Blog
Books
Search Hadith

{قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰی اَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ} کی تفسیر

10 Hadiths Found
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا: {ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰی أَ نْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ أَ وْ مِنْ تَحْتِ أَ رْجُلِکُمْ} … کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیج دے، یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار یہ ہونے والا ہے، لیکن ابھی تک اس کی تاویل پوری نہیں ہوئی (یعنی اس کی مصداق صورت سامنے نہیں آئی)۔

Haidth Number: 8594
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰی أَ نْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ} … کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیج دے۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں تیری چہرے کیپناہ میں آتا ہوں۔ جب یہ حصہ نازل ہوا: {أَ وْ مِنْ تَحْتِ أَ رْجُلِکُمْ} … یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں تیرے چہرے کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ اور جب یہ حصہ نازل ہوا: {أَ وْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَأْسَ بَعْضٍ} … یا تمھیں مختلف گروہ بنا کر گتھم گتھا کر دے اور تمھارے بعض کو بعض کی لڑائی (کا مزہ) چکھائے۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ زیادہ ہلکا اور زیادہ آسان عذاب ہے۔

Haidth Number: 8595
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُوْنَ۔} … کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیج دے، یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے، یا تمھیں مختلف گروہ بنا کر گتھم گتھا کر دے اور تمھارے بعض کو بعض کی لڑائی (کا مزہ) چکھائے، دیکھ ہم کیسے آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں، تاکہ وہ سمجھیں۔ پھر سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ چار امور ہیں، چاروں عذاب کی صورتیں ہیں، سب نے لامحالہ طور پر واقع ہونا ہے، بلکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے سے پچیس برس بعد واقع ہو چکی ہیں، ایکیہ کہ لوگ فرقوں میں بٹ گئے اور دوسرا پھر انہوں نے ایکدوسرے کو عذاب بھی چکھایا، باقی دو نے بھی لا محالہ طورپر ہو کر رہنا ہے، اور وہ ہیں: زمین میں دھنسنا اور پتھروں کا برسنا۔

Haidth Number: 8596
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذی طوی میں قیام کیا تو ابو قحافہ نے اپنی سب سے چھوٹی بچی سے کہا: بیٹی! تم مجھے جبل ابی قبیس پر لے چلو، ان دنوں وہ نابینا ہو چکے تھے، وہ بیان کرتی ہے کہ میں ان کو پہاڑ پر لے گئی۔ انھوں نے کہا: بیٹی تم کیا دیکھ رہی ہو؟ بیٹی نے کہا: میں ایک اکٹھا لشکر دیکھ رہی ہوں، انہوں نے کہا: یہ گھوڑے ہیں، اس نے کہا: میں ایک آدمی کو دیکھ رہی ہوں جوا ن لشکروں میں آگے پیچھے دوڑتا پھر رہا ہے۔ انھوں نے کہا: بیٹی! یہ آدمی گھڑ سواروں کو ہدایات دے رہا ہے۔ پھر اللہ کی قسم! دیکھا کہ لشکر بکھر گیا ہے، انھوں نے کہا:اللہ کی قسم تب تو گھوڑے دوڑ پڑے ہیں۔ تم جلدی سے مجھے گھر لے چلو، میں انہیں ساتھ لئے پہاڑ سے نیچے اتر آئی، وہ ابھی گھر تک نہ پہنچے تھے کہ ان کی گھڑ سواروں سے ملاقات ہو گئی۔ اس لڑکی کی گردن میں چاندی کا ایک ہار تھا، ایک آدمی نے اسے پکڑ کر اس کی گردن سے اتار لیا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ آکر مسجد حرام میں داخل ہوئے تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے والد کا ہاتھ تھامے ہوئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لائے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اس طرح آتے دیکھا تو فرمایا: آپ نے بزرگ کو گھر میں ہی رہنے دیا ہوتا،میں خود ان کے ہاں چلا جاتا۔ لیکن سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے ان کی طرف چل کر جانے کی نسبت وہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ آپ کی طرف چل کر آئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابو قحافہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: اسلام میں آجاؤ۔ پس انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے والد کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لائے تھے تو ان کے بال بڑھاپے کی وجہ سے ثغامہ بوٹی کی طرح سفید ہو چکے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے بالوں کی سفیدی کو بدل دو۔ پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی بہن کا ہاتھ تھامے اُٹھے اور کہا: لوگو! میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میری بہن کا ہار جس کے پاس ہو وہ واپس کر دے۔ لیکن جب کسی نے ان کی بات کا اثبات میں جواب نہ دیا۔ تو انہوں نے کہا: بہن! ہار سے محرومی پر اللہ سے اجر کی امید رکھو۔

Haidth Number: 10858

۔ (۱۱۷۷۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ، عَنِ أَبِیہِ، قَالَ: دَعَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((إِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّ خَالِدَ بْنَ سُفْیَانَ بْنِ نُبَیْحٍ یَجْمَعُ لِی النَّاسَ لِیَغْزُوَنِی، وَہُوَ بِعُرَنَۃَ فَأْتِہِ فَاقْتُلْہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ انْعَتْہُ لِی حَتّٰی أَعْرِفَہُ، قَالَ: ((إِذَا رَأَیْتَہُ وَجَدْتَ لَہُ أُقْشَعْرِیَرَۃً۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ مُتَوَشِّحًا بِسَیْفِی حَتّٰی وَقَعْتُ عَلَیْہِ، وَہُوَ بِعُرَنَۃَ مَعَ ظُعُنٍ یَرْتَادُ لَہُنَّ مَنْزِلًا وَحِینَ کَانَ وَقْتُ الْعَصْرِ، فَلَمَّا رَأَیْتُہُ وَجَدْتُ مَا وَصَفَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ الْأُقْشَعْرِیرَۃِ، فَأَقْبَلْتُ نَحْوَہُ وَخَشِیتُ أَنْ یَکُونَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ مُحَاوَلَۃٌ تَشْغَلُنِی عَنِ الصَّلَاۃِ، فَصَلَّیْتُ وَأَنَا أَمْشِی نَحْوَہُ أُومِیُٔ بِرَأْسِی الرُّکُوعَ وَالسُّجُودَ، فَلَمَّا انْتَہَیْتُ إِلَیْہِ قَالَ: مَنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنْ الْعَرَبِ، سَمِعَ بِکَ وَبِجَمْعِکَ لِہٰذَا الرَّجُلِ فَجَائَ کَ لِہٰذَا، قَالَ: أَجَلْ أَنَا فِی ذٰلِکَ، قَالَ: فَمَشَیْتُ مَعَہُ شَیْئًا حَتّٰی إِذَا أَمْکَنَنِی حَمَلْتُ عَلَیْہِ السَّیْفَ حَتَّی قَتَلْتُہُ، ثُمَّ خَرَجْتُ وَتَرَکْتُ ظَعَائِنَہُ مُکِبَّاتٍ عَلَیْہِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَآنِی فَقَالَ: ((أَفْلَحَ الْوَجْہُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: قَتَلْتُہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((صَدَقْتَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَامَ مَعِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ فِی بَیْتِہِ فَأَعْطَانِیْ عَصًا، فَقَالَ: ((أَمْسِکْ ہٰذِہِ عِنْدَکَ یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُنَیْسٍ۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ بِہَا عَلَی النَّاسِ، فَقَالُوْا: مَا ہٰذِہِ الْعَصَا؟ قَالَ: قُلْتُ: أَعْطَانِیہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَرَنِی أَنْ أُمْسِکَہَا، قَالُوْا: أَوَلَا تَرْجِعُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَسْأَلَہُ عَنْ ذٰلِکَ؟ قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لِمَ أَعْطَیْتَنِی ہٰذِہِ الْعَصَا؟ قَالَ: ((آیَۃٌ بَیْنِی وَبَیْنَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِنَّ أَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُونَ یَوْمَئِذٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) فَقَرَنَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بِسَیْفِہِ فَلَمْ تَزَلْ مَعَہُ حَتَّی إِذَا مَاتَ أَمَرَ بِہَا فَصُبَّتْ مَعَہُ فِی کَفَنِہِ ثُمَّ دُفِنَا جَمِیعًاً۔ (مسند احمد: ۱۶۱۴۳)

سیدنا عبداللہ بن انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلوا کر فرمایا: مجھے اطلاع ملی ہے کہ خالد بن سفیان بن نبیح مجھ پر حملہ کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کر رہا ہے، وہ اس وقت عرنہ وادی میں ہے، تم جا کر اسے قتل کر دو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے اس کا حلیہ بیان فرمائیں تا کہ میں اسے پہچان سکوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم اسے دیکھو گے تو تم پر کپکپی طاری ہو جائے گی۔ پس میں نے اپنی تلوار لٹکائی اور چل پڑا، جب میں عرنہ میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ اس کے ساتھ عورتیں بھی تھیں اور وہ ان کے لیے جگہ تیار کر رہا تھا، یہ عصر کا وقت تھا۔ جب میں نے اسے دیکھا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیان کے مطابق مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی، میں اس کی طرف بڑھا، مجھے اندیشہ ہوا کہ ممکن ہے کہ اس کے اور میرے درمیان لڑائی شروع ہو جائے اور میں نماز نہ پڑھ سکوں، اس لیے میں نے اس کی طرف چلتے چلتے نماز پڑھی لی اور اشارے سے رکوع و سجود کر لیے، جب میں اس کے پاس پہنچا تو اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں ایک عرب ہوں، سنا ہے کہ تم اس یعنی محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے مقابلے کے لیے لشکر جمع کر رہے ہو، میں بھی اسی مقصد کے لیے آیا ہوں۔ اس نے کہا: ہا ںہاں اسی مشن پر ہوں۔ میں کچھ دور تک اس کے ساتھ ساتھ چلا، جب مجھے موقعہ ملا تو میں نے اس پر تلوار سے وار کر کے اسے قتل کر دیا اور وہاں سے نکل آیا، میں نے اس کی عورتوں کو اس حال میں وہاں چھوڑا کہ وہ اس پر جھکی ہوئی تھیں۔ جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: چہرہ کامیاب ہو گیا ہے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بالکل تم ٹھیک کہتے ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ساتھ اٹھ کر چلے اور اپنے گھر تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک لاٹھی عنایت کی اور فرمایا: عبدالرحمن بن انیس! اسے اپنے پاس محفوظ رکھنا۔ میں وہ لاٹھی لے کر باہر لوگوں میں آیا۔ انہوںنے پوچھا: یہ کیسی لاٹھی ہے؟ میں نے بتلایا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ لاٹھی عنایت کی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسے محفوظ رکھوں۔ انہوںنے کہا: کیا تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس جا کر آپ سے اس کے بارے میں مزید وضاحت نہیں کرا لیتے؟ پس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں دوبارہ گیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! آپ نے یہ لاٹھی مجھے کس مقصد کے لیے دی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن یہ لاٹھی میرے اور تمہارے درمیان نشانی ہوگی، قیامت کے دن بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس ٹیک لگانے کے لیے عصا وغیر ہ ہوگا۔ پس سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہا، یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو اس عصا کو بھی ان کے کفن کے ساتھ رکھ کر دونوں کو دفن کر دیا گیا۔

Haidth Number: 11770
سیدنا اہبان بن صیفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ صحابی ہیں، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب بصرہ میں تشریف لائے تو انہوں نے مجھے بلوا بھیجا اور کہا: میرے ساتھ چلنے میں تمہیں کیا مانع سیدنا اہبان بن صیفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ صحابی ہیں، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب بصرہ میں تشریف لائے تو انہوں نے مجھے بلوا بھیجا اور کہا: میرے ساتھ چلنے میں تمہیں کیا مانع

Haidth Number: 12334

۔ (۱۲۳۳۵)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَنْ عُدَیْسَۃَ ابْنَۃِ أُہْبَانَ بْنِ صَیْفِیٍّ، أَنَّہَا کَانَتْ مَعَ أَبِیہَا فِی مَنْزِلِہِ فَمَرِضَ، فَأَفَاقَ مِنْ مَرَضِہِ ذٰلِکَ، فَقَامَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ بِالْبَصْرَۃِ، فَأَتَاہُ فِی مَنْزِلِہِ حَتّٰی قَامَ عَلٰی بَابِ حُجْرَتِہِ فَسَلَّمَ، وَرَدَّ عَلَیْہِ الشَّیْخُ السَّلَامَ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: کَیْفَ أَنْتَ؟ یَا أَبَا مُسْلِمٍ! قَالَ: بِخَیْرٍ، فَقَالَ عَلِیٌّ: أَلَا تَخْرُجُ مَعِی إِلٰی ہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ فَتُعِینَنِی؟ قَالَ: بَلٰی، إِنْ رَضِیتَ بِمَا أُعْطِیکَ، قَالَ عَلِیٌّ: وَمَا ہُوَ؟ فَقَالَ الشَّیْخُ: یَا جَارِیَۃُ! ہَاتِ سَیْفِی، فَأَخْرَجَتْ إِلَیْہِ غِمْدًا فَوَضَعَتْہُ فِی حِجْرِہِ، فَاسْتَلَّ مِنْہُ طَائِفَۃً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلٰی عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ: إِنَّ خَلِیلِی عَلَیْہِ السَّلَام وَابْنَ عَمِّکَ عَہِدَ إِلَیَّ إِذَا کَانَتْ فِتْنَۃٌ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، أَنْ اتَّخِذَ سَیْفًا مِنْ خَشَبٍ، فَہٰذَا سَیْفِی فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ بِہِ مَعَکَ، فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: لَا حَاجَۃَ لَنَا فِیکَ وَلَا فِی سَیْفِکَ، فَرَجَعَ مِنْ بَابِ الْحُجْرَۃِ وَلَمْ یَدْخُلْ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۴۶)

۔ (دوسری سند) عدیسہ بنت اہبان بن صیفی بیان کرتی ہیں کہ وہ اپنے والد سیدنا اہبان بن صیفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں ان کے پاس تھیں، وہ بیمار پڑ گئے اور پھر ان کو افاقہ ہو گیا، اس وقت سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بصرہ میں تھے، وہ ان کے گھر تشریف لائے اور ان کے کمرہ کے دروازہ کے پاس کھڑے ہو کر سلام پیش کیا، میرے والد نے انہیں سلام کا جواب دیا، انہوں نے کہا: ابو مسلم! کیسے مزاج ہیں؟ میرے والد نے کہا: ٹھیک ہوں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تم میرے ساتھ ان لوگوں کے مقابلے میں نکل کر میری مدد نہیں کرو گے؟ میرے والد نے کہا:کیوںنہیں، بشرطیکہ میں جو کچھ بیان کروں، آپ اسے پسند کریں تو میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: وہ کیا؟ پس میرے والدنے کہا: لڑکی! ذرا میری تلوار لے آؤ۔ میں نے میان نکال کر ان کی گود میں لے جا کر رکھ دی، انہوںنے میان سے تھوڑی سی تلوار نکالی اور پھر اپنا سر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف اٹھایا اور کہا: میرے خلیل اور آپ کے چچا زاد یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا تھاکہ: جب مسلمانوں کے مابین فتنہ و اختلاف بپا ہو تو لکڑی کی تلوار بنا لینا۔ پس میری تو یہی تلوار ہے، اگر آپ چاہیں تو میں یہ لے کر آپ کے ساتھ نکلتا ہوں، یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہمیں تمہارے اور تمہاری تلوار کی کوئی ضرورت نہیں، پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کمرے کے دروازے سے باہر چلے گئے اور واپس نہ آئے۔

Haidth Number: 12335
۔ (تیسری سند) سیدنا اہبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرے خلیل اور آپ کے چچا زاد یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: عنقریب فتنے اور اختلافات رونما ہوں گے، جب ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو اپنی تلوار توڑ کر لکڑی کی تلوار بنا لینا۔ اور جب میرے والد زیاد ہ بیمار ہوئے تو انہوں نے اپنے اہل خانہ کو حکم دیا کہ جب وہ ان کو کفن دیں تو قمیص نہ پہنائیں، لیکن ہم نے انہیں قمیص پہنا دی، جب صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ وہ قمیص کھونٹی پر لٹکی ہوئی تھی۔

Haidth Number: 12336
حسن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے محمد بن مسلمہ کو بلوایا، جب ان کو لایا گیا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے فرمایا: تم اس لڑائی سے پیچھے کیوں ہو؟ انہوں نے جواب دیا: آپ کے چچا زاد یعنی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک تلوار عنایت کی تھی اور فرمایا تھا: جب تک دشمنان اسلام کے ساتھ قتال ہوتا رہے تو تم اس تلوار کے ذریعے قتال کرتے رہنا اور جب تم دیکھو کہ لوگ یعنی مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے کی خون ریزی کر رہے ہیں تو تم اسے پتھر پر مار کر توڑ ڈالنا اور پھر اپنے گھر کے اند رہی رہنا تاآنکہ تمہیں موت آجائے یا کوئی ظالم ہاتھ تمہارے اوپر آئے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: انہیں چھوڑ دو۔

Haidth Number: 12337
قیس بن عبادسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سید نا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے گزارش کی کہ آپ جس راہ پر چل رہے ہیں، اس بارے میں آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے کوئی حکم ہوا تھا یا یہ آپ کی اپنی رائے ہے؟ انہوں نے کہا: تمہیں اس سے کیا؟ میں نے کہا:ہمارا دین ہے، یہ ہمارے دین کی بات ہے، یہ ایسی ویسی چیز نہیں ہے، انہوں نے کہا: اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے کچھ نہیں فرمایا، بس یہ میری اپنی رائے ہے۔

Haidth Number: 12338