڑ پر پہنچ جائیں گے، سو میں نے ان پر تیر برسائے جو ان کے اور پہاڑ کے درمیان گرے، پھر میں ان لوگوں کو گرفتار کر کے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں پانی کے قریب لے آیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت بھی تھی، جس پر چمڑے کی ایک پرانی سی چادر تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی، جو عرب کی ایک خوبصورت ترین لڑکی تھی، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کی بیٹی میرے حصہ سے زائد کے طور پر مجھے عنایت کی۔ میں نے مدینہ منورہ آنے تک اس سے کوئی تعلق قائم نہ کیا، رات بھی اسی طرح گزر گئی، جب بازار میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے سلمہ ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے، لیکن ابھی تک میں نے اس کا کپڑا تک نہیں اٹھایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے اور مجھے چھوڑ دیا، اگلے دن پھر آپ کی مجھ سے بازار میں ملاقات ہوئی، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے سلمہ! تیرے باپ کا بھلا ہو، وہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! وہ مجھے بہت پسند آئی ہے اور میں نے تاحال اس کا کپڑا تک نہیں اُٹھایا۔اے اللہ کے رسول! وہ اب آپ کے لیے ہی ہے۔ اہل مکہ کے ہاں کچھ مسلمان قیدی تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس عورت کو ان مسلمانوں کے فدیہ کے طور پر اہلِ مکہ کی طرف بھیج دیا تھا۔

Haidth Number: 10831
سیدنا زید بن اسلم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اگر آپ کے اندر تین خصلتیں نہ ہوں تو آپ میں کوئی حرج نہیں ہو گا، انہوںنے دریافت کیا کہ وہ کونسی ہیں؟ اللہ کی قسم! آپ کو کسی چیز کی عیب جوئی کرتے نہیں دیکھا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ایک تو یہ کہ آپ نے ابو یحییٰ کنیت رکھی ہوئی ہے، جبکہ آپ کی اولاد نہیں، دوسرے یہ کہ آپ نمر بن قاسط جیسے عظیم شخص کی طرف انتساب کرتے ہیں، جبکہ آپ کی حالت یہ ہے کہ آپ کی زبان میں لکنت ہے اور تیسری بات یہ کہ آپ کے پاس جتنی بھی دولت آجائے آپ اسے خرچ کر ڈالتے ہیں، اسے جمع نہیں رکھتے۔ یہ سن کر انہوں نے جواباً کہا:جہاں تک میری کنیت کا تعلق ہے، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرییہ کنیت رکھی ہے اور اب میں آپ سے ملاقات تک یعنی مرتے دم تک اس کنیت کو ترک نہیں کروں گا۔دوسری بات کہ میں نمر بن قاسط کی طرف انتساب کرتا ہوں تو میں چونکہ انہی لوگوں میں سے ہوں، تو ان کی طرف نسبت کیوں نہ کروں؟ البتہ حقیقتیہ ہے کہ میری رضاعت أیلہ میں ہوئی ہے، یہ لکنت اسی کا اثر ہے اور باقی رہا مال کو جمع رکھنے کی بجائے خرچ کر ڈالنا۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ میں اسے ناحق خرچ کرتا ہوں؟

Haidth Number: 11747

۔ (۱۱۷۴۸)۔ عَنْ زُہَیْرٍ،عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ صُہَیْبٍ، أَنَّ صُہَیْبًا کَانَ یُکَنّٰی أَبَا یَحْیٰی، وَیَقُولُ: إِنَّہُ مِنَ الْعَرَبِ وَیُطْعِمُ الطَّعَامَ الْکَثِیرَ، فَقَالَ لَہُ: عُمَرُ یَا صُہَیْبُ، مَا لَکَ تُکَنّٰی أَبَا یَحْیٰی؟ وَلَیْسَ لَکَ وَلَدٌ، وَتَقُولُ: إِنَّکَ مِنَ الْعَرَبِ وَتُطْعِمُ الطَّعَامَ الْکَثِیرَ وَذٰلِکَ سَرَفٌ فِی الْمَالِ، فَقَالَ صُہَیْبٌ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَنَّانِی أَبَا یَحْیٰی، وَأَمَّا قَوْلُکَ فِی النَّسَبِ فَأَنَا رَجُلٌ مِنَ النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ مِنْ أَہْلِ الْمَوْصِلِ، وَلٰکِنِّی سُبِیتُ غُلَامًا صَغِیرًا قَدْ غَفَلْتُ أَہْلِی وَقَوْمِی، وَأَمَّا قَوْلُکَ فِی الطَّعَامِ فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَقُولُ: ((خِیَارُکُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ وَرَدَّ السَّلَامَ۔)) فَذٰلِکَ الَّذِی یَحْمِلُنِی عَلٰی أَنْ أُطْعِمَ الطَّعَامَ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۲۲)

حمزہ بن صہیب سے روایت ہے کہ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی کنیت ابو یحییٰ تھی، نیز وہ خود کو عربوں کی طرف منسوب کیا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو کثرت سے کھانا کھلایا کرتے تھے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: صہیب! آپ کی تو اولاد ہی نہیں، آپ نے ابو یحییٰ کنیت کیوں اختیار کیہوئی ہے؟ اور آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ اصلاً عرب ہیں اور آپ دوسروں کو کثرت سے کھانا کھلاتے ہیں،یہ تو مال کا ضیاع ہے؟ یہ سن کر سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری کنیت ابو یحییٰ رکھی ہے، باقی رہا آپ کا میرے نسب کے متعلق اظہار خیال تو میں خاندانی طور پر اہل موصل کے رئیس نمر بن قاسط کے خاندان سے ہوں، البتہ میں چھوٹا بچہ تھا کہ مجھے قیدی بنا لیا گیا اور میں اپنے اہل اور قوم کو بھول بیٹھا، باقی رہا میرے کھانے کھلانے کے بارے میں آپ کی بات تو یاد رکھیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے، جو دوسروں کو کھانا کھلائے اور سلام کا جواب دے۔ یہی چیز مجھے آمادہ کرتی ہے کہ میں دوسروں کو کھانا کھلائوں۔

Haidth Number: 11748
سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی سیدہ نائلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ امیر المومنین سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اونگھ آئی اور سو گئے، پھر جب بیدار ہوئے تو انھوں نے کہا: یہ لوگ یقینا مجھے قتل کر ڈالیں گے، میںنے کہا: ان شاء اللہ ہر گزنہیں، ابھی تک ایسا معاملہ نہیں ہے، آپ کی رعایا آپ کو محض ڈرا دھمکا رہی ہے، انہوں نے کہا: میں نے خواب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا ہے، انہوںنے کہا ہے کہ آج رات تم ہمارے ہاں روزہ افطار کر و گے۔

Haidth Number: 12277
ابو سعید مسلم سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیس غلام آزاد کیے اور شلوار منگوا کر پہن لی، اس سے پہلے آپ نے دورِ جاہلیت میں یا قبول اسلام کے بعد کبھی بھی شلوار نہیں پہنی تھی، پھر انھوں نے کہا: میں نے آج رات خواب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا ہے، انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ صبر کرنا، آئندہ رات تم ہمارے ہاں روزہ افطار کرو گے۔ اس کے بعد انہوںنے قرآن مجید کا مصحف منگوایا اور اپنے سامنے کھول کر رکھ لیا، پھر وہ اس حال میں شہید ہو گئے کہ مصحف ان کے سامنے کھلا ہوا تھا۔

Haidth Number: 12278
سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر سوموار اور جمعرات کے دن آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں، جو بندے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے ان سب کی اس دن مغفرت کر دی جاتی ہے، لیکن جن دو مسلمانوں کی آپس میں دشمنی یا نفرت ہو ان کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ ان دونوں کا معاملہ مؤخر رکھو یہاں تک کہ یہ دونوں آپس میں صلح کر لیں۔

Haidth Number: 12757
سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو آدم کے اعمال ہر جمعرات یعنی جمعہ کی رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں جو شخص قطع رحمی کرنے والا ہو، اس کے اعمال مقبول نہیں ہوتے۔

Haidth Number: 12758