عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ كا طواف كیا تو ہرطواف میں حجر اسود اور ركن كو چھوا یاكہاكہ استلام كیا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہ وہ آب زم زم ساتھ اٹھا کر لاتی تھیں۔ اور بتاتی تھیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آب زم زم برتنوں اورمشكیزوں میں اٹھاتے، مریضوں پر ڈالتے اور انہیں پلاتے۔
تمام ایامِ تشریق ذبح كے دن ہیں۔( ) یہ حدیث جبیر بن مطعم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور صحابی، ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ حالتِ نماز میں ایك بچھو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو ڈس لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی بچھوپر لعنت كرے، نمازی، غیر نمازی کسی کو بھی نہیں چھوڑتا، اسے حل و حرم میں قتل كردو
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: جب بھی کو تلبیہ کہنے والا بآواز بلند تلبیہ کہتا ہے اسے خوشخبری دی جاتی ہے اور تكبیر كہنے والا جب بھی تكبیر (اللہ اكبر) كہے گا اسے خوشخبری دی جاتی ہے۔ پوچھا گیا: كیا جنت كی؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یومِ عرفہ کےعلاوہ ایسا كوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کی بڑی تعداد كو جہنم سے آزاد كرتا ہو۔ اللہ قریب ہوتا ہے ،پھر فرشتوں پر فخر كرتا ہے اور فرماتا ہے: یہ اور كیا چاہتے ہیں؟
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہتے ہیں كہ میری بہن نے نذر مانی كہ وہ ننگے سر ،ننگے پاؤں كعبے كی طرف پیدل جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس كے پاس آئے اور پوچھا: اس كا كیا معاملہ ہے؟ گھر والوں نے كہا: اس نے نذر مانی ہے كہ كعبہ كی طرف ننگے سر ننگے پاؤں پیدل جائے گی۔ آپ نے فرمایا: اسے كہو سوار ہو جائے اور چادر اوڑھ لے(حج كرے) (اور قربانی كرے)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے بیت اللہ كے(سات) چكر لگائے، اور دوركعتیں پڑھیں تو گویا اس نے ایك گردن آزاد كی
عبداللہ بن حبشی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے بیری كا درخت كاٹا اللہ تعالیٰ اس كے سر كو آگ میں ڈالے گا( یعنی:حرم كی بیری) ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: محرم كے بغیر عورت حج نہ كرے، ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرا نام فلاں غزوے میں لكھ دیا گیا ہے جب كہ میری بیوی حج کے لئے نکل چکی ہے؟ آپ نے فرمایا: جاؤ اور اس كے ساتھ حج كرو۔
حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ اس نے ایك آدمی كو اونٹ پر بیٹھے دیكھا، جو منیٰ میں لوگوں کی اقامت گاہوں میں جارہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور وہ آدمی كہہ رہا تھا: ان ایام میں روزہ مت ركھو، كیوں كہ یہ كھانے پینے كے دن ہیں۔ ہمیں بتایا گیا كہ وہ اعلان كرنےوالے بلالرضی اللہ عنہ تھے۔(
شیبہ کی ایک لونڈ جو کہ اس کے بیٹے کی ماں تھی، مروی ہے كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو صفا و مروہ كے درمیان سعی كرتے دیكھا، آپ فرما رہے تھے:ابطح كودوڑ كر پار كیا جائے
ابو عمران جونی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے كہ اس نے اپنے غلاموں كے ساتھ حج كیا ،كہتے ہیں كہ میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا كے پاس آیا ،اور كہا: اے ام المؤمنین میں نے كبھی حج نہیں كیا، میں دونوں میں سے كس سے ابتدا كروں، حج سے یا عمرے سے؟ انہوں نے كہا: اگر چاہو تو حج سے پہلے عمرہ كر لو اور اگر چاہو تو حج كے بعد عمرہ كر لو۔ پھر میں ام المؤمنین صفیہ کے پاس آیا۔ تو انہوں نے بھی ایسے ہی بتایا۔ میں پھر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آیا میں نےصفیہ كی بات بتائی، ام سلمہ نے كہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا: اے آلِ محمد ! تم میں سے جو حج كرنا چاہے وہ حج كے ساتھ عمرے کا تلبیہ كہے۔
) بلال بن رباح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مزدلفہ کے دن کی صبح فرمایا: اے بلال لوگوں كو خاموش كرواؤ، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس اجتماع میں تم پر فراخی كی ہے، تمہارے گناہ گار شخص كو تمہارے نیك شخص كی وجہ سے عطا كیا اور تمہارے نیك شخص نے جو سوال كیااسےعطا كیا۔ اب اللہ كے نام كے ساتھ آگے بڑھو
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا مروی ہے كہ: اے عائشہ اگر تمہاری قوم شرك سے نئی نئی اسلام میں داخل نہ ہوئی ہوتی( اور میرے پاس اتنامال نہیں كہ میں اس كی عمارت مضبوط كر دوں) (تومیں كعبے كے خزانے اللہ كے راستے میں خرچ كر دیتا اور) میں كعبے كو گرا كر زمین كے برابر كر دیتا(پھر ابراہیم علیہ السلام كی بنیادوں پر كھڑا كرتا)(زمین كے برابر) دو دروازے بناتا، ایك مشرقی جانب( جس سے لوگ داخل ہوتے) دوسرا مغربی جانب( جس سے لوگ باہر نكلتے) اور حجر(حطيم) كے چھ ہاتھ اس میں داخل كرتا۔ اور ایك روایت میں ہے:میں حجر كو اس میں داخل كرتا، كیوں كہ جب قریش نے كعبہ بنایا تھا تو یہ حصہ چھوڑ دیا تھا( میرے بعد اگر آپ کی قوم كو آسانی میسر ہوتو وہ اسے بنالے، آؤ میں تمہیں دكھاؤں كہ انہوں نے كونسا حصہ چھوڑا ہے۔ آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا كو سات بازو پر محیط جگہ دكھائی۔ اور ان سے مروی ایك روایت میں ہے: كہتی ہیں كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا كیا یہ بیت اللہ كا حصہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میں نے كہا: تب انہوں نے اسے بیت اللہ میں داخل كیوں نہیں كیا؟ آپ نے فرمایا: تمہاری قوم كے پاس خرچ كم ہوگیا تھا۔ میں نے كہا: اس كے بلند دروازے كا كیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ تمہاری قوم نے كیا ہے تاكہ جسے وہ چاہیں داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں روك دیں۔ اور ایك روایت میں ہے: فخر كرتے ہوئے تاكہ جسے وہ چاہیں داخل ہونے دیں،جب كوئی آدمی اس میں داخل ہونا چاہتا تو اسے داخل ہونے كے لئے چھوڑ دیتے ،وہ اوپر چڑھتا جب وہ اس میں داخل ہونے والا ہوتا تو اسےدھكا دےكرگردایتے ۔ اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت سے اسلام میں داخل نہ ہوئی ہوتی اور مجھے ڈر ہے كہ (ایسا کرنے سے) ان كے دل انكار كر دیں گے۔ تو میں جدر(دیوار، حجر) كو بیت اللہ میں داخل كروادیتا۔ اور اس كے دروازے كو زمین كے برابر كر دیتا، جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نگران بنے تو انہوں نے اسے گراگر اس كے دو دروازے بنا دیئے ۔ اور ایك روایت میں ہے: یہی وہ حدیث تھی جس نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما كو خانہ كعبہ گرانے پر ابھارا، یزید بن رومان نے كہا: جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے گرا كر بنایا اور اس میں حجر كو داخل كیا تو میں بھی ان كے پاس موجود تھا، میں نے ابراہیم كی بنیادوں کے پتھراس طرح جڑے ہوئے دیکھےجیسے وہ اونٹوں کی قطارکی کوہانوں کی طرح ہوں۔