حصین بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبیدہ بن حذیفہ کو سنا، وہ اپنی پھوپھی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بیان كرتے تھے، انہوں نے كہا كہ میں كچھ عورتوں كے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی عیادت كرنے گئی۔ دیکھا کہ ایک مشکیزہ لٹکا ہوا ہے اور اس کا قطرہ قطرہ پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گر رہا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تیز بخار تھا۔ ہم نے كہا: اے اللہ كے رسول ! اگر آپ اللہ سے دعا كریں تو اللہ تعالیٰ آپ كا بخار ختم كر دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء علیہم السلام پر آتی ہیں۔ پھر ان لوگوں پر جو ان كے قریب ہوتے ہیں، پھر ان لوگوں پر جو ان كے قریب ہوتے ہیں۔
ابو الاشعث صنعانی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے كہ وہ صبح صبح دمشق كی مسجد كی طرف گئے ، شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ملے ان كے ساتھ صنابحی بھی تھے۔ میں نے كہا: اللہ آپ دونوں پر رحم فرمائے، آپ كہاں جا رہے ہیں؟ كہنے لگے: ہم وہاں اپنے ایك بیمار بھائی كی عیادت كرنے جا رہے ہیں ۔ میں بھی ان كے ساتھ چل پڑا، اس آدمی كے پاس آئے تو دونوں نے اس سے كہا: صبح كیسی گزری؟ اس نے كہا: اللہ كی نعمت اور فضل میں صبح کی۔ شداد رضی اللہ عنہ نے كہا: خوش ہو جاؤ، كیوں كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے كسی مومن بندے كو آزماتا ہوں، پھر وہ میری تعریف كرتا ہے اور میری دی ہوئی آزمائش پر صبر كرتا ہے تو وہ اپنی اس جگہ سے اس طرح اٹھے گا جس طرح اس كی ماں نے اسے خطاؤں سے پاك جنا تھا۔ اوراللہ تعالیٰ فرشتوں سےفرماتا ہے : میں نے اپنے اس بندے كو قید كر دیا اور اسے آزمائش میں مبتلا كر دیا، اس لئے جو اجر اس كی تندرستی كی حالت میں لكھتے تھے وہی اجر اب بھی لكھو۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اپنےبندےكوبیماری دےكرآزماتاہےحتی كہ اس کے ذریعے اس كےہرگناہ مٹادیتاہے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ لوگ ایك جنازہ لے كر نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس سے گزرے تو لوگ اس كی تعریف كر رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واجب ہوگئی ،پھر ایك دوسرا جنازہ لے كر گزرے تو اس كی برائی كر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:واجب ہوگئی ۔تم ایك دوسرے كے گواہ ہو۔( )
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہا: اللہ كی قسم! اے اللہ كے رسول! میں آپ سے محبت كرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے كہا: جو شخص مجھ سے محبت كرتا ہے مصیبت اس كی طرف اتنی تیزی سے آتی ہے كہ سیلاب بھی اتنی تیزی سے آخری جگہ تك نہیں پہنچتا
یزید بن شجرہ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایك جنازے میں نكلے تو لوگوں نے اس كے بارے میں تعریفی كلمات كہے، اور اس كی تعریف كی۔ جبریل علیہ السلام آئے اور كہا:یہ آدمی ایسا نہیں تھا جیسا ذكر كر رہے ہیں ، لیكن تم لوگ روئے زمین پر اللہ كے گواہ ہو ، اللہ تعالیٰ نے اس كے وہ گناہ معاف كر دیئےجن كے بارے میں یہ لوگ لا علم ہیں
ابو ہریررضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ كے ہاں آدمی كا ایك مرتبہ ہوتا ہے۔ وہ آدمی اس مرتبے تك كسی عمل سے نہیں پہنچتا تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی آزمائشیں دیتا ہے جو اسے نا پسند ہوتی ہیں حتی كہ اللہ تعالیٰ اسے اس مرتبے تك پہنچا دیتا ہے
) انس بن مالكرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایك آدمی دو كی سفارش كرے گا، تین كی سفارش كرے گا اور كوئی آدمی ایك كی سفارش كرے گا
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئی اسے كوئی بیماری (جنون یا مرگی وغیرہ)تھی۔ اس نے كہا: اے اللہ كے رسول! اللہ سے دعا كیجئے كہ مجھے شفا دے دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے لئے دعا كروں اور اللہ تعالیٰ تمہیں شفا دے دے، اور اگر چاہو تو صبر كر لو، تم سے حساب و كتاب نہیں ہوگا
محمد بن زیادہ الہانی رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں كہ ابو عنبہ خولانی كے پاس شہداءكا ذكر كیا گیا، تو انہوں نے پیٹ كی بیماری والے ،طاعون والے اور زچگی كے دوران فوت ہونے والی عورت كا تذكرہ كیا۔ ابو عنبہ غصے ہو گئے اور كہنے لگے، ہمارے نبی كے صحابہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان كیا كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین میں اللہ كے شہداءاس كی مخلوق میں سے امین لوگ ہیں۔ قتل كر دیئے جائیں یا مر جائیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو رات كے وقت كوئی تكلیف ہوئی ۔ آپ کراہنے لگے اور اپنے بستر پر كروٹیں لینے لگے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے كہا: اگر ہم میں سے كوئی ایسا كام كرتا تو اس پرآپ ناراض ہوتے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صالحین پر سختی كی جاتی ہے۔ اور مومن كو كوئی كانٹا بھی چبھتا ہے یا اس سے كم تر درجے كی كوئی تكلیف آتی ہے تو اس كی كوئی خطا معاف كر دی جاتی ہے یا اس كا درجہ بلند كر دیا جاتا ہے
ابو امامہ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں كی طرف وحی كرتا ہے: اے میرے فرشتو ! میں نے اپنے بندے كو اپنی ایك قید میں جكڑ دیا ہے۔ اگر میں اسے قبض كر لوں(موت دے دوں) تو میں اسے معاف كر دوں گا، اور اگر اسے صحت دے دوں تو یہ اٹھ كر بیٹھ جائے گا اور اس كا كوئی گناہ باقی نہیں رہے گا
ابو تميمة هجيمیاپنی قوم كے ایك آدمی سے بیان كرتے ہیں كہ اس نے كہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو تلاش كیا، لیكن آپ مجھے نہیں ملے۔ میں بیٹھ گیا، اچانك میں نے ایك جماعت دیكھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں تھے، لیکن میں آپ كو نہیں پہچانتا تھا۔ آپ ان میں صلح كر وا رہے تھے۔ جب آپ فارغ ہو گئے تو كچھ لوگ آپ كے ساتھ كھڑے ہوئے اور كہنے لگے: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جب میں نے یہ سنا تو كہا: اے اللہ كے رسول ! آپ پر سلام ہو، اے اللہ كے رسول ! آپ پر سلام ہو، اے اللہ كے رسول ! آپ پر سلام ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک (علیک السلام) مردوں کا سلام ہے۔ بے شک (علیک السلام) مردوں کا سلام ہے۔ تین دفعہ فرمایا۔ جب آدمی اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو كہے” السلام علیكم ورحمۃ اللہ“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس كا جواب دیا”وعلیك ورحمۃ اللہ ،وعلیك ورحمۃ اللہ و علیک و رحمۃ اللہ“
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑا اجر ، بڑی مصیبت كے ساتھ ہے، اور اللہ تعالیٰ جب كسی قوم سے محبت كرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا كر دیتا ہے، جو راضی ہوا اس كے لئے اللہ كی رضا ہے، اور جو ناراض ہوا اس كے لئے اللہ كی ناراضگی ہے۔
علاءبن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ وہ ایك جنازے میں شریك ہوئے جس كی نماز مروان بن حكم نے پڑھائی، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مروان كے ساتھ گئے،اور قبرستان میں جا كر بیٹھ گئے۔ ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ آئے اور مروان سے كہا: مجھے اپنا ہاتھ دو، مروان نے اپنا ہاتھ دیا، تو ابو سعید رضی اللہ عنہ نے كہا: كھڑے ہو جایئے۔ مروان كھڑا ہوگیا۔ مروان نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے كہا: تم نے مجھے كیوں اٹھایا؟ ابو سعید رضی اللہ عنہ نے كہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب كوئی جنازہ دیكھتے تو اس وقت تك كھڑے رہتے جب تك وہ گزر نہ جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا موت كی ایك گھبراہٹ ہوتی ہے۔ مروان نے كہا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كیا اس نے سچ كہا؟ ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نے كہا: جی ہاں۔ مروان نے كہا: پھر كس بات نے تمہیں روكے ركھا كہ مجھے بتاؤ؟ ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نے كہا: آپ حاكم ہیں، آپ بیٹھ گئے تو میں بھی بیٹھ گیا
) ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نے كہا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن پر موت اترتی ہے اور وہ (اپنی آخرت کی بہتری کا) مشاہدہ کرتا ہے جو کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے كہ اس كی روح نكل جائے اور اللہ تعالیٰ كی ملاقات كو پسند كرتا ہے۔ مومن كی روح کوآسمان پر لے جایا جاتا ہے۔ مومنین كی روحیں اس كے پاس آتی ہیں، اور زمین پر بسنے والے لوگوں كے بارے میں اس سے پوچھتی ہیں۔ جب وہ روح كہتی ہے كہ فلاں كو زمین پر چھوڑ آیا ہوں، تو یہ بات انہیں اچھی لگتی ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے کہ: فلاں مر گیا ہے ، تو وہ کہتے ہیں: اسے ہمارے پاس تو نہیں لایا گیا اور مومن كو اس كی قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے:اس كا رب كون ہے؟ وہ كہتا ہے:میرا رب اللہ ہے۔اس سے كہا جاتا ہے:تمہارا نبی كون ہے؟ وہ كہتا ہے:میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ وہ فرشتہ كہتا ہے: تمہارا دین كونسا ہے؟ وہ كہتا ہے:میرا دین اسلام ہے۔ تب اس كے لئے قبر میں ایك دروازہ كھول دیا جاتا ہے، یا كہا جاتا ہے :اپنے ٹھکانے كی طرف دیكھو وہ قبر دیكھتا ہے تو گویا وہ ایك آرام دہ بستر كی طرح ہوتی ہے۔ لیكن اگر اللہ كا كوئی دشمن ہو اور اس پر موت اترے اور وہ (اپنا برا انجام) دیکھ لیتا ہے تو وہ پسند نہیں كرتا كہ اس كی روح كبھی بھی نكلے ۔ اللہ تعالیٰ بھی اس كی ملاقات كو نا پسند كرتا ہے۔ جب وہ اپنی قبر میں بیٹھتا ہے یا اسے بٹھایا جاتا ہے، تو اس سے كہا جاتا ہے:تیرا رب كون ہے؟ وہ كہتا ہے:مجھے نہیں معلوم اس سے كہا جاتا ہے:تمہیں نہیں معلوم۔ پھر اس كے لئے جہنم كا ایك دروازہ كھول دیا جاتا ہے، پھر اسے ایك ضرب لگائی جاتی ہے،جو جن و انس كے علاوہ ہر جانور كو سنائی دیتی ہے۔ پھر اس سے كہا جاتا ہے:اس طرح سو، جس طرح منهوش سوتا ہے۔ میں نے ابو ہریرہ سے كہا:یہ منهوش كون ہوتا ہے؟ ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نے كہا:جسے كیڑے مكوڑے اور سانپ ڈسیں ۔ پھر اس كی قبر تنگ كر دی جاتی ہے
ابو عبیدہ بن حذیفہ اپنی پھوپھی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بیان كرتی ہیں كہ انہوں نے كہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آپ كی عیادت كرنے آئے۔ ایك مشكیزہ لٹكا ہوا تھا۔ بخار كی شدت كی وجہ سے آپ پر مشكیزے كا پانی ٹپکایا رہا تھا۔ ہم نے كہا: اے اللہ كے رسول ! اگر آپ اللہ سے دعا كرتے تو اللہ تعالیٰ آپ كو شفا دے دیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے سخت ترین آزمائش انبیاء علیہم السلام پر آتی ہے۔ پھر ان لوگوں پر جو ان كے قریب ہوتے ہیں، پھر ان لوگوں پر جوان كے قریب ہوتے ہیں۔
عبداللہ بن ابی مليكة سےمروی ہے، كہتے ہیں كہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما كےپاس تھا۔ہم ام ابان بنت عثمان بن عفان كےجنازے كا انتظاركررہے تھے۔ ان كے پاس عمرو بن عثمان بھی تھے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آئے، انہیں ایک شخص پکڑ کر لا رہا تھا۔ میرے خیال میں اس نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما كی جگہ كے بارے میں بتایا ۔ وہ آئے اور میرے پہلو میں بیٹھ گئے۔ میں ان دونوں كے درمیان بیٹھا تھا اچانك گھر میں سے ایك آواز آئی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے كہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: میت كو اس كے گھر والوں كے رونے كی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ (عبداللہ نے ایك قاصد عورت كو بھیجا )،عبداللہ نے یہ حدیث مرسل بیان کی ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے كہا: ہم امیر المومنین عمررضی اللہ عنہ كے پاس تھے، جب ہم بیداءمیں پہنچے تو اچانك ایك شخص نمودار ہوا جو درخت كے سائے میں آرام كی غرض سے آیا تھا۔ آپ نے مجھ سے كہا: جاؤ، معلوم كرو یہ كون ہے؟ میں گیا تو دیكھا كہ صہیبرضی اللہ عنہ ہیں۔ میں واپس آیا اور كہا: آپ نے مجھے حكم دیا تھا كہ معلوم كر كے آؤ یہ كون ہے؟ وہ صہیب تھے۔ عمر نے كہا: اس سے كہو ہمارے ساتھ شامل ہو جائے۔ میں نے كہا: اس كے ساتھ اس كے گھر والے ہوں تب بھی ۔ عمر نے كہا: اگرچہ اس كے ساتھ اس كے گھر والے ہیں۔ جب ہم مدینے پہنچے تو كچھ ہی دن گزرے تھے كہ امیر المومنین كو پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا۔ صہیب آئے اور كہنے لگے: ہائے میرا بھائی ،ہائے میرا دوست ۔ عمر نے كہا: كیا تمہیں نہیں معلوم؟ یا تم نے نہیں سنا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت كو اس كے گھر والوں كے رونے كی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے؟ عبداللہ نے ایك قاصد عورت بھیجی جب كہ عمررضی اللہ عنہ نےیہ اضافہ کیا كہ(بعض کے رونے کی وجہ سے)میں عائشہ رضی اللہ عنہا كے پاس آیا اور ان كے سامنے عمررضی اللہ عنہ كا قول ذكر كیا تو كہنے لگیں: نہیں، اللہ كی قسم ! اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ نہیں كہا، كہ میت كو كسی كے رونے كی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ لیكن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كافر كو اللہ عزوجل اس كے گھر والوں كے رونے كی وجہ سے عذاب میں زیادہ كرتا ہے(اور كہتی ہیں كہ) اللہ ہی ہے جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی ہے۔ (وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی) اور كوئی بوجھ اٹھانے والا كسی دوسرے كا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔(فاطر:٨١) جب عائشہ رضی اللہ عنہا تك عمر اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما كی یہ بات پہنچی تو كہنے لگیں، تم كوئی جھوٹے لوگوں سے بیان نہیں كررہے، لیكن سماعت خطا كرتی ہے
زید بن ثا بت رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر بنی نجار كے ایك باغ میں تھے۔ ہم بھی آپ كے ساتھ تھے۔ اچانك خچر بدك گیا، قریب تھا كہ آپ كو گرا دیتا ۔ چھ پانچ یا چار قبریں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان قبر والوں كو كون جانتا ہے؟ ایك آدمی نے كہا: میں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ كب فوت ہوئے؟ اس نے كہا: زمانہ شرك میں۔ آپ نے فرمایا: یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جائے گی، اگرمجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ تم اپنے مردے دفن نہ كروگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا كرتا كہ تمہیں بھی وہ عذاب قبر سنائے جو میں سن رہا ہوں۔ زید نے كہا: پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہو گئے اور كہنے لگے: آگ كے عذاب سے اللہ كی پناہ مانگو۔ صحابہ كہنے لگے: ہم آگ كے عذاب سے اللہ كی پناہ میں آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: قبر كے عذاب سے اللہ كی پناہ مانگو،صحابہ نے كہا: ہم قبر كے عذاب سے اللہ كی پناہ میں آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ كی پناہ مانگو۔صحابہ نے كہا:ہم ظاہر ی اور باطنی فتنوں سے اللہ كی پناہ میں آتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال كے فتنے سے اللہ كی پناہ مانگو۔ صحابہ نے كہا: ہم دجال كے فتنے سے اللہ كی پناہ میں آتے ہیں
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا۔ آپ بخار میں تپ رہے تھے۔ میں نے اپنا ہاتھ آپ پر ركھا،تو لحاف كے اوپر سے بخار كی حرارت محسوس كی۔ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول ! یہ كتنا شدید ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیں تكلیف بھی دو گنی دی جاتی ہے اور اجر بھی دوگنا دیا جاتا ہے۔ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول ! لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائشیں كس پر آتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام پر، پھر نیك لوگوں پر، كسی كو محتاجی میں آزمایا جاتا ہے حتی كہ اس كے پاس صرف وہ چادر بچتی ہے جو اسے ڈھانپتی ہے، اور وہ آزمائش میں اتنا خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے كوئی بھی شخص خوشحالی میں مسرور ہوتاہے
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ جب ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو سورج گرہن ہو گیا۔۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی آنكھیں بہنے لگیں۔ صحابہ نے كہا: اے اللہ كے رسول ! آپ رو رہے ہیں، حالانكہ آپ اللہ كے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بشر ہوں، آنكھ روتی ہے، دل ڈرتا ہے ہم وہ بات نہیں كہیں گے كہ ہمارا رب ناراض ہو جائے۔ اللہ كی قسم اے ابراہیم ہم تمہاری وجہ سے غمگین ہیں
عبدالرحمن بن ازھر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن بندے كی مثال جب اسے بخار ہوتا ہے، اس لوہے كی طرح ہے جو آگ میں ڈالا جاتا ہے تو اس كا میل ختم ہو جاتا ہے اور صاف ستھرا باقی رہتا ہے
ابو بردہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی كسی بیوی غالبا عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان كرتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے حتی كہ جب آپ كی بیماری بڑھ گئی اور شدید مضطرب ہوگئے تو میں نے كہا: اے اللہ كے رسول ! آپ گھبراہٹ کا شکار اور بے چین ہیں۔ اگر ہم میں سے كوئی عورت اس طرح كرتی تو آپ اس پر تعجب كرتے۔ آپ نے فرمایا: كیا تمہیں نہیں معلوم كہ مومن پر اس لئے سختی كی جاتی ہے تاكہ یہ اس كی خطاؤں كا كفارہ بن جائے۔( )
مصعب بن سعد اپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے بیان كرتے ہیں كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے كہا: لوگوں میں كس شخص پر سب سے زیادہ سختی آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: انبیاءپر ،پھر ان كے قریب ،پھر ان كے قریب آدمی كو اس كے دین كے بقدرآزمایا جاتا ہے۔ اگر اس كا دین مضبوط ہو تو اس كی آزمائش بھی شدید ہوگی۔ اگر اس كے دین میں كوئی نرمی ہو تو اسے اپنے دین كے بقدر آزمائش دی جائے گی۔ بندے پر ہمیشہ كوئی نہ كوئی آزمائش رہتی ہے حتی كہ اسے اس حال میں چھوڑتی ہے كہ وہ زمین پر چلتا ہے لیكن اس كا كوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔( )
عائشہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ ایك رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نكلے، میں نے بریرہ كو آپ كے پیچھے بھیجا تاكہ دیكھے کہ آپ كہاں جا رہےہیں۔ آپ بقیع الغرقد كی طرف گئے، اور بقیع كے ایك طرف كھڑے ہوگئے، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر واپس لوٹ آئے۔ بریرہ میرے پاس آئی اور مجھے بتایا جب صبح ہوئی تو میں نے آپ سے پوچھا۔ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول آج رات آپ كہاں گئے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: مجھے اہل بقیع كی طرف بھیجا گیا تھا تاكہ میں ان كے لئے دعا كروں۔